❤️مسلم امہ اور عصر حاضر❤️
❤️مسلم امہ اور عصر حاضر❤️
June 14, 2025 at 12:56 PM
*اسرائیل کے ایران پر جون کے حملوں کی وجہ اور نتائج پر ایک سرسری نظر* *محمد عمران مسجدی* ایران کے جوہری پروگرام کو صرف طاقت سے تباہ کرنا ’ناممکن‘ ہے: (اسرائیلی مشیر برائےقومی سلامتی)۔۔۔ اگر ایران کی جوہری تنصیبات تباہ بھی کر دی جائیں تو انہیں دوبارہ تعمیر کر لیا جائے گا (ایرانی صدر)۔۔۔ دارالحکومت تہران کے قریب سے ’موساد‘ کی سالہا سال کی تیاری اور پھر کئی گھنٹوں پر مبنی کاروائی ہونے کے باوجود، حملوں میں ملوث ان اہلکاروں کے خلاف کسی کاروائی یا انھیں پکڑنے کی کوشش کرنے یا حراست میں لئے جانے کی کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔۔۔ حملے سے ایک دن پہلے بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی نے ایران کو 20 سال میں پہلی بار اس کے جوہری وعدوں کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیا ۔۔۔ امریکہ کی اسرائیلی حملوں پر خاموشی اور پشت پناہی کا مقصد، ایران پر جوہری پروگرام سے دستبردار ہوجانے کے لئے دباؤ بڑھانا ہے یا ایران کو اسے مکمل کرلینے کا اخلاقی، قانونی اور دفاعی جواز فراہم کرنا، جبکہ اسرائیلی دفاعی قومی سلامتی مشیر نے اس کا اعلانیہ اقرار بھی کیا اور ایرانی اس دباؤ کو اپنے جوہری پروگرام کو مکمل کرلینے کے حق میں استعمال کرنے کے مدعی ہیں۔۔۔ اب جوہری پروگرام سے متعلق بات چیت بے معنی ہے(ایران )۔ اسرائیل کے ایران پر گزشتہ روز سے جاری حملوں(ابھرتاشیر :operation rising lion) کا ہدف ایران کا جوہری پروگرام و تنصیبات اور متعلقہ شخصیات بتایا گیا۔اس کے جواب میں ایران نے بھی گزشتہ شب اسرائیل پر حملے کئےجسے اس نے ’’عملیات وعدہ صادق ۳: 3 operation true promise‘‘کا نام دیا۔ حماس کے 7 اکتوبر 2023 کے بعد سے اسرائیل اور ایران کے مابین کم از کم دو براہِ راست تصادم ہوچکے ہیں: ۔ پہلا تصادم13اپریل 2024 :اسرائیلی جارحیت کے جواب میں ایرانی حملوں کو ’’وعدہ صادق۱‘‘ کا نام دیاگیاجس میں اسرائیل کے نویتم navatimاور رمون ramonکے فوجی ہوائی اڈوں کو معمولی ساختی نقصان پہنچا۔ *یاد رہے!* اپریل 2024کے ایرانی حملے کے بارے میں شامی نژاد ادیب و صحافی فیصل القاسم نے کہا:’’جنازہ بڑا ہے اور مرنے والا کتا ہے۔۔کل ایران سے اسرائیل کی طرف جو کچھ ہوا اس پر یہی تبصرہ کیا جاسکتا ہے..ایک بہت سرد منظر.. اب واپس غزہ کی طرف چلتے ہیں، جہاں اصل جنگ ہے اور باقی سب کچھ ’خالی ہلچل‘ ہے‘‘۔ مشرقِ وسطیٰ کے حالات پر لکھنے والے صحافی ضیاء چترالی نے ایرانی کاروائی کو ’’ڈرامہ‘‘قرار دیا۔ اس قبل جنوری 2020 میں امریکہ کی جانب سے ایرانی قدس فورس (سپاہ پاسدارانِ انقلاب) کے جنرل قاسم سلیمانی کی ٹارگٹ کلنگ پر ایرانی جوابی کاروائی کو روسی صحافی نیبوج سا میلک نے ’’نوراکشتی‘‘قرار دیا تھا۔یہی نہیں خود امریکی صدر ٹرمپ نے اپنے گزشتہ دورِ صدارت میں کئی گئی قاسم سلیمانی کی ٹارگٹ کلنگ کی امریکی کاروائی کے جواب میں ایران کی ’ موت کا بدلہ لینے کی کاروائی‘ کو ’ڈرامہ‘ کہاتھا۔ ۔ دوسرا تصادم1 اکتوبر 2024:اسرائیلی حملوں کے جواب میں ایرانی جوابی کاروائی کو ’’وعدہ صادق۲‘‘ کہا گیا جس میں اسرائیلی ایئربیسز کو ایک بار پھر معمولی نقصان پہنچا،تل ابیب کے ایک ریسٹورانٹ اور ہود ہشروم کے سو گھرٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئے۔اس میں ایک فلسطینی شہیداور دو عام اسرائیلی معمولی زخمی ہوئے۔ ۔ تیسرا تصادم 13 جون 2025: قبل از صبح حالیہ اسرائیلی حملوں میں ایران کی جوہری تنصیبات اور عسکری ڈھانچوں کو نشانہ اور کئی اعلیٰ عسکری و جوہری شخصیات کو ہدف بنایاگیا۔اسکے جواب میں ایران نے ایک بار پھر 14جون کو سو کے قریب میزائل اسرائیل پر داغے اور ایک میزائل تل ابیب کے اسرائیلی دفاعی ہیڈ کوارٹر ’کریا kirya compound‘کے قریب بھی گرا۔ایرانی حملے میں اب تک تین عام اسرائیلی شہری ہلاک اور 78 زخمی ہوئے اسکے مقابلے میں اسرائیلی حملے میں 78 ایرانی موت کے منہ میں گئے اور 320 زخمی ہوگئے۔ حیران کن طور پر اسرائیلی حملوں میں ایک بار پھر ایرانی سیکیورٹی اینڈ انٹیلیجنس فیلیئر بلکہ بلنڈر سامنے آیا اورایران کے 5جرنیل اور 6جوہری سائنسدانوں کو بآسانی نشانہ بنالیا گیا۔جن میں مسلح افواج کے سربراہ جنرل حسین باقری، پاسدارانِ انقلاب کے سربراہ جنرل حسین سلامی ،رہبرِ اعلیٰ خامنہ ای کے مشیر اور ایرانی جوہری پروگرام کے سربراہ علی شمخانی، پاسداران انقلاب کے سینئر کمانڈرغلام علی راشد، اور ایرواسپیس کے کمانڈر امیر علی حاجی زادہ نمایاں تھے۔ایٹمی سائنسدانوں میں ڈاکٹر تہرانچی، ڈاکٹر فریدون عباسی،عبدالحمید منوچہر، سید امیرحسین فقیہی اور مطّلبی زادہ شامل ہیں۔ اسرائیل کے ایران پر حملے اور انکے سربرآوردہ شخصیات کے یوں باسہولت و بآسانی اسرائیلی ہدفی قتل target killingپر سینئر صحافی عفت حسن رضوی نے سوال اٹھایا کہ: ’’گزشتہ دو روز سے مغربی میڈیا مسلسل کہہ رہا تھا کہ ایران کسی بھی وقت نشانہ بن سکتا ہے۔ ایسے وقت میں ایران کی رہائشی عمارتوںمیں اہم افراد کی موجودگی اور سائنسدانوں اور فوجی قیادت کی اموات۔ نہ کوئی بنکر نہ کوئی زیرِ زمین پناہ گاہیں، نہ کوئی سیفٹی؟ یہ کیا پلاننگ تھی اور کیا ہے؟‘‘ ایک اسرائیلی اہلکارنے دعویٰ کیا کہ یہ حملےفضائیہ اور خفیہ ادارے موساد نے کئے۔موساد نےخفیہ طور پر جدید اسلحہ ایران پہنچایا اور تہران کے قریب کم از کم ایک سال پہلے سے ہی ایک خفیہ ڈرون اڈا قائم کررکھا تھا جہاں سے یہ حملے کیے گئے ۔سوال یہ ہے کہ ایران کےقلب میں، اسکےدارالحکومت کے قریب اسرائیلی موساد پوری طرح سرگرم تھی مگر ایرانی متعلقہ اداروں کو اس کی کانوں کان خبر کیوں نہ ہوسکی، جبکہ اسرائیل کئی ممالک کو جارحیت کا نشانہ بنا چکا تھااور کئی روز سے کھلم کھلا حملے کی دھمکیاں بھی دی جارہی تھیں؟ اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو کے بقول ’’ایران چند ماہ یا ایک سال کے اندر جوہری ہتھیار بنا سکتا ہے، اس لیے کارروائی ناگزیر ہو گئی تھی‘‘۔ یہاں یہ سوال بھی اہم ہےکہ کیا اس کاروائی سے ایران کے جوہری ڈھانچے کو خاطر خواہ نقصان پہنچا کہ وہ اسکی جلد تعمیرِ نو نہ کرسکے؟تو اس کا جواب ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ جوہری تنصیبات پر کئےگئے ان حملوں کے نتائج کے حوالے سے ایران کی اٹامک انرجی آرگنائزیشن کے ترجمان بہروز کمال وندی نے بتایا: ’’اسرائیلی حملے میں تہران کے جنوب میں واقع فورڈو نیوکلیئر سائٹ اور وسطی ایران میں اصفہان کی جوہری تنصیبات کو ’’محدود‘‘ نقصان ہوااور کسی جوہری آلودگی کے حوالے سے تشویش کی کوئی بات نہیں ہے۔فورڈو کے معاملے میں ساختی نقصان نہیں ہوا تھا۔ اصفہان میں، گوداموں سے منسلک مقامات پر حملے کیے گئے جن میں آگ لگ گئی۔ انٹرنیشنل اٹامک انرجی کمیشن IAEAکے ڈائریکٹر جنرل رافیل گروسی نے جمعہ کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بتایا کہ ایرانی حکام نے ایجنسی کو مطلع کیا ہے کہ ایران پر اسرائیلی حملے میں اصفہان اور فورڈو میں جوہری مقامات کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ نطنز میں یورینیم کی افزودگی کی سہولت کا ایک بڑا ’زمینی‘ حصہ تباہ ہو ا۔ ایک پائلٹ ایندھن کی افزودگی کی سہولت کا ’اوپر والا حصہ‘کو بھی نقصان پہنچا‘‘۔ نطنز میں ایران، 60 فیصد تک افزودہ یورینیم تیار کر رہا تھا جو ہتھیاروں کی تیاری سے قریب تر سطح ہے اور مزید ترقی یافتہ سینٹری فیوجز نصب کر رہا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ایران کی سرگرمیاں کسی بھی سویلین ضرورت سے کہیں آگے نکل چکی ہیں۔ جوہری معاہدہ کے حوالے سے جاری گفت و شنیداور حملے سے صرف ایک دن پہلے بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی IAEAنے ایران کو 20 سال میں پہلی بار اس کے جوہری وعدوں کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیا تھا۔ جو خود کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ حملے سے ایک روز قبل ایرانی صدر مسعود بزشکیان کا یہ بیان بھی معنی خیز ہے: انھوں نے جمعرات کوسرکاری ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں کہا کہ ’’اگر ایران کی جوہری تنصیبات تباہ بھی کر دی جائیں تو انہیں دوبارہ تعمیر کر لیا جائے گا۔۔ ایرانی صدر نے مزید کہا:یہ درست نہیں کہ اگر وہ ہماری تنصیبات پر بمباری کریں تو سب کچھ ختم ہو جائے گا، ہماری صلاحیتیں ہمارے ذہنوں میں محفوظ ہیں اور ہم انہیں کسی بھی صورت میں دوبارہ تعمیر کر لیں گے"۔ دوسری جانب ایرانی ایٹمی توانائی تنظیم کے سربراہ محمد اسلامی نے سرکاری میڈیا کو بتایا کہ ’’ایران نے یورینیم کی افزودگی کے لیے تیسرا نیا مرکز مکمل کر لیا ہے جو بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے فیصلے کے ردعمل میں تعمیر کیا گیا ہے۔ہمیں یہ جوہری علم حاصل نہیں ہونا چاہیے اور اگر ہم کچھ بولیں تو اسرائیل ہم پر بم برسائے گا۔۔۔‘‘ ایرانی پاسداران انقلاب کے سربراہ جنرل حسین سلامی نے اسرائیلی حملے سے ایک روز قبل جمعرات کو باسیج فورس کے کمانڈروں کے اجلاس میں کہا کہ ’’دشمن ہمیں فوجی کارروائی کی دھمکیاں دے رہا ہے‘‘۔ سوال یہ ہیں کہ: ۱۔ ایران کو اس بات کا پیشگی اور بخوبی علم تھا کہ اسکی تنصیبات و شخصیات کو اگلے چند گھنٹوں یا دِنوں میں نشانہ بنایا جانے والا ہے جیسا کہ پہلے بھی اسرائیل، ایرانی اعلیٰ شخصیات کو نشانہ بنا چکا تھا مگر اس نے اپنے متعلقہ عسکری عہدیداران اور جوہری سائنسدانوں کی حفاظت کے لئے کیا کیا؟ ۲۔ ایران، اسرائیل و امریکی کاروائیوں کے ’’ردعمل‘‘ میں اپنے جوہری پروگرام کومکمل کرنے کو سب سےاہم ہدف و مقصد باور کرتا ہے ۔تو کیا یہ کاروائی ایران کو جوہری پروگرام سے روکے گی یا اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے موقع و جواز فراہم کردے گی؟ باالفاظِ دیگر امریکہ کی اسرائیلی حملوں پر خاموشی اور پشت پناہی کا مقصد، ایران پر جوہری پروگرام سے دستبردار ہوجانے کے لئے دباؤ بڑھانا ہے یا ایران کو اسے مکمل کرلینے کا اخلاقی، قانونی اور دفاعی جواز فراہم کرنا۔جبکہ اسرائیل اور امریکہ دونوں یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ وہ ایران کو ان حملوں سے اسکے نیوکلئیر پروگرام سے باز نہیں رکھ سکتے جیسا کہ اسرائیلی دفاعی قومی سلامتی مشیر نے اس کا اعلانیہ اقرار بھی کیا۔ ۳۔اتنے واضح علم اور یقینی خبروں کے باوجود دارالحکومت تہران کے قریب سے ’موساد‘ کی سالہا سال کی تیاری اور پھر کئی گھنٹوں پر مبنی ڈرون کاروائی ہونے کے باوجود، حملوں میں ملوث ان افرادو اہلکاروں کے خلاف کسی کاروائی کی یا انھیں پکڑنے یا حراست میں لئے جانے کی کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی،کیوں؟ ۴۔ اسرائیلی فوجی طیاروں کا ایرانی حدود میں داخل ہوکر اعلیٰ ایرانی فوجی و سائنسی شخصیات کو یوں نشانہ بنالینااور ایٹمی تنصیبات کو کسی حفاظت کے بغیر چھوڑ دینا اور ان پر حملہ کے دوران کسی قسم کی کوئی فضائی و زمینی کاروائی نہ کرناحیرت انگیز اور کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ *یاد رہے!* پاکستان نے ایرانی جوہری تنصیبات پر اسرائیلی حملوں کے فوری بعد ہائی الرٹ جاری کیا، اپنی ایٹمی تنصیات کے گرد اگرد احتیاطی تدابیر اختیار کیں اور انکی حفاظت و سیکیورٹی کے لئے اضافی اقدامات کئےجن میں لڑاکا طیاروں کی تعیناتی بھی شامل تھی۔کوئی بھی ملک جو حالتِ جنگ میں ہو وہ ایسی ہی تدابیر اختیار کرتا ہے ۵۔ایران جو کہ اپنے چاروں اطراف دشمنوں سے گھرا ہے، عرب حریفوں سے اس کا تناؤ ہے۔ عراقی صدام حسین کو شکست دے کر ایرانی پراکسیز و ملیشیا اور جماعتوں کی جگہ بنا چکا؛ شامی الاسد خاندان کا پچاس سال سے زائد پشتیبان بنا رہا؛ لبنان میں حزب اللہ کو طویل عرصہ سے سرگرم رکھے ہوئے ہےاور اسرائیل کو لبنانی میدانوں سے نکالنے میں کامیاب ہوگیا؛پاکستان اور افغانستان میں اسکی پراکسیز سرگرم ہیں؛ یمن میں اپنے اتحادی حوثیوں کو طویل عرصہ سے مدد فراہم کررہا ہے۔ اپنے ہی ملک میں اپنے اعلیٰ عہدیداران کو یوں گنوا رہا ہے اور اس قدر بے بس و لاچار ہوگیا ہےکہ کوئی کسی قدر موثر ہی جوابی کاروائی نہیں کرتا۔۔۔ کیوں؟؟؟ ۶۔ چونکہ ایران جوہری ہتھیار بنانے کی جانب تیزی سے پیشرفت کررہا ہےاور اسکے چاروں اطراف عرب اور سنی ملکوں (بشمول ایٹمی ملک پاکستان )کا گھیراؤ ہےلہذا چند سرکاری شخصیات کو قربانی کا بکرا بنانا اور تعمیراتی ڈھانچے کا کچھ نقصان کرکے ایران کو بالآخر جوہری صلاحیت حاصل کرلینے میں کامیاب ہونے دینا، مغرب کے لئے کئی دور رس نتائج کا حامل ہوسکتا ہے۔ طویل عرصے (1988) سے نیتن یاہو کی لیکوڈ پارٹی سے وابستہ اوراسرائیلی حکومت میں مسلسل کئی اور مختلف عہدوں پر متعین رہنے والے اورموجودہ قومی سلامتی کے مرکزی و سینئر مشیر زاچی ہنیبی tzachi hanegbiنے واضح کیا کہ: ’’صرف طاقت کے استعمال سے ایرانی جوہری پروگرام کو تباہ کرنا "ناممکن" ہے۔ اسکے مطابق ان حملوں کا مقصد یہ ہے کہ ایرانیوں کو یہ باور کرایا جائے کہ انہیں جوہری پروگرام کو روکنا چاہیے۔ مگر کیا ۔ واقعی پہلے کبھی ایسا ہوا ۔۔۔ ۔ ان اسرائیلی حملوں کے بعد ہی ایسا ہوا۔۔۔ ۔ مستقبل میں ایسا ہوگا؟ امریکہ کے خصوصی ایلچی سٹیو وٹکوف اتوار کو عمان میں ایرانی وفد سے ملاقات کرنے والا تھا لیکن اسرائیلی حملوں نے اس ملاقات کو مشتبہ بلکہ بے اثر و بے معنی بنادیا ہے۔ امریکی صدر کہتا ہے امریکہ ایران مذاکرات ختم نہیں ہوئے۔ دوسری طرف ایران نے کہہ دیا ہے کہ اب جوہری پروگرام سے متعلق بات چیت بے معنی ہے۔ اکثر تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اس سے ایران کو اپنے جوہری پروگرام کو جاری رکھنے کا اچھا خاصہ جواز مل گیا ہےکہ ان حملوں کے بعد اسکی سلامتی کے لئے یہ ضروری ہوگیا ہے کہ وہ اپنا ایٹمی پروگرام ہر قیمت پر مکمل کرے۔ کیا امریکہ و اسرائیل کا ان حملوں سے عرب اتحادیوں اور دیگر سنی مسلم ممالک کو اپنی بے بسی دکھا کر عربوں کے تزویراتی و علاقائی حریف کو اپنے جوہری پروگرام مکمل کرلینے کی معقول و منطقی وجوہات مہیا کی جارہی ہٰیں؟ اگر مستقبل قریب یا بعید میں ایران اپنے لوگوں کی قربانیوں کے بعد اپنے جوہری پروگرام کو پایہ تکمیل تک پہنچا کر ایٹمی طاقت بن جاتا ہے تو مذکورہ سوالات و شبہات کو سندِ جواز حاصل ہوجائے گا۔واللہ اعلم

Comments