❤️مسلم امہ اور عصر حاضر❤️
❤️مسلم امہ اور عصر حاضر❤️
June 13, 2025 at 11:55 AM
مولانا اللہ وسایا ان کی پیدائش دسمبر1945 کو قیام پاکستان سے ڈیڑھ سال پہلےگرواں قصبہ میں ہوئی جو مبارک پور کے قریب ہے اور ضلع بہاولپور لگتاہے یہاں کےایک زمیندار ملک محمد رمضان کےگھر ان کی ولادت ہوئی۔برادری کانام بھی گرواں ہے۔ اس سے متصل فقیراں قصبہ میں انہوں نے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔موضع ڈتہ بلوچ میں عصری اور دینی تعلیم کےادارے رفیق العلماء میں انہوں نے پڑھا اور یہ مدرسہ جامعہ عباسیہ بہاولپور جیسے عظیم ادارے کے تحت چل رہاتھا۔ عباسیہ جس میں مولانا شمس الحق افغانی، مولانا عبد الرشید نعمانی،مولانا ناظم ندوی ہوتے تھے۔ انہوں نےاس مدرسے میں درجہ سابعہ موقوف علیہ تک پڑھا پھر سابعہ قاسم العلوم ملتان میں بھی پڑھا جبکہ مخزن العلوم خان پور میں حافظ الحدیث مولانا عبد اللہ درخواستی سے دورہ حدیث پڑھا طریقت میں مولاناعبدالعزیز چک گیارہ چیچہ وطنی سے ان کا اصلاحی تعلق رہا جو حافظ صالح محمد کےبیٹے تھے اور وہ مولانا رشید احمد گنگوہی کےمریدتھے ان کےبعد پھرسید نفیس الحسینی سے تعلق ارادت قائم کیا۔ فاتح قادیان مولانا محمد حیات سے فن مناظرہ پڑھا مجاہد ختم نبوت مولانا تاج محمودسے تعلق رکھا۔ ان کی وفات کے بعد ان کی مسجد (اسٹیشن والی مسجد) میں خطبہ دیتے رہے۔ مولانا سید محمد علی شاہ شاگرد مولانا غلام محمد گھوٹوی کےتوسط سے 1968 میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت سے جڑے اور تاحال اسی سے وابستہ ہیں۔57 برس ہوگئے۔ مولانا محمد علی جالندھری کی صحبت میں رہے مولانا محمد شریف جالندھری ناظم اعلی عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کا انتقال ہوا تو انہیں مرکزی دفتر ملتان میں ذمہ دار مقرر کیاگیا۔ ان کی قادیانیت کے خلاف بڑی علمی،تصنیفی، مناظراتی اور دیگر تحریکی خدمات ہیں۔ ان کی کتاب آئینہ قادیانیت وفاق المدارس العربیہ میں داخل نصاب ہے۔عمدہ کتاب ہے۔ اس کے علاؤہ "تحریک ختم نبوت" نامی کتاب بھی انہوں نے لکھی ہے جو تقریباً دس جلدوں پر مشتمل ہے 60 جلدوں پر مشتمل "احتساب قادیانیت" بھی انہی کی مرتب کردہ ہے۔ جو قادیانیت کے موضوع پر ایک موسوعہ (انسائیکلوپیڈیا) ہے۔ وہ اپنے اکابر مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری،احسان شجاع آبادی ،علامہ یوسف بنوری،خواجہ خان محمد، علامہ یوسف بنوری اور مولانا یوسف لدھیانوی کےمشن کے امین ہیں اور یہ امانت بحسن وخوبی انجام دی ہے۔ اس حوالے سے وہ پوری امہ کے محسن ہیں۔ قاسم العلوم ملتان میں اور مخزن العلوم خان پور میں پڑھنے اور وہاں کے ماحول کا اثر لینے کی وجہ سے اور کچھ اپنی افتاد طبع اور مطالعہ وتجربہ کی بنیاد پر ان کا میلان قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن کی طرف زیادہ ہے۔ بلکہ عمر میں بڑے ہونے کے باوجود وہ ان کے سامنےجذباتی کارکن کی طرح طفل مکتب بن جاتے ہیں ۔ شاید اس بناپر ان سے بعض غیر جمعیتی علما کی نہیں بنتی وہ سمجھتے ہوں گے کہ ان کوغیر جانب دار ہونا چاہئے مولانا ختم نبوت کے مرکزی رہنما ہیں اوران کو شاہین ختم نبوت کہاجاتاہے۔ شاہین لقب کی وجہ سے شاید ان کا مزاج تھوڑا آتشین ہے اور کبھی کبھار وہ معاصر علماء اور مذہبی رہنمایان سے خاصے الجھ جاتے ہیں۔اپنے موقف میں شدت کے حوالے سے معروف ہیں۔ اور پھر ان کے خلاف بھی عموما سخت رد عمل آتاہے جس میں ان کی عمر اور خدمات کا کوئی لحاظ نہیں رکھا جاتاہے۔ مولانا کو اہل سنت کے آپس کے معاملات میں فریق یاوکیل دفاع نہیں بننا چاہئے اور اپنا طرز عمل زیادہ سے زیادہ غیر متنازع اور انداز مصالحانہ رکھنا چاہئے تاکہ ان کااہم عالمی اور بنیادی دینی کام متاثر نہ ہو۔ دیوبندی نوجوان بھی ان کو معمولی معمولی باتوں پر آڑے ہاتھوں لےکر اسلام کےعظیم دینی کاز اور باطل کے خلاف ان کی جہدوجہد کو نقصان پہنچانے سے گریز کریں تو کیاہی اچھاہو۔ عزیز عظیمی ۔

Comments