عصفورات بنات حبیبہؓ
عصفورات بنات حبیبہؓ
June 14, 2025 at 10:35 AM
*18 ذوالحجہ کو عیدِ غدیر منانے کی حقیقت*. ✍️حقیقتِ عید غدیر. 18 ذوالحجہ یوم شہادت سیّدنا عثمان ذُوالنُورَین رضی اللہ عنہ کے موقع پر، دشمان صحابہ شیعہ روافض لوگوں کی طرف سے *حقیقت عید غدیر* کی تفصیل یہ ہے کہ رسولﷺ نے *حجۃ الوداع* سے مدینہ منورہ واپسی کے موقعہ پر غدیر خُم (جو کہ اور مدینہ کے درمیان ایک مقام ہے) پر خطبہ ارشاد فرمایا تھا، اور اس خطبہ میں حضرت علیؓ کی نسبت ارشاد فرمایا تھا: مَن کُنتُ مَولاه فَعَلي مَولاه" یعنی جس کا میں دوست ہوں علی بھی اس کا دوست ہے۔ (📚سنن نسائی/مسند احمد) 🔹 اس کا پس منظر یہ تھا کہ *حجۃ الوداع* سے پہلے رسول اللہﷺ نے حضرت علیؓ کو یمن کی طرف والی/ عامل بنا کر بھیجا تھا، وہاں کے محصولات وغیرہ وصول کر کے ان کی تقسیم اور بیت المال کے حصے کی ادائیگی کے فوراً بعد حضرت علیؓ حضورﷺ کے پاس حج کی ادائیگی کے لیے پہنچے۔ اس موقع پر محصولات کی تقسیم وغیرہ کے حوالے سے بعض حضرات نے حضرت علیؓ پر اعتراض کیا، اور یہ اعتراض براہِ راست نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر دہرایا، آپﷺ نے انہیں اسی موقع پر انفرادی طور پر سمجھایا اور حضرت علیؓ کی حمایت اور تصویب فرمائی، بلکہ یہ بھی ارشاد فرمایا کہ علی کا اس سے بھی زیادہ حق تھا، نیز آپﷺ نے انہیں حضرت علیؓ سے محبت کا حکم دیا اور حضرت علیؓ کے بارے میں دل میں کدورت اور میل رکھنے سے منع فرمایا، چنانچہ ان حضرات کے دل حضرت علیؓ کی طرف سے بالکل صاف ہو گئے، وہ خود بیان فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کے اس ارشاد کے بعد ہمارے دلوں میں حضرت علیؓ محبوب ہو گئے۔ البتہ اسی حوالے سے کچھ باتیں سفرِ حج سے واپسی تک قافلے میں گردش کرتی رہیں، آپﷺ نے محسوس فرمایا کہ اس حوالے سے آپ ﷺ حضرت علیؓ کی قدر و منزلت اور ان کا حق پر ہونا بیان فرمائیں، چنانچہ سفرِ حج سے واپسی پر مقام غدیرِ خم میں نبی کریم ﷺ نے ایک خطبہ ارشاد فرمایا، جس میں بلیغ حکیمانہ اسلوب میں حضرت علیؓ کا حق پر واضح ہونا فرمایا، اور جن لوگوں کے دل میں حضرت علیؓ کے بارے میں کوئی شکوہ یا شبہ تھا اسے یوں ارشاد فرما کر دور فرما دیا: «اللَّهُمَّ مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالِاهُ، وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ»، قَالَ: فَلَقِيَهُ عُمَرُ بَعْدَ ذَلِكَ، فَقَالَ: هَنِيئًا لَكَ يَا ابْنَ أَبِي طَالِبٍ! أَصْبَحْتَ وَأَمْسَيْتَ مَوْلَى كُلِّ مُؤْمِنٍ وَمُؤْمِنَةٍ" یعنی اے اللہ! جو مجھے دوست رکھے گا وہ علی کو بھی دوست رکھے گا/میں جس کا محبوب ہوں گا علی بھی اس کا محبوب ہوگا، اے اللہ! جو علی سے محبت رکھے تو اس سے محبت رکھ، اور جو علی سے دشمنی رکھے تو اس کا دشمن ہو جا۔ آپ ﷺ کے اس ارشاد کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ملے تو فرمایا: اے ابن ابی طالب! آپ کو مبارک ہو! آپ صبح و شام ہر مؤمن مرد اور ہر مؤمنہ عورت کے محبوب بن گئے۔ 🔹 حضراتِ شیخین ابوبکر صدیق اور عمر فاروق رضی اللہ عنہما سمیت تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے دل میں حضرت علیؓ کی محبت پہلے سے تھی، جن چند لوگوں کے دل میں کچھ شبہات تھے آپ ﷺ کے اس ارشاد کے بعد ان کے دل بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت سے سرشار ہوگئے۔ اس خطبہ سے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصود یہ بتلانا تھا کہ حضرت علیؓ اللہ کے محبوب اور مقرب بندے ہیں ، ان سے اور میرے اہلِ بیت (ازواج و اولاد و خاندان نبوت) کو سے تعلق رکھنا مقتضائے ایمان ہے، اور ان سے بغض وعداوت یا نفرت وکدورت ایمان کے منافی ہے۔ 🔹 مذکورہ پس منظر سے یہ بات بخوبی واضح ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا غدیر خُم میں "من کنت مولاه فعلي مولاه"ارشادفرمانا حضرت علیؓ کی خلافت کے اعلان کے لیے نہیں، بلکہ حضرت علیؓ کی قدرومنزلت بیان کرنے اور معترضین کے شکوک دور کرنے کے لیے تھا نیز حضرت علیؓ کی محبت کو ایک فریضہ لازمہ کے طورپر امت کی ذمہ داری قرار دینے کے لیے تھا. اور الحمدللہ! اہلِ سنت والجماعت اتباعِ سنت میں حضرت علیؓ کی محبت کو اپنے ایمان کاجز سمجھتے ہیں، اور بلاشبہ حضرت علیؓ سے اہلِ ایمان ہی محبت رکھتے ہیں۔ 🔹اس خطبے اور ارشاد کی حقیقت یہی تھی جو بیان ہو چکی۔ باقی ایک گمراہ دشمنان صحابہ فرقہ اس سے حضرت علیؓ کے لیے خلافت بلافصل ثابت کرتا ہے اور چونکہ یہ خطبہ ماہ ذوالحجہ میں ہی ارشاد فرمایا تھا، اس لیے ماہ ذوالحجہ کی 18 تاریخ کو اسی خطبہ کی مناسبت سے عید مناتا ہے، اور اسے *عید غدیر* کا نام دیا جاتا ہے۔اس دن عید کی ابتدا کرنے والا ایک *شیعہ حاکم معزالدولۃ* گزرا ہے، اس شخص نے 18 ذوالحجہ 351 ہجری کو بغداد میں عید منانے کا حکم دیا تھا اور اس کا نام *عید خُم غدیر* رکھا۔ اولاً تو اس عیدِ غدیر کی شریعت میں کوئی حقیقت نہیں ہے، *دوسری طرف ماہ ذوالحجہ کی اٹھارہ تاریخ کو خلیفہ سوم امیرالمومنین سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی شہادت بھی ہے ان کی مخالفت میں بھی شیعہ لوگ اس دن اپنے بغض کا اظہار کرتے ہیں* اہلِ ایمان و اسلام کو چاہیے کہ اس طرح کی خرافات سے دور رہیں۔ الغرض! دینِ اسلام میں صرف دو عیدیں ہیں: ایک عیدالفطر اور دوسری عیدالاضحیٰ ۔ ان دو کے علاوہ دیگر تہواروں اور عیدوں کا شریعت میں کوئی ثبوت نہیں ، اس لیے نہ منانا جائز ہے اور نہ ان میں شرکت درست ہے۔ اور نہ ہی مذکورہ بالا حدیث سے حضرت علیؓ کی خلافتِ اول ثابت ہوتی ہے نہ کچھ یہ زیادہ تر شیعہ اَفسانے ہیں۔ 🔹 *عید غدیر کا بانی عراقی شیعہ حاکم معز الدین احمد بن ابویہ دیلمی ہے*- سب سے پہلے اسی نے شیعہ رافضیوں کے ساتھ 18 ذی الحجہ 352 ہجری کو بغداد میں عید غدیر منائی - علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ " سن 352 ہجری 18 ذی الحجہ کو معز الدولہ نے شہر بغداد سجانے اور رات کو عیدوں کی طرح بازار کھولنے کا حکم دیا - اور باجے اور بگل بجائے گئے اور حکام کے دروازوں اور فوجیوں کے پاس چراغاں کیا گیا عید غدیر کی خوشی میں تو وہ وقت عجیب آور دیکھنے کا دن تھا اور ظاہری بری بدعت کا دن تھا " (البدایہ والنہایہ جلد 15 صفحہ 261) امام ابن اثیر جزری رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ " سن 352 ہجری میں 18 ذی الحجہ کو معز الدولہ نے شہر سجانے کا حکم دیا - اور درباریوں کی مجلس میں چراغاں کیا گیا اور خوشی کا اظہار کیا گیا اور بازار کھولے گئے رات کو جس طرح عیدوں کی راتوں میں کھولے جاتے، خوب خوشی منائی گئی عید غدیر میں، اور باجے اور بگل بجائے گئے " (الکامل فی التاریخ جلد 7 صفحہ 246) علامہ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ " سن 352 ہجری 18 ذی الحجہ کو روافض نے عید غدیر منائی، ڈھول بجائے گئے اور میدان میں نماز عید پڑھی" ( العبر فی خبر من غبر جلد 2 صفحہ 90) یاد رکھیں! عید غدیر شیعہ روافض کی عید اکبر ہے اور اس کو وہ خاص اس لئے مناتے ہیں کہ ان کے مطابق حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو خلافت بلا فصل ملی تھی ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں بلکہ کافر سمجھتے ہیں(معاذاللہ). یہاں تک کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی امامت(یعنی انبیاء کرام سے بھی معصوم ہونے) کے بھی قائل ہیں نیز یہ بھی مشہور ہے کہ اس دن حضرت عثمان غنی ذوالنورین رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی شہادت ہوئی تھی اس لئے اس دن روافض جشن مناتے ہیں کیونکہ عید غدیر منانا شیعہ روافض کا مذہبی شعار ہے اور کسی کفریہ عقائد رکھنے والی قوم کے مذہبی شعار کو اپنانا یقیناً تشبہ(مشابہت) کے درجے میں آتا ہے جسکے بارے میں سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا *مَن تَشَبَّہ بِقومٍ فَھُوَ مِنھُم*. جس نے کسی قوم کی مشابہت کی وہ انہی میں سے ہے (سنن ابوداؤد) 🔹 *مولا کا لغوی اور اصطلاحی معنی:* شیعہ دشمنان صحابہ فرقہ کا اس حدیث: *مَن کنتُ مَولاہ فهذا علی مَولاہ"* جسکا میں دوست ہوں اسکا علی بھی دوست ہے. اس حدیث سے ابوبکر صدیق کی جگہ خلیفہ اول اور "مولا علی مدد" کا معنی نکالتے ہیں. حالانکہ لغت میں(مَولا) کے تقریبا 19 معانی ذکر کئے جاتے ہیں، لیکن عموما قرآن و حدیث میں جب مَولَا کا لفظ کہا جاتا ہے یا یہ صیغہ استعمال ہوتا ہے تو وہاں "نصرت، مددگار، محبت" کے معنی میں ہی استعمال کیا جاتا ہے. یعنی "مولیٰ" کا لفظ کلماتِ مشترکہ میں سے ہے جس کے متعدد معانی آتے ہیں، ان معانی میں سے کسی ایک معنی کو ترجیح دینے اور کہنے والے کی مراد سمجھنے کے لیے اس کلمہ کا استعمال ، اس کا سیاق و سباق اور سامعین نے جملہ میں استعمال کے بعد اس کا کیا معنی سمجھا ہے، اسے بھی جاننا ضروری ہوتا ہے۔ 1۔ پس حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے متعلق ایک روایت کے سیاق و سباق اور پس منظر پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے لیے "مولا" کا لفظ محب، دوست اور محبوب کے معنی میں استعمال فرمایا ہے، اور یہی معنی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے سمجھا تھا؛ لہذا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے لیے "مولا" کا لفظ اسی معنی میں استعمال کرنا چاہیے۔ 2۔ "مولیٰ" کا ایک معنی سردار بھی آتاہے، اس معنی کے اعتبار سے بھی "مولا علی" کہنا جائز ہو گا۔ تاہم "مولی علی" آج کے زمانے میں ایک گمراہ فرقے شیعہ روافض کا شعار بن چکا ہے، اور "مولی علی" کے الفاظ کے پیچھے ان کا ایک نظریہ چھپا ہوتا ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد ان کے خلیفہ بلا فصل(یعنی پہلے خلیفہ وہی) تھے وغیرہ ؛ لہذا ان الفاظ کے استعمال سے اجتناب کرنا چاہیے، خصوصاً ایسے مواقع پر جہاں سننے والے "مولا علی" کے مختلف معانی کے فرق اور پس منظر کو نہ سمجھتے ہوں۔ ✍️ *خلاصہ کلام* مولا علی کا معنی "ہمارے محبوب، ہمارے سردار" بلکل درست معنی ہے اور یہی معنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصود بھی تھا اور مطلوب شریعت بھی، لیکن اس سے "الوھیت علی" یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خدائی درجہ دینا یا "خلافت علی" یعنی ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی جگہ خلیفہ اول ثابت کرنا محض جہل اور مزاج شریعت کو نہ سمجھنے کی نشانی ہے. 📚 نوٹ:- *آپ اپنے کسی جاننے والے کا عید غدیر کی خوشی والا سٹیٹس دیکھیں تو اس کو ضرور پیار محبت سے سمجھائیں کہ یہ عید غدیر کیا چیز ہے اور کس وجہ سے دشمنانِ اسلام مناتے ہیں ان اپنے مسلمان جاننے والوں کو سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی یوم شہادت کا بتائیں اور ان کی شہادت کی خوشی میں جشن منانے والے گروہ (اہل تشیع) کا بتائیں جیسے آپ کو علم ہوا اس حقیقت کا ایسے سادہ لوح مسلمانوں کو بچانا آپ کا فرض ہے*.
👍 ❤️ 😂 😢 20

Comments