Ąèśťĥěťịć
May 24, 2025 at 06:10 PM
نظم: کوڑھی مسیحا
کوڑھ کے مریضوں کو درد ہی نہیں ہوتا
وہ تو بس پگھلتے ہیں
لوگ ان سے ڈرتے ہیں
اجتناب کرتے ہیں
کوڑھ کے مریضوں سے لوگ دور رہتے ہیں
اور ان سے کہتے ہیں
آپ اپنی بیماری
بستیوں سے لے جائیں
چھوٹے چھوٹے بچوں کو
پھینک دیتی ہیں مائیں
تاکہ اور بچوں میں
وہ مرض نہ پھیلائیں
کیونکہ ان کے جسموں کا
خون تھوک مہلک ہے
سو جہاں بھی ناخن سے
انکے میل جاتا ہے
روگ پھیل جاتا ہے
دور دور ہیں کوڑھی
داغ داغ ہیں کوڑھی
کچھ بدن بھی ہیں لیکن
کچھ دماغ ہیں کوڑھی
جو نظر نہیں آتے
اور کہیں نہیں جاتے
بستیوں میں رہتے ہیں
بستیاں کئی ایسی
کوڑھیوں کے بس میں ہیں
جانے کیسے جرثومے
تھوک خون پس میں ہیں
جو نظر نہیں آتے
کوڑھیوں کی بستی میں
سوچ سب کی گندی ہے
فکر سب کی سستی ہے
کوڑھ ان دماغوں سے
لفظ لفظ رستا ہے
لفظ پیپ ہے اور ہے
کوڑھیوں کی گویائی
دوست ایسی صورت میں
شاعری کے ذریعے ہم
کیا کریں مسیحائی
عمار اقبال