
The Islamic Balochistan Post
May 16, 2025 at 04:28 PM
مظلوم کی بے بسی پر اہلِ علم کی خاموشی
تحریر: مولانا عباد الرحمٰن بلوچ
یہ وطن عجیب سانحات کا دیس بن چکا ہے۔ یہاں لاشوں کی گنتی روز کا معمول ہے اور مظلوم کی فریاد ہواؤں میں تحلیل ہو چکی ہے۔ لیکن اس سے بڑھ کر اذیت ناک پہلو یہ ہے کہ جب ماؤں کی چادریں چھینی جائیں، بہنوں کے کمروں میں کیمرے نصب کیے جائیں، معصوم بچیوں کو اغوا کر کے عقوبت خانوں میں ڈال دیا جائے—تب منبر خاموش ہو جاتا ہے، اور محراب کی زبان پر مہرِ سکوت لگ جاتی ہے۔
وہ علما، جو ہمیں باطل کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے کا درس دیا کرتے تھے، آج ظالم کے سائے میں پلتے، پنپتے ہیں اور چپ رہنے کو حکمت کا نام دیتے ہیں۔ جو زبانیں کبھی غزوہ ہند کے نعرے بلند کرتی تھیں، آج مظلوم بلوچ، پشتون اور سندھی ماں کی سسکیوں پر بھی بند ہو چکی ہیں۔ یہ خاموشی محض چپ نہیں، یہ ایمان کا زوال ہے۔
گزشتہ دنوں جمعیت علمائے اسلام کے رہنما مولانا راشد سومرو نے چٹکلہ کسا: "اگر جنگ ہوئی تو بھارت میں گھس کر دارالعلوم دیوبند میں ناشتہ کریں گے"۔ اسی پرح حافظ حمداللہ نے مذہبی رنگ چڑھاتے ہوئے فرمایا: "اگر مودی نے جنگ مسلط کی تو اگلی صبح کی نماز مولانا فضل الرحمان کی امامت میں جامع مسجد دہلی میں ادا کریں گے۔"
ان بیانات نے عوام کو فخر نہیں، بلکہ دکھ اور حیرت میں مبتلا کر دیا۔ کیونکہ اسی پاکستان میں، انہی دنوں، بلوچ خواتین کی چادریں کھینچی جا رہی تھیں، پشتون عورتیں لاپتہ پیاروں کی تصویریں لیے در بدر بھٹک رہی تھیں، مظلوم مائیں اپنے جوانوں کی گمشدگی کے نوحے پڑھ رہی تھیں—اور ان "علماء کرام" کے منہ سے ایک حرفِ احتجاج بھی نہ نکلا۔
اسی پس منظر میں نوجوان اسکالر مولانا اسماعیل حسنی کا وہ جملہ ایک کڑوا مگر سچّا آئینہ بن کر سامنے آتا ہے:
"جو اپنی ماؤں بہنوں کی عزت پر آنچ آنے پر احتجاج نہ کر سکے، وہ دیوبند کی نماز یا ناشتہ کو صرف اپنی بزدلی چھپانے کا بہانہ بناتا ہے۔"
کیا ہی کربناک سچ ہے۔
دین کی اصل روح تو ظالم کے سامنے کلمۂ حق کہنا ہے، مگر یہاں دین کو طاقتور کے در پر جھکنے کی چادر میں لپیٹ دیا گیا ہے۔ منبر، سجدہ گاہ، خطبہ—سب طاقتور کی سانسوں کے تابع ہو چکے ہیں۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان، جہاں دین کی سربلندی کے دعوے ہوتے ہیں، وہاں خواتین کے واش رومز میں کیمرے نصب کیے جاتے ہیں۔ جہاں حیا کے خطبے دیے جاتے ہیں، وہیں نوجوانوں کو اغوا کر کے ان کی آنکھوں میں تیزاب ڈالا جاتا ہے۔ پھر جعلی مقابلوں میں مار کر فخریہ کہا جاتا ہے کہ "ہم نے دہشتگرد مار دیے"۔ اور اس سب پر ہمارا دینی طبقہ مصلحت کی چادر اوڑھ کر خاموشی اختیار کرتا ہے۔
اب سوال یہ نہیں کہ مولوی کب بولے گا،
سوال یہ ہے کہ کیا اُس کا ضمیر کبھی جاگے گا؟
کیا وہ اذیت میں سسکتی بلوچ ماں کی آہ کو بھی اذان سمجھ کر سن پائے گا؟
کیا وہ زندانوں میں قید بیٹیوں کی چیخ پر بھی تڑپے گا؟
یا اس کا اسلام بھی صرف دہلی کی جامع مسجد تک محدود رہے گا اور راولپنڈی کے ایوانوں میں سجدہ ریز ہو کر ختم ہو جائے گا؟
عوام اب تھک چکے ہیں، جاگ چکے ہیں۔ وہ جان چکے ہیں کہ منبر پر بیٹھا ہر شخص ولی نہیں ہوتا، اور ہر خاموشی تقویٰ نہیں کہلاتی۔
اب وہ دیوبند میں ناشتہ کرنے والوں کو نہیں، اسلام آباد کے ایوانوں میں سچ بولنے والے علما کو تلاش کر رہے ہیں۔
ان کے زخم اب فتوے نہیں، انصاف مانگتے ہیں۔
ان کی آنکھوں میں آنسو نہیں، سوال ہیں—
اور ان سوالوں کا جواب دیوبند میں نہیں، مظلوم کے قدموں میں لکھا جائے گا۔
❤️
4