
اللہ تعالیٰ سے جڑنے کا سفر ❤️
June 3, 2025 at 05:18 PM
*رب سے جڑنے کا سفر*
Writer name ( ume huraira )
#قسط نمبر 28//29
"بی بی جی،بیگم صاحبہ کہہ رہی ہیں تیار ہو جائیے،شام کو حیدر بابا کے لیے لڑکی دیکھنے جانا ہے"
صغراں نے فاطمہ کے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا
فاطمہ جو کہ سوچوں میں گم ۔۔اپنی کتابیں بک شیلف میں درست کررہی تھی۔۔صغراں کے اچانک آنے پر چونک پڑی
"حیدر بھائی کے لیے؟یہ بات کب شروع ہوئی؟"
فاطمہ نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا
"پتہ نہیں بی بی جی،بڑی بی بی جی تو دو دن سے تیاری کررہی ہیں،شاید حیدر بابا نے پرسوں ہی انھیں بتایا ہے"
"اوہ۔۔اچھا۔۔ٹھیک ہے"
فاطمہ نے کچھ سوچتے ہوئے کہا
"جی بی بی جی،میں آپکے کپڑے پریس کردوں شام کے لیے؟"
"ہاں؟؟ نہیں میں ان شاءاللہ دیکھتی ہوں،آپ چلی جائیے"
"کیسے بتاؤں ماما کو،تکلیف اب بڑھتی جا رہی تھی،"
فاطمہ نے جاتی ہوئی صغراں کو دیکھتے ہوئے سوچا جو اب تک دروازہ بند کرکے جا چکی تھی،صغراں تب سے مسز ریان کے گھر کام کرتی تھی جب سے فاطمہ پیدا ہوئی تھی،تب صغران کنواری اور جوان لڑکی تھی،اب اسکے چھے بچےپیدا ہو چکے تھے،وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ مسز ریان کی کوٹھی کی پچھلی سائڈ پر بنے سرونٹ کوارٹر میں رہتی تھی۔بہت ایماندار اور خلوص والی عورت تھی۔
"السلام علیکم ورحمت اللہ،ماما آپ نے بتایا ہی نہیں حیدر بھیا کے متعلق؟"
" تم گھر بیٹھو تو کچھ بتاوں، تمھاری تو اپنی زندگی ہے کسی اور سے کیا لینا دینا"
فاطمہ جانے سے آدھا گھنٹہ مسز ریان کے کمرے میں ڈرتے ڈرتے آئی ،وہ صبح کو ڈانٹ سن چکی تھی۔۔اس لیے خود کو نارمل رکھنے کی پوری کوشش کی جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔۔۔مسز ریان ڈریسنگ کے سامنے کھڑی اپنے بال سٹریٹ کرنے میں مصروف تھیں،انھوں نے فاطمہ کو ڈریسنگ ٹیبل کے مرر سے ہی دیکھتے ہوئے ہواب دیا تھا۔۔
"خیر ،تمھارے بھائی کی پسند ہے،ڈاکٹر ہے،تمھارے بھائی کو تو ویسے بھی ڈاکٹر چاہیے تھی اس نے پہلے ہی کہہ رکھا تھا کہ میں خود ڈھونڈوں گا،تصویر دکھائی تھی حیدر نے،پیاری بھی ہے،آج ان شاءاللہ دیکھ آوں گی،اگلے ہفتے تمھارے بابا آرہے ہیں پھر ہم سب جلد ہی فائنل کردیں گے۔۔شاید لڑکی والوں کو بھی جلدی ہے۔۔"
"اچھا ماشاءاللہ،اللہ سب بہترکریں،بھائی کو ڈھیروں خوشیاں دکھائیں،آمین"۔
مسز ریان نے ڈائی شدہ بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے فاطمہ کی اس بات کو بالکل اگنور کرتے ہوئے پوچھا
"خیر تم آج کیا پہن رہی ہو؟ وہ جو پچھلے ویک ڈیزائر سے تمھارے لیے آوٹ فٹ منگوایا تھا نا لیمن کلر کا،وہ تم پر سوٹ کرے گاوہ پہن لو۔۔اور سنو۔۔اچھے سے تیار ہوکر جانا"
ابھی وہ یہ بات کر ہی رہی تھیں کہ اتنے میں مسز ریان کا فون بجا۔۔
فاطمہ کے چہرے کا رنگ اڑ چکا تھا۔۔وہ کیا بتانے آئی تھی اور اب کیا نئی آزمائش اسکے سامنے کھڑی تھی۔۔
اپنی بات ختم کرتے ہی مسز ریان فون سننے میں مصروف ہو گئیں۔۔
فاطمہ اداس چہرہ لیے انکے رووم کا دروازہ بند کرتے ہوئے نیچے اپنے کمرے میں آگئی۔۔اور الماری سے اپنا نیا عبایا نکال کر
ڈریسنگ کے شیشے کے سامنے آکر کھڑی ہوگئی۔۔۔
*"جس کےلیے اللہ تعالی نور نہ بنائے اس کے لیے کوئی نورنہیں۔"*
(سورة النور 40)
سورت نور کی آیت اسکے کانوں میں گونجی۔۔۔نور۔۔۔۔وہ کیسے خود کو نور سے محروم کردے؟؟وہ نور جو خود کو اللہ کے لیے چھپائے بغیر نہیں ملتا۔۔۔۔آنکھ سے آیک آنسو نکل کر ہاتھ میں پکڑے نرم و ملائم سیاہ عبایا پر گر کر جذب ہوگیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دو ماہ سے شروع ہوئی شادی کی تیاریاں آج اپنے اختتام پر پہنچ چکی تھیں،آج رات نائلہ کی رخصتی تھی،شہریار اس رشتے سے بالکل خوش نہیں تھا مگر اسکی ماں اسے کچھ بھی بولنے نہ دے رہی تھیں، اگر وہ کچھ کہنے بھی لگتا تو بس ایک ہی جملہ کہتیں۔
"تو نے کونسا بہن کے لیے اچھے رشتے دکھادئیے ہیں جو اب تیرے کہنے پر اس رشتے سے ہاتھ دھو بیٹھوں؟"
یہ سن کر وہ سرجھکا لیتا،درست ہی تو کہہ رہی تھیں اماں، کہاں ملتے تھے آج نیک اور شریف لڑکے۔۔نہ اسکا سوشل سرکل بڑا نہ اسکی بہن دیندار۔۔واقعی کہاں سے ڈھونڈتا وہ۔۔اس لیے خاموش ہوجاتا۔۔
"کیسی لگ رہی ہوں شہریار؟"
رات کووہ کرائے کی لی سجی ہوئی گاڑی پر اسے پارلر سے لینے آیا تھا۔۔پارلر کے دروازے سے نکلتی نائلہ تو کسی اور ہی جہاں کی شہزادی لگ رہی تھی۔۔بلاشبہ وہ خوبصورت تھی۔۔مگر شادی کا الگ ہی روپ ہوتا ہے۔۔اسی روپ میں وہ ڈھلی معصوم اور شرمائی ہوئی سی گڑیا لگ رہی تھی۔
"ماشاءاللہ۔۔اللہ بہت خوش رکھے تمھیں"
شہریار نے زبردستی مسکراتے ہوئے کہا۔۔
"تم خوش ہو نا شہریار؟"
"میرے خوش ہونے سے کیا ہوتا ہے تم اور اماں خوش ہیں مجھے اور کیا چاہیے؟"
اس نے اپنی نظریں جھکاتے ہوئے کہا شاید آنکھوں میں آنے والی نمی چھپانا چاہ رہا تھا۔۔
دونوں خاموشی سے گاڑی میں بیٹھ کر میرج ہال کی طرف روانہ ہوگئے تھے۔۔
https://whatsapp.com/channel/0029VafPrlWBVJl9qGMsMD46
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"
کتنی پیاری بہو ملی ہے زنیرہ کو"
"عزیر تو بڑا خوشقسمت نکلا"
"مگر غریب گھر کی لڑکی ہے پتہ نہیں زنیرہ نے اپنے سٹینڈرڈ کے لوگوں میں کیوں نہیں رشتہ کیا عزیر کا"
"زینرہ بڑی چالاک ہے،چھوٹے گھروں کی لڑکیاں ذرا دب کر رہتی ہیں ناں اس لیے اس نے سوچ سمجھ کر ہاتھ مارا ہے"
شہریار شادی ہال میں مختلف عورتوں کے کمنٹس سن کر مزید پریشان سا ہورہا تھا۔۔ان سب کی نظریں سٹیج پر تھیں۔۔
جس پر نائلہ اور اسکا شوہر،عزیر مل کر کیک کاٹ رہے تھے۔۔
سٹیج کے آگے بلا کا طوفان تھا۔۔۔لوگ دھڑادھڑ اس نئے جوڑے کی تصاویر لینے میں مشغول تھے۔۔
شہریار کا دل کر رہا تھا وہ ایک ایک کا کیمرہ اور موبائل پکڑ کر توڑ دے۔۔اسے اس لمحے انتہا کی بے بسی محسوس ہورہی تھی۔۔وہ چاہ کر بھی کچھ نہیں کر سکتا تھا۔۔۔یا شاید کر نہیں پارہا تھا۔۔۔
"اماں کیا عورت دلھن بن کر نمائش کی دکان بن جاتی ہے؟"
دل گھٹن سے بھر چکا تو بے بس ہو شہریار اپنی ماں سے پوچھنے لگا۔۔جو سٹیج کے سامنے صوفے پر بیٹھیں اپنی بیٹی
اور داماد کے صدقے واری جا رہی تھیں۔۔
"چپ کر جا،اب بندہ کیا خوشی بھی نہ منائے؟"
اسکی ماں نے اسے جھڑکتے ہوئے کہا
"یہ دلھن کا بھائی ہے"
"ہیں؟؟ یہ تو مولوی لگتا ہے۔۔"
"مولوی تو پردے کے بڑے سخت ہوتے ہیں"
"آج بس نام کے ہی مولوی رہ گئے ہیں۔انکو دین بس مسجد مدرسوں میں ہی یاد آتا ہے ورنہ بہن کی شادی ایسی جگہ کرتا؟"
باراتیوں میں سے دو عورتیں شہریار کے پیچھے کچھ فاصلے پر کھڑی اسکے متعلق باتیں کررہی تھیں جنھیں اس نے سن لیا تھا۔۔
اس لمحے اسے شدید دکھ ہوا تھا۔۔پیچھے مڑے بغیر اس نے دکھ بھری اک نظر سٹیج پر بیٹھی بہن اور داماد پر ڈالی جو اب ایک دوسرے کو ہنستے ہوئے کیک کھلانے میں مصروف تھے۔۔اردگرد کھڑے لڑکے واحیات قسم کی ہووٹنگ اور چیخ و پکار کر رہے تھے جیسے اس رومانٹک سین سے محظوظ ہورہے ہوں۔۔۔بیک پر لگا ہلکا میوزک،عورتوں کے لگائے پرفیومز کی خوشبو سے ماحول مہکتا جا رہا تھا۔۔ہلکی تیز ہوتی روشنیاں اس مخلوط فنکشن میں بیٹھے ہر مرد و عورت کے جذبات شہوت کو ابھار رہی تھیں۔۔
ہال اندر باہر سے جگمگا رہا تھا۔۔ویٹرز کھانا سرو کرنے میں مشغول تھے۔۔شہریا کا انر مزید سانس لینا دشوار ہوگیا تھا۔۔۔
وہ تیز تیز قدم اٹھائے باہر آگیا۔۔باہر قدرے سکون تھا۔۔ لان میں آکر وہ ہال کی اوٹ میں بنی ایک دیوار کے ساتھ ٹیک لگاکر کھڑا ہوگیا۔۔دھڑکن تیز تھی۔۔آنسو گویا حلق میں پھنس چکے تھے۔۔
اس نے تاریک آسمان کی طرف نظریں اٹھائیں۔۔جہاں جھلملاتے ستارے بھی شاید اس سے خفا لگ رہے تھے۔۔
"اے میرے رب۔۔۔مجھے معاف کردینا۔۔آج میری بے غیرتی اور بزدلی کی وجہ سے تیرے دین پر نام آگیا"
آنسو چھلک کر باہر نکل پڑے تھے ۔۔۔
اسے اس بات کا اتنا دکھ نہیں تھا کہ اس نے کتنی مشکل سے قرض لے کر بہن کا منگا جہیز بنایا تھا،اسے زیادہ افسوس تھا تو اس بات پر۔۔۔
کہ وہ کیوں نہیں اسکے لیے دیندار لڑکا ڈھونڈ سکا۔۔
وہ کیوں نہیں اپنی بہن کو پردہ کروا سکا۔۔
وہ کیوں نہیں کچھ کر سکا جب غیر مرد اسکے سامنے نمائش بنی بیٹھی اسکی بہن کی تصویریں اپنے موبائلز میں محفوظ کر رہے تھے۔۔کس کس اینگل سے لے رہے تھے ۔کس کس اینگل سے دیکھیں گے۔۔۔اسکا سر شدید درد سے پھٹنے لگا ۔۔وہ مزید سوچ نہیں پا رہا تھا۔۔
وہ ہال کے دروازے کی اوٹ میں دیوار سے ٹیک لگائے کھڑا آنسو بہا رہا تھا۔۔۔
ایک مرد۔۔عورتوں کے ہاتھوں بے بس ہو چکا تھا۔۔۔
"مولوی تو پردے کے بڑے سخت ہوتے ہیں"۔۔۔
"آج بس نام کے ہی مولوی رہ گئے ہیں،انھیں دین تو بس مسجدوں اور مدرسوں میں یاد آتا ہے"۔۔
انکی باتیں اسکے دماغ پر ہتھوڑوں کی طرح برس رہی تھیں۔۔
یکایک اسکی نظر لان میں بیٹھی دو برقعہ دار عورتوں پر پڑی۔۔انکی پشت شہریار کی طرف تھی۔۔
اسکے دماغ سے اچانک سے سب غائب ہوگیا۔۔
"کیا یہ نائلہ کی شادی پر آئی ہیں؟اگر ہاں تو یہ اس وقت اندر کیوں نہیں ہیں؟"
اسکے ذہن میں سوال اٹھنے لگے۔۔
وہ دونوں خواتین مکمل پردے میں اکٹھی بیٹھی باتیں کررہی تھیں۔۔
مگر جسامت کے لحاظ سے ایک جوان لڑکی لگ رہی تھی اور دوسری کچھ عمررسیدہ۔۔
وہ فورا سے اٹھا اور آگے بڑھا تاکہ ان سے پوچھ سکے کہ رات کے اس وقت جب سب خواتین اندر ہیں وہ باہر کیوں بیٹھی پیں۔۔کہ یکایک پیچھے سے آواز آئی۔۔
"شہریار بھائی،آپ تو شادی پر بلا کر ہمیں بھول ہی گئے"
آواز جانی پہچانی تھی اس نے فورا پیچھے مڑ کر دیکھا۔۔۔
وہ معاذ تھا۔۔۔
https://whatsapp.com/channel/0029VafPrlWBVJl9qGMsMD46
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے
#ام_ہریرہ
*رب سے جڑنے کا سفر*
#قسط نمبر 29
"اوہ! بہت معذرت یار۔ تم باہر کیوں ہو؟ اندر کھانا سرو ہو رہا ہے۔"
"ہاں بس۔۔۔"
"سب خیریت ہے نا؟"
شہریار نے معاذ کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے فکرمندی سے پوچھا۔
پیچھے ہال کے اندر لڑکے لڑکیوں کی آوازوں اور قہقہوں کا شور اٹھ رہا تھا۔ شاید دودھ پلائی کی رسم ہو رہی تھی جو شہریار کی خالہ کی بیٹی نیلم اور اسکی بہنیں کر رہی تھیں۔
"ہاں ہاں! الحمدللہ بھائی کوئی پریشانی کی بات نہیں ہے۔ بس نماز پڑھ کر آیا تھا تو ادھر ہی بیٹھ گیا۔"
معاذ نے نظریں چراتے ہوئے کہا۔
نماز کا نام سن کر شہریار کو شرمندگی ہوئی۔ پتہ نہیں کیوں ہم اپنی خوشی کے موقعوں پر سب سے پہلے اپنے رب کو ناراض کرتے ہیں؟ اور پھر امید کرتے ہیں کہ ہمارا رب ہماری خوشیاں سلامت رکھے۔ آج اس نے شادی کے کاموں کی وجہ سے ایک نماز بھی نہیں پڑھی تھی۔
"اچھا چلیں اب چلتے ہیں اندر۔"
شہریار نے شرمندگی چھپاتے ہوئے معاذ کا بازو کھینچتے ہوئے کہا۔
"نہیں شہریار! میں اندر نہیں جا سکتا۔"
"کیوں معاذ؟"
شہریار حیران ہوا۔
"بھائی بس آپکو تو پتہ ہے نا میوزک اسلام میں حرام ہے۔ اوپر سے پھر یہ شادیوں کا کمبائن سسٹم۔ جوان لڑکے لڑکیاں، وہ بھی اکٹھے اور انکے لباس۔۔ نظروں، کانوں کی حفاظت بہت مشکل ہو جاتی ہے ایسے ماحول میں۔ پھر ان چیزوں کا ڈائریکٹ اثر روح پر پڑتا ہے، ایمان پر پڑتا ہے، نمازیں خشوع سے خالی ہو جاتی ہیں۔ مجھے اپنا ایمان بہت عزیز ہے اس لیے میں ان سب سے بہت دور رہنے کی کوشش کرتا ہوں۔ اللہ ہم سب پر رحم فرمائیں۔"
معاذ نے اداسی بھرے لہجے سے کہا کہ جیسے اسے افسوس تھا اس نوجوان نسل کی اس غفلت بھری زندگی پر۔
بے حیائی کے اس دور میں یوسف (علیہ السلام) کی سی روش اختیار کرنے والے بازی جیت جاتے ہیں، خواہ ایمان کی ہو، دلوں کی یا جنتوں کی!!
"اوہ!! میں بہت معذرت چاہتا ہوں معاذ۔"
شہریار نے شرمندگی سے نگاہیں جھکا لیں۔
"ارے آپ کیوں معذرت کر رہے ہیں شہریار بھائی؟ کوئی بات نہیں۔ اچھے برے کا علم تو سب کو ہے نا؟ بس شیطان نے انھیں نفسانی خواہشات میں مبتلا کر رکھا ہے، انھیں غفلت سے جگانے کی ضرورت ہے۔ تمھیں پتہ ہے جب میں پاکستان کے ان جوانوں کو دیکھتا ہوں نا مجھے بڑا دکھ ہوتا ہے۔ اللہ نے ان میں بہت پوٹینشئل، بہت خیر رکھی ہے۔ دیکھو جو انسان کسی دوسرے انسان (نامحرم) کی محبت میں سب کچھ چھوڑ سکتا ہے، حتیٰ کہ جان دینے کی حد تک جا سکتا ہے۔ مال کی محبت میں خود کو دن رات تھکا سکتا ہے، اولاد کی محبت میں راتیں جاگ سکتا ہے۔ سوچو اگر اسکے دل میں اللہ کی محبت آ جائے، جنت کو پانے کا شوق لگ جائے، جہنم سے بچنے کا خوف لگ جائے، تو کیوں نہ وہ اپنی زندگی اپنے رب کے نام کرے گا؟ وہ اسکی محبت میں خود کو تھکانے، راتوں کو جگانے، حتیٰ کہ جان دینے تک کو تیار ہو جائے گا۔ بس انکو ڈائریکشن دینے کی ضرورت ہے۔"
"مگر معاذ! کیا دوسرے ہی لوگ انکو پکڑ پکڑ کر جھنجھوڑیں گے؟"
"ہاں! دوسروں کو گہری نیند سے جگانے کے لیے پہلے تو انھی کو ہی کوشش کرنی پڑتی ہے جو خود جاگ رہے ہوں۔"
"اور جو جاگنا نہ چاہے۔ بار بار جگانے پر؟؟"
شہریار نے افسردہ لہجے میں پوچھا۔
"ہمیں پھر بھی اپنی کوشش کرتے رہنا چاہیے۔ البتہ ہدایت کا معاملہ تو واقعی دو طرفہ ہے۔ انبیاء علیہم السلام نے بھی اپنا پیغام پہنچایا تھا۔ جنھوں نے جاگنا پسند کیا انھوں نے غفلت کی زندگیاں چھوڑ دیں، اپنے آپکو اللہ کی راہوں میں وقف کر دیا، اپنے جسم اسکی رضا پانے میں گھلا دئیے۔ مگر جنھوں نے جاگنے کو پسند نہ کیا، غفلت اور نفس پرستی کی زندگی میں رہنا چاہا، انھیں انبیاء کے پیغام، معجزوں، کتابوں تک نے فائدہ نہ دیا۔ کفار مکہ کی مثال سامنے ہے۔"
"یعنی قصور وار تو پھر انسان ہی ٹھہرا؟"
"بالکل وہی ٹھہرا۔ اللہ ہر ایک کو ہدایت کا رستہ دکھاتے ہیں کسی نہ کسی ذریعے سے۔ اب انسان کی چوائس کا امتحان ہوتا ہے، وہ کیا چووز کرتا ہے؟ دنیا اور اسکی فانی زندگی یا دین اور آخرت کی کامیابی؟؟"
شہریار کے پاس مزید کوئی جواب نہیں تھا۔ اس نے اثبات میں سر ہلایا۔
"میں آتا ہوں۔"
معاذ نے شہریار کے پیچھے کسی کو ہاتھ بلند کر کے اشارے سے کہا۔
شہریار نے اسکے اشارے کے تعاقب میں پیچھے مڑ کر دیکھا تو پیچھے وہی برقعہ پہنی خاتون معاذ کی طرف متوجہ تھیں۔
"یہ آپکے ساتھ ہیں؟"
شہریار نے فوراً معاذ کی طرف مڑتے ہوئے پوچھا۔
"جی جناب! آپ بھول گئے آپ نے مجھے فیملی کے ساتھ انوائٹ کیا تھا؟؟"
معاذ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
"اوہ ہاں!! مجھے واقعی یاد نہیں رہا۔"
"جی وہ میری والدہ اور بہن ہیں۔"
"پھر وہ باہر کیوں ہیں؟ اندر امی اور سسٹر سے مل لیتیں؟"
شہریار کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کہے۔
"شہریار! جس ریزن سے میں باہر ہوں، وہ بھی انھی وجوہات پر باہر بیٹھی ہیں۔"
"مجھے بہت شرمندگی ہو رہی ہے معاذ۔ تم خوشقسمت ہو کہ تمھاری فیملی دین پر عمل پیرا ہے۔ کاش میں بھی اپنی فیملی کو اس طرف لا سکتا تو آج یہ سب اندر نہ ہو رہا ہوتا۔ میرے باہر آنے کی وجہ بھی یہی سب فحاشی تھی۔"
شہریار نے روہانسے لہجے میں کہا۔ شرمندگی کا ایک آنسو گر کر نیچے گھاس میں چھپ گیا۔
پیچھے ہال میں چیخوں، قہقوں اور تالیوں کا شور بڑھتا جا رہا تھا۔
معاذ نے آگے بڑھ کر شہریار کو گلے سے لگا لیا۔
"دل اللہ کے ہاتھ میں ہیں، جو انکو بدل سکتا ہے اسی سے مدد مانگو۔"
شہریار معاذ کے گلے لگے بس سر ہلا کر ہی رہ گیا۔
https://whatsapp.com/channel/0029VafPrlWBVJl9qGMsMD46
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ندی کے کنارے سبز گھاس پر بیٹھی پانی میں نیلے آسمان اور اس میں تیرتے سفید روئی کے گالوں جیسے بادلوں کا عکس دیکھ کر بہت محظوظ ہو رہی تھی۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد اپنی انگلیوں کو ندی کے پانی میں ڈال کر ہلاتی جس سے پانی پر ارتعاش پیدا ہوتی تھی۔ آسمان کا بنا ہوا وہ خوبصورت سا عکس ہل جاتا تھا۔
وہ کمزور ہو گئی تھی۔ اسکا وزن بہت گر چکا تھا، رنگ پیلا پڑ چکا تھا۔ مگر مسکراہٹ ویسی ہی گہری تھی۔ اردگرد بنے سیاہ حلقوں میں موجود آنکھوں کی چمک اب بڑھ چکی تھی۔ اسکی آنکھیں اسکے دل کے گہرے رازوں کی عیاں لگتی تھیں مگر ہر ایک کے پاس ایسی نگاہ نہ تھی کہ ان رازوں کی حقیقت کو پا سکے۔
سیاہ عبایا میں ملبوس، چہرے پر نقاب ڈالے وہ اس باغ میں اکیلی بیٹھی تھی۔ پیچھے بہت دور۔۔اسکے والدین بینچ پر بیٹھے اداس لہجے میں اسکو پیچھے سے دیکھ کر باتیں کر رہے تھے۔ مگر وہ اتنے دور تھے کہ فاطمہ کو انکی آواز نہیں آ رہی تھی۔
وہ اپنی دنیا میں مگن۔۔ معصوم سی گڑیا۔۔ پانی سے کھیلنے میں مگن تھی۔
"میں نے سنا تھا کہ جب محبت ہوتی ہے تو ہر خوبصورت چیز کو دیکھ کر محبوب کی یاد آتی ہے۔ اس کی یاد میں لب خود ہی مسکراتے رہتے ہیں۔ واقعی ایسا ہوتا ہے۔ مجھے بھی محبت ہو گئی ہے اللہ! اب کائنات کی ہر چیز کو دیکھ کر مجھے آپ یاد آتے ہیں، آپکی یاد میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیر دیتی ہے۔ چار سو پھیلے اس وسیع نیلے آسمان کو دیکھ کر، آنکھوں کو بھاتی ہری گھاس کو دیکھ کر، ندی کے اس ٹھنڈے اور نیلے پانی کو دیکھ کر، آس پاس بکھرے ان رنگ برنگے پھولوں کو دیکھ کر، ٹھنڈی گدگداتی ہوا۔۔۔ مجھے یہ سب آپکی یاد ہی تو دلاتے ہیں اللہ۔ ہاں اللہ!! مجھے آپ سے محبت ہو گئی ہے۔"
گہری ہوتی دلکش مسکراہٹ اور چمکتی آنکھوں سے اس نے آسمان کی طرف دیکھ کر اپنے رب سے سرگوشی کی۔
https://whatsapp.com/channel/0029VafPrlWBVJl9qGMsMD46
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"میں کیسے اس سے شادی کر سکتی ہوں امی؟ آپ نے دیکھا نہیں تھا اسکی بہن کی شادی کیسے ہوئی تھی؟ وہ دیندار ہوتا تو اپنے گھر میں یہ سب بے حیائی ہونے دیتا؟"
"عینی! تم نے کسی کے دل میں جھانک کر دیکھا ہے؟ اگر تمھارا بھائی اس رشتے کے حق میں ہے تو تمھیں بھروسہ ہونا چاہیے اپنے بھائی کی پسند پر۔"
نائلہ کی شادی کے تین ماہ بعد شہریار کی والدہ نے شہریار کے مجبور کرنے پر معاذ کے گھر آ کر قرة العین کا رشتہ مانگا تھا۔ ان دونوں ماں بیٹی نے شہریار کو نائلہ کی شادی پر دور سے دیکھا تو تھا مگر مکمل طور پر جانتی نہ تھیں۔ قرة العین اچانک سے اس سب کے لیے ذہنی طور پر تیار نہ تھی۔ اس نے تو نیک اور عالم شوہر کے لیے دعائیں کی تھیں جو اسکے دین میں اسکو آگے بڑھاتا، اسکا ہاتھ پکڑ کر جنت کے رستے پر لے چلتا۔ مگر یہ۔۔۔۔
"مجھے بھائی پر بھروسہ ہے امی۔ مگر اس انسان کے دین پر نہیں۔"
"تم ججمنٹل ہو رہی ہو عینی۔"
پیچھے کھڑے معاذ نے کہا۔ غالباً کمرے میں داخل ہوتے ہوئے اس نے عینی کی ساری باتیں سن لی تھیں۔
"تم کیسے کسی کی پارسائی کو جج کر سکتی ہو؟ اگر وہ ایک موقع پر دین کے کسی حکم پر عمل کرنے میں ناکام ہو گیا ہے تو اسکا کیا مطلب ہے وہ ایمان والا نہیں رہا؟؟"
"میرا مطلب یہ نہیں تھا بھیا۔"
"جو بھی مطلب تھا۔ مجھے آدھا سال ہو گیا ہے اسکے ساتھ وقت گزارے۔ وہ میرے ساتھ مل کر قرآن سیکھتا ہے، وہ فرائض کا پابند ہے، وہ اپنی ذات پر مکمل طور پر دین نافذ کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔ اس نے بری صحبت، فلمیں، گانے، سگریٹ، حرام کمائی ہر چیز چھوڑ دی ہے۔ اسے پردہ دار اور دیندار بیوی چاہیے۔ کیا یہ اسکی دین سے محبت نہیں؟"
قرة العین نے شرمندگی سے سر جھکا لیا۔ اسے اپنے کہے پر افسوس ہوا۔ کسی کو مکمل جانے بغیر، اسکی ذات کا ایک پہلو دیکھ کر، اسکی ایک خامی دیکھ کر، وہ کیوں ایسے رائے قائم کر گئی؟ اور رائے کے بعد ایسے الفاظ زبان پر۔۔۔
"سوری بھیا۔"
"اٹس اوکے! اپنے کہے پر استغفار کرو اور ہاں استخارہ کرنا۔ امی آپ بھی استخارہ کیجئیے گا، میں بھی کر چکا ہوں اور الحمدللہ میں مطمئن ہوں۔"
بہت سنجیدگی سے یہ بات کہہ کر وہ تیزی سے کمرے سے نکل گیا۔
قرة العین اور اسکی امی ایک دوسرے کو شرمندگی سے دیکھنے لگیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے!
#ام_ہریرہ

❤️
👍
❤
😢
🙏
🕋
😂
🆕
😮
🤲
2.2K