اھل السنه ( Ahl-e-Sunnah) ♥️
اھل السنه ( Ahl-e-Sunnah) ♥️
June 12, 2025 at 10:48 AM
”قرآن کے بیک وقت آسان اور بوجھل و وزنی ہونے کا مفہوم“ اللہ رب العالمین نے قرآن مجید میں ایک مقام پہ قرآن کے آسان و سَہل ہونے کا تذکرہ کیا جبکہ دوسرے مقام پہ اس کا وصف قولِ ثقیل بتایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ولقد يسّرْنا القرآن للذّكر فھل من مدّکر﴾ [القمر ١٧] ”ہم نے قرآن کو ذکر کیلئے آسان کیا ہے، تو کیا ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا؟“ دوسری جگہ فرمایا: ﴿إِنَّا سَنُلۡقِی عَلَیۡكَ قَوۡلࣰا ثَقِیلًا﴾ [المزمل ٥] ”بلاشبہ ہم آپ پر ایک بھاری کلام نازل کرنے والے ہیں۔“ تو کیا ان دو باتوں میں تعارض ہے؟! مقدمے کے طور پہ یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ رب ذوالجلال کا کلام کبھی بھی آپس میں معارض نہیں ہوسکتا، یہ بندوں کا وصف ہیکہ وہ ایک بات کرکے اسے بھول جائیں اور دوسری مرتبہ اس کے مخالف بات کردیں یا ایک وقت میں ایک شئے کو حکمت والا سمجھیں اور کچھ عرصے کے بعد ان کا نظریہ بدل جائے اور پہلی والی بات میں کجی محسوس ہو جبکہ اللہ جل جلالہ کی ذات ان تمام نقائص و عیوب سے مبرّا و منزّہ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿أفلا يتدبرون القرآن ولو كان من عند غير الله لوجدوا فيه اختلافا كثيرا﴾ [النساء ٨٢] ”تو کیا وہ قرآن میں غورو فکر نہیں کرتے؟ اور اگر وہ غیر اللہ کی طرف سے ہوتا تو وہ اس میں بہت زیادہ اختلاف پاتے۔“ مفسر قتادة بن دعامة السدوسي رحمہ اللہ (ت: ١١٧) اس آیت کے تحت فرماتے ہیں: «أي قول الله لا يختلف، وهو حق ليس فيه باطل، وإن قول الناس يختلف» ”یعنی اللہ کا قول مختلف نہیں ہوسکتا، وہ حق ہے اسمیں باطل کی بالکل آمیزش نہیں، جبکہ لوگوں کی بات میں اختلاف ہوسکتا ہے۔“ (جامع البيان للطبري - ط هجر ٧/‏٢٥١) اسی لئے جب مفسر قرآن شیخ محمد الأمين الشنقيطي رحمہ اللہ (ت: ١٣٩٣) نے قرآنی آیات میں بظاہر متعارض دِکھنے والی آیات کے درمیان توفیق وتطبیق کیلئے کتاب لکھی تو اس کا نام رکھا: "دفع إيهام الاضطراب عن آيات الكتاب" یعنی کتاب اللہ کی جن آیات میں اضطراب کا وہم ہوتا ہے اس کو دور کرنے کا بیان" یہاں شیخ رحمہ اللہ نے یہ نام نہیں رکھا کہ کتاب اللہ میں موجود تعارض کا حل وغیرہ۔۔۔ فافھم وتدبر لہذا اللہ کا کلام کبھی بھی ایک دوسرے سے مخالف نہیں ہوسکتا، البتہ بندوں کو کم علمی، کم فہمی اور عدمِ توفیق کے سبب کبھی ایسا لگ سکتا ہیکہ ایک آیت دوسری سے معارض ہے۔ جبکہ راسخین فی العلم کیطرف رجوع کرنے سے ان اوہام و اشکالات کا ازالہ ہوجاتا ہے۔ ان مذکورہ دو آیات میں بھی ایسا ہی ہے۔ جہاں اللہ نے قرآن کی تیسیر کا ذکر کیا اس سے مراد خاص چیزوں کی آسانی ہے اور جہاں قرآن کے ثِقل کا تذکرہ کیا اس سے مراد مخصوص چیزوں کا ثقل ہے۔ دونوں آیات کو ان کے محل پر رکھ کر سمجھنے سے باذن اللہ اوہام و اشکالات کے سائے چھٹ جائیں گے۔ "يسرنا القرآن" سے مراد : مفسرین ائمہ نے صراحت کی ہیکہ اس سے دو چیزوں کی آسانی مراد ہے: 1- حفظ و تلاوت میں آسانی کسی بھی رنگ ونسل سے تعلق رکھنے والا شخص، عربی ہو یا عجمی، تھوڑی سی محنت کے ساتھ قرآن کی نا صرف درست تلاوت کرنے پر قادر ہے بلکہ قرآن کو مکمل حفظ کرسکتا ہے۔ یہ قرآن کی آسانی کا ایک معنی ہے۔ یہ معنی ترجمان القرآن ابن عباس رضی اللہ عنہ، مجاہد بن جبر اور سعید بن جبیر رحمھما اللہ سے مروی ہے۔ (تفسير ابن كثير - ت السلامة ٤٧٨/٧, الكشف والبيان للثعلبي ٩/‏١٦٥, تفسير مجاهد، صـ ٦٣٤ و صحیح البخاري، كتاب التفسير) 2- نصیحت پکڑنے میں آسانی قرآن کا اکثر حصہ ایسا ہیکہ عربی جاننے والا شخص اپنی لغت فہمی کیوجہ سے قرآن کا اجمالی مفہوم باآسانی جان سکتا ہے۔ اس لئے آپ کو کتنے ہی ایسے واقعات مل جائیں گے کہ ایک عامی شخص نے قرآن کی ایک آیت سن کر اپنی اصلاح کرلی۔۔۔ (ہاں ایسے مقامات بھی ضرور ہیں کہ جن کی تفسیر جاننے کیلئے پختہ علماء کیطرف رجوع بھی از حد ضروری ہے۔) مفسرین کی ایک بڑی جماعت نے یہ معنی بیان کیا ہے، جیسے: طبری (ت: ۳۱۰)، ابن عطیہ (ت: ٥٤٢)، رازی (ت: ٦٠٦)، ابن کثیر (ت: ٧٧٤) رحمھم اللہ "قولا ثقيلا" سے مراد : 1- نزول وحی کی شدت (جامع البيان) 2- قرآن کے جمیع احکامات پر عمل پیرا ہونا اصلا مشکل کام ہی ہے الا کہ کسی شخص پر اللہ آسان کردیں۔ (جامع البيان) 3- یہ کوئی ہلکا اور بے وقعت کلام نہیں بلکہ حکمت و دانائی سے بھرپور کلام ہے۔ (زاد المسير) 4- یہ کلام اپنے اندر موجود دلائل و براہین کے اعتبار سے مخالفین کی طبیعتوں پر بہت بھاری ہے۔ (الجامع لأحكام القرآن) الی آخرہ تابعی حسن بصری رحمہ اللہ (ت: ۱۱۰) کے قول سے بھی اس تفصیل کیطرف اشارہ ملتا ہے، فرماتے ہیں : «إِنَّ الرَّجُلَ لَيَهُذُّ السُّورَةَ، وَلَكِنَّ الْعَمَلَ بِهِ ثَقِيلٌ» ”بلاشبہ آدمی ان سورتوں کو جلدی جلدی پڑھ لیتا ہے، لیکن اس (قرآن) پر عمل بہت بھاری ہے۔“ (جامع البیان للطبري - ط هجر ٣٦٥/٢٣) لہذا واضح ہوا کہ قرآن مجید کی یہ دو آیات آپس میں ایک دوسرے سے معارض نہیں ہیں بلکہ ہر آیت اپنے اندر ایک خاص مفہوم رکھتی ہے جس کو مفسرین نے بالکل واضح انداز میں بیان کر دیا ہے۔ ولله الحمد والمنة ✍︎ حسن فرخ ١٦ ذو الحجة, ١٤٤٦ ه‍ـ
❤️ 👍 2

Comments