The  Islamic Balochistan Post
The Islamic Balochistan Post
May 26, 2025 at 09:32 AM
فتنہ پرور قوم کی "اسلامک ٹچ" تحریر: حافظ ابو ذر بلوچ پاکستانی قوم کی ایک دلچسپ مگر افسوسناک پہچان یہ بھی ہے کہ یہاں ہر قومی بحران، ہر سیاسی واقعہ اور ہر طاقت کے کھیل کو اسلامک ٹچ دینا ایک لازمی روایت بن چکی ہے۔ چاہے وہ آرمی چیف کی تقرری ہو یا کسی حکمران کا عروج و زوال، یہاں سچ، عقل، دلیل یا آئین کی بنیاد پر فیصلے نہیں ہوتے— بلکہ خواب، "روحانی اشارے" اور منبر پر بیٹھے واعظوں کے من گھڑت الہامات سے کام لیا جاتا ہے۔ جب جنرل قمر جاوید باجوہ کی آرمی چیف کے طور پر تعیناتی زیر غور تھی، تو ان کے خلاف ایک منظم مہم چلی کہ وہ "قادیانی" ہیں۔ یہ الزام اس شد و مد سے پھیلایا گیا گویا ان کی عسکری صلاحیت سے زیادہ اہمیت ان کی "ایمان کی سند" کو حاصل ہے— اور یہ سند، ظاہر ہے، صرف مخصوص درباروں سے جاری ہوتی ہے۔ اسی دوران، اوریا مقبول جان جیسے "روحانی ترجمان" نے ایک خواب قوم پر نازل کیا— ایک ایسا خواب جس میں نعوذباللہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محفل سجی ہوئی ہے، حضرت عمرؓ فائل لیے کھڑے ہیں، اور جب جنرل باجوہ حاضر ہوتے ہیں تو وہ فائل انہیں تھما دی جاتی ہے— جس میں ان کا نام بطور آرمی چیف درج ہوتا ہے۔ یہ خواب محض ایک خواب نہیں، بلکہ ایک سیاسی ہتھیار بنا، جسے نہ صرف الہام بلکہ "آسمانی تقرری" کے طور پر پیش کیا گیا۔ یوں جنرل باجوہ کی تقرری کو تقدس کا لبادہ پہنا کر ان کے خلاف جاری تمام مخالفتیں خاموش کرا دی گئیں۔ لیکن جب وقت بدلا، رجیم تبدیل ہوئی، اور جنرل باجوہ عمران خان کے مدمقابل آ گئے، تو وہی اوریا مقبول جان، جو کل تک انہیں "روحانی طور پر منتخب" قرار دے رہے تھے، اچانک فقہی کتب کی ورق گردانی کرتے نظر آئے— اور فرمانے لگے: "خواب شریعت میں حجت نہیں ہوتا!" یعنی جس خواب کو کل تک وہ آسمانی دلیل بنا کر پیش کر رہے تھے، آج اسی خواب کو فتنہ، افسانہ اور باطل قرار دے دیا۔ یہ طرز عمل محض انفرادی تضاد نہیں، بلکہ اجتماعی منافقت کی علامت ہے— وہ منافقت جو اسلام کو وقتی مفادات، سیاسی بازی گری اور اقتدار کے کھیل میں ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ یہی وہ ذہنیت ہے جس سے شیطان بھی پناہ مانگے۔ ایسا نہیں کہ پورا پاکستان اسی طرز فکر کا شکار ہے، مگر المیہ یہ ہے کہ قومی بیانیہ انہی کے ہاتھوں میں ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس ذات کو بھی اپنے دنیوی عزائم کی سند بنانے سے باز نہیں آتے۔ آج یہی منظر انوار الحق کاکڑ کی صورت میں پھر دہرایا گیا— جب انہوں نے چیف آف آرمی اسٹاف عاصم منیر کی تقرری کو "اللہ کی مرضی" قرار دے کر فرمایا: "سید عاصم منیر پر تنقید ناقابل برداشت ہے، کیونکہ ان کو اللہ نے آرمی چیف بنایا، اور فیلڈ مارشل بھی اللہ ہی نے بنایا ہے۔" اب ذرا غور کیجیے— ایک طرف "خواب"، دوسری طرف "اللہ کی مرضی"، یعنی جمہوریت، میرٹ، آئین اور عوام سب غیر متعلقہ ہو گئے۔ فیصلے یا تو خوابوں میں ہوتے ہیں یا نادیدہ وحی کے ذریعے۔ لیکن افسوس، یہ خواب اور وحی ہمیشہ انہی فرعون صفت جرنیلوں کے لیے مخصوص ہوتی ہے، جن کے ہاتھ بلوچ، پشتون، سندھی، حتیٰ کہ مہاجر عوام کے خون سے رنگین ہیں، جن پر جبری گمشدگیوں، ماورائے عدالت قتل، خواتین کے باتھ رومز میں کیمرے نصب کرنے جیسے انسانیت سوز جرائم کے سنگین الزامات ہیں۔ اگر کسی کو یہ الفاظ مبالغہ آمیز لگتے ہیں تو وہ "ویڈیوز کا دھندہ، قوم کی بیٹیاں، ایک کربناک حقیقت" کے عنوان سے لکھا گیا ابصار عالم کا مضمون ضرور پڑھ لے— اگر اس کا ضمیر زندہ ہے تو وہ مضمون اسے اس نام نہاد اسلامی مملکت کا اصل چہرہ دکھانے کے لیے کافی ہوگا۔ پاکستانی درباری مولویوں کو بلوچ حق پرست علماء کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ بلوچ ایک مہذب قوم ہے۔ ورنہ جو مولوی آئے روز بلوچ ماؤں بہنوں پر فتوے صادر کرتے ہیں، جس دن بلوچ علماء نے انہی کے لہجے میں جواب دینا شروع کیا، تو ان کے شفیق مینگل جیسے تمام سفاک داعشی پرزے ناکارہ ہو جائیں گے۔ شکر کریں کہ بلوچ معاشرہ اختلاف رکھتا ہے، گستاخی نہیں۔ وہ دینی استعارے استعمال کرتا ہے، مگر کبھی ذاتی مفاد کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام بیچنے کی جسارت نہیں کرتا۔ یہ بلوچ علماء کی تہذیب ہے کہ وہ ان تمام بے ہودگیوں کے باوجود تمہاری ہدایت کی دعا کرتے ہیں، فتوے نہیں لگاتے۔ لیکن اگر یہی بلوچ علماء بھی تمہاری روش اپنا لیں تو پاکستان کے کئی چہرے، انہی کے اپنے فتووں کی روشنی میں، فاسق، فاجر بلکہ گستاخ قرار پائیں گے۔ کاش پاکستان کا مذہبی طبقہ اپنے منبر کو ایمان کا مرکز بناتا— نہ کہ طاقت کے قدموں میں پڑا ہوا ایک آلہ۔ کاش وہ اسلام کو عزت دیتا— بجائے اس کے کہ ہر سازش، ہر اقتدار کی سیڑھی، اور ہر وردی کی خدمت کے لیے "اسلامک ٹچ" لگا دیتا۔ یاد رکھئے: اسلام کسی ٹچ کا محتاج نہیں — یہ وہ دین ہے جو انسان کے باطن، کردار، نیت اور عمل کی اصلاح کا تقاضا کرتا ہے۔ اور جب دین کو مکر، جھوٹ اور منافقت کے پردے میں لپیٹ کر استعمال کیا جاتا ہے، تو بدنام اسلام نہیں ہوتا — بدنام وہ قوم ہوتی ہے، جو اسلام کو ایسا بناتی ہے۔
❤️ 1

Comments