Noval Warld Urdu Poetry Sad Funny Mix Jokes Hd Status Urdu Stories Islamic ❤️
June 11, 2025 at 02:03 PM
#قراقرم_کا_تاج_محل
#پانچویں_چوٹی
Episode 5 (Part 2)
___________________
دفتا بادل گرجے تو افق چونک کر رک گیا اور گردن اٹھا کر سیاہ تاریک آسمان کو دیکھنے لگا۔
"چلو چلتے ہیں، بارش ہونے لگی ہے" وہ چل پڑا۔ پری اس سے پیچھے، اس کے جوتوں کے نشانات پر جو گھاس میں گم ہو رہے تھے، پاؤں رکھتی چلنے لگی۔
نیچے، اپنے کمرے کی چوکہٹ پر پہنچ کر، دروازہ بند کرنے سے پہلے افق نے ایک لمحے کو رک کر اس کی آنکھوں میں دیکھا۔ آئی ایم سوری۔ ۔۔۔آئی ایم سوری فار ایوری تھنگ۔ "صبح والے واقع کے متعلق دھیمے سے کہہ کر اس نے دروازہ بند کردیا۔ وہ بے اختیار مسکرا دی۔
جمرات ،28جولائی 2005ء
سوات کے پہاڑوں پر ٹھنڈی، پر نم اور بادلوں سے ڈھکی صبح اتری ہوئی تھی۔ سورج ابھی پوری طرح طلوح نہیں ہوا تھا، کل کی طرح آج بھی بادلوں نے آسمان کو اپنی راجدہانی بنایا ہوا تھا۔ مگر آج ان کا رنگ ہلکا تھا۔
"خدا کرے آج بارش نہ ہو" اپنے کمرے سے باہر برآمدے میں آتے ہوئے اس نے دل ہی دل میں بے اختیار دعا مانگی تھی۔ آج انھیں سوات سے کالم جانا تھا۔ کالام تھا تو ضلع سوات تہصیل ہی مگر پھر بھی لوگ مینگورہ اور سید و شریف کو ہی سوات بولتے تھے۔
برآمدے سے باہر لان کے وسط میں جس جگہ کل وہ نماز پڑھ رہا تھا، آج بھی ادھر ہی بیٹھا تھا پر آج وہ نماز نہیں پڑھ رہا تھا۔ اس نے کیپ الٹی کر کے پہن رکھی تھی، پاؤں میں جرابیں تھیں اور جینز کے پائنچے اوپر تہ کیے ہوئے تھے اور آنکھیں بند کیے وہ بلکل گو تم بدھا کے انداز میں ہاتھ گھٹنوں پر رکھے یوگا کر رہا تھا۔
وہ دبے قدموں سے چلتی اس کے عاقب میں آئی جوتے ایک طرف اتارے اور اس کے پیچھے دائیں طرف اسی بدھا والے انداز میں التی پالتی کر کے بیٹھ گئی۔
افق نے آنکھیں کھولیں اور ہاتھوں کی پوزیشن بدلنے ہی لگا تھا کے کسی احساس کے تحت سر پیچھے کر کے دیکھا۔پریشے کو اپنے پیچھے یوگا کے انداز میں بیٹھے دیکھ کر اسکی آنکھوں
۔۔۔۔۔۔۔۔💜💛💚❤💜💛💚💙۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں خوشگوار حیرت در آئی ۔
"صبح بخیر۔۔۔یوگا؟ "اس نے یک لفظی استفسار کیا۔
"صبح بخیر۔ ۔۔۔ہاں، یوگا! "
وہ گھاس پر لیٹ گیا، بازو سر کے پیچھے کر کے پاؤں کیاری کی اینٹوں تک لمبے کیے اور فلور پوز کرتے ہوئے پوری قوت سے اینٹوں کو دھکیلا۔
"کب سے کر رہی ہو یوگا" ؟
"دو منٹ پہلے سے" وہ اپنے جواب پر خود ہی ہنس پڑی ۔
"واقعی؟ "گھٹنے کو لیٹے لیٹے سینے تک لے جاتے ہوئے افق نے حیرت سے اسے دیکھا۔
"نہیں۔ ۔میں سولہ سال کی عمر سے یوگا کر رہی ہوں"
"تب ہی تم اپنی عمر سے کم دکھائی دیتی ہو" وہ اب بائیں گھٹنے کو آہستہ آہستہ اوپر نیچے کر رہا تھا۔
"شکریہ۔ ۔۔۔میں کتنے سال کی دکھائی دیتی ہوں؟ "
"سولہ سال کی! "
"میرا خیال ہے اب تم جھوٹ بول رہے ہو"
"جھوٹ نہیں، مبالغہ آرائی ۔"وہ ہولے سے ہنسا" تم اکیس بائیس برس کی عمر کی لگتی ہو۔ اس سے زیادہ نہیں" وہ یوگا چھوڑ کر لان میں رکھی سفید کرسی پر جا بیٹھی۔
"کیا ناراض ہوگئیں؟" وہ ماؤنٹین پوز کرنے کے لیے کھڑا
ہوگیا تھا۔
"اونہوں" اس نے نفی میں گردن ہلائی،
"میں ہفتے میں تین دن یوگا کرتے ہوں، آج وہ دن نہیں ہیں"
وہ سر ہلا کر خاموشی سے یوگا کرتا رہا۔ کتنی ہی دیر خاموشی چھائی رہی۔ دور جنگل سے جانوروں کے بولنے کی آوازیں وقفے وقفے بعد سنائی دے رہی تھیں۔
"کتنے بجے جانا ہے کالام؟ "وہ اس سے کوئی بات کرنا چاہتی تھی، سو یہی پوچھ لیا۔
"ظفر نے آٹھ بجے کہا تھا" اپنی مشق ختم کر کے اس نے گھاس پر رکھی کیپ، جو اس نے لیٹنے سے پہلے اتار دی تھی، اٹھا کر سر پر رکھی اور میز پر پڑی گھڑی اپنی بائیں کلائی میں پہننے لگا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔💙❤💙❤❤💙❤💙۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"تم کتنی دفعہ ان علاقوں میں آچکے ہو؟ "
"دو مرتبہ پہلے آیا تھا، ایک بار تب جب گیشر بروم ٹو سر کرنے آیا تھا اور دوسری بار دو سال پہلے" وہ گھاس پر بیٹھا جوگرز پہن رہا تھا۔
"دو سال پہلے کیوں آئے تھے؟
"یونھی"وہ سر جھکاے جوگرز کے تسمے بند کرتا رہا۔ پریشے جواب کے انتظار میں اس کے ہاتھوں پر نگاہیں مرکوز کیے رہی، بائیں کلائی میں پہنی گھڑی کو آج پہلی دفعہ اس نے غور سے دیکھا تھا۔ اس کے سیاہ چمکتے ڈائل کے درمیاں میں ہیروں کا چھوٹا سا اہرام بنا تھا۔
"اچھی ہے نا میری گھڑی؟ سکندریہ سے لی تھی۔ مصری اپنا ٹریڈ مارک ہر چیز میں بہت اچھے سے ڈالتے ہیں" وہ ہنس کر کہتا ہوا پینٹ جھاڑتا اٹھ کھڑا ہوا۔
"یہ ہمارے وائٹ پلس میں آخری دو گھنٹے ہیں آؤ یہاں گھومتے پھرتے ہیں"وہ اسکے ہمراہ سیڑیون کی طرف چلی آئی۔
"تم نے وہ کمرہ دیکھا ہے پہلی منزل، جسے رائل سویٹ کہتے ہیں، وہ سیڑیوں سے اترتے ہوئے۔ اس کو اس تین سو سال قدیم وائٹ پلس کی تاریخ بتانے لگا اس نے بے اختیار جماہی روکی۔
"یہ ہوٹل پہلے والیء سوات کا محل تھا پھر۔ ۔۔"وہ سیڑیاں اترتے ہوئے اسے بہت کچھ بتا رہا تھا۔ وہ بور ہونے لگی تھی۔ اسے وائٹ پلس کی تاریخ سے کوئی دلچسپی نہیں تھی مگر محض جس کا دل رکھنے کو وہ سنتی رہی۔
موروں کا پنجرہ پیچھے چھوڑ کر وہ نیچے روش پر آئے تو وہ بڑا سالان خاموشی میں ڈوبا تھا۔ لان کے اختتام پر ناشپتی کا درخت تھا، جس کے ساتھ کرسی ڈالے بوڑھا سیکیورٹی گارڈ بیٹھا تھا۔
"تم کیا ہر سال یونھی سیر و سیاحت کے لیے نکل جاتے ہو؟ "وہ دونوں چلتے چلتے لان کی ایک طرف بنے نیلی ٹائلز والے فوارے کی منڈیر پر بیٹھ گے۔
"ہر سال؟ میں تو سال کے دس مہینے نگر نگر پھرتا ہوں۔ میں پیدائشی سیاہ ہوں۔ مجھے ہر جگہ ایکسپلور (دریافت )کرنے کا شوق ہے۔ اس کل گھوم پھر کر دیکھنے کا شوق ہے۔ سیاحت زندگی بدل ڈالتی ہے۔ آپ ایک دفعہ پہاڑوں پر نکل جائیں تو واپسی پر آپ ویسے نہیں ہوتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔💙❤💙❤💙❤💙❤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ بدل جاتے ہیں پہاڑوں کا سفر انسان کو بدل ڈالتا ہے۔ اس کے بعد "the life is never same again .
میمز نے کہا ths، اگر عالمی لیڈرز چند دن کسی پہاڑ پر اکٹھے چڑتے گزار دیں، تو دنیا کے تمام معملات اور مسائل حل ہوسکتے ہیں اور اگر دو اچھے کوہ پیما بھی چند دن رکاپوشیپر ساتھ گزاردیں تو یقین کرو ان کے بھی سارے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ "افق نر بڑی سنجیدگی اور معصومیت سے کہا تھا وہ مسکرا دی۔
"ہوسکتا ہے مسائل بڑھ جائیں"
"کم آن۔ تم ایک کلائمبر ہو، تمہیں دنیا کا سب سے خوبصورت پہاڑ دیکھنا چاہیے"
"میں نے تصویر میں دیکھ رکھا ہے" "تمہیں اسے سر کرنا چاہیے"!
"وہ میں خیالوں اور خوابوں میں کئی دفعہ کر چکی ہوں"
"مگر تمہیں "میرے" ساتھ سر کرنا چاہیے۔ اس نے "میرے" پر زور دیا۔
"نا ممکن ہے کیوں کے پاپا مجھے قراقرم کی شکل دوبارہ نہیں دیکھنے دیں گے، میں انھیں اچھی طرح جانتی ہوں۔ یہ گارڈ کہاں جا رہا ہے؟ "اس کے اصرار سے بچنے کی خاطر اس نے اس کی توجہ بوڑھے گارڈ کی طرف دلائی ،جو کسی کام سے ہوٹل کی عمارت کی طرف جا رہا تھا۔ افق نے گردن پھیر کر اسے دیکھا۔ "اس کو شاید کسی نے بلایا ہے۔ "
"تم نے کبھی چوری کی ہے؟ "افق نے گردن واپس گھما کر آنکھیں سکیڑ کر مشکوک نظروں سے اسے دیکھا ۔"نہیں" !
"میں نے بھی نہیں کی مگر اب دل کر رہا ہے"
"چوری کرنے کا" ؟
"نہیں تم سے کروانے کا" اس نے معصومیت سے کہا۔
"مطلب کیا ہے تمہارا" ؟افق نے اسے گھورا ۔
"تم جانتے ہو، تم بہت گڈ لوکنگ ہو"
"میں خوشامد سے متاثر نہیں ہوتا۔ سوری" !
"اور تم ایک بہت اچھے انسان بھی ہو" ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔❤💙❤💙💙❤💙❤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"میں سچ سن کر بھی غلط کم نہیں کرتا"
"اور میں دعا کروگی کے تم راکاپوشی سر کر لو۔ اگر تم مجھ اس درخت پر سے ایک ناشپتی لادو تو" !
وہ چند لمحے خاموشی سے اسے گھورتا رہا پھر بولا۔
"بہت بہتر ۔لاتا ہوں" وہ چند قدم فاصلے پر اگے درخت تک گیا اور ہاتھ بڑھا کر ایک شاخ کو اتنی زور سے پکڑا کے اس پے بیٹھی چڑیا سہم کر اڑ گئی۔
"اوہ۔ تم نے اسے ڈرا دیا" پری نے تاسف سے آسمان پر اڑتی چڑیا کو دیکھا۔
شاخ ہاتھ میں پکڑے،افق نے رک کر بغور اسے دیکھا۔ پھر مسکرا دیا۔
"تم میری زندگی میں انے والی پہلی لڑکی ہو، جو چڑیا کی پرواہ اور موروں سے سوری کرتی ہے"
(زندگی میں؟ کیا وہ اس کی زندگی میں آچکی تھی؟)
"ادھر ترکی میں ہوتی ہیں ناشپاتیاں؟"اس نے بے تکا سوال کیا۔
"ترکی میں سب کچھ ہوتا ہے" اس نے ہاتھ بڑھا کر ایک موٹی تازی رسیلی سی ناشپتی توڑی ۔
"اس کو میں مبالغہ آرائی کہوں؟
"نہیں، تم اس کو ایک محب وطن ترک کا فخر کہو" وہ مسکراتا ہوا ناشپتی لیے اس کے قریب لے آیا۔
"یورہائنیس، ایک ترک سیاہ کی طرف سے یہ حقیر سا تحفہ قبول فرمایں "اس نے ناشپتی ہتھیلی پر رکھے اس کی طرف بڑھائی۔
"شکریہ، ویسے کیا سارے ترک چوری کے تحفے دیتے ہیں" ؟اس نے اسے چڑاتے ہوئے ناشپتی اٹھالی۔
"کوئی پری مانگے تو دے بھی دیتے ہیں" وہ اس کے ساتھ بیٹھ گیا وہ دونوں فوارے کے کنارے بیٹھے تھے اور ٹانگیں نیچے لٹکا رکھی تھیں۔
"یہ۔ ایک یادگار ناشپتی ہوگی ۔میں شروع کروگی اور تم ختم۔ ٹھیک؟ "پری نے ناشپتی کی ایک بائٹ لی، اس کا ذائقہ منہ میں محسوس کیا اور اگلے ہی پل اس کی ہنسی چھوٹ گئی۔
"ہنس کیوں رہی ہو؟ "
"یہ ناشپتی نہیں ہے افق! ہمارے ساتھ تو دھوکا ہوگیا۔ یہ تو ببو گوشہ ہے" وہ مسلسل ہنسے جارہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔💜💛💚💖💜💛💚💖۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"اور کرو چوریاں ۔دیکھ لیا، یہ ہوتا ہے چوری کا انجام۔ تم ناشپتی سے ملتے جلتے پھل کو ناشپتی سمجھ کر دھوکا کھا گئیں۔ بہت اچھا ہوا" وہ مصنوعی انداز میں ڈانٹ رہا تھا وہ ہنستی جارہی تھی۔
"اچھا سنو، مجھے بھی چکھاوء اور اس کو ختم نہیں کرنا۔ یہ ہم اس فووارے کے پیچھے رکھ دیگے ۔
یہ ایک یادگار ہے۔ کبھی ہم دوبارہ ادھر آئے تو اسے ضرور ڈھونڈیں گے" اس نے ایک بائٹ لے کر آدھا کھاۓ بگو گوشے کو فوارے کے پیچھے کر کے ایک جگہ چھپا دیا اور وہ جو ہنسے جا رہی تھی یک دم رک گئی۔
"کبھی ہم دوبارہ ادھر آئے ۔۔۔؟ہم۔۔۔؟افق نے "ہم" بولا تھا مگر کیوں؟ "
اس نے ایک نگاہ اپنی انگلی میں پہنی انگوٹھی پر ڈالی اور پھر سر جھکا لیا۔ مستقبل کسی آٹھ ہزار میٹر پہاڑ کی چوٹی کی طرح دھند میں لپٹا تھا
جمعہ ،29 جولائی 2005ء
"ارسہ تم اپنے ناول میں یہ بھی لکھنا کے جب ہم لوگ ۔۔۔سوری ،میرا مطلب ہے جب تمہارے کردار کلام کی مال روڈ اور پہنچے تو وہاں مری مال روڈ کی طرح رش تھا، پورے پاکستان کی لوفر لڑکے وہاں جمع تھے اور یہ بھی لکھنا کے کلام سے روز صبح نو بجے کرائے کی لینڈ کروزر،جیپیں پجاروز دو مختلف "روٹس"پر جاتی ہیں اور سنو تم یہ بھی لکھنا کے تمہارے کردار آنسو جھیل والے روٹ کے بجاۓ ماہوڈ ھند جھیل والے روٹ پر جارہے تھے، ہماری طرح ۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔"
وہ چاروں اگے پیچھے مال روڈ کے کنارے پر چلتے ہوئے دائیں طرف بہتے دریا پر بنے پل کی طرف جا رہے تھے، جس کے دوسری طرف سڑک پر لینڈ کروزر اور پراڈوز کی لمبی قطار کھڑی تھی، ان کرائے کی گاڑیوں کے ماہر ڈرائیور اپنے اپنے مسافروں کا انتظار کر رہے تھے۔
"اگے میں بتاتا ہوں ارسہ! اگے تم لکھنا، ان کے پاؤں کے نیچے سڑک تھی اور سر پر آسمان تھا اور دریا کا پانی بہت شور مچاتا تھا۔ ۔۔"وہ ارسہ کو۔ جس طرح کے مشورے دے رہے تھی، اس انداز میں نکل کرتے ہوئے وہ بولا تو پریشے نے برا سا منہ بنایا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔❤💙💙❤💙❤💙❤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"زیادہ بولنے کی ضرورت نہیں ہے تمہیں۔ میں صرف اسے مشوارہ دے رہی تھی۔
"ہاں تو میں بھی مشوارہ ہی دے رہا ہوں۔ "وہ اسے چڑا رہا تھا، وہ خفگی سے سر سب سے تیز چل کے اگے نکل گئی۔
"سنو ارسہ! ایک خبر سناؤ؟ "پیچھے آتے افق نے دانستہ آواز میں محض اسے چڑانے کے غرض سے کہا، پری نے چلتے ہوئے دونوں ہاتھ کانوں پر رکھ لیے۔
"ارسہ ،توماز ہومر پاکستان میں ہے"
کانوں پر ہاتھ رکھنے کے باوجود اسے سنائی تو دیا تھا، خبر ہی ایسی تھی کے وہ جھٹکے سے پوری آنکھیں کھول کر اس کو دیکھا۔ "واقعی؟ کدھر؟ کالام میں ہے؟ "
"میں تو ارسہ کو بتا رہا تھا" وہ تپانے والی مسکراہٹ کے ساتھ بولا۔
"ہاں تو اسے ہی بتاؤ میں کون سا سن رہی ہوں" اس نے شانے جھٹکے اور اگے نکل گئی۔
"ویسے ارسہ ،وہ نانگا پر بت جا رہا ہے"
"میں نہیں سن رہی" ۔پری نے کانوں پر ہاتھ رکھ کر اتنی بلند آواز میں کہا کے پاس سے گزرتے دو لڑکے رک کر اسے دیکھنے لگے۔
"تم لوگ کیا سڑک کے بیچ میں کھڑے ہو کر ٹین ایجیرز والی حرکتیں کر رہے ہو؟ تینوں کے گھورنے کا اسے احساس ہوا اور پھر پل پار کرنے تک وہ سارا راستہ خاموش رہی۔
وہ اس گرے اور سلوار پیراڈو پر ماہوڈ ہنڈ کے روٹ پر جارہے تھے زیادہ تر گاڑیاں ماہونڈ دھند ہی جارہے تھیں ،آنسوں جھیل کی طرف سیاح بہت کم جاتے تھے۔ کرائے کی ان گاڑیوں کے ڈرائیور پر خطر راستوں پر ڈرائیونگ میں مہارت رکھتے تھے۔ لاہور، کراچی میں گاڑی چلانے والا عام ڈرائیور کالام سے اگے کے ان راستوں پر گاڑی نہیں چلا سکتا تھا
وہ پراڈو کے ساتھ کھڑی ہوگئی۔ ڈرائیور اسے پہچان گیا تھا۔ کل شام کالام پہنچتے وقت پریشے ہی تو۔ تھی، جس نے ظفر کے ساتھ اس ڈرائیور سے آج کی سواری کا سودا طے کیا تھا۔ ظفر اسے بارہ سو دینا چاہتا تھا جب کے ڈرائیور پندرہ سو مانگ رہا تھا۔ پریشے کو تین سو روپے ک لیے بحث کرنا صہیح نہیں لگا، اس لیے اس نے معملا خود ہی طے کر دیا تھا۔
وہ پراڈو کے ساتھ کھڑی پل کی جانب دیکھنے لگی، جہاں وہ تینوں اگے پیچھے کھڑے تھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔❤💙❤💙💙❤💙❤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افق سب سے اگے تھا۔ سیاہ جینز ،مہرون شرٹ، سفید ٹورسٹ جیکٹ، گردن میں سرخ مفلر سر پر پی کیپ، پاؤں میں جوگرز اور کندھے پر بیک بیگ اٹھاۓ چیونگم چباتا وہ اسکی جانب آرہا تھا۔
ملتے رنگوں کے اس امتزاج پر پریشے کو حیرت ہوئی تھی، کیوں کے اس نے خود بھی سیاہ ٹراوززر کے ساتھ مہرون ،کشمیری کڑھائی والا کرتا اور بڑا سا ڈوپٹہ لے رکھا تھا۔ بالوں کو اس نے کیچر میں باندھ رکھے تھے اور پاؤں میں گلابی اور سفید جوگرز تھے۔
افق پراڈو کی اگلی جانب کے وہ تینوں پچھلی سیٹ پر بیٹھی تھیں۔ وہ ڈرائیونگ سیٹ سے بلکل پیچھے بیٹھی تھی تا کے اسے افق کا چہرہ ٹھیک سے دکھائی دے۔ اسے خود پر بھی حیرت ہوئی کے جب وہ مری میں تھے تو وہ اس سے بات تک نہیں کر رہی تھی۔ اور اب وہ کتنے اچھے دوست بن چکے تھے۔ اس سفر میں اسے پانچ دن بھی نہیں ہوئے تھے اور یوں لگتا تھا کے جسے صدیاں بیت گئی ہوں۔
پراڈو پر خطر راستوں پر دوڑنے لگی تو وہ کھڑکی سے بائیں طرف بہتے نیلے دریا کو دیکھنے کے بجاۓ افق سے پوچھنے لگی،۔
"تمہیں کیسے پتا کے توماز پاکستان آیا ہوا ہے؟ "
"میں اسکا میڈیا ایڈوائزر تو ہوں نہیں، ظاہر ہے اخبار میں ہی پڑھا ہے"
"تم اس سے کبھی ملے ہو؟ "اسے جاننے کا بہت اشتیاق تھا۔
"پریشے جہاں زیب، یہ کلائمبنگ ورلڈ بہت چھوٹی اور گول ہوتی ہے، یہاں درجنوں بار آپ ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں۔ میں توماز سے پچھلی بار نانگا پر بت پر ٹکرایا تھا، وہ آرہا تھا اور میں جارہا تھا "
"کیسا ہے دیکھنے میں؟ اتنا ہی گڈ لوکنگ جتنا تصویروں میں آتا ہے؟ "
🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸
*_Save my number for Status view:0306__4626678_*
*_Channel owner and Noval writer:Akbar Ali Khan_*
❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️
"اب میں اس سے جیلیس ہو رہا ہوں اس لیے پلیز اس موضوع کو بند کرو" وہ مسکین سی صورت بنائے ہاتھ جوڑ کر بولا تو وہ بڑبڑاتی ہوئی کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔
"ویسے پری" اس نے محض چھیڑنے کی غرض سے اسے پکارا،
"تمہاری گورنمنٹ ان علاقوں میں گیس کیوں نہیں لاتی؟ یہ لوگ دیار کی قیمتی لکڑی کو ایندھن کے طور پر استعمال کرتے ہیں"
"گورنمنٹ وردی اتار دے یہ بہت ہے۔ گیس بھی آتی رہے گی" نشاء گورنمنٹ کے ذکر پر بدمزہ ہوگئی تھی۔ وہ ہنس پڑا۔ پریشے خاموش رہی کیوں کے غیر ملکیوں کے سامنے وہ اپنے ملک کی کسی ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔❤💙❤💙جاری ہے💙❤💙❤۔۔۔۔۔۔۔۔۔
@everyone
❤️
❤
🆕
😡
😢
😮
🙏
30