
ازدواجی زندگی سوشل میڈیا
June 11, 2025 at 01:01 AM
🌻🌺🌻🌺🌻🌺🌻🌺🌻🌺
🌹 بسمِﷲِالرَّحْمن الرَّحِيم 🌹
🇵🇰 *آج کا کیلنڈر* 🌤
🔖 14 ذوالحجہ 1446ھ 💎
🔖 11 جون 2025ء 💎
🔖 28 جیٹھ 2081ب 💎
🌄 بروز بدھ Wednesday 🌄
🌺🌻🌺🌻🌺🌻🌺🌻🌺🌻
سیرت خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ ﷺ
قسط نمبر 24
سازش ناکام ہوگئی
بھائیوں کی بات کے جواب میں حضرت ولید بن ولید ؓ بولے:
میں نے سوچا،اگر میں مدینہ منورہ میں مسلمان ہوگیا تو لوگ کہیں گے، میں قید سے گھبرا کر مسلمان ہوگیا ہوں -"
اب انہوں نے مدینہ منورہ ہجرت کا ارادہ کیا تو ان کے بھائیوں نے ان کو قید کردیا-حضور اکرم ﷺ کو یہ بات معلوم ہوئی تو ان کے لیے قنوت نازلہ میں رہائی کی دعا فرمانے لگے-آخر ایک دن ولید بن ولید ؓ مکہ سے نکل بھاگنے میں کامیاب ہوگئے اور آپ ﷺ کے پاس مدینہ منورہ پہنچ گئے-
ایسے ہی ایک قیدی حضرت وہب بن عمیر رضی اللہ عنہ(جو بعد میں اسلام لائے)نے بھی غزوہ بدر میں مسلمانوں سے جنگ کی تھی اور کافروں کی شکست کے بعد قیدی بنالیے گئے تھے-وہب بن عمیر ؓ کے والد کا نام عمیر تھا....ان کے ایک دوست تھے، صفوان (رضی اللہ عنہ)-ان دونوں دوستوں کا تعلق مکہ کے قریش سے تھا-دونوں اس وقت تک اسلام نہیں لائے تھے اور مسلمانوں کے بدترین دشمن تھے-ایک روز یہ دونوں حجر اسود کے پاس بیٹھے تھے-دونوں بدر میں قریش کی شکست کے بارے میں باتیں کرنے لگے... قتل ہونے والے بڑے بڑے سرداروں کا ذکر کرنے لگے،صفوان ؓ نے کہا:
"اللہ کی قسم!ان سرداروں کے قتل ہوجانے کے بعد زندگی کا مزہ ہی ختم ہوگیا ہے-"
یہ سن کر عمیر ؓ نے کہا:
"تم سچ کہتے ہو،خدا کی قسم!اگر مجھ پر ایک شخص کا قرض نہ ہوتا اور مجھے اپنے پیچھے بیوی بچوں کا خیال نہ ہوتا تو میں محمد (ﷺ)کے پاس پہنچ کر انہیں قتل کردیتا (معاذ اللہ)- میرے پاس وہاں پہنچنے کی وجہ بھی موجود ہے،میرا اپنا بیٹا وہب ان کی قید میں ہے،وہ بدر کی لڑائی میں شریک تھا..."
یہ سننا تھا کہ صفوان ؓ نے وعدہ کرتے ہوئے کہا:
"تمہارا قرض میرے ذمہ ہے،وہ میں ادا کروں گا اور تمہارے بیوی بچوں کی ذمہ داری بھی میرے ذمے ہے، جب تک وہ زندہ رہیں گے،میں ان کی کفالت کروں گا-"
عمیر ؓ نے یہ سن کر حضور ﷺ کے قتل کا پختہ عزم کرلیا اور کہا:
"بس تو پھر ٹھیک ہے،یہ معاملہ میرے اور تمہارے درمیان راز رہے گا...نہ تم کسی سے اس ساری بات کا ذکر کروگے،نہ میں -"
صفوان ؓ نے وعدہ کرلیا-عمیر ؓ نے گھر جا کر اپنی تلوار نکالی،اس کی دھار کو تیز کیا اور پھر اس کو زہر میں بجھایا-پھر مکہ سے مدینہ کا رخ کیا-
مسجد نبوی میں پہنچ کر عمیر ؓ نے دیکھا حضرت عمر ؓ کچھ دوسرے مسلمانوں کے ساتھ بیٹھے غزوہ بدر کی باتیں کررہے تھے- حضرت عمر ؓ کی نظر ان پر پڑی تو فوراً اٹھ کھڑے ہوئے،کیونکہ انھوں نے عمیر ؓ کے ہاتھ میں ننگی تلوار دیکھ لی تھی،انھوں نے کہا:
"یہ خدا کا دشمن ضرور کسی بُرے ارادے سے آیا ہے-"
پھر وہ فوراً وہاں سے نبی اکرم ﷺ کے حجرۂ مبارک میں گئے اور عرض کیا:
"اللہ کے رسول!خدا کا دشمن عمیر ننگی تلوار لیے آیا ہے-"
حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
"عمر!اسے میرے پاس اندر لے آؤ-"
حضرت عمر ؓ فوراً باہر نکلے،تلوار کا پٹکا پکڑ کر انہیں اندر کھینچ لائے-اس وقت وہاں کچھ انصاری موجود تھے-حضرت عمر ؓ نے ان سے فرمایا:
"تم لوگ بھی میرے ساتھ اندر آجاؤ...کیونکہ مجھے اس کی نیت پر شک ہے-"
چنانچہ وہ اندر آگئے-آنحضرت ﷺ نے جب دیکھا کہ حضرت عمر ؓ عمیر ؓ کو اس طرح پکڑ کر لا رہے ہیں تو آپ ﷺ نے فرمایا:
" عمر!اسے چھوڑدو...عمیر!آگے آجاؤ-"
چنانچہ عمیر آپ ﷺ کے قریب آگئے اور جاہلیت کے آداب کی طرح صبح بخیر کہا-حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا:
"عمیر!ہمیں اسلام نے تمہارے اس سلام سے بہتر سلام عنایت فرمایا ہے،جو جنت والوں کا سلام ہے...اب تم بتاؤ،تم کس لیے آئے ہو؟"
عمیر ؓ بولے:
"میں اپنے قیدی بیٹے کے سلسلے میں بات کرنے آیا ہوں -"
اس پر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
"پھر اس تلوار کا کیا مطلب...سچ بتاؤ،کس لیے آئے ہو؟"
عمیر ؓ بولے:
"میں واقعی اپنے بیٹے کی رہائی کے سلسلے میں آیا ہوں -"
چونکہ حضرت عمیر ؓ کے ارادے سے متعلق اللہ تعالٰی نے حضور ﷺ کو بذریعہ وحی پہلے سے بتادیا تھا،اس لیے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
نہیں عمیر!یہ بات نہیں ...بلکہ بات یہ ہے کہ کچھ دن پہلے تم اور صفوان حجراسود کے پاس بیٹھے تھے اور تم دونوں اپنے مقتولوں کے بارے میں باتیں کررہے تھے، ان مقتولوں کی جو بدر کی لڑائی میں مارے گئے اور جنہیں ایک گڑھے میں ڈال دیا گیا تھا-اس وقت تم نے صفوان سے کہا تھا کہ اگر تمہیں کسی کا قرض نہ ادا کرنا ہوتا اور پیچھے تمہیں اپنے بیوی بچوں کی فکر نہ ہوتی تو میں جاکر"محمد(ﷺ) کو قتل کردیتا-اس پر صفوان نے کہا تھا،اگر تم یہ کام کرڈالو تو قرض کی ادائیگی وہ کردےگا اور تمہارے بیوی بچوں کا بھی خیال وہی رکھےگا،ان کی کفالت کرےگا-مگر اللہ تعالٰی تمہارا ارادہ پورا ہونے نہیں دیں گے-"
عمیر ؓ یہ سن کر ہکّا بکّا رہ گئے،کیونکہ اس گفتگو کے بارے میں صرف انہیں پتا تھا یا صفوان ؓ کو،چنانچہ اب عمیر ؓ فوراً بول اُٹھے:
"میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں ،اور اے اللہ کے رسول!آپ پر جو آسمان سے خبریں آیا کرتی ہیں اور جو وحی نازل ہوتی ہے،ہم اس کو جھٹلایا کرتے تھے،جہاں تک اس معاملے کا تعلق ہے...تو اُس وقت حجر اسود کے پاس میرے اور صفوان کے سوا کوئی تیسرا شخص موجود نہیں تھا اور نہ ہی ہماری گفتگو کی کسی کو خبر ہے،کیونکہ ہم نے رازداری کا عہد کیا تھا- اس لیے اللہ کی قسم!آپ کو اللہ تعالٰی کے سوا اور کوئی اس بات کی خبر نہیں دےسکتا،پس حمدوثنا ہے اس ذاتِ باری تعالٰی کے لیے جس نے اسلام کی طرف میری رہنمائی کی اور ہدایت فرمائی اور مجھے اس راستے پر چلنے کی توفیق فرمائی-"
اس کے بعد عمیر ؓ نے کلمہ پڑھا اور مسلمان ہوگئے،تب حضور نبی کریم ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا:
"اپنے بھائی کو دین کی تعلیم دو اور انہیں قرآن پاک پڑھاؤ اور ان کے قیدی کو رہا کرو-"
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے فوراً حکم کی تعمیل کی-
سیدہ فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا کی رخصتی
اب حضرت عمیر ؓ نے عرض کیا:"اے اللہ کے رسول!میں ہر وقت اس کوشش میں لگا رہتا تھا کہ اللہ کے اس نور کو بجھادوں اور جو لوگ اللہ کے دین کو قبول کرچکے ہیں ،انہیں خوب تکالیف پہنچایا کرتا تھا-اب میری آپ سے درخواست ہے کہ آپ مجھے مکہ جانے کی اجازت دیں ،تاکہ وہاں کے لوگوں کو اللہ کی طرف بلاؤں اور اسلام کی دعوت دوں -ممکن ہے،اللہ تعالٰی انہیں ہدایت عطا فرمادیں -"
حضور اکرم ﷺ نے انہیں مکہ جانے کی اجازت دے دی،چنانچہ یہ واپس مکہ آگئے-ان کی تبلیغ سے ان کے بیٹے وہب ؓ بھی مسلمان ہوگئے-
جب حضرت صفوان ؓ کو یہ اطلاع ملی کہ عمیر ؓ مسلمان ہوگئے ہیں تو وہ بھونچکا رہ گئے اور قسم کھا لی اب کبھی عمیر ؓ سے نہیں بولیں گے-اپنے گھر والوں کو دین کی دعوت دینے کے بعد عمیر ؓ صفوان ؓ کے پاس آئے اور پکار کہا:
"اے صفوان!تم ہمارے سرداروں میں سے ایک سردار ہو،تمہیں معلوم ہے کہ ہم پتھروں کو پوجتے رہے ہیں اور اور ان کے نام پر قربانیاں دیتے رہے ہیں ،بھلا یہ بھی کوئی دین ہوا...میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالٰی کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں -"
ان کی بات سن کر صفوان ؓ نے کوئی جواب نہ دیا-بعد میں فتح مکہ کے موقع پر عمیر ؓ نے ان کے لیے امان طلب کی تھی اور پھر یہ بھی ایمان لے آئے تھے-(ان کے اسلام لانے کا قصہ فتح مکہ کے موقع پر تفصیل سے آئے گا-ان شاء اللہ)-
اسی طرح ان قیدیوں میں نبی اکرم ﷺ کے چچا حضرت عباس ؓ بھی تھے- صحابہ کرام نے انہیں بہت سختی سے باندھ رکھا تھا- رسی کی سختی انہیں بہت تکلیف دے رہی تھی اور وہ کراہ رہے تھے-ان کی اس تکلیف کی وجہ سے حضور اکرم ﷺ بھی تمام رات بےچین رہے... جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو معلوم ہوا کہ حضور اکرم ﷺ اس وجہ سے بےچین ہیں تو فوراً حضرت عباس ؓ کی رسیاں ڈھیلی کردیں ...یہی نہیں !باقی تمام قیدیوں کی رسیاں بھی ڈھیلی کردیں ...پھر انھوں نے اپنا فدیہ ادا کیا اور رہا ہوئے،اسی موقع پر حضرت عباس ؓ مسلمان ہوگئے تھے مگر انھوں نے مکہ والوں سے اپنا مسلمان ہونا پوشیدہ رکھا-
قیدیوں میں ایک قیدی ابوعزہ جمحی بھی تھا-اس نے حضور نبی کریم ﷺ سے التجا کی:
"اے اللہ کے رسول!میں بال بچوں والا آدمی ہوں اور خود بہت ضرورت مند ہوں ...میں فدیہ نہیں ادا کرسکتا...مجھ پر رحم فرمائیں -"
یہ شاعر تھا،مسلمانوں کے خلاف شعر لکھ لکھ کر آپ کو تکلیف پہنچایا کرتا تھا-اس کے باوجود آپ ﷺ نے اس کی درخواست منظور فرمائی اور بغیر فدیے کے اسے رہا کردیا...البتہ اس سے وعدہ کیا کہ آئندہ وہ مسلمانوں کے خلاف اشعار نہیں لکھے گا...اس نے وعدہ کرلیا،لیکن رہا ہونے کے بعد جب یہ مکہ پہنچا تو اس نے پھر اپنا کام شروع کردیا-مسلمانوں کے خلاف اشعار لکھنے لگا-یہ مکہ کے مشرکوں سے کہا کرتا تھا:
"میں نے محمد پر جادو کردیا تھا،اس لیے انھوں نے مجھے بغیر فدیے کے رہا کردیا-"
اگلے سال یہ شخص غزوہ احد کے موقع پر کافروں کے لشکر میں شامل ہوا اور اپنے اشعار سے کافروں کو جوش دلاتا رہا-اسی لڑائی میں یہ قتل ہوا-
بدر کے فتح کی خبر شاہِ حبشہ تک پہنچی تو وہ بہت خوش ہوئے-حضرت جعفر ؓ اور کچھ دوسرے مسلمان اس وقت تک حبشہ ہی میں تھے-شاہِ حبشہ نے انہیں اپنے دربار میں بلا کر یہ خوش خبری سنائی-
بدر کی لڑائی میں شریک ہونے والے صحابہ بدری کہلائے- نہیں بہت فضیلت حاصل ہے-
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا:
"اللہ تعالٰی نے اصحابِ بدر پر اپنا خاص فضل و کرم فرمایا ہے اور ان سے کہہ دیا ہے کہ جو چاہو کرو،میں تمہارے گناہ معاف کرچکا......یا یہ فرمایا کہ تمہارے لیے جنت واجب ہوچکی ہے-"
مطلب یہ ہے کہ ان کے سابقہ گناہ تو معاف ہو ہی چکے ہیں ،آئندہ بھی اگر ان سے کوئی گناہ ہوئے تو وہ بھی معاف ہیں -
غزوہ بدر کے بعد آپ ﷺ نے اپنی چھوٹی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شادی حضرت علی ؓ سے کردی-شادی سے پہلے آپ ﷺ نے حضرت فاطمہ سے پوچھا:
"بیٹی تمہارے چچازاد بھائی علی ؓ کی طرف سے تمہارا رشتہ آیا ہے،تم اس بارے میں کیا کہتی ہو؟"
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا خاموش رہیں -گویا انہوں نے کوئی اعتراض نہ کیا-تب حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت علی ؓ کو بلایا اور ان سے پوچھا:
"تمہارے پاس کیا کچھ ہے؟"(یعنی شادی کے لیے کیا انتظام ہے؟)
انھوں نے جواب دیا:
"میرے پاس صرف ایک گھوڑا اور ایک زرہ ہے-"
یہ سن کر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
"گھوڑا تو تمہارے لیے ضروری ہے،البتہ تم زرہ کو فروخت کردو-"
حضرت علی ؓ نے وہ زرہ چارسواسی درہم میں فروخت کردی اور رقم لاکر آپ ﷺ کی خدمت میں پیش کردی-
اس سلسلے میں ایک روایت یہ بھی ہے کہ جب حضرت عثمان ؓ کو پتا چلا کہ شادی کے سلسلے میں حضرت علی اپنی زرہ بیچ رہے ہیں تو انھوں نے فرمایا:
"یہ زرہ اسلام کے شہسوار علی کی ہے،یہ ہرگز فروخت نہیں ہونی چاہیے-"
پھر انھوں نے حضرت علی ؓ کے غلام کو بلایا اور انہیں چارسو درہم دیتے ہوئے کہا:
یہ درہم اس زرہ کے بدلے میں علی کو دے دیں -"
ساتھ ہی انھوں نے زرہ بھی واپس کردی...بہرحال اس طرح شادی کا خرچ پورا ہوا-حضور نبی کریم ﷺ نے حضرت علی ؓ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کا خطبہ پڑھا- پھر آپ ﷺ نے دونوں کے لیے دعا فرمائی-
غزوہ بدر کے بعد غزوہ بنی قینقاع پیش آیا-قینقاع یہودیوں کے ایک قبیلے کا نام تھا-یہودیوں میں یہ لوگ سب سے زیادہ جنگجو شمار ہوتے تھے-مدینہ منورہ میں آمد کے بعد نبی اکرم ﷺ نے یہودیوں سے صلح کا معاہدہ فرمایا تھا-معاہدے میں طے ہوا تھا کہ یہ لوگ کبھی آپ ﷺ کے مقابلے پر نہیں آئیں گے اور نہ آپ ﷺ کے دشمنوں کو کوئی مدد دیں گے-جن لوگوں سے معاہدہ ہوا۔ان میں یہ تین قبیلے شامل تھے-بنی قینقاع،بنی قریظہ اور بنی نظیر-
معاہدے کی ایک شرط یہ تھی کہ اگر کوئی دشمن مسلمانوں پر حملہ کرے گا تو یہ تینوں قبیلے مسلمانوں کی پوری پوری مدد کریں گے-ان کا ہر طرح ساتھ دیں گے،لیکن ان لوگوں نے معاہدے کی خلاف ورزی کی-انھوں نے ایک مسلمان عورت سے بدتمیزی کی-ان کی بدتمیزی کو پاس سے گزرتے ہوئے ایک صحابی نے دیکھ لیا،انھوں نے اس یہودی کو قتل کردیا،یہ دیکھ کر محلے کے یہودیوں نے مل کر ان صحابی کو شہید کردیا-اس خبر کے پھیلنے پر وہاں اور مسلمان جمع ہوگئے-
جاری ھےان شاء اللہ
👍
1