
❤️مسلم امہ اور عصر حاضر❤️
June 14, 2025 at 02:21 AM
بے آواز ماتم: صیہونی ریاست کی چھپی ہوئی شکست
صیہونی ریاست کی میڈیا پالیسی ہرگز اتفاقی یا وقتی ردِعمل نہیں بلکہ ایک طویل المدتی حکمتِ عملی کا حصہ ہے، جس کا مقصد اپنی عسکری ناکامیوں، جانی نقصانات، اور اندرونی خوف و انتشار کو دنیا کی آنکھوں سے اوجھل رکھنا ہے۔ غزہ میں جاری جنگ اور ایران کے حملوں کے دوران اسرائیل کو جتنا شدید جانی و مالی نقصان پہنچا ہے، اس کا عشرِ عشیر بھی عالمی میڈیا پر دیکھنے کو نہیں ملتا۔ وجہ صاف ہے: صیہونی حکومت نے اپنے عوام اور دنیا کو ایک مخصوص بیانیے میں قید کر رکھا ہے، جس میں وہ ہمیشہ طاقتور، غالب اور ناقابلِ شکست نظر آتے ہیں۔ اس بیانیے کو بچانے کے لیے وہ سچ پر پہرہ بٹھا چکے ہیں۔
میدانِ جنگ میں زخمی ہونے والے فوجیوں کی کوئی تصویر نشر نہیں ہونے دی جا رہی، مردار ہونے والوں کی لاشیں خفیہ طریقے سے ہسپتالوں یا سردخانوں تک پہنچائی جا رہی ہیں اور ان کے جنازے بھی میڈیا بلیک آؤٹ کے سائے میں دفن کیے جا رہے ہیں۔ جو بھی جگہ میزائلوں اور ڈرونز کے حملوں کا نشانہ بنی، وہاں سے غیرملکی اور حتیٰ کہ بعض اسرائیلی صحافیوں کو بھی زبردستی ہٹا دیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ مقامی رپورٹرز کو بھی کڑی نگرانی میں رکھا جاتا ہے تاکہ کوئی حقیقت باہر نہ جا سکے۔
اس پالیسی کی تین بڑی وجوہات ہیں:
اولاً، عوامی حوصلہ برقرار رکھنا: اسرائیلی حکومت جانتی ہے کہ اگر عوام کو اپنے فوجیوں کی لاشیں، تباہ حال گاڑیاں، یا زخمیوں کی دلدوز حالت دیکھنے کو ملے تو ان کے اندر مایوسی، خوف اور اضطراب جنم لے گا۔ اس سے نہ صرف داخلی دباؤ بڑھے گا بلکہ جنگی حمایت میں بھی کمی آئے گی۔
ثانیاً، عالمی رائے عامہ پر قابو پانا: اسرائیل ہمیشہ اپنے آپ کو “شکار” کے طور پر پیش کرتا آیا ہے، تاکہ مغرب کی ہمدردی سمیٹ سکے۔ اگر اس کے نقصان کی اصل تصویر دنیا کو دکھائی جائے تو مظلوم اور ظالم کے بیانیے میں دراڑ پڑ جائے گی۔ عالمی برادری کو اگر معلوم ہو جائے کہ فلسطینی مزاحمت اور حالیہ ایرانی حملہ نے اسرائیل کو کتنا جانی و نفسیاتی نقصان پہنچایا ہے تو فلسطینیوں کی جدوجہد کو مزید اخلاقی حمایت مل سکتی ہے۔
ثالثاً، دشمن کو کمزور ظاہر کرنا
اسرائیلی پالیسی کا ایک اہم مقصد دشمن کو نفسیاتی شکست دینا ہے۔ اگر میڈیا پر یہ خبریں اور مناظر آنے لگیں کہ اسرائیل کو بھی شدید نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے تو اس سے فلسطینی عوام اور مجاہدین کے حوصلے مزید بلند ہوں گے۔
لیکن اب دنیا 1990 کی نہیں رہی۔ سوشل میڈیا اور غیر روایتی ذرائع ابلاغ نے اس سنسرشپ کی دیوار میں دراڑیں ڈال دی ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ وہ حقائق بھی سامنے آ رہے ہیں جنہیں دبانے کی پوری کوشش کی گئی۔ اسرائیل جتنا بھی چھپانے کی کوشش کرے، حقیقت کا سورج بالآخر طلوع ہو کر ہی رہتا ہے۔ اور جب یہ سچ دنیا کے سامنے مکمل طور پر عیاں ہوگا، تو دنیا کو پتا چلے گا کہ طاقتور دکھنے والا اسرائیل اندر سے کتنا کمزور اور خوف زدہ ہو چکا ہے۔