ازدواجی زندگی سوشل میڈیا
ازدواجی زندگی سوشل میڈیا
June 12, 2025 at 12:42 AM
🌻🌺🌻🌺🌻🌺🌻🌺🌻🌺 🌹 بسمِﷲِالرَّحْمن الرَّحِيم 🌹          🇵🇰   *آج کا کیلنڈر*  🌤 🔖 15 ذوالحجہ 1446ھ 💎 🔖 12 جون 2025ء 💎 🔖 29 جیٹھ 2081ب 💎 🌄 بروز جمعرات Thursday 🌄 🌺🌻🌺🌻🌺🌻🌺🌻🌺🌻 سیرت خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ ﷺ قسط نمبر 25 یہودیوں کے خلاف پہلا جہاد حضور نبی کریم ﷺ کو اس واقعے کی اطلاع ہوئی تو آپ نے یہودیوں کو جمع کر کے ان سے فرمایا۔ اے یہودیو۔تم اللہ تعالٰی کی طرف سے ایسی تباہی سے بچنے کی کوشش کرو جیسی بدر کے موقع پر قریش پر نازل ہوئی ہے،اس لیے تم مسلمان ہو جاؤ،تم جانتے ہو کہ میں اللہ کی طرف سے بھیجا ہوا رسول ہوں اور اس حقیقت کو تم اپنی کتاب میں درج پاتے ہو۔ اس پر یہودیوں نے کہا۔ اے محمد۔آپ شاید یہ سمجھتے ہیں کہ ہم بھی آپ کی قوم کی طرح ہیں ،اس دھوکے میں نہ رہیے گا،کیونکہ اب تک آپ کو ایسی قوموں سے سابقہ پڑا ہے جو جنگ اور اس کے طریقے نہیں جانتے۔لہذا آپ نے انہیں آسانی سے زیر کر لیا،لیکن اگر آپ نے ہم سے جنگ کی تو خدا کی قسم آپ کو پتا چل جائے گا کہ کیسے بہادروں سے پالا پڑا ہے۔ ان کے یہ الفاظ کہنے کی دراصل وجہ یہ تھی کہ یہ لوگ جنگجو اور عسکری فنونِ کے بہت ماہر تھے۔پھر یہودیوں میں سب سے زیادہ دولت مند تھے،ہر قسم کا بہترین اسلحہ ان کے پاس تھا۔ان کے قلعے بھی بہت مضبوط تھے۔ان کے الفاظ پر اللہ تعالٰی کی طرف سے سورۃ آل عمران کی آیت نازل ہوئی۔ ترجمہ۔اے نبی آپ ان سے کہہ دیجئے کہ بہت جلد تم (مسلمانوں کے ہاتھوں ) شکست کھاؤ گے اور آخرت میں جہنم کی طرف جمع کر کے لے جائے جاؤ گے اور وہ جہنم بہت برا ٹھکانہ ہے۔ اس دھمکی کے بعد بنی قینقاع قلعہ بند ہو گئے۔ آنحضرت ﷺ اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ ان کے قلعوں کی طرف روانہ ہوئے۔ آپ ﷺ کا پرچم اس غزوہ میں سفید رنگ کا تھا اور حضرت حمزہ ؓ کے ہاتھ میں تھا۔ان کے قلعوں کی طرف روانہ ہونے سے پہلے آپ ﷺ نے حضرت ابو لبابہ ؓ کو مدینہ منورہ میں اپنا قائم مقام مقرر فرمایا۔آپ ﷺ نے یہودی بستیوں کا محاصرہ کر لیا۔یہ محاصرہ بہت سخت تھا۔پندرہ دن تک جاری رہا۔آخر اللہ تعالٰی نے ان یہودیوں کے دلوں میں مسلمانوں کا رعب طاری کر دیا۔وہ اس محاصرے سے تنگ آ گئے،حالانکہ ان یہودیوں میں اس وقت تقریباً 700 جنگجو تھے۔اب انہوں نے درخواست کی کہ ہم یہاں سے نکل کر جانے کے لیے تیار ہیں ،شرط یہ ہے کہ انہیں نکل جانے کا راستہ دے دیا جائے۔اس صورت میں وہ یہاں سے ہمیشہ کے لیے چلے جائیں گے۔ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ہمارے ساتھ ہماری عورتیں اور بچوں کو بھی جانے دیا جائے۔مال و دولت اور ہتھیار وغیرہ وہ یہیں چھوڑ جائیں گے۔ حضور اکرم ﷺ نے ان کی یہ بات منظور فرما لی۔اور انہیں نکل جانے کا راستہ دے دیا۔ اس طرح مسلمانوں کے ہاتھ بے تحاشا مال غنیمت آیا۔ یہودیوں کو مدینہ منورہ سے نکل جانے کے لیے تین دن کی مہلت دی گئی۔یہ لوگ وہاں سے نکل کر ملک شام کی ایک بستی میں جا بسے۔ایک روایت کے مطابق ایک سال بھی نہیں گزرا تھا کہ وہ سب کے سب ہلاک ہو گئے۔ یہ حضور نبی کریم ﷺ کی بد دعا کا اثر تھا۔ غزوہ قینقاع کے بعد چند چھوٹے چھوٹے غزوات اور ہوئے۔کچھ دنوں بعد حضور اکرم ﷺ نے حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا سے اور پھر حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمایا-حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کا پہلا نکاح زید بن حارثہ ؓ سے ہوا تھا-یہ حضور اقدس ﷺ کے منہ بولے بیٹے تھے-ان دونوں میں نبھ نہ سکی،لہٰذا طلاق ہوگئی اور اس کے بعد آپ ﷺ نے ان سے نکاح فرمایا-یہ نکاح اللہ تعالیٰ نے آسمان پر فرمایا تھا اور اس بارے میں آپ ﷺ پر وحی نازل ہوئی تھی جب وحی نازل ہوئی تو آپ ﷺ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: "زینب کو جاکر خوشخبری سنادو،اللہ تعالٰی نے آسمان پر ان سے میرا نکاح کردیا ہے-" اس بارے میں اللہ تعالی نے سورہ احزاب میں آیت بھی نازل فرمائی...تاکہ لوگ شک و شبہ نہ کریں کہ آپ ﷺ نے اپنے منہ بولے بیٹے کی طلاق شدہ بیوی سے نکاح کیا ہے-دراصل عرب کے جہالت زدہ معاشرے میں منہ بولے بیٹے کو حقیقی بیٹے کی طرح محرم سمجھا جاتا تھا اور اس کی طلاق شدہ بیوی سے شادی ناجائز سمجھی جاتی تھی،ساتھ ساتھ اسے وراثت میں بھی حصہ ملتا تھا-اسلام نے اس فرسودہ رسم کو بالکل ختم کردیا اس کی ابتدا حضور ﷺ نے کی-آپ ﷺ نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو دعوت ولیمہ بھی کھلائی- اسی روز پردے کی آیت نازل ہوئی- 3ھ میں غزوہ احد پیش آیا-احد پہاڑ مدینہ منورہ سے دو میل کے فاصلے پر ہے-اس پہاڑ کے بارے میں آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے: یہ احد ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں -جب تم اس کے پاس سے گزرو تو اس کے درختوں کا پھل تبرک کے طور پر کھا لیا کرو،چاہے تھوڑا سا ہی کیوں نہ ہو-" غزوہ احد کیوں ہوا؟اس کا جواب یہ ہے کہ غزوہ بدر میں کافروں کو بدترین شکست ہوئی تھی-کافر جمع ہوکر اپنے سردار حضرت ابوسفیان ؓ کے پاس آئے اور ان سے کہا: "بدر کی لڑائی میں ہمارے بے شمار آدمی میں قتل ہوئے ہیں -ہم ان کے خون کا بدلہ لیں گے...آپ تجارت سے جو مال کما کر لاتے ہیں ،اس مال کے نفع سے جنگ کی تیاری کی جائے-" حضرت ابوسفیان ؓ نے ان کی بات منظور کرلی اور جنگ کی تیاریاں زورشور سے شروع ہوگئیں -کہا جاتا ہے کہ سامانِ تجارت سے جو نفع ہوا تھا،وہ پچاس ہزار دینار تھا-غزوہ بدر میں حضور اکرم ﷺ نے ابوحمزہ شاعر کو فدیہ لیے بغیر رہا کردیا تھا،اور اس سے اقرار لیا تھا کہ مسلمانوں کے خلاف شعر نہیں کہے گا...اب جب جنگ کی تیاریاں شروع ہوئیں تو لوگوں نے اس سے کہا: "تم اپنے اشعار سے جوش پیدا کرو-" پہلے تو ابوحمزہ نے انکار کیا،کیونکہ وہ حضور ﷺ کے سامنے وعدہ کر آیا تھا،لیکن پھر وعدہ خلافی پر اتر آیا اور اشعار پڑھنے لگا- آخر قریشی لشکر مکہ معظمہ سے نکلا اور مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوا-قریش کے لشکر میں عورتیں بھی تھیں -عورتیں بدر میں مارے جانے والوں کا نوحہ کرتی جاتی تھیں -اس طرح یہ اپنے مردوں میں جوش پیدا کررہی تھیں ،انہیں شکست کھانے یا میدان جنگ سے بھاگ جانے پر شرم دلا رہی تھیں - قریش کی جنگی تیاریوں کی اطلاع حضور ﷺ کے چچا حضرت عباس ؓ نے بھیجی-انہوں نے یہ اطلاع ایک خط کے ذریعے بھیجی- خط لے جانے والے نے تین دن رات مسلسل سفر کیا اور یہ خط آپ ﷺ تک پہنچایا-آپ ﷺ اس وقت قبا میں تھے غزوہ احد کی تیاری حضور اقدس ﷺ قبا سے مدینہ منورہ پہنچے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے قریشی لشکر سے مقابلے کے سلسلے میں مشورہ کیا، حضور ﷺ کی رائے یہ تھی کہ قریش پر شہر سے باہر حملہ کرنے کے بجائے شہر میں رہ کر اپنا دفاع کیا جائے،چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا: "اگر تمہاری رائے ہو تو تم مدینہ منورہ میں رہ کر ہی مقابلہ کرو،ان لوگوں کو وہیں رہنے دو،جہاں وہ ہیں ،اگر وہ وہاں پڑے رہتے ہیں تو وہ جگہ ان کے لیے بدترین ثابت ہوگی اور اگر ان لوگوں نے شہر میں آ کر ہم پر حملہ کیا تو ہم شہر میں ان سے جنگ کریں گے اور شہر کے پیچ و خم کو ہم ان سے زیادہ جانتے ہیں -" آپ ﷺ نے جو رائے دی تھی،تمام بڑے صحابہ کرام کی بھی وہی رائے تھی-منافقوں کے سردار عبداللہ ابن اُبی نے بھی یہی مشورہ دیا-یہ شخص ظاہر میں مسلمان تھا اور اپنے لوگوں کا سردار تھا- دوسری طرف کچھ پرجوش نوجوان صحابہ اور پختہ عمر کے صحابہ یہ چاہتے تھے کہ شہر سے نکل کر دشمن کا مقابلہ کیا جائے-یہ مشورہ دینے والوں میں زیادہ وہ لوگ تھے جو غزوہ بدر میں شریک نہیں ہوسکے تھے اور انہیں اس کا بہت افسوس تھا-وہ اپنے دلوں کے ارمان نکالنا چاہتے تھے،چنانچہ ان لوگوں نے کہا: "ہمیں ساتھ لے کر دشمنوں کے مقابلے کے لیے باہر چلیں تاکہ وہ ہمیں کمزور اور بزدل نہ سمجھیں ،ورنہ ان کے حوصلے بہت بڑھ جائیں گے اور ہم تو یہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ وہ ہمیں دھکیلتے ہوئے ہمارے گھروں میں گھس آئیں اور اے اللہ کے رسول!جو شخص بھی ہمارے علاقے میں آیا،ہم سے شکست کھاکر گیا ہے،اب تو آپ ہمارے درمیان موجود ہیں ،اب دشمن سے کیسے ہم پر غالب آسکتا ہے؟" حضرت حمزہ رضی االلہ عنہ نے بھی ان کی تائید کی-آخر آپ ﷺ نے ان کی بات مان لی- پھر آپ ﷺ نے جمعہ کی نماز پڑھائی اور لوگوں کے سامنے وعظ فرمایا-انہیں حکم دیا: " مسلمانو! پوری تن دہی اور ہمت کے ساتھ جنگ کرنا،اگر تم لوگوں نے صبر سے کام لیا تو اللہ تعالیٰ تمہیں فتح اور کامرانی عطا فرمائیں گے،اب دشمن کے سامنے جاکر لڑنے کی تیاری کرو-" لوگ یہ حکم سن کر خوش ہوگئے-اس کے بعد آپ ﷺ نے سب کے ساتھ عصر کی نماز پڑھی-اس وقت تک ارد گرد سے بھی لوگ آگئے تھے- پھر آپ ﷺ حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ گھر میں تشریف لے گئے-ان دونوں نے آپ ﷺ کے سر پر عمامہ باندھا اور جنگی لباس پہنایا-باہر لوگ آپ ﷺ کا انتظار کر رہے تھے اور صفیں باندھے کھڑے تھے- اس وقت حضرت سعد بن معاذ اور حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہما نے مسلمانوں سے کہا: "رسول اللہ ﷺ کی مرضی شہر میں رہ کر لڑنے کی تھی،تم لوگوں نے انہیں باہر نکل کر لڑنے پر مجبور کیا...بہتر ہوگا،تم اب بھی اس معاملے کو ان پر چھوڑ دو-حضورﷺ جو بھی حکم دیں گے،ان کی جو بھی رائے ہوگی،بھلائی اسی میں ہوگی،اس لئے حضور ﷺ کی فرمابرداری کرو-" باہر یہ بات ہورہی تھی،اتنے میں حضور ﷺ باہر تشریف لے آئے-آپ ﷺ نے جنگی لباس پہن رکھا تھا،دوہری زرہ پہن رکھی تھی- ان زرہوں کا نام ذات الفضول اور فضہ تھا-یہ آپ ﷺ کو بنی قینقاع سے مال غنیمت سے ملی تھیں - ان میں سے ذات الفضول وہ ذرہ ہے کہ جب حضور ﷺ کا انتقال ہوا تو یہ ایک یہودی کے پاس رہن رکھی ہوئی تھی،حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے یہودی کی رقم ادا کرکے اسے واپس لیا تھا- زرہیں آپ صلی للہ علیہ وسلم نے لباس کے اوپر پہن رکھی تھیں -اس وقت ان نوجوانوں نے عرض کیا: "اللہ کے رسول!ہمارا مقصد یہ نہیں تھا کہ آپ کی رائے کی مخالفت کریں یا آپ کو مجبور کریں ،لہٰذا آپ جو مناسب سمجھیں ،وہ کریں -" اس پر حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: "اب میں ہتھیار لگا چکا ہوں اور کسی نبی کے لیے ہتھیار لگانے کے بعد ان کا اتار دینا اس وقت تک جائز نہیں جب تک کہ اللہ تعالی اس کے اور دشمنوں کے درمیان فیصلہ فرمادے-" آپ ﷺ نے اس موقع پر تین پرچم بنوائے-ایک پرچم قبیلہ اوس کا تھا-یہ حضرت اسید بن حضیر ؓ کے ہاتھ میں تھا-دوسرا پرچم مہاجرین کا تھا،یہ حضرت علی ؓ یا حضرت مصعب بن عمیر ؓ کے ہاتھ میں تھا-تیسرا پرچم قبیلہ خزرج کا تھا،یہ حباب بن منذر ؓ یا حضرت سعد بن عبادہ ؓ کے ہاتھ میں تھا- اس طرح آنحضرت ﷺ ایک ہزار کا لشکر لے کر روانہ ہوئے-لشکر میں آپ ﷺ کے آگے سعد بن معاذ اور سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہما چل رہے تھے-یہ دونوں قبیلہ اوس اور خزرج کے سردار تھے۔ آپ ﷺ نے مدینہ منورہ میں ایک نابینا صحابی حضرت عبداللہ بن ام مکتوم ؓ کو اپنا قائم مقام مقرر فرمایا،مدینہ منورہ سے کوچ کرکے آپ ﷺ ثنیہ کے مقام پر پہنچے- پھر یہاں سے روانہ ہوکر شیخین کے مقام پر پہنچے، شیخین دو پہاڑوں کا نام تھا-یہاں آپ ﷺ نے لشکر کا معائنہ فرمایا اور کم عمر نوجوانوں کو واپس بھیج دیا-یہ ایسے نوجوان تھے جو ابھی پندرہ سال کے نہیں ہوئے تھے-ان کم سن مجاہدوں میں رافع بن خدیج اور سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہما بھی تھے، لیکن پھر آپ ﷺ نے حضرت رافع ؓ کو جنگ میں حصہ لینے کی اجازت دے دی-یہ دیکھ کر حضرت سمرہ بن جندب ؓ نے کہا: "آپ نے رافع کو اجازت دے دی جب کہ مجھے واپس جانے کا حکم فرمایا،حالانکہ میں رافع سے زیادہ طاقت ور ہوں -" اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: "اچھا تو پھر تم دونوں میں کشتی ہوجائے-" دونوں میں کشتی کا مقابلہ ہوا،سمرہ بن جندب ؓ نے رافع بن خدیج ؓ کو پچھاڑ دیا-اس طرح انہیں بھی جنگ میں حصہ لینے کی اجازت ہوگئی- آپ ﷺ فوج کے معائنے سے فارغ ہوئے تو سورج غروب ہوگیا-حضرت زبیر ؓ نے اذان دی-آپ ﷺ نے نماز پڑھائی- پھر عشاء کی نماز ادا کی گئی-نماز کے بعد آپ ﷺ آرام فرمانے کے لیے لیٹ گئے-رات کے وقت پہرہ دینے کے لیے آپ ﷺ نے پچاس مجاہدوں کو مقرر کیا-ان کا سالار حضرت محمد بن مسلمہ ؓ کو مقرر فرمایا-یہ تمام رات اسلامی لشکر کے گرد پہرہ دیتے رہے-رات کے آخری حصے میں آپ ﷺ نے شیخین سے کوچ فرمایا اور صبح کی نماز کے وقت احد پہاڑ کے قریب پہنچ گئے۔ جاری ھےانشاء اللہ
❤️ 👍 3

Comments