
❤️مسلم امہ اور عصر حاضر❤️
June 12, 2025 at 02:05 PM
*ایران امریکہ یرغمالی بحران اور مغربی میڈیا کی ذہن سازی(دوم)*
*تحقیق و تدوین: محمد عمران مسجدی*
امریکی سینئر سفیرکا کہنا یہ نہیں ہے کہ امریکا نے ایران میں کچھ نہیں کیا، بلکہ اس کا کہنا یہ ہے کہ امریکا جو چاہے وہ گرنے کا حق رکھتا ہے اور ایرانیوں کو اس پر فضول شکایت کرنے یار ردعمل ظاہر کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔۔۔ جنوری 1979 ء میں امریکی جنرل ہو سر (Huyser) نے ایرانی انقلاب کو نا کام بنانے کے لیے فوج کو اکسانے کی بھی کوشش کی تھی۔۔۔ لین جن کا یہ پیغام ہمیں بتاتا ہے کہ کس طرح امریکا کے نمائندوں اور ان کے ساتھ کسی حد تک مستشرقین کے ادارے نے مل کر ایک ایسی حقیقت کو جنم دیا جس کا نہ تو ہماری دنیا اور نہ ایران سے ہی کوئی تعلق بنتا تھا۔۔۔ اسلام اور مغرب ، خاص طور پرامریکا کے حلقہ اثر میں جوچیخ و پکار بلند ہو رہی ہے اس سے دانشمندی کی بجائے اشتعال زیادہ پھیل رہا ہے، نئے حقائق سے مطابقت کا پیدا نہ ہونا اور نا مطابقت کے برابر اور مخالف رد عمل کا ابھرنا ، اس خدشے کو بڑھا رہا ہے کہ اسلام اور مغرب تجزیے کو تنازع میں اور تجربات کو تو ہمات میں بدل سکتے ہیں
آئیے اب ایک اور چیز پر غور کرتے ہیں یہ خفیہ پیغام ہے جو 13 اگست 1979ء کو بروس لین جن ( جو ایران میں امریکا کا سینئر سفارتکار اور تہران کے سفارتخانے میں نائب سفیر تھا)نے وزیر خارجہ ونیس (vance) کو بھیجا اور جسے میڈیا نے شائع کر کے ایک اچھا کام کیا، یہ دستاویز اس رویے سے مطابقت رکھتی ہے جو بورگٹ کے ساتھ بات چیت میں کارٹر نے اختیار کیا، یہ نیو یارک ٹائمنر کی 27 جنوری 1989 ء کی اشاعت میں ادارتی صفحہ کے مقابل صفحے پر شائع کی گئی تھی اور شاید اسے شائع کرنے کا مقصد قوم کی توجہ اس بات پر مرکوز کرنا تھی کہ حقیقت میں ایرانی کیا ہیں یا شاید اس کا مقصدحال ہی میں ختم ہونے والے بحران پر ایک طنزیہ حاشیہ آرائی تھی۔ تاہم لین جن کا پیغام ایرانی نفسیات کا کوئی سائنسی تجزیہ نہیں ، حالانکہ اس نے نفسیات ہی کو موضوع بحث بنایا ہے اور یہ ظاہر نے کی کوشش کی ہے کہ وہ ایرانی ثقافت پر ماہرانہ رائے رکھتا ہے اور اس نے با مقصد گفتگو کی ہے۔ اس پیغام کا متن ایک نظریاتی بیان ہے جس میں ایران کو وقت سے بے نیاز اور انتہائی منتشر قرار دے کر امریکا کی ان اعلیٰ اخلاقیات اور قومی سوجھ بوجھ کو بڑھاوا دیا گیا ہے، جو وہ مذاکرات میں اختیار کر رہی ہے۔ اس طرح اس نے اس پیغام میں جو کچھ کہا ہے اس کا مقصد یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایک طرف تو ایران کے خلاف ضرر رساں شہادتیں گھڑی جائیں اور دوسری طرف امریکا کو جانچ پڑتال اور تجزیے سے بچایا جائے۔
الفاظ اور عبارت کے ذریعے خود کو اندھا بنانے کے دو طریقے ہیں اور ان دونوں کا اس مرحلے پر قریبی جائزہ لینا بڑا موزوں و مناسب ہوگا۔ پہلا طریقہ یہ ہے کہ تاریخ کو یک طرفہ طور پر خارج کر دیا جائے، لین جن نے یہی کیا ہے وہ اس دستاویز میں لکھتا ہے ، ایرانی انقلاب کے اثرات کو ایک طرف رکھ دینا ان نسبتاً دیرپا ثقافتی اور نفسیاتی صفات کے مفاد میں ہے جو ایرانی نفسیات کے پیچھے چھپی ہوئی ہیں۔ اس طرح دور جدید کا ایران زمانے کی قید سے باہر ہو جاتا ہے، یہ اسی طرح کا غیر سائنسی عمل ہے، جس میں اطالوی باشندوں کو حقارت سے ڈا گوز، یہودیوں کو یدز ، سیاہ فام باشندوں کو نیگرو ز کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ اس طرز عمل کو دیکھیں تو گلیوں، بازاروں میں لڑنے والا ہمیں ، نرم خو سفارتکار کے مقابلے میں زیادہ ایمان دار دکھائی دیتا ہے۔
اس سلسلے میں دوسرا طریقہ یہ اختیار کیا گیا ہے کہ ایرانی قومی کردار کی تصویر کشی کرتے ہوئے صرف حقیقت کے اس تصور کو لیا گیا ہے جو ایرانیوں کا ہے۔ ایرانیوں کو حقیقی معنوں میں جس دھوکا دہی کا نشانہ بنایا گیا انھوں نے جو مصائب برداشت کیے لین جن انھیں اس کا بھی صلہ نہیں دیتا ۔ نہ انھیں یہ اختیار دیتا ہے کہ امریکا نے ایران میں در حقیقت جو کچھ کیا ہے اور جوانھوں نے دیکھا ہے، اسکی بنیاد پر امریکا کے متعلق کوئی رائے قائم کر یں۔ لین جن کا کہنا یہ نہیں ہے کہ امریکا نے ایران میں کچھ نہیں کیا، بلکہ اس کا کہنا یہ ہے کہ امریکا جو چاہے وہ گرنے کا حق رکھتا ہے اور ایرانیوں کو اس پر فضول شکایت کرنے یار ردعمل ظاہر کرنے کا کوئی حق نہیں ہے ۔لین جن کے نزدیک ایران کے سلسلے میں جو بات معنی رکھتی ہے کہ وہ ایرانی نفسیات ہے اور یہ دوسرے تمام حقائق کو پیچھے چھوڑ دیتی ہے۔
لین جن کے پیغام کو پڑھنے والوں کی نہ صرف اکثریت یہ تسلیم کرے گی بلکہ وہ خود بھی اسے تسلیم کرتا ہے کہ دوسرے لوگوں اور معاشروں کو آسان اور گھسے پٹے انداز میں نہیں لیا جا سکتا ، وہ کہتا ہے کہ آج جب ایرانی امریکا کو بڑا شیطان کہتے ہیں تو ہم ان کی بات سن کر ہنس پڑتے ہیں لیکن ہم اس بات کی اجازت نہیں دے سکتے کہ عوامی گفتگو میں سیاہ فاموں اور یہودیوں کے ساتھ بھی ایسا سلوک کیا جائے۔ یہ بات بڑی سادہ، بڑی نظریاتی ، بڑی نسل پرستانہ ہے لیکن اس مخصوص دشمن ایران کے سلسلے میں اس طرح کی تحقیر سے فائدہ ہوتا ہے، تحقیر کا یہ عمل نیوری پبلک کے مارٹن پیرٹز (martin peretz) کی سات فروری 1981 ء کی اشاعت سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اس میں ساتویں صدی کے ایک برطانوی باشندے کی وہ نسل پرستانہ تحر یر شامل کی گئی ہے جس کا عنوان ترک Turkہے۔ اس نے اسے مشرق وسطی کی ثقافت پر ایک کلاسیکی تحریر قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ اس سے پتا چلتا ہے کہ مسلمانوں کا برتاؤ کیسا ہوتا ہے۔ مجھے اس طرز عمل پر حیرت ہوتی ہے اور میں سوچتا ہوں کہ اگر ساتویں صدی کی کوئی تحریر جس کا عنوان ”یہودی‘‘ ہو یہ کہہ کر شائع کر دی جائے کہ اس سے یہودیوں کا رکھ رکھاؤ سمجھنے میں آسانی ہوگی تو اس پر کیا ردعمل ہوگا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے پیرنز اور لین جن نے جو دستاویزات پیش کی ہیں ان کا فائدہ کیا ہے۔ انھیں پڑھنے سے نہ تو اسلام یا ایران کے متعلق کچھ معلوم ہوتا ہے اور نہ اس تناؤ کوختم کرنے کے راستوں کی طرف رہنمائی ملتی ہے جو ایران کے انقلاب کے بعد امریکا اور امیران کے درمیان پیدا ہو گیا ہے۔ لین جن اس سلسلے میں یہ دلیل پیش کرتا ہے کہ اس بات کو دھیان میں رکھنا ضروری ہے کہ دانشمندانہ مذاکراتی ( مغرب کے نکتہ نظر سے دانشمندانہ ) عمل کی سوچ کے متعلق ایران کا رجحان مزاحمت کا ہے، ہم دانشمندی سے کام لے سکتے ہیں مگر ایرانی نہیں، کیوں ؟ اس کا جواب وہ یوں دیتا ہے کہ ایرانیوں کی طبع میں انانیت کا زور ہے، حقیقت کو تسلیم کرنا ان کے نزد یک بداندیشی ہے، ان کی بازاری ذہنیت نے انھیں طویل المدت فائدے کے بجائے فوری فائدے کی طرف راغب کر رکھا ہے اور اسلام کے واحد ولا ثر یک خدا نے اس بات کو ناممکن بنا دیا ہے کہ وہ عمل کے اسباب کو سمجھ سکیں ۔ ان کے نزدیک الفاظ اور حقائق کے درمیان کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔ایران پر لین جن کے تاثرات اعتماد کے لائق نہیں ہیں کیونکہ اسے دوسرے فریق کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ نہ اس میں اعتماد اور خیر سگالی کی خاصیت موجود ہے اور نہ اس کا کردار ایسا ہے کہ وہ وعدہ جو اس کے الفاظ کریں گے انھیں وہ پورا کرے گا۔
اس منکسرانہ تجویز کی شان یہ ہے کہ ایرانی یا مسلمانوں سے جو چیز کسی ثبوت کے بغیر منسوب کی جا سکتی ہے اس کا اطلاق اس نیم افسانوی "امریکی " پر بھی ہوتا ہے جس نے یہ پیغام بھیجا تھا اور جس کا نام ظاہر نہیں کیا گیا تھا یعنی لین جن، جہاں تک تاریخ اور حقائق کا تعلق ہے تو اس سے تو خود امریکی اس وقت انکار کر دیتے ہیں جب وہ یہ بات یک طرفہ طور پر کہتے ہیں کہ یہ دونوں یران کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتے ، آئیے اب ہم دیوان خانے میں درج ذیل کھیل کھیلتے ہیں۔ اس کھیل میں ہم نے یہ تلاش کرنا ہے کہ لین جن نے جو باتیں ایرانیوں سے منسوب کی ہیں ان کی حامل ثقافتی اور سماجی شخصیات ہمیں یہودیت اور عیسائیت میں کہاں ملتی ہیں اور کون سی ملتی ہیں۔ وہ حد سے بڑھی ہوئی انا پرستی کا ذکر کرتا ہے یہ روسو (rousseau) میں تھی۔حقیقت کو تسلیم کرنا بداندیشی ہےیہ سوچ کا فکا(kafka) کی تھی۔ وحدہ لاشریک خدا؟ قدیم اور جدید عہد نامے بھی اس کا ذکر کرتے ہیں عمل کے اسباب کے احساس کا فقدان بیکٹ (beckett) کود یکھیے ۔ بازاری ذہنیت؟ نیو یارک سٹاک ایچینج میں دکھائی دیتی ہے۔ یہ الفاظ اور حقیقت کا کنفیوژن (ابہام )؟ آسٹن (austin) اور سرلی کو پڑھیے، مغرب جس طرح حدسے بڑھی ہوئی اپنی ستایش کرتا ہے اس کی تصویر کشی اس طرح بہت کم لوگ کر سکتے ہیں جس طرح کرسٹوفرلیش (christopher lasch) نے کی ہے۔ بنیاد پرست مبلغ کے الفاظ کی بہترین مثال افلاطون (plato) اور کریٹا ئیلس (cratylus) ہیں۔ ایک یا دو اشتہاری نغمے اور حقیقت کے مستقل اور مفید ہونے پر مغرب میں ایمان کی کمی کے اظہار کے لیے اووڈ (ovid) کی اس میٹامارفوسس (matamorphoses) کو لیا جا سکتا ہے جسے لیوٹیکس (leviticus) کے منتخب اشعار سے سجایا گیا ہے۔
لین جن کا پیغام ایسی ہی تصویر کشی سے عبارت ہے، ایک مختلف سیاق و سباق میں یہ ایک بدو ضع خاکہ دکھائی دے گا اور اگر بہت ہوا تو اسے ایسا حملہ قرار دیا جا سکے گا جو نا کام ہونے کے ساتھ ساتھ کوئی خاص نقصان پہنچانے کی اہلیت نہیں رکھتا۔اسکاپیغام تو نفسیاتی حربے کے طور پر بھی موثر نہیں ہے کیونکہ اس سے مخالف کی نہیں بلکہ لکھنے والے کی کمزوری زیادہ نمایاں ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مصنف اپنے مخالفین کی تعداد سے گھبرایا ہوا ہے اور آئینے میں اسے اپنے عکس کے سوا کوئی دوسرا دکھائی ہی نہیں دیتا۔اس حالت میں یہ کیونکر ممکن ہے کہ اس کے اندر ایرانی نکتہ نظر یا اسلامی انقلاب کو سمجھنے کی اہلیت رہ جائے۔ چنا نچہ اس کیفیت کو اس نا قابل برداشت ایرانی جور و جبر کا براہ راست نتیجہ قرار دیا جا سکتا تھا جس میں جابرانہ حکومت کا تختہ الٹنے کی ضرورت ہے؟
جہاں تک مذاکراتی عمل کی دانشمندی کے ساتھ خیر سگالی اور اعتماد کا تعلق ہے اس سلسلے میں 1953 ء کے واقعات کا حوالہ نہیں دیا گیا پھر بھی اس کے متعلق بہت کچھ کہا جا سکتا ہے اور یہ بات بھی سامنے لائی جاسکتی ہے کہ جنوری 1979 ء میں امریکی جنرل ہو سر (huyser) نے ایرانی انقلاب کو نا کام بنانے کے لیے فوج کو اکسانے کی بھی کوشش کی تھی، پھروہ مختلف امریکی بینک جوشاہ کی خوشنودی کے لیے اپنے قواعد وضوابط میں لچک پیدا کرنے تک کو تیار رہتے تھے ، انھوں نے 1979 ء میں ایران کے 1977ء میں جاری ہونے والے وہ قرضے اس بنیاد پر منسوخ کر دیے تھے کہ سود کی ادائیگی بروقت نہیں کی گئی ۔ اس سلسلے میں لی مونڈےle monde) کے ایرک رولی (eric rouleau) نے 25 اور 26 رنومبر 1979ء کو اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ س نے خود یہ ثبوت دیکھا ہے کہ ایران نے یہ سود وقت سے پہلے ادا کر دیا تھا۔ اگر اس صورت حال میں ایران یہ سمجھتا ہے کہ اس کے بالکل سامنے جو کھڑا ہے وہ اس کا دشمن ہے تو یہ کوئی غلط بات نہیں ہے ۔ لین جن نے بھی بڑے واضح انداز میں کہا ہے کہ ایران نہ صرف ایک دشمن ہے بلکہ غیر محفوظ بھی ہے۔
تاہم ہمیں تسلیم کرنا چاہیے کہ مسئلہ منصف مزاجی کا نہیں بلکہ درست انداز میں پیش کرنے کا ہے۔ اور سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ جو امریکی موقع پر موجود ہیں اور واشنگٹن کو مشورے دے رہے ہیں، یہ مشیر اپنی معلومات کے لیے کس پر انحصار کر رہے ہیں؟ کیا وہ مستشرقین کی ان کہانیوں پر انحصار کر رہے ہیں جو سر الفریڈ لائل sir alfred lyall)کی ان تحریروں سے لی جاسکتی ہے جن میں انھوں نے مشرقی ذہن کو بیان کیا ہے یا لارڈ کرومر (lord cromer) کی اس کتاب سے لیا جاسکتا ہے جس میں اس نے بتایا ہے کہ مصریوں کے ساتھ کس طرح معاملہ کرنا چاہیے۔ اگر لین جن کے مطابق ابراہیم یزدی جو اس وقت ایران کے وزیر خارجہ تھے اس خیال کی مخالفت کرتے ہیں کہ امریکا میں ایران کے متعلق جو تاثر پایا جاتا ہے اس کی وجہ ایرانی طرز عمل ہے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فیصلے کرنے والوں میں کون سا امریکی تھا جو اس بات کو پہلے سے قبول کرنے کو تیار تھا کہ امریکی طرز عمل نے ایران میں امریکا کے متعلق تاثر قائم کیا ہے؟ پھر شاہ کو امریکا میں آنے کی اجازت کیوں گئی ؟ یا کیا اایر نیوں کی طرح امریکی بھی اپنے اقدامات کی ذمہ داری قبول کرنے سے گریز کرتے ہیں؟
لین جن کا پیغام اس قوت کی پیداوار ہے جو بے خبر ہی نہیں بلکہ عقل و دانش سے عاری بھی ہے اور پیغام کو پڑھ کر یقیناً دوسرے معاشروں کے متعلق معلومات میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا پھر اس پیغام کے ذریعہ جس طرح یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ امریکا کو کس طرح دنیا کا سامنا کرنا چاہیے اس سے وہ مقصد پورا نہیں ہوتا اور نہ اس سے اعتماد پیدا ہوتا ہے۔ پھر اس میں جس طرح امریکا کی تصویر کشی کی گئی ہے وہ تمام تر تعریف و توصیف کے باوجود ہتک آمیز معلوم ہوتی ہے ۔ ان سب باتوں کے بعد اس کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے؟ یہ پیغام ہمیں بتاتا ہے کہ کس طرح امریکا کے نمائندوں اور ان کے ساتھ کسی حد تک مستشرقین کے ادارے نے مل کر ایک ایسی حقیقت کو جنم دیا جس کا نہ تو ہماری دنیا اور نہ ایران سے ہی کوئی تعلق بنتا تھا۔ لیکن اگر اس سے احساس اجاگر نہیں ہوتا کہ اس واقعہ کے متعلق جس قدر غلط بیانی کی گئی ہے اسے ہمیشہ کے لیے اٹھا کر پھینک ینا چاہیے تو امریکیوں کو مزید عالمی مشکلات کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ اور یہ بات بڑی افسوسناک ہے کہ امریکیوں کی معصومیت کو بلا وجہ مجروح کیا جائے گا۔
ہم اس بات کو تسلیم کر لیتے ہیں کہ ایران اور امریکا بڑے تکلیف دہ اور ناخوشگوار حالات سے گزرے ہیں اور یہ بھی مان لیتے ہیں کہ امریکی سفارتخانے پر قبضہ کرنے کے نتیجے میں ایران ایک ایسی افراتفری میں دھنس گیا ہے جس سے کچھ حاصل وصول نہیں ہوگا اور جو اسے پسماندگی کی طرف دھکیل رہی ہے۔ تا ہم اس بات کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ دلجمعی کے ساتھ حالیہ تاریخ سے اس دانشمندی کو چن کر الگ کر لیا جائے جو پہلے ہی برائے نام ہے، ایسا کرنا اس لیے بہتر ہے کیونکہ ’’اسلام‘‘ میں بھی اسی طرح کی تبدیلیاں آرہی ہیں جس طرح کی ” مغرب‘‘ میں رونما ہو رہی ہیں۔ تاہم ان دونوں کے طریقے اور رفتار ایک دوسرے سے مختلف ہیں لیکن ان کے کچھ خدشات اور شکوک و شبہات ایک جیسے ہیں۔ اسلام اور مغرب ، خاص طور پرامریکا کے حلقہ اثر میں جوچیخ و پکار بلند ہو رہی ہے اس سے دانشمندی کی بجائے اشتعال زیادہ پھیل رہا ہے، نئے حقائق سے مطابقت کا پیدا نہ ہونا اور نا مطابقت کے برابر اور مخالف رد عمل کا ابھرنا ، اس خدشے کو بڑھا رہا ہے کہ اسلام اور مغرب تجزیے کو تنازع میں اور تجربات کو تو ہمات میں بدل سکتے ہیں۔ دراصل ضرورت اس بات کی ہے کہ انسانی تجربات سے حاصل ہونے والی ٹھوس معلومات اور دوسروں کا ہمدردی سے جائزہ لینے سے حاصل ہونے والی سوجھ بوجھ کا احترام کیا جائے اخلاقی حدود میں رہتے ہوئے اور علمی دیانت کو کام میں لاتے ہوئے علم حاصل کیا جائے ، یقینا یہ آسان کام نہیں ہے لیکن ایک دوسرے سے ٹکرانے اور جارحیت کو اپنانے کی بہ نسبت زیادہ بہتر اہداف ہیں، اگر اس عمل سے گزرتے ہوئے ہم اس نفرت سے جو دلوں میں بیٹھ چکی مسلم، ایرانی ترک، عرب یا مغربی جیسے ناگوار لیبلوں سے چھٹکارا حاصل کر لیں تو یہ بہت بہتر ہوگا۔(9 فروری 1981 ء نیویارک)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Covering Islam by Edward Said