Noval Warld Urdu Poetry Sad Funny Mix Jokes Hd Status Urdu Stories Islamic ❤️
June 11, 2025 at 02:03 PM
#قراقرم_کا_تاج_محل #پانچویں_چوٹی Episode 05 (Part 3) _______________________ خامی کے بارے میں بات نہیں کرنا چاہتی تھی۔ اس نے دل ہی دل میں دعا کی کے افق یہ موضوع چھوڑ دے ۔چور نظروں سے اسنے ارسہ کو بھی دیکھا۔ ارسہ نے بات سنی ہی نہیں تھی۔ وہ بیتابی سے کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے کچھ تلاش کر رہی تھی۔ "کیا ہوا ارسہ" ؟ "وہ۔۔۔۔ابھی آتا ہے تو دکھاتی ہوں۔ ۔۔پچھلے سال تو ادھر ہی تھا۔ پتا نہیں کدھر گیا وہ دور تک پھیلے پہاڑی سلسلے کو متلاشی نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔ "مگر تھا کیا" ؟ "پہاڑ تھا، پتا نہیں کدھر گم ہوگیا ہے" وہ فکرمند سی تھی۔ "لیں۔ ۔۔ان کی سنیں۔ پہاڑ کبھی گم ہوئے ہیں ارسہ میڈم "؟ افق خوب ہنسا تھا۔ ارسہ نے جسے سنا ہی نہیں۔ "مجھے لگتا ہے اس ڈرائیور کی گاڑی کے مالک سے کوئی دشمنی ہے، تب ہی اتنی تیز ڈرائیو کر رہا ہے۔ ابھی پھیہ ادھر ہوا اور ہم گے نیچے" نشا نے پریشے سے انگریزی میں کہا پری نے کھٹ سے وہی بات ڈرائیور سے کہہ دی۔ "باجی !یہ مارہ روز کا روٹ ہے، آپ نہیں گروگی ،اللہ خیر کرے گا" وہ جھنپ کر بولا ۔ "آپ" ایسے کہہ رہا ہے جیسے ہم اکیلے گریں گے، خود بھی تو ساتھ ہی گرے گا نا نشا زیر لب بڑبڑائی۔ اسے اتنے پر خطر راستے سے بہت خوف آرہا تھا۔ افق تصویریں بنا رہا تھا، ارسہ ابھی تک پریشانی سے کچھ ڈھونڈ رہی تھی۔ پریشے نے راستہ دیکھتے ہوئے پوچھا "کتنا فاصلہ رہ گیا ہے" ؟ "گھنٹے تک اشوویلی پہنچ جائیں گے" جواب افق نے دیا تھا۔ وہ آج بہت بول رہا تھا۔ خاصے ہشاش بشاش موڈ میں تھا۔ "پہلے اشوویلی رکیں گے پھر گلشئر پھر آبشار پر اور آخر میں وہ جگہ جہاں ہم آج رات گھاس پر گزاریں گے۔ پری! تم اس ملک میں رہتی ہو اور تم نے ابھی ٹک یہ جگہیں ۔۔۔ "وہ اگیا۔ وہ دیکھو بلکل سامنے۔ "ایک دم ارسہ خوشی سے چلائی تھی۔" وہ سامنے دیکھو ۔۔۔شاہگوری !" ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔❤💙❤💙💙❤💙❤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "شاہگوری؟ادھر؟ کالام میں؟ "پری نے اس کی نگاہوں کے تعاقب میں دیکھا، جہاں بلکل سامنے جامنی پہاڑوں کے سلسلے کے درمیان ایک الگ سا برف سے ڈھکا سفید پہاڑ کھڑا تھا۔ "یہ شاہگوری ہے؟ مگر شاہگوری تو سکردوسائیڈ پر ہے ۔۔۔قراقرم کے پہاڑوں میں۔ ۔۔ہے نا افق؟ "اس نے الجھ کر افق کو مخاطب کیا، مگر وہ اپنی گود میں رکھے کیمرے کو دیکھ رہا تھا، اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ "یہ شاہگوری نہیں ہے، مگر مقامی لوگ اسے شاہگوری کا چھوٹا بھائی کہتے ہیں۔ بلکل وہی اہرام نما شکل ہے اس کی۔ ویسا ہی دیکھتا ہے ناں؟ "ارسہ بڑی خوشی خوشی بتا رہی تھی۔ "واقعی۔۔۔بلکل ویسا ہی ہے" اس کے لہجے میں فخر اتر آیا تھا۔ آخر شاہگوری ،دنیا کو دوسری بلند ترین چوٹی اس کے ملک میں تھی، وہ فخر کیوں نہ کرتی؟ "ویسے افق شاہگوری کا نام کے ٹو کس نے رکھا تھا؟ "افق اپنے کیمرے میں مصروف تھا، اس نے جواب نہیں دیا۔ "افق !پری نے پھر اسے پکارا۔ "پتا نہیں، مجھے یہ سیٹ کرنے دو نا" وہ کیمرے پر جھکے بے زاری سی آواز میں بولا۔ پریشے نے بری طرح چونک کر اسے دیکھا۔ "میں بتاتی ہوں پری آپی! جب کپٹیں ٹی جی نے قراقرم کے پہاڑوں کا سروے کیا تھا تو اسنے جس ترتیب سے پہاڑ دیکھے تھے، اسی ترتیب سے ان کا نام رکھ دیا تھا۔ کے ون، کے ٹو ،کے تھری،اور کے فور وغیرہ"، "کے سے کیا مراد ہے" ؟نشاء نے پوچھا "۔k is for karakoram وہ مزے سے بولی "ہے نا پری آپی؟ "اس نے تائید چاہی "ہوں" پریشے نے تو اس کی بات ٹھیک سے سنی بھی نہیں تھی۔ وہ تو افق کو دیکھ رہی تھی جو سر جھکائے کیمرے کے بٹنز کو خوامخواہ دبا رہا تھا۔ صاف محسوس ہو رہا تھا کہ اس کا ذہن کہیں اور ہے۔ وہ ایک دم اتنا بیزار اور اکتا کیوں گیا تھا، وہ سمجھ نہیں سکی تھی۔ اشوویلی پہنچنے تک سارا راستہ وہ اور افق خاموش رہے تھے۔ وہ اپنے کیمرے پر جھکا رہا ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔💙❤💙❤💙❤💙❤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پریشے خالی الذہنی کی کفیت میں کھڑکی سے باہر، نیچے بہتے نیلے دریا کو دیکھتی رہی۔ کبھی کبھی اس کا دل چاہتا تھا کہ افق اس سے کچھ کہے۔ اپنے اور اس کے نا معلوم تعلق کی وضاحت کرے۔ اسے بتاۓ کے وہ اس کے لیے کیا سوچتا ہے۔ وہ جاننا چاہتی تھی کے ان دونوں کے درمیان اگر کچھ ہے تو وہ کیا ہے مگر یہ سب وہ اس سے کہنے سے قاصر تھی۔ اشو، فلک بوس پہاڑوں کے درمیان بنی ایک چھوٹی سی وادی تھی، جس کے درمیان نیلا دریا بہتا تھا۔ وادی میں سیاہوں کی خاصی گہماگہمی تھی۔ ان کی پراڈو کے ساتھ پجارو اور جیپیوں کا ایک پورا قافلہ کالام سے نکلا تھا، ان میں سے تقریبآ سب ہی گاڑیاں اشو میں رک گئی تھیں۔ باکی پیچھے آرہی تھیں "آؤ۔اس کیبن میں چلتے ہیں" یہ پہلی بات تھی جو ادھر آکر افق نے کی تھی۔ اس نے موڑ کر اسے دیکھا پھر اس کے پیچھے چل دی۔ سڑک کے دائیں طرف نیچے شور مچاتا نیلا دریا بہ رہا تھا۔ وہ جس طرف سے کیبن میں داخل ہوئے وہ کھلی تھی باقی تین طرف بند تھے۔ اور وہ کبین بلکل بلککونی لگ رہا تھا۔ کبین میں دونوں طرف لکڑی کے بنچ اور درمیان میں لکڑی کی بنی میز رکھی تھی۔ وہ ایک طرف کے آخری سرے پر ٹک گئی، تا کہ بائیں طرف بہتا دریا اچھی طرح دیکھ سکے۔ نشا اور ارسہ وہاں سے نہیں آئی تھیں، وہ کولڈ ڈرنک لینے چلی گئی تھیں۔ افق لکڑی کی ریلنگ کو تھامے جھک کر نیچے بہتے دریا کو دیکھ رہا تھا۔ "سنو" !اس نے افق کو پکارا، مگر دیوقامت سرمئی پتھروں سے ٹکراتے نیلے پانی کے شور اتنا تھا کے وہ سن نہ سکا۔ وہ اٹھ کر اس کے قریب آگئی۔ "سنو، تمہارا موڈ کیوں خراب ہوا تھا؟ "لکڑی کی ریلنگ سے پشت ٹکا کر ایسے کھڑی ہوگئی کہ دریا پشت پر اور افق سامنے تھا۔ وہ چونک کر سیدھا ہوا، "میرا موڈ؟ نہیں تو" ۔۔۔۔۔۔۔۔💙❤💙❤💙❤💙❤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "کبھی کبھی تم اتنے اجنبی بن جاتے ہو کہ۔۔۔۔"وہ رک گئی اور گردن پھیر کر پیچھے بہتے دریا کو دیکھنے لگی۔ "کہ"؟وہ بغور اسے دیکھ رہا تھا۔ "کہ مجھے خوف انے لگتا ہے" نیچے بہتے نیلے پانی اور اس کی سفید جھاگ پر نظریں جمائے وہ سر گوشی میں بولی ۔ "اچھا" ؟وہ ہولے سے ہنس دیا۔ پریشے نے رخ موڑ کر سنجیدگی نگاہوں سے اسے دیکھا۔ "اس روز جلیل کے ریسٹورنٹ میں بھی تم ایسے ہوگئے تھے۔ مجھے دکھانے کو بلی کو پیار کر رھے تھے۔ ہے ناں؟ " "تمہیں وہ بات ابھی تک یاد ہے؟ "وہ جواب دیے بنا گردن پھیر کر پانی کو دیکھنے لگی۔ "آئی ایم سوری فار ڈیٹ پری، میں۔۔۔۔بس۔ ۔۔پتا نہیں کبھی کبھی مجھے کچھ ہو جاتا ہے" اس نے گردن موڑ کر اسے نہیں دیکھا، وہ یونہی پیچھے بہتے دریا کو دیکھتی رہی۔ چند لمحے خاموشی کے نذر ہوگئے۔ پتھروں سے سر پٹخہتے پانی کے شور کے باوجود اسے بہت خاموشی محسوس ہو رہی تھی۔ "جانتی ہو پری! جب میں نے تمہیں مارگلہ کی پہاڑیوں پر پہلی دفعہ دیکھا تھا تو مجھے کیا لگا ؟مجھے لگا میں واقعی کسی پری کو دیکھ رہا ہوں۔ تم نے وائٹ اور پنک رنگ پہن رکھا تھا، تمہیں یاد ہے؟ میں یوں کبھی بھی اجنبیوں سے فرینک نہیں ہوتا، میری طبیعت کچھ اور ہے۔ موڈی کہہ لو، اکھڑ کہہ لو۔ ۔۔مگر تم سے بات کرنے کو میرا دل چاہا تھا" کیبن کی دائیں طرف دھوپ اندر انے لگی تھی، سورج کی شعاعیں براہراست پریشے کے چہرے پر پڑ رہی تھیں، وہ اس کے دائیں طرف آکر کھڑا ہوگیا، دھوپ۔ کا راستہ رک گیا تھا۔ "تمہیں دیکھ کر مجھے یوں لگا تھا جیسے میں تمہیں جانتا ہوں، ہزاروں برس سے جانتا ہوں، تم میری ذات کا وہ گمشدہ حصہ ہو، جو ٹوٹ کر الگ ہوگیا تھا۔ ہم دونوں صدیوں پہلے کسی اور دنیا میں بیچہڑے تھے اور اس روز مارگلہ کی پہاڑیوں پر پھر سے مل گئے تھے۔ تمہیں ایسا لگتا ہے پری؟ "بہت یشے نے سر جھکا لیا اپنے جوگرز تلے لکڑی کے تختوں کی درزوں سے اسے جھاگ اڑاتا نیلآ پانی نظر آرہا تھا۔ وہ کتنی ہی دیر اس کے جواب کا انتظار کرتا رہا، وہ کچھ نہ بولی۔ تب ہی اسے ارسہ کی آواز سنائی دی ،وہ افق کو بلا رہی تھی۔ اس نے سر اٹھا کر دیکھا۔ وہ چند گز فاصلے پر کھڑی دور ہی سے بہت ۔۔۔۔۔۔۔۔❤💙❤💙💙❤💙💙۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بلند آواز میں اسے کسی ٹریک کا بتا رہی تھی۔ وہ سر ہلا کر پریشے کے دائیں طرف سے ہٹ گیا سورج کی تیز شعاعیں اس کے چہرے سے ٹکرائی تھیں،اسے لگا وہ اس کے جانے سے ایک دم تنہا سی ہو گئی۔ بھری دھوپ میں بلکل تنہا۔ ارسہ کی طرف جاتے افق کی پشت کو دیکھتے ہوئے اس کی آنکھوں کے گوشے بھیگتے چلے گے۔ اس دونوں کا سات دونوں کا ساتھ تھا، دو دن مزید رہ گے تھے، پرسوں انہوں نے واپس لوٹ جانا تھا، پھر راستے اور منزلیں جدا ہو جانی تھیں۔ وہ اپنی شادی کی تیاریوں میں مگن ہو جاۓ گی اور وہ ترک کوہ پیما دنیا کی سب سے حسین چوٹی سر کر کے واپس چلا جاۓ گا اسے تو شاید یاد بھی نہ آئے کے مارگلہ کی پہاڑیوں پر جب بادل نیچے اترے ہوئے تھے، تب اسے بیچ سڑک پر ایک لڑکی ملی تھی وہ بھلا دے گا ک اس لڑکی کے ساتھ اس نے سوات کے مرغزاروں میں نو دن بتاۓ تھے، وہ نو دن جو صدیوں پر بھاری تھے۔ یہ سب جانتے ہوئے بھی ک وہ مسافر تھا اور وہ جانے کے لیے آیا تھا اور خود اسکی سیف سے تین ماہ بعد شادی ہونے والی تھی، وہ اس مسافر سے محبت کرنے لگی تھی سختی سے آنکھیں رگڑ کر وہ نیچے شور مچاتے دریا کو دیکھنے لگی۔ گلیشیئر پر گاڑی نہیں روکی گئی، ان کے خیال میں یہ وقت ضیاع تھا۔ آبشار تک کے سارے راستے میں گاڑی میں خاموشی چھائی رہی۔ نشا سو رہی تھی۔ ارسہ سٹیفن کنگ کا ناول پڑھ رہی تھی۔ اور افق کھلی کھڑکی پر کہنی جمائے مسلسل باہر دیکھ رہا تھا۔ اب دریا اس کی طرف تھا جب کے پریشے سامنے پربتوں پر نگاہیں ٹکائے کسی بیتے لمحے کے فسوں میں کھوئی تھی۔ اس کے ذہن میں افق کے الفاظ گردش کر رہے تھے۔ وہ کیا کہنا چاہتا تھا؟ وہ کیا نہیں کہہ رہا تھا؟ کوئی اظھار،کوئی اعتراف،کوئی اقرار؟ یا پھر وہ محض لفظوں سے کھیل رہا تھا اور وہ یک طرفہ محبت کا شکار تھی۔ جس قطرے جتنی محبت کو اس نے سیپ میں بند کردیا تھا، وہ قید رہ کر موتی بن گیا تھا۔ اسے یہ ادراک خاصی دیر سے ہوا تھا۔ وہ آبشار بہت بلندع سے گررہی تھی۔ اس کا منبع پہاڑ کی چوٹی کے قریب تھا، وہاں سے شروح ہو کر وہ کئی سوفٹ نشیب میں سڑک تک آتی تھی اور سڑک کے نیچے سے ہو کر اشو دریا میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔❤💙❤💙💙❤💙❤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سڑک کے کنارے کولڈڈرنک کارنرز بنے تھے۔ وہاں خاصی گہماگہمی تھی۔ ان کے انے سے پہلے بھی وہاں خاصی بڑی تعداد میں بچے، بوڑھے، نوجوان جوڑے اور فیملیز گھوم پھر رہی تھیں۔ چند لڑکے پتھروں پر چڑھتے ہوئے اوپر آبشار کے منبع تک جا رہے تھے۔ ایک سبز کیپ والا لڑکا سب سے اگے تھا۔ "مجھے یقین نہیں آرہا ک اتنی بڑی آبشار پاکستان میں ہے" نشاء نے ان تینوں کے ہمراہ پتھروں پر اوپر چڑھتے ہوئے بے اختیار کہا تھا۔ وہ پتھر آبشار کے کنارے پر ہی تھے، اتنے خطرناک کے ذرا پاؤں پھسلے اور بندہ پانی میں جاگرے۔ تیز رفتار بہتے پانی میں تو یوں بھی لاش نہیں ملا کرتی۔ "میں نے ہمیشہ خوبصورتی کے بارے میں ناران کا غان کا نام سنا تھا" "نشا مائنڈ مت کرنا مگر ناران کاغان اتنے خوبصورت نہیں جتنا ان کو کہا جاتا ہے ۔وہاں پہاڑ قدرے خشک ہیں اور واحد خوبصورتی جھیل سیف الملوک ہے، جس پر پریاں اترٹی ہیں۔ ناران کاغان کو اگر کوئی پاکستان کا بہترین تفریہی مقام سمجھتا ہے تو اس نے یقینن کالام اور سوات کا حسن نہیں دیکھا ہوگا میں ان دونوں جگہوں کو کئی بار وزٹ کر چکا ہوں اور میری رائے میں ناران، کاغان، شوگران،یہ سب جگہیں سوات اور کالام سے زیادہ حسین نہیں" 🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸🌸 *_Save my number for Status view:0306__4626678_* *_Channel owner and Noval writer:Akbar Ali Khan_* ❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️ وہ اگے پیچھے سرمئی پتھروں پر چڑھ رہے تھے۔ نشا اور ارسہ کھانے پینے کی جگہ پر رک گئی تھیں، افق کو ایک خالی چارپائی نظر آئی اس نے کسی محنتی مزدور کی طرح وہ چارپائی اپنے کندھے پر اٹھائی اور اوپر چڑھنے لگا۔ "بس یہی رکھ دو" وہ سڑک سے کافی اوپر پتھروں پر چڑھتے ہوئے آگے تھے، افق نے اس کے کہنے پر پتھروں اور پانی کے درمیان چار پائی رکھ دی۔ "گندے بچوں کی طرح جوتے اتار کر پانی میں پاؤں مارنا مجھے ہمشہ سے بہت اچھا لگتا ہے" اس نے ہنستے ہوئے جوگر ،جرابیں اتار کر چارپائی پر رکھیں اور اس پر بیٹھ کر سیاہ ٹراوزر نخنٹوں سے کافی اوپر تہ کر کے اپنے سپید پاؤں ٹھنڈے پانی میں ڈال دیے۔ افق بھی ساتھ بیٹھ گیا مگر اس نے جوگرز نہیں اتارے۔ "تم بھی جوتے اتار دوناں ،اتنا مزہ آرہا ہے" وہ بچوں کی طرح پانی میں اپنے پاؤں سے دائرے بنا رہی تھی، افق نے مسکرا کر سر نفی میں ہلا دیا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔💙❤💙❤جاری ہے💙❤💙❤۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
❤️ 🆕 👍 🔜 😠 😢 42

Comments