Noval Warld Urdu Poetry Sad Funny Mix Jokes Hd Status Urdu Stories Islamic ❤️
June 11, 2025 at 02:02 PM
#قراقرم_کا_تاج_محل
#پانچویں_چوٹی
#حصہ_اول
Episode 05 (Part 1)
_____________
بدھ 27 جولائی 2005ء
وہ کمرے کا دروازہ کھول کر باہر بر آمدے میں آگئی۔ برآمدہ کافی طویل تھا اور ہر کمرے کے دروازے جی دونوں اطراف خوشنما پھولوں کے گملے رکھے تھے۔ بر آمدے کے اگے سفید ستوں سے بنے تھے، وہ ایک ستون سے ٹیک لگاۓ سامنے کا منظر دیکھنے لگی۔
قدرتی گرین گھاس سے ڈھکے مستطیل لان کے دہانے پر لگی جھاڑیوں کی باڑ کے ارد گرد ہی چھوٹا بندر چکراتا پھر رہا تھا۔ اس کے ہاتھ میں ادھ کھایا، چھوٹا سبز سیب تھا۔ وہ فجر کا۔ وقت تھا۔ ہر طرف گھیرا نیلاہٹ بھرا اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ دور جنگل سے جانوروں کے بولنے کی آوازیں ماحول پر چھایا سکون چیر رہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔💜💛💚💖💜💛💚💖۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات خوب بارش ہوئی تھی، برآمدے کی مخروطی چھت سے پانی تپک رہا تھا۔
تب ہی اس کی نگاہ گیلی گھاس پر پڑی ،جہاں ایک طرف سی کیاری میں جاۓ نماز بچہاے افق ارسلان نماز پڑھ رہا تھا۔ اس نے نیلی جینز کے پائنچے اوپر فولد کیے تھے۔ جسم پر جیکٹ اور مفلر نہ تھا البتہ اس نے پی کیپ الٹی کر کے سر دھانپ رکھا تھا۔
سینے پر ہاتھ باندھے ،سر جھکاے کھڑا وہ بہت اچھا لگ رہا تھا وہ گھاس پر آگئی، جوگرز کے بجاۓ نرم چپل پہنے کے باعث گیلی گھاس اس کے پیروں کو گیلا کرنے لگی تھی وہ سیڑیاں اترنے لگی۔
سیڑھیوں۔ کے دائیں طرف پنجرے میں مقید مور جاگے ہوئے تھے۔ نیلے اور سبز رنگ مور اپنے بدصورت پاؤں کے ساتھ ناچ رہا تھا۔ سفید مورنی کونے میں بیٹھی ناچ دیکھ رہی تھی۔
وہ ستائش سے رک کر انھیں دیکھنے لگی۔ اس کی موجودگی کا احساس کرکے مور رک گیا تھا اسی لمحے اسے مور اور خود میں کوئی فرق محسوس نہیں ہوا۔ تھا وہ اتنا حسین مور اپنی خوبصورتی کے باعث تمام عمر کے لیے اس پینجرے میں مقید کردیا گیا تھا، بلکل ایسے جیسے خود اس نی خوبصورتی اور دولت نے اسکے قدموں میں سیف کے نام کی زنجیر ڈالی تھی۔ کاش وہ اس وقت تھوڑی سی ہمت کر کے پاپا کو۔ منع کر دیتی۔
سیف کے متلعق سوچ کر ہی وہ اداس ہوگئی تھی۔ اس سمے اسے نیلے اندھیرے میں اس وقت مرغزاز بہت اداس لگا تھا اور جب وہ نیچے جھرنے کے پل تک آئی تو اسے سامنے والے درخت پر بیٹھی وہ چڑیا بھی بہت اداس گیت گاتی محسوس ہوئی تھی۔
وہ اس وقت پہاڑ پر بنے بل کھاتے کچے راستے پر چڑھ کر اوپر ناشپتی اور سیبوں کے درختوں تک پہنچ گئی تھی۔ ،جب اس نے اپنے عقب میں پکار سنی۔
اس نے گردن گھما کر پیچھے دیکھا۔ افق پل پر چلتا ہوا اس تک آرہا تھا اسکے پاؤں میں جوگرز اور گردن میں مفلر تھا، الٹی پی کیپ اب سیدھی ہو چکی تھی۔
وہ رک کر اس کا انتظار کرنے لگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔💜💛💚💗💛💚💜💖۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"تم ادھر کیا کر رہی ہو؟ "وہ چند قدم نشیب میں تھا۔
"تمہارا انتظار۔ مجھے علم تھا تم میرے پیچھے جھرنے تک ضرور آؤ گے۔ وہ سوچ کر بولی۔ "میرا ناشپتی کھانے کو دل چاہ رہا تھا" وہ اب اس کے قریب آ چکا تھا۔
وہ دونوں ساتھ ساتھ اوپر چڑھنے لگے۔ گھیرا نیلا اندھیرا قدرے ہلکا ہوا تھا۔
"تم میری وجہ سے کل نہیں کھا سکی تھیں نا؟ "افق نے بغیر کسی شرمندگی کے کہہ کر اسے ایک نظر دیکھا۔ وہ سرخ اور گلابی امتزاج کے شلوار قمیص میں ملبوس تھی، دوپٹہ گردن کے گرد لپٹا تھا اور بال اونچی پونی ٹیل میں باندھے تھے۔ اس پر اونچی پونی بہت اچھی لگتی تھی۔
"ہاں! "
وہ چڑھتے چڑھتے اب پہاڑ کے اوپر پہنچ گے تھے، اب بہت چھوٹا اور وائٹ پلس بہت دور دکھائی دے رہا تھا۔ وہ جگہ ناہموار تھی، بہت سے درخت اونچے نیچے ڈھالان پر اگے تھے۔ وہ ایک درخت پر چلی آئی۔
"کھاؤ گے؟ "ایک ناشپتی توڑ کر اس نے دوپٹے سے خوب رگڑ کر صاف کی یہ اس کا یہ اس کا سیبوں اور ناشپتیوں کو صاف کرنے کا اپنا طریقہ تھا اور افق کی طرف بڑہائی
اس نے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ نفی میں سر ہلادیا۔
"میں پھل نہیں کھاتا"
"کیوں؟ "پری نے حیرت سے بڑھا ہوا ہاتھ نیچے گرا دیا۔
"یونھی ۔اچھے نہیں لگتے" وہ ایک درخت کے تنے سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔
"کھایا کرو، ان میں فائبرز ہوتے ہیں، معدے کے لیے اچھے ہوتے ہیں" وہ ڈاکٹروں کے مخصوص انداز میں کہتی اس کے ساتھ بیٹھ گئی۔ "اور سنو ،تمہاری طبیت کسی ہے؟
"خود دیکھ لو" افق نے اپنی کلائی اس کی جانب بڑھائی ۔سنجیدہ لہجے کے پیچھے شرارت تھی۔ اس نے بس ایک سیکنڈ کو نبض پکڑی، پھر چھوڑدی۔
"ابھی تک بخار ہے، مگر کل کی نسبت ہلکا ہے۔ "افق نے ہاتھ پیچھے کر لیا۔
دور نیلے آسمان پر نارنجی سورج طلوع ہونے کو بے تاب تھا مگر گھرے سیاہ بادل اسے راستہ نہیں دے رہے تھے۔
"تم نے آج مور کو ناچتے دیکھا تھا، پری؟ "اس کی نگائیں آسمان پر چھاے بادلوں پر تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔💜💛💚💖💜💛💚💖۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ خاموش رہی۔
"میں جب بھی ادھر آتا ہوں، یہ مور مجھے پہچان کر اپنا ناچ ضرور دیکھا تے ہیں۔ جن کو سیاح صرف لطف اندوزی کا سامان سمجھتے ہیں، وہ ہمارے جانے کے بعد ہمیں کرتے ہیں ہمیں پکارتے ہیں۔ تمہیں نہیں لگتا پری کے وائٹ پلس کی سیڑیوں کے ساتھ نصب پنجرے میں بند مور ہمارے جانے کے بعد ہمیں یاد کرے گا۔ اس جھرنے کا تیز بہتا پانی، پانی میں رکھے پتھر اور اس کے قریب لگے درخت پر وہ اداس گیت گاتی چڑیا ہمیں یاد کرے گی؟ سیاح سمجھ نھیں پاتا ورنہ وہ قدموں کے نشان تو صدیوں ان پتھروں مرغزاروں اور ان کچے راستوں اور ثبت رہتے ہیں۔
"کل شام تمہیں کیا ہوگیا تھا، افق؟ "وہ خاموش ہوا تو اس نے پوچھا۔ سوال اتنا غیر متقوا تھا کے افق نے چونک کے اسے دیکھا۔
"کل شام؟"
"ہاں۔ ۔۔کل۔ ۔۔شام! "پری نے آہستہ سے اپنی آواز دھورائی۔ ۔
"تم نے اپنی ناشپتی نہیں کھائی" ۔
"بات مت بدلو"_
وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ "بارش ہونے والی ہے، چلو واپس چلتے ہیں" کھڑے ہو کر اس بے ہاتھوں سے پینٹ جھاڑی،ایک سرخ رنگ کا کیڑا اس کے گھٹنے سے نیچے پتھرالی زمین پر گرا۔
"تم جاؤ۔ میں بعد میں آجاؤ گی" پریشے نے خفگی سے منہ پھیر لیا۔
جھرنے کے بہتے پانی نے دیکھا تھا کے وہ دونوں اس پل ایک بر پھر اجنبی ہوگئے تھے۔
وہ کچھ کہے بنا وہاں سے چلا گیا وہ پھر ویسا ہوگیا تھا، جیسا کل شام تھا، جیسے جلیل کے ریسٹورنٹ میں تھا۔ اجنبی، ناشنا سا۔
پھر کتنی ہی دائر وہ بغیر کھائی ناشپتی ہاتھ میں لیے وہاں بیٹھی بیتے لمحوں کا شمار کرتی رہی تھی یہاں تک کے سیاہ بادل برسنے لگے۔ تب وہ اٹھی اور پہاڑ کی ڈھالاں سے اترنے لگی۔
وہ پری کو سیڑیوں پر موروں کے پنجرے کے قریب کھڑا تیز بارش میں بھیگتا ہوا دیکھا تھا۔ وہ بہت اداسی سے ترک زبان میں ان موروں کو کوئی گیت سنا رہا تھا، سبز اور نیلے پنہکھ فیلاے مور ناچ رہا تھا۔ افق کے سر پر پی کیپ نہیں تھی۔ بارش نے اسکا پورا جسم بھگو ڈالا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔💓💜💛💚💛💚💜💗۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسے یوں بارش میں دیکھ کھڑا دیکھ کر اسے بہت غصہ آیا تھا۔
" کیوں کھڑے ہو تم ادھر ؟جاؤ اپنے کمرے میں۔ کتنی مرتبہ کہوں تم سے یہ بت؟ سمجھ میں نھیں آتی تمہیں؟ ابھی تمہارا بھی نہیں اترا ۔جاؤں جا کر آرام کرو"
وہ غصے سے بلند آواز میں چلائی تھی۔ سر پر ٹرے رکھ کر بارش کے پانی سے بچتے اس ویٹر نے جو تیزی سے سیڑیاں پہلانگتے ہوئے اتر رہا تھا، حیرت سے گردن پھیر کر ایک لمحے کو اسے دیکھا ضرور تھا،جو خود بارش میں بھیگتی اسے ڈانٹ رہی تھی۔
"تمہیں کوئی حق حاصل نہیں مجھ پر حکم چلانے کا! "وہ بھی جوابا چلایا تھا۔ ایک لمحے کو وہ چھپ سی ہوگئی۔ واقعی کہاں حق رکھتی تھی وہ ایک اجنبی پر؟
"ٹھیک ہے پھر مرو اس بارش میں"۔
وہ تیزی سے سڑیاں پہلانگتی اوپر آگئی۔ لان میں تین بندر اٹکہیلیاں کر رہے تھے۔ لان کو بھاگتے ہوئے عبور کرتے اس نے راستے میں پڑی منرل واٹر کی خالی بوتل اٹھا کر میز پر چڑھے بندر کو زور سے ماری، بندر سہم کر جھاڑیوں کے پیچھے گم ہوگیا۔
وہ بارش میں بھیگتی کمرے تک آئی تھی۔ ایک بارش سوات کے پہاڑوں پر ہو رہی تھی، ایک اس کی آنکھوں سے برس رہی تھی۔ وہ خود پر کمبل تان کر پوری دنیا سے چھپ کر رونے لگی۔ ارسہ اور نشاء پر سکون سو رہی تھیں۔
باہر موسلا دھار بارش میں چوڑی سیڑیوں کے درمیان موروں کے پینجرے کے ساتھ کھڑا افق ارسلان ابھی ٹک بھیگ رہا تھا۔
وہ تمام دن کمرے میں رہی تھی پھر جب دن ڈھل گیا اور افق پر سیاہی پھیلنے لگی تو وہ ٹی وی کے اگے سے ہٹی ،جس پر پی ٹی وی اور جیو کے سوائے کوئی چنیل نہیں آتا تھا۔ اس نے رات کا کھانا بھی نہیں کھایا، پھر نشاء اسے زبردستی اٹھا کر وائٹ پلس کے باہر بنی دکانوں تک لے آئی ۔اس کو سواتی شالوں اور قیمتی پتھروں کی شاپنگ کا کوئی شوق نہیں تھا، مگر محض نشاء کا ساتھ دینے کو وہ کافی دیر تک وہاں سرکھپاتی رہی۔
دونوں واپس آئیں تو وائٹ پلس کی سفید عمارت کے سامنے پھیلے وسیع و عریض لان کے وسط میں دائرے کی صورت میں احمر صاحب، شہلا ،آفتخار ،ارسہ اور افق بیٹھے تھے۔ افق کے پیچھے سنگ مر مر کی سفید بینچ تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔💛💚💜💖💜💛💚💖۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس سے ٹیک لگاۓ وہ ایسے بیٹھا تھا کے دائیں ٹانگ گھاس پر پھیلا رکھی تھی بایاں گھٹنا سیدھا کھڑا تھا۔ وہ خاموشی سے سر جھکائے گھاس کے تنکے نوچ رہا تھا۔ اس کی پی کیپ اس کے سر پر تھی
احمر صاحب اور باقی افراد کسی بحث محو تھے۔ نشاء بھی شامل ہوگئی ۔صرف اور وہ اور افق خاموش تھے۔ وہاں وائٹ پلس کے برآمدے سے انے والی روشنی اور چاند کی چاندنی کے کے الوہ دوسری کوئی لائٹ نہیں تھی جس کے باعثاس کا چہرہ ٹھیک سے نہیں دیکھ سکی تھی۔ مگر وہ اسے صبح کی نسبت بہتر لگا تھا ۔
"اتا ترک کے بارے میں تمہارا کیا خیال ھے، افق؟ "احمر انکل بحث کو مشرف سے اتا ترک ٹک لے گے تھے، ان کے پکارنے پر اس کی گھاس نوچتی انگلیاں رکیں، اس نے چہرہ اونچا کیا تو چمکتی چاندنی نے اس کے چہرے کے خدو خال کو قدرے واضح کیا تھا۔ نقاہت اور بیماری واضح تھی
"اتا ترک؟ "اس نے دہرآیا پھر شانے اچکادیے۔
"وہ ترکوں کا۔ باپ تھا"
"باپ کبھی بچے کی غلط رہنمائی کرتا" احمر صاحب سے پہلے ہی پریشے تیزی سے بولی۔ وہ خفیف سا مسکرایا۔
"تم ٹھیک کہہ رہی ہو میں اردگان کا حامی ہوں۔ "اسنے اپنی پی کیپ کی جانب کچھ اشارہ کیا ض جیسے وہ سمجھ نہ سکی۔
"ویسے میں نے سنا ہے تمہارا ڈکٹیٹر اتا ترک کو آئیڈیالائز کرتا ہے اور روانی سے ترک زبان بولتا ہے؟ "قدرے توقف سے اس نے سوال کیا
"وہ اس لیے کے ہمارے ڈکٹیٹر کو اس کے علاوہ اور کوئی کام نہیں ہے" نشا ڈکٹیٹر کے ذکر سے چڑ گئی۔
"نشا یہ ڈکٹیٹر پادشاہ (padshah) ہوتے ہیں۔ پادشاہوں سے بھی زیادہ اختیار ہوتے ہیں ان کے پاس۔ ویسے میں نے سنا ہے کہ تمہارا پادشاہ ۔۔۔۔یورپ اور امریکا سے انے والوں کی بہت قدر کرتا ہے۔ مجھے تو اسنے آج تک نہیں پوچھا۔ شاید اس لیے کے میں مسلمان ہوں؟ "
"فکر مت کرو۔ تم رکاپوشی سر کر لو، تمہیں کوئی ایوارڈ دلوا ہی دیں گے! "نشا نے کہا۔
"کون سا ایوارڈ؟ نشان حیدر؟ "وہ دلچسپی سے بولا۔ ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔💜💛💚💗💜💛💚💖۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"نہیں نہیں۔وہ تو شہید ہونے کے بعد ملتا ہے اور ملٹری عزاز ہے۔ خیر تم پہلے کوئی پاکستانی پہاڑ سر گو کرو قومی عزاز کے بارے میں بعد میں سوچیں گے" ۔
وہ بدمزہ سا ہو کر پیچھے ہوا۔ "میں گیشر بروم ٹو، براڈ پیک اور نانگا پر بت سر کر چکا ہوں۔
تمہارے صدر نے مجھے کبھی نہیں بلایا۔ اب تو میں نے امید لگانا بھی چھوڑ دی ہے" وہ بہت مصنوعی افسوس سے کہہ رہا تھا۔
"تم نے نانگا پر بت سر کیا ھے؟ دی کلر ماؤنٹین؟"پریشے چونکی تھی۔
"ہاں" ؛وہ کیپ ٹھیک کرتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔
"میں چلتا ہوں، آپ لوگ باتیں کریں"۔
پری کی نگاہوں نے لان عبور کر کے سیریان چڑتے افق کا دور تک تعاقب کیا تھا، آج وہ موروں کے پنجرے کے پاس نہیں روکا تھا تھا۔
محفل جاری تھی جب وہ وہاں سے اٹھ کر اوپر آگئی۔ وہ افق کو تلاش کر رہی تھی۔ وہ مستطیل لان میں نہیں تھا، نہ ہی اپنے کمرے کے آگے بنے برآمدے میں، وہ تو اپنے کمرے میں بھی نہیں تھا۔ لان میں اس رات بندر بھی نہیں تھے۔
وہ تیسری منزل پر آگئی۔ ایک نگاہ میں اس نے اطراف کا جائزہ لیا۔
چوکور احاطے کے دائیں طرف کونے میں اگے جا کر ایک بالکونی بنی تھی۔ اسے وہاں افق کی جھلک دیکھائی دی۔ وہ وہیں آگئی۔
وہ بالکونی پورانے وقتوں کے محلوں کی طرز پر بنی تھی۔ اس کی ریلنگ اونچی تھی جس پر کہنیاں ٹکاے وہ قدرے جھک کر نیچے جہرنے کو دیکھ رہا تھا۔ وہ اس کے عقب میں آکر کھڑی ہوگئی۔ اس کی کیپ کا پچھلا حصہ اس کے سامنے تھا، اس پر سفید مر کر سے کسی نے ہاتھ سے لکھ رکھا تھا،
۔ Hail to tayyip erdogan اس نے یہ فقرہ پہلی بار نوٹ کیا تھا۔
افق اپنے گردپیش سے بے خبر دھیمی آواز میں کچھ گنگنا رہا تھا۔
"سون اکشام استورین ۔۔۔۔انجے بانا سوزویر۔ ۔۔"
یک دم کسی کی موجودگی کا احساس کر کے اس نے پلٹ کر پیچھے دیکھا۔
"تمہاری کیپ پر طیب کے بے غلط لکھے ہیں، طیب کے آخر میں "B" آتا ہے، تم نے "P" لکھا رکھا ہے۔ "اس کے خود کو سولیہ نظروں سے گھورنے پر جو اس کے منہ میں آیا وہ بول پڑی
۔۔۔۔۔۔۔۔💜💛💚💖💛💚💜💖۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"میں نے نہیں لکھا۔ "چہرہ واپس جھرنے کی طرف موڑ کر وہ بے نیازی سے بولا، یہ جینیک کی کیپ ہے اس نے لکھا ہے۔ ترک زبان میں "B" کی جگہ "P" استمال ہوتا ھے یہ اس نے انگریزی میں اس لیے لکھا ہے کے وہاں ترک میں لوگ انگریزی سے نابلد ہیں۔ اور وہاں کی ملٹری ،اردگان کو پسند نہیں کرتی۔
"مگر تمہاری انگریزی تو بہت اچھی ہے" وہ اس کی طرح ریلنگ پر کہنیان ٹکاے کھڑی ہو گئی۔ فرق یہ تھا کے وہ سامنے دیکھ رہا تھا اور وہ اسے۔
"میں بچپن میں کافی عرصہ امریکا میں رہا ہوں، شاید اس کا اثر ہو"
"اچھا تم نے جینیک کی کیپ کیوں لے رکھی ہے" ؟
"میں مصر جا رہا تھا تو انقرہ کے ایئرپورٹ پر یونہی مزاق میں، میں نے اس کے کیپ چھینی اور اس نے میری۔ بس پھر بعد میں واپس ہی نہیں کر سکا" ۔وہ رکا اور قدرے توقف سے بولا۔
"ہم دونوں انجنیر ہیں اور سائٹ پر جاتے ہوۓ کیپ لیتے ہیں کہ دھوپ ہوتی ہے، تو بس عادت پڑگئی ہے۔
"اور یہ مفلر؟" اس نے گردن میں موجود مفلر کی طرف اشارہ کیا۔ افق نے گردن جھکا اسے دیکھا۔
"یہ مفلر نہیں ہے۔ یہ ترکی کا جھنڈا ہے"
"اوہ! " وہ حیران ہوئی، میں تو اسے مفلر سمجھی تھی" ۔
"میں اسے رکاپوشی پر لہرانے کو لایا ہوں۔ "وہ پھر سے اندھیرے میں دیکھنے لگا تھا۔ وہ اس کی جانب دیکھنے سے دانستہ گریز ترچھی کر کے اسے دیکھا۔
"تم ابھی کیا گا رہے تھے؟
"کچھ نہیں۔ ۔۔ہمارا ایک لکھاری ہے احمت اومت، اس نے لکھی تھی۔ ایک نظم ہے۔ ۔۔۔۔۔پھر وہ رخ پھیر کر ریلنگ سے ٹیک لگا کر کھڑا ہوگیا اور دونوں بازو سینے پر باندھ لیے۔
"کیا۔ مطلب ہے اس کا؟ "
افق اس کا مطلب سمجھانے لگا۔
"مجھے سناؤ نا۔ ویسے ہی جیسے تم ابھی گنگارہے تھے۔ "وہ ضد کر رہی تھی۔ چند لمحے خاموش رہا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔💜💛💚💖💜💛💚💗۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر وہ بہت مدھم آواز میں گنگنانے لگا۔
"سون اکشام استودیں۔۔۔۔انجے بانا سوزویر۔ ۔۔"
"زندگی کے سفر میں بکھرنے سے
ملن کی آخری شام کے ڈھالنے سے
اور ایک دوسرے کی سانسوں
دھڑکنوں کی آخری آواز سننے سے
کہ جس کے بعد تم میری دنیا سے دور چلے جاؤگے
تمہیں مجھے سے
ایک وعدہ کرنا ہوگا
کہ جب بھی سورج طلوع
اور انا طولیا کی گلیوں میں روشنی
کے قطروں کی طرح گرے گی
اور ارا رات کے جامنی پہاڑوں پر جمی برف پگہلے گی۔
اور پھر جب اس برف میں دبی داستان مر مرا کے
پانیوں میں بہ جاۓ گی۔
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
*_Save my number for Status view:0306__4626678_*
*_Channel owner and Noval writer:Akbar Ali Khan_*
❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️
تب تمہیں مجھے سے ایک وعدہ نبھانا ہوگا
کے اس رات کے بعد اپنی زندگی میں انے والی
ہر صبح کی ٹھنڈی ہوا
اور ہر بارش کے بعد گیلی مٹی
اور جامنی پہاڑوں پر دودھ کی سی
جمی برف کو دیکھ کر
تم مجھے یاد کرنا
کے یہ میرا تم پر
اور تمہارا مجھے پر
قرض ہے
وہ اسی مدھم سر میں ریلنگ سے ٹیک لگاۓ، آنکھیں موندے گنگنا رہا تھا اور وہ اس کے لہجے میں اس کی آواز میں کھوئی ہوئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔💜💛💚💖💛💚💜💖۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Continue
❤️
❤
🆕
👍
😮
🌹
📚
😢
🤨
26