Noval Warld Urdu Poetry Sad Funny Mix Jokes Hd Status Urdu Stories Islamic ❤️
June 14, 2025 at 12:03 PM
Don,t copy past without my permission . # تو_میرا_جنون # از قلم انعم طارق # قسط نمبر 19 شاہ کے قہقہہ لگانے پر ،علیزے رونا بھول کر یک ٹک شاہ کو دیکھنے لگی ۔مگر شاہ کے اپنی طرف دیکھنے پر رخ موڑ گئی تھی۔ "تمہیں دلہن بننا ہے ۔۔؟؟شاہ نے مسکراہٹ دباتے ،نرمی سے سوال کیا ۔تو علیزے نے اثبات میں سر ہلایا ۔ "ٹھیک ہے بن جانا دلہن بھی ۔۔۔پر اس کے لیئے تمہیں مجھ سے ایک وعدہ کرنا پڑے گا ۔"اسکے لہجے میں نرمی برقرار تھی ۔علیزے نے سوالیہ نظروں سے اسکی طرف دیکھا ۔ "تم نے رونا نہیں ہے ۔"وہ سنجیدگی سے بولا ۔تو علیزے نے جلدی سے اپنے گال رگڑ کر اثبات میں سر ہلاتی وہ اسے بلکل چھوٹی سی بچی لگی تھی ۔ "گڈ گرل۔۔"اسکے گال نرمی سے تھپتھپاتا وہ کمرے سے باہر نکل گیا تھا ۔کمرے سے باہر آتے ہی چہرے کی مسکراہٹ غائب ہوئی تھی ،اور مسکراہٹ کی جگہ سرد مہری نے لے لی تھی۔ سامنے ہی نور صوفے پے منہ پھلائے بیٹھی تھی ۔شاہ کو دیکھتے ہی سرعت سے کھڑی ہوئی ۔اور تیزی سے چلتی اسکے سامنے کھڑی ہو گئی ۔شاہ نے اس آفت کو بیزاری سے دیکھا تھا. "سر مجھے آپ سے ایک بات کرنی ہے ۔"نور نے سنجیدگی سے اپنے بات پر زوردیا تھا کے شاہ کی بیزاری وہ نوٹ کر چکی تھی ۔ "میں کوئی بھی فضول بات سننے کس شوق نہیں رکھتا ۔"وہ ناگوری سے کہتا وہاں سے جانے لگا تھا ۔اسے نور کی باتیں اور حرکتیں اریٹیٹ کرتی تھیں ۔اور اب بھی اسے یقین تھا کے وہ کوئی بھی کام کی بات ہر گز نہیں کرنے والی تھی ۔ "مجھے گھر جانا ہے "شاہ کی ناگواری پر اسنے بمشکل خود کو کچھ الٹا سیدھا کہنے سے روکا تھا ۔ نہیں "سپاٹ لہجے میں ،یک لفظی جواب دیتا وہ صوفے پر بیٹھ گیا ۔نور سینے پر ہاتھ لپیٹے اسے گھورنے لگی ۔ "کیوں نہیں ۔۔"کچھ دیر بعد وہ تیکھے لہجے میں بولی ۔شاہ نے موبائل سے نظر ہٹا کر اس دماغ چوس کو دیکھا اور سر جھٹکتا فلیٹ سے باہر نکل گیا ۔پیچھے وہ دانت پیس کر رہ گئی ۔ ########################## رات ہر سو اپنے پر پھیلانا شروع ہو گئی تھی۔ ان لوگوں نے آستانے کو چاروں طرف سے گھیر لیا تھا ۔اور کافی تعداد میں لوگ آ جا رہے تھے ۔انہیں آستانے کے بند ہونے کا انتظار تھا ۔ "اٹیک ۔"جیسے ہی آستانے کے دروازے بند ہوئے تھے شاہ فائیر کر دیا تھا ۔اگلے ہی لمحے فضا گولیوں کی ترتراہٹ سے گونج اٹھی تھی وہ لوگ ٹوٹل بارہ لوگ تھے تین جوان شاہ کے ساتھ ،اور تین ،تین جوان ہی زاویار اور عشل کے ساتھ تھے ۔آستانے کے تین دروازے تھے ۔اور وہ لوگ بنا گھبرئے ،بنا کسی خوف و خطر کے سانپ کی بل میں گھسنے کے لیئے بلکل تیار تھے ۔ان سب کی آنکھوں میں ایک چمک تھی ۔ ایک دروازے سے شاہ فائیرنگ کرتا اندر داخل ہوا۔دوسرے سے زاویار اور تیسرے سے عشل ۔اندر داخل ہوتے ہی وہ لوگ پوری بلڈینگ میں پھیل چکے تھے ۔ عشل اس کمرے میں داخل ہوئی جہاں پر کوبرا بیٹھ کر لوگوں کو تعاویز دیا کرتا تھا ۔اسی کمرے میں ایک خفیہ دروازہ تھا ۔وہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی اور سیڑھیاں اترنے لگی ۔اسکے ساتھ دو افیسرز تھے ۔وہ تینوں ہاتھوں میں پسٹل تھامے چوکنہ تھے ۔ نیچے جاتے ہی سامنے ایک طویل راہ داری تھی ۔ جو سمندر کے سامنے جاکر ختم ہوتی تھی۔دائیں جانب چھوٹے چھوٹے کمرے بنے تھے ہر کمرے میں اٹھ سے دس لڑکیاں موجود تھیں جن کی حالت بہت ہی خراب تھی ۔ہر کمرے کے دروازے پر ایک آدمی ہاتھ میں رائفل تھامے کھڑا تھا ۔ پانچ منٹ میں وہ سب کو جہنم واسل کر چکے تھے.سلاخوں سے بنے دروازوں پر لگے تالوں کو وہ فائیر کر کے کھول رہے تھے اور کمروں سے ساری لڑکیاں باہر نکالتے ساحل سمندر پر لے کر جا رہے تھے جہاں پر دو وینز کھڑی تھیں ۔جن کے زریعے انہیں ان لڑکیوں کو بحفاظت یہاں سے لے کر جانا تھا ۔ عشل کا کام ان لڑکیوں کو یہاں سے نکالنا ہی تھا ۔ایک نظر سب کمروں پر ڈالتی وہ وہاں سے نکلنے لگی جب کسی لڑکی کی سسکیوں کی آواز اسکے کانوں سے ٹکرائی تھی ۔تم لوگ باقی لڑکیوں کو لے کر نکلو میں اسے لے کر آتی ہوں ۔آفیسرز کو ہدایت دیتی وہ دوبارہ سے اندر داخل ہوئی ۔ تھوڑا سا آگے جانے کے بعد اسے سامنے چار موٹے سانڈ آدمی کھڑے نظر آئے جنہوں نے دو لڑکیوں کی کنپٹی پر پسٹل رکھا ہوا تھا۔اور وہ دونوں ان کی گرفت میں مچل رہی تھی ۔عشل نے فورا اپنی پسٹل نکالی تھی اور فائیر کر دیا تھا ۔گولی ایک آدمی کی پیشانی پر لگی تھی اور وہ وہیں پر ڈھیر ہو گیا تھا ۔جب ایک اور فائیر کی آواز آئی تھی اور گولی عشل کی کمر پر لگی تھی ۔اسنے پیچھے مڑ کر دیکھا تو پیچھے بھی پانچ آدمی کھڑے تھے ۔ وہ درد سے دہری ہوتی جھکی تھی ۔جب ایک اور گولی اسکی ٹانگ پر لگی تو وہ ڈھے گئی تھی. تکلیف اتنی شدید تھی کے برداشت سے باہر تھی۔ ان سب کا دھیان ان دونوں لڑکیوں کی طرف سے ہٹ کر عشل کی طرف ہو گیا تھا ۔تکلیف ضبط کرتے عشل نے ان لڑکیوں کو وہاں سے جانے کا اشارہ کیا تو وہ وہاں سے بھاگنے لگیں جب دو آدمی ان کے پیچھے بڑھے تھے ۔ عشل نے بمشکل گن پر گرفت مضبوط کرتے ان کے سر کا نشانہ لیا ۔تبھی ایک آدمی نے عشل کے ہاتھ کا نشانہ لیا تو ایک دلخراش چیخ اسکے حلق سے بلند ہوئی تھی ۔کے ان اسکی برداشت ختم ہو گئی تھی ۔ اچانک اسے ایک خیال آیا ۔اسنے اپنا ٹھیک ہاتھ کان پر رکھا تھا۔مگر بدقسمتی سے اسکا ایئر پیس کہیں گر گیا تھا ۔خون بہت زیادہ بہنے کی وجہ سے اسکی آنکھیں بند ہونے لگیں تھی ۔ بمشکل آنکھیں کھول کر اسنے انہیں دیکھا ۔وہ چھ آدمی تھی ۔جو اسے گھیرے میں لیئے ، چہروں پر مکروہ مسکراہٹ سجائے ،قدم قدم اسکی طرف بڑھ رہے تھی ۔ تین گولیاں لگنے کے بعد اسمیں اتنی ہمت بھی مفقود تھی کے وہ اٹھ کر کھڑی بھی ہو سکے ،کجا کے ان 'چھ' لوگوں کا مقابلہ کرنا ۔ اور اگر وہ زندہ ان کے ہاتھ لگ جاتی تو وہ لوگ اسکا جو حشر کرتے ،اس سے وہ اچھی طرح سے واقف تھی ۔شاہ اور زاویار کو جب تک اسکی غیر موجودگی کا پتہ چلتا تب تک وہ لوگ یا تو اسے مار چکے ہوتے یا کسی اور جگہ لے جا کر ٹارچر کرتے ۔اور نا جانے کتنی انفارمیشن اگلوا لیتے جو یقینا ملک کے لیئے بہت زیادہ نقصان دہ ثابت ہوتی ۔ اسنے ایک نظر انہیں دیکھا جو اس سے دو قدم کے فاصلے پر تھے ۔اور ایک نظر اپنی جیکٹ کو دیکھا ،جس کی اندرونی جیب میں دستی بم تھے ۔اسنے ایک لمحے میں فیصلہ کیا تھا ۔آنکھوں میں ایک چمک ابھری تھی ۔شائید اپنے جنون کو پا لینے کی چمک تھی ۔ اسنے جیب میں سے بم نکالا ۔ "تت۔۔۔تمم۔۔۔سسس۔۔۔سب ۔۔ککو۔۔ساتھ۔۔۔لل۔۔۔لے ۔۔۔کر ۔۔مروں ۔۔۔گگ۔۔گی ۔""تکلیف کی شدت سے اسکی آواز کپکپا رہی تھی ۔اسنے ان کے کچھ بھی سمجھنے سے پہلے ،کلمہ شہادت پڑھا ،اور بم کی پن نکال دی۔ساتھ ہی ایک دھماکہ ہوا تھا ۔ شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے کیپٹن عشل شہید ہو گئی تھی ۔مگر وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئی تھی۔وہ شہادت کا رتبہ پا چکی تھی جو کے خوش قسمت لوگوں کے نصیب میں ہی لکھی ہوتی ہے ۔اور شہید کبھی بھی مرتا نہیں ہے ۔ مفہوم ہے کے" شہید کبھی مرتا نہیں ہے ،وہ اپنے رب کے ہاں سے رزق پاتے ہیں ،مگر تم کو اسکی خبر نہیں ۔" ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پے روتی ہے بڑی مشکل سے ہوتا ہے ،چمن میں دید آور پیدا. ######################۔ "سر آستانے میں موجود سب لوگ ہی مارے گئے اور پانچ لوگ جن کو اریسٹ کرنا تھا وہ اریسٹ ہو چکے ہیں ۔۔۔اور تمام لڑکیوں کو بحفاظت آستانے سے نکال لیا گیا ہے ۔۔۔۔اور اپنے تین لوگ شہید شہید ہو گئے ہیں ۔"زاویار نے سرخ آنکھوں سے اسے تمام صورت حال سے آگاہ کیا ۔ "کیپٹن عشل ۔۔۔۔؟؟"شاہ نے سوالیہ انداز میں پوچھا تو زاویار نے نفی میں سر ہلا دیا ۔ شاہ نے مٹھیاں اور لب سختی سے بھینچ لیئے تھے ۔اچانک اسکی آنکھوں میں سرد تاثر ابھرا تھا ۔شاہ گاڑی کی طرف بڑھا اور گاڑی میں بیٹھ کر گاڑی سٹارٹ کی ۔اسکا رخ ٹارچر سیل کی طرف تھا ۔جہاں پر آستانے سے گرفتار کیئے گئے لوگوں کو لے جایا گیا تھا ۔ شاہ اور زاویار خود بھی زخمی تھے ۔ ان لوگوں نے بھی بہت زیادہ فائیرنگ کی تھی ۔شائید وہ لوگ اس صورت حال کے لیئے پہلے سے تیار بیٹھے تھے ۔مگر اب شاہ جلد از جلد اس مشن کو ختم کرنا چاہتا تھا ۔ وہ سیل میں داخل ہوا ۔ "سب سے زیادہ خراب حالت کس کی ہے ۔۔"شاہ نے ایک آفیسر سے سوال کیا ۔ "سر رام نامی شخص ہے ۔۔۔اسکی کڈنی پر ،اور چسٹ پر بلٹس لگیں ہیں ۔۔زیادہ دیر نہیں بچے گا ۔۔۔اور مجھے ان سب سے سینیئر بھی وہی لگ رہا ہے ۔"آفیسر نے اسے تفصیل سے آگاہ کرنے کے بعد اپنے خیال کا اظہار کیا ۔تو شاہ اثبات میں سر ہلاتا سیل میں داخل ہوا۔ "رنگویر اور فراز کہاں پر ہیں ۔"شاہ نے سپاٹ لہجے میں سوال کیا ۔وہ شخص کچھ بھی نہیں بولا ۔تو شاہ بھی بنا کچھ کہے آگے بڑھا اور اسکے دونوں ہاتھ ایک ساتھ باندھ کر ،کمرے کی دائیں جانب والی دیوار کے ساتھ لگے لوحے کے ہینڈل کے ساتھ باندھ دی ۔اور اسی طرح سے پاوں بائیں جانب والی دیوار کے ساتھ باندھ دیئے ۔ اب وہ شخص لیٹنے کے سے انداز میں,فضا میں جھول رہا تھا ۔شاہ نے چولہا اسکے نیچے رکھ کر فل تیز جلا دیا ۔آگ کے شعلے اسکی کمر کو جھلسانے لگے تو وہ چیخنے لگا ۔ شاہ نے ایک بڑی اور تیز دھار چھری چولہے پر رکھ دی ۔اور اس شخص کی پینٹ کے پائنچے فولڈ کرنے لگا ۔گھٹنے تک اسکے دونوں پائنچے فولڈ کرنے کے بعد اسنے چولہے پر رکھی چھری اٹھائی تھی ۔جو کے لال انگارہ ہو چکی تھی ۔شاہ نے اسکی چھری سے اسکی پنڈلی پر گہرا کٹ لگایا ۔کٹ کافی زیادہ گہرا تھا کے اسک سکن الگ ہو گئی تھی اور گوشت نظر آ رہا تھا ۔ شاہ نے یہی عمل دوسری ٹانگ پر دہرایا اور چھری کو دوبارہ دے برنر پر رکھ دیا ۔اس شخص کی کمر مسلسل جل رہی تھے ۔جلے گوشت کی بو فضا میں پھیلنے لگی تھی ۔ "مم۔۔آا۔۔۔۔۔میں۔۔۔میں بتاتاااآاآا۔۔ہہوں ۔۔۔۔آآآآ۔۔۔"شاہ کو چھری دوبورہ سے چولہے پر رکھتا دیکھ کر وہ چلاتا ہوا بولا ۔ مگر شاہ انسنی کرتا چہرے پر سرد مہری لیئے کھڑا تھا ۔اس شخص کی حالت اگر کوئی بھی عام انسان دیکھتا تو اسکی روح تک کپکپا اٹھتی ۔اور اگر علیزے دیکھ لیتی تو یقینا اسنے بے حوش ہی ہو جانا تھا ۔مگر شاہ پر اسکی چیخوں کا کوئی اثر نہیں ہو رہا تھا ۔شائید ان کی فیلڈ کے سبھی لوگ ہی ایسے تھے جو اپنی مظلوم عوام پرتھوڑا سا ظلم بھی برداشت نہیں کر پاتے تھے ۔ان کی ایک سسکی پر بھی تڑپ اٹھتے تھے ۔ مگر ظالم پر یوں قہر بن کر برستے تھے کے ان کی سات نسلیں ظلم کرنا تو دور کی بات ،ظلم کرنے کے بارے میں سوچ بھی نا سکیں ۔اور ہر ظالم ان کے انجام سے عبرت پکڑ کر ظلم کرنے سے توبہ کر لے. شاہ نے چھری اٹھائی تھی اور اسکی ٹانگ پر دو جگہ پر اسی طرح کٹ لگائے ۔ "فف. . . فراز۔۔۔ممم۔۔۔مل۔۔۔ملتان۔۔۔اور۔۔۔۔رن۔۔۔رنگ۔۔۔۔رنگویر۔۔۔۔ممم۔۔۔۔مری۔۔"وہ لڑکھڑائی آواز میں بولا شاہ نے چھری زمین پر پھینکی اور کمرے سے باہر نکل گیا. اسنے چولہا بند نہیں کیا تھا ۔ "دس منٹ بعد چولہا بند کر دینا ۔"باہر کھڑے آفیسر کو ہدایت دیتا وہ کمرے سیل سے نکلتا چلا گیا ۔ #########################۔ نور کمرے میں آنے کے بعد جلے پیر کی بلی کی طرح یہاں سے وہاں چکر کاٹ رہی تھی ۔ "نور کیا مسلہ ہے تمہارے ساتھ ۔۔۔۔"علیزے جو کب سے اسے چکر کاٹتے دیکھ رہی تھی اکتا کر بولی ۔ "یہ لوگ میری بات ہی نہیں سنتے ۔۔۔۔اور وہ جو ہے۔۔۔۔انتہائی اکڑو ہے ۔۔۔۔پتہ نہیں سمجھتا کیا ہے خود کو ۔"کمر پر دونوں ہاتھ رکھتے لڑاکا عورتوں کی طرح بولی ۔ "کون ۔"علیزے نے نا سمجھی سے اسے دیکھا ۔ "وہ ہی ۔۔۔تمہارا شوہر ۔۔"نور نے منہ بنایا تھا ۔علیزے اسکی بات پر جھینپ گئی تھی ۔اسکے شوہر کہنے پر اسکا دل عجب لہ پر دھڑکا تھا "اوئے ہوئے۔۔۔۔۔تمہیں شرما رہی ہو ۔"نور نے مسکراتے ہوئے اسے چھیڑا تھا ۔ "چلی جاو یہاں سے ۔۔۔مجھے تم سے بات نہیں کرنی "سرخ پڑتے گالوں کے ساتھ اسنے نور کو گھورا تھا ۔ "گریٹ آئیڈیا ۔۔۔۔جا رہی ہوں میں ۔۔"نور ایک دم سے کھلی اٹھی تھی ۔اسنے علیزے کے سامنے چٹکی بجائی اور کمرے سے سر نکال کر باہر جھانکا ۔ان کی غیر موجودگی کا یقین کر کے وہ کمرے سے باہر نکل آئی ۔ "او ۔۔۔۔ہیلو۔۔۔ کہاں ۔۔۔کہاں جا رہی ہو۔۔۔"علیزے اسکے پیچھے بڑھی تھی ۔ "گھر جا رہی ہوں ۔"نور نے اسے جواب دیا اور اپنے موبائل پر کچھ کرنے لگی ۔ "کیا ۔۔۔؟؟؟؟تمہارا دماغ ٹھیک ہے ۔۔۔؟؟وہ لوگ بہت غصہ ہوں گے ۔"علیزے نے اسے ڈرانا چاہ ۔ "ڈونٹ وری ۔۔۔۔۔اس چوزے کو میں دیکھ لوں گی ۔۔۔اور کیپٹن عشل ،وہ تو ویسے بھی کچھ نہیں کہتی ،بہت سویٹ ہے ۔۔۔۔۔اور پیچھےرہ گیا وہ اکڑو ۔۔۔ اس کو تم سنبھال لینا۔"اسنے انتہائی سنجیدگی سے غیر سنجیدہ بات کی تو علیزے دانت پیستے کمرے میں چلی گئی ۔نور دوبارہ سے موبائل پر مصروف ہو گئی تھی ۔ وہ دروازے پر لگا سیکیورٹی سسٹم ہیک کر رہی تھی ۔اسنے علیزے کا ڈریس ہی پہن رکھا تھا ۔جس پر خون لگا تھا ۔گھر جاکر اسے اپنے اور علیزے کے کپڑے لے کر آنے تھے ۔پر ان لوگوں نے اسے گھر سے نکلنے پر ہی پابندی لگائی ہوئی تھی ۔ تقریبا پونے گھنٹے کی محنت کے بعد وہ سسٹم ہیک کر چکی تھی ۔جو کے صرف پانچ منٹ کے لیئے ہی ہیک ہوا تھا ۔وہ باہر نکلنے لگی جب علیزے کمرے سے باہر آئی تھی۔ "نور تم مجھے اکیلا چھوڑ کر جا رہی ہو ۔۔۔۔۔دیکھو میں اکیلی نہیں رہوں گی ۔۔۔۔تم کہیں بھی نہیں جا رہی ۔۔۔" اسنے اسے روکنے کی اپنی سی کوشش کی ۔نور نے ایک نظر اسے دیکھا ۔پھر تیزی سے کمرے کی طرف بڑھی ۔علیزے بھی حیرت سے اسکے پیچھے گئی ۔نور نے واش روم میں داخل ہوتے علیزے کو بھی اندر آنے کا اشارہ کیا ۔علیزے اسکی حرکت پر اس کے پیچھے گئی ۔ "یہ سیل فون میں یہاں پر رکھ رہی ہوں ۔۔۔میرے جانے کے بعد تم لاونچ میں بیٹھ جانا ۔۔۔جیسے ہی تمہیں فیل ہو کے باہر دروازے پر کوئی ہے ،تم فورا سے کمے میں جانا اور کمرے کا دروازہ لاک کر کے واش روم میں آ کر دروازہ لاک کر کے مجھے کال کرنا ۔۔۔اور اس میں چوزے کے نام سے ایک نمبر سیو ہے۔۔۔اس پر بھی کال کر دینا ۔"وہ تیز تیز بولتی دوبارہ سے لاونچ میں آ گئی تھی ۔ "تم بلکل بھی ڈرنا نہیں ۔۔میں بس یوں گئی اور یوں آئی ۔"اسنے اپنے گرد اچھی طرح سے شال لپیٹی ،علیزے کا گال چومتی ،فلیٹ سے باہر نکل گئی ۔پیچھے علیزے اپنا سر پیٹ کر رہ گئی ۔ #####################۔ وہ بیچینی سے یہاں سے وہاں چکر کاٹ رہی تھی ۔نور کو گئے ہوئے گھنٹہ ہو گیا تھا ۔تب سے وہ ایک منٹ کے لیئے بھی سکون سے نہیں بیٹھی تھی ۔یہاں وہاں چکر کاٹ کاٹ کر اسکی ٹانگیں شل ہو گئیں تھیں ۔ "یا اللہ ۔۔نور بحفاظت گھر پہنچ جائے۔۔۔اتنی دیر ہو گئی ہے ۔۔۔ابھی تک گھر نہیں آئی ۔۔۔پلیز اللہ جی ۔۔۔پلیز۔۔"وہ ہاتھ فضا میں بلند کیئے دعا کرنے لگی ۔اسی سب میں وہ دروازہ کھولنے اور بند ہونے کی آواز نہیں سن پائی تھی ۔ وہ جیسے ہی مڑی تھی,زاویار سے ٹکرائی تھی ۔ایک چیخ اسکے حلق سے بلند ہوئی ۔ "کیا ہوا ۔" وہ اسکے چیخنے پر نرمی سے بولتا اسے دیکھنے لگا جو خاصی پریشان لگ رہی تھی ۔ ایک پل تو اسے لگا جیسے اسکے سامنے علیزے نہیں نور کھڑی ہو ،مگر اسکی آنکھوں کے کلر اور چہرے پر چوٹ کے نشان سے وہ اسے پہچانا تھا ۔ "وو۔ ۔۔وہ نور۔۔۔" علیزے کی آواز رندھ گئی تھی ۔ "کیا ہوا نور کو ۔"وہ جو پہلے ہی عشل کی وجہ سے پریشان تھا ، ایک دم سے بے چین ہو اٹھا تھا ۔ "وہ نور ۔۔۔بہت دیر سے باہر گئی ہوئی ہے ۔۔ابھی تک نہیں آئی ۔ "علیزے پریشانی سے بولی تھی ۔ "نور ۔۔"زاویار نے دانت پیسے اور الٹے قدموں واپس چلا گیا۔ علیزے صوفے پر سر تھام کر بیٹھ گئی ۔تھوڑی دیر بعد شاہ فلیٹ میں آیا تھا ۔کھٹکے کی آواز پر اسنے سر اٹھا کر اسے دیکھا تھا ۔پر شاہ کے کپڑوں پر لگے خون کو دیکھ کر ایک دم۔سے چلا اٹھی تھی ۔شاہ اسے اگنور کرتا کمرے میں چلا گیا ۔ ٹھنڈے پانی سے شاور لے کر شرٹ چینج کر کے وہ باہر آیا تب بھی علیزے اسی پوزیشن میں بیٹھی تھی ۔شاہ کی آنکھوں میں سرخی تھی ۔وہ علیزے کو اگنور کرتا کچن میں چلا گیا ۔اسکے سر میں اس وقت شدید درد تھا ۔وہ کافی بنا رہا تھا جب علیزے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی اسکے پیچھے کچن میں آئی تھی ۔ "آ۔۔آپ ۔۔ک۔۔۔کے ۔۔۔چچ۔۔۔چوٹ کیسے ۔۔۔لگی ۔۔۔"وہ اٹکتے ہوئے بولی تھی شاہ کا کافی پھینٹتا ہاتھ رکا تھا ۔اسنے گردن ہلکی سی موڑ کر اسے دیکھا۔ "تم نے کچھ کھایا ۔"اسکے سوال کو اگنور کرتے سوال کیا ۔ "نن۔۔۔۔نہیں۔۔"اسنے سر جھکا لیا ۔ "کچھ کھا لو ۔۔۔ہمیں ابھی مری کے لیئے نکلنا ہے. "سپاٹ انداز میں کہتا وہ دوبارہ سے کافی پھینٹنے لگا ۔علیزے نے سر اٹھا کر اس کی پشت کو دیکھا تھا ۔ ##########################۔ ۔۔۔🙂
❤️ 👍 😂 😦 🤲 🥰 47

Comments