
ازدواجی زندگی سوشل میڈیا
June 13, 2025 at 12:41 AM
🌻🌺🌻🌺🌻🌺🌻🌺🌻🌺
🌹 بسمِﷲِالرَّحْمن الرَّحِيم 🌹
🇵🇰 *آج کا کیلنڈر* 🌤
🔖 16 ذوالحجہ 1446ھ 💎
🔖 13 جون 2025ء 💎
🔖 30 جیٹھ 2081ب 💎
🌄 بروز جمعہ Friday 🌄
🌺🌻🌺🌻🌺🌻🌺🌻🌺🌻
سیرت خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ ﷺ
قسط نمبر 26
معرکہ احد کا آغاز
اسلامی لشکر نے جہاں پڑاؤ ڈالا اس مقام کا نام شوط تھا۔آپ ﷺ نے یہاں فجر کی نماز ادا فرمائی۔اس وقت لشکر میں عبداللہ بن ابی بن سلول بھی تھا، یہ منافق تھا۔اس کے ساتھ تین سو جوان تھے، یہ سب کے سب منافق تھے۔اس مقام پر پہنچ کر عبداللہ بن ابی نے کہا!
"آپ نے میری بات نہیں مانی اور ان نوعمرلڑکوں کا مشورہ مانا۔حالانکہ ان کا مشورہ کوئی مشورہ ہی نہیں ہے۔اب خود ہی ہماری رائے کے بارے میں اندازہ ہوجائے گا، ہم بلاوجہ کیوں جانیں دیں ۔اس لیئے ساتھیو! واپس چلو. "
اس طرح یہ لوگ واپس لوٹ گئے۔اب حضور ﷺ کے ساتھ صرف سات سو صحابہ رہ گئے۔اس روز مسلمانوں کے پاس صرف دو گھوڑے تھے۔ان میں سے ایک آنحضرت ﷺ کا تھا اور دوسرا ابو بردہ ؓ کا تھا۔شوط کے مقام سے چل کر آپ ﷺ نے احد کی گھاٹی میں پڑاؤ ڈالا۔آپ ﷺ نے پڑاؤ ڈالتےوقت اس بات کا خیال رکھا کہ پہاڑ آپ ﷺ کی پشت کی طرف رہے۔
اس جگہ رات بسر کی گئی۔ پھر حضرت بلال ؓ نے صبح کی آذان دی۔صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے صفیں قائم کیں اور آپ ﷺ نے انہیں نماز پڑھائی۔نماز کے بعد حضور ﷺ نے مسلمانوں کو خطبہ دیا ۔اس میں جہاد کے بارےمیں ارشاد فرمایا ۔جہاد کے علاوہ حضور ﷺ نے حلال روزی کمانے کے بارےمیں بھی نصیحت فرمائی اور فرمایا:
جبرئیل (علیہ السلام) نے میرے دل میں یہ وحی ڈالی ہے کہ کوئی شخص اس وقت تک نہیں مرے گا جب تک کہ وہ اپنے حصے کے رزق کا ایک ایک دانہ حاصل نہیں کرلیتا (چاہے کچھ دیر میں حاصل ہو مگر اس میں کوئی کمی واقع نہیں ہوسکتی) ۔اس لیے اپنے پروردگار سے ڈرتے رہو اور رزق کی طلب میں نیک راستے اختیار کرو (ایسا ہرگز نہیں ہوناچاہئے کہ رزق میں دیر لگنے کی وجہ سے تم الله کی نافرمانی حاصل کرنے لگو) ۔
آپ ﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا:
ایک مومن کا دوسرے مومن سے ایسا ہی رشتہ ہے جیسے سر اور بدن کا رشتہ ہوتاہے ۔اگر سر میں تکلیف ہو تو سارا بدن درد سے کانپ اٹھتا ہے....
اس کے بعد دونوں لشکر آمنے سامنے آکھڑے ہوئے ۔مشرکوں کے لشکر کے دائیں بائیں خالد بن ولید اور عکرمہ تھے ۔یہ دونوں حضرات اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے ۔آنحضرت ﷺ نے حضرت زبیر بن عوام ؓ کو ایک دستہ دے کر فرمایا:
تم خالد بن ولید کےمقابلے پر رہنا اور اس وقت تک حرکت نہ کرنا جب تک کہ میں اجازت نہ دوں ۔پھر آپ ﷺ نے پچاس تیر اندازوں کے ایک دستے پر حضرت عبداللہ بن جبیر ؓ کو امیر مقرر فرمایا اور انہیں اس درے پر متعین فرمایا جو مسلمانوں کی پشت پر تھا ۔اس درے پر پچاس تیر انداز مقرر کرنے کی وجہ یہ تھی کہ پشت کی طرف سے دشمن حملہ نہ کرسکے ۔حضور اکرم ﷺ نے ان پچاس تیر اندازوں سے فرمایا: تم مشرکوں کے گھڑ سوار دستوں کو تیر اندازی کرکے ہم سے دور ہی رکھنا ۔کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ پشت کی طرف سے آکر حملہ کردیں ، ہمیں چاہے فتح ہو یا شکست.....تم اپنی جگہ سے نہ ہلنا ۔اس کے بعد حضور اکرم ﷺ نے ایک تلوار نکالی اور فرمایا:
کون مجھ سے یہ تلوار لےکر اس کا حق ادا کرسکتا ہے؟...
اس پر کئی صحابہ کرام اٹھ کر آپ ﷺ کی طرف لپکے، لیکن آپ ﷺ نے وہ تلوار انہیں نہيں دی ۔ان حضرات میں حضرت علی رضی الله عنہ بھی تھے ۔آپ ﷺ نے ان صحابہ سے فرمایا:
بیٹھ جاؤ ۔
حضرت زبیر بن عوام ؓ نے بھی وہ تلوار لینے کی تین بار کوشش کی، مگر آپ ﷺ نے ہر مرتبہ انکار کردیا ۔آخر صحابہ کے مجمع میں سے حضرت ابودجانہ ؓ اٹھے اور عرض کیا:
میں اس تلوار کا حق ادا کروں گا ۔
آپ ﷺ نے وہ تلوار انہیں عطا فرمادی ۔ابودجانہ رضی الله عنہ بےحد بہادر تھے، جنگ کے دوران غرور کے انداز میں اکڑ کر چلا کرتےتھے ۔جب آپ ﷺ نے انہیں دونوں لشکروں کے درمیان اکڑ کر چلتے دیکھا تو فرمایا: یہ چال ایسی ہے جس سے اللہ تعالی نفرت فرماتا ہے،سوائے اس قسم کے موقعوں کے ۔(یعنی دشمنوں کا سامنا کرتے وقت یہ چال جائز ہے تاکہ یہ ظاہر ہوکہ ایسا شخص دشمن سے ذرا بھی خوف زدہ نہیں ہے اور نہ اسے دشمن کے جنگی ساز و سامان کی پروا ہے ۔) پھر دونوں لشکر ایک دوسرے کے بالکل نزدیک آگئے ۔اس وقت مشرکوں کے لشکر سے ایک اونٹ سوار آگے نکلا اور مبارزت طلب کی یعنی مقابلے کے لیے للکارا ۔اس نے تین مرتبہ پکارا۔تب حضرت زبیر بن عوام ؓ اسلامی صفوں سے نکل کر اس کی طرف بڑھے ۔حضرت زبیر رضی الله عنہ اس وقت پیدل تھے ۔جب کہ دشمن اونٹ پر سوار تھا ۔اس کے نزدیک پہنچتے ہی حضرت زبیر رضی الله عنہ ایک دم زور سے اچھلے اور اس کی اونچائی کے برابر پہنچ گئے ۔ساتھ ہی انہوں نے اس کی گردن پکڑلی....
دونوں میں اونٹ پر ہی زورآزمائی ہونے لگی ۔ان کی زورآزمائی دیکھ کر آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا ۔
ان میں سے جو پہلے نیچے گرے گا، وہی مارا جائےگا ۔اچانک وہ مشرک نیچے گرا پھر حضرت زبیر ؓ اس پر گرے، گرتے ہی انہوں نے فوراﹰ ہی اس پر تلوار کا وار کیا اور وہ جہنم رسید ہوگیا ۔
آنحضرت ﷺ نے حضرت زبیر ؓ کی تعریف ان الفاظ میں بیان فرمائی:
ہر نبی کا ایک حواری (یعنی خاص ساتھی) ہوتاہے اور میرے حواری زبیر ہیں ۔پھر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ۔اگر اس مشرک کے مقابلے کے لیے زبیر نہ نکلتے تو میں خود نکلتا ۔اس کے بعد مشرکوں کی صفوں میں سے ایک اور شخص نکلا ۔اس کا نام طلحہ بن ابو طلحہ تھا ۔یہ قبیلہ عبدالدار سے تھا ۔اس کے ہاتھ میں پرچم تھا ۔اب اس نے مبارزت طلب کی ۔اس نے بھی کئی بار مسلمانوں کو للکارا، تب حضرت علی رضی الله عنہ مسلمانوں کی صفوں میں سے نکل کر اس کے سامنے پہنچ گئے، اب ان دونوں میں مقابلہ شروع ہوا ۔دونوں نے ایک دوسرے پر تلوار کے وار کیے ۔حضرت علی ؓ کا ایک وار اس کی ٹانگ پر لگا ۔ٹانگ کٹ گئی ۔وہ بری طرح گرا اور اس کے کپڑے الٹ گئے ۔اس طرح وہ برہنہ ہوگیا ۔وہ پکار اٹھا:
میرے بھائی میں خدا کا واسطہ دے کر تم سے رحم کی بھیک مانگتا ہوں
حق اداکردیا
حضرت علی رضی الله عنہ طلحہ بن ابو طلحہ کو چھوڑ کر لوٹ آئے... آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے ان سے پوچھا:
"اے علی! تم نے اسے کیوں چھوڑ دیا؟ "
انہوں نے عرض کیا:
"اللّٰه کے رسول! اس نے مجھے خدا کا واسطہ دے کر رحم کی درخواست کی تھی۔"
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
"اسے قتل کر آؤ۔"
چنانچہ حضرت علی رضی الله عنہ گئے اور اسے قتل کرڈالا۔اس کے قتل کے بعد مشرکوں کا پرچم اس کے بھائی عثمان بن ابوطلحہ نے لے لیا۔اس کے مقابلے پر حضرت حمزہ رضی الله عنہ آئے۔انہوں نے اس کے نزدیک پہچتے ہی تلوار کا وار کیا، اس وار سے اس کا کندھا کٹ گیا۔ وہ گر پڑا، اور دوسرے وار سے انہوں نے اس کا خاتمہ کردیا۔
اب طلحہ کا بیٹا مسافع آگے بڑھا۔حضرت عاصم بن ثابت بن ابوالافلح رضی الله عنہ نے اس پر تیر چلایا، وہ بھی ہلاک ہوگیا۔اس کے بعد اس کا بھائی حارث میدان میں نکلا، حضرت عاصم رضی الله عنہ نے اسے بھی تاک کر تیر مارا، وہ بھی مارا گیا۔
ان دونوں کی ماں بھی لشکر میں موجود تھی۔اس کا نام سلافہ تھا۔اس کے دونوں بیٹوں نے ماں کی گود میں دم توڑا۔مرنے سے پہلے سلافہ نے پوچھا:
"بیٹے! تمہیں کس نے زخمی کیا ہے؟"
ایک بیٹے نے جواب دیا:
"میں نے اس کی آواز سنی ہے، تیر چلانے سے پہلے اس نے کہا تھا، لے اس کو سنبھال، میں ابوالافلح کا بیٹا ہوں ۔"
اس جملے سے سلافہ جان گئی کہ وہ تیر انداز حضرت عاصم بن ثابت رضی الله عنہ ہیں ، چنانچہ اس نے قسم کھائی۔
"اگر عاصم کا سر میرے ہاتھ لگا تو میں اس کی کھوپڑی میں شراب پیوں گی۔"
ساتھ ہی اس نے اعلان کیا کہ جو شخص بھی عاصم بن ثابت کا سر کاٹ کر لائے گا، میں اسے سو اونٹ انعام میں دوں گی۔"
حضرت عاصم رضی الله عنہ اس جنگ میں شہید نہیں ہوئے، یہ واقعہ رجیع میں شہید ہوئے جس کا ذکر اپنے وقت پر آئے گا، انشاءاللہ!
ان دونوں کے قتل کے بعد ان کے بھائی کلاب بن طلحہ نے پرچم اٹھالیا، اسے حضرت زبیر رضی الله عنہ نے قتل کردیا، کلاب کے بعد اس کے بھائی جلاس بن طلحہ نے پرچم اٹھایا۔
اسے حضرت طلحہ بن عبید رضی الله عنہ نے قتل کر دیا۔اس طرح یہ چاروں اپنے باپ کی طرح وہیں قتل ہوگئے۔ان کے چچا عثمان بن طلحہ اور ابوسعید بن طلحہ بھی اسی غزوہ احد میں مارے گئے تھے۔
اس کے بعد قریشی پرچم ارطاۃ بن شرجیل نے اٹھایا، اس کے مقابلے میں حضرت علی رضی الله عنہ آئے، وہ ان کے ہاتھوں مارا گیا۔
اس کے بعد شریح ابن قارظ نے پرچم اٹھایا،وہ بھی مارا گیا۔روایت میں یہ نہیں آیا کہ یہ کس کے ہاتھوں مارا گیا۔اس کے بعد پرچم ابو زید بن عمرو نے اٹھایا، اسے حضرت قزمان رضی الله عنہ نے قتل کیا، اس کے بعد ان لوگوں کے غلام صواب نے پرچم اٹھایا، یہ ایک حبشی تھا۔اس نے لڑنا شروع کیا، یہاں تک کہ اس کا ایک ہاتھ کٹ گیا، یہ جلدی سے بیٹھ گیا، پرچم کو اپنی گردن اور سینے کے سہارے اٹھائے رہا یہاں تک کہ وہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ کے ہاتھوں قتل ہوا۔
اب عام جنگ شروع ہوگئی۔دونوں لشکر ایکدوسرے پر پوری طاقت سے حملہ آور ہوئے۔ اس جنگ کے شروع ہی میں مشرکوں کے گھڑسوار دستے نے تین مرتبہ اسلامی لشکر پر حملہ کیا۔مگر آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے پہاڑی کے اوپر تیراندازوں کا جو دستہ مقرر فرمایا تھا، وہ ہر مرتبہ تیروں کی باڑھ مارکر اس دستے کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیتا تھا۔مشرکین تینوں مرتبہ بدحواسی کے عالم میں پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوئے۔
اس کے بعد مسلمانوں نے مشرکوں پر بھرپور حملہ کیا۔یہ حملہ اس قدر شدید تھا کہ مشرکوں کی طاقت کو زبردست نقصان پہنچا۔اس وقت لڑائی پورے زوروں پر تھی۔
مشرکوں کی عورتوں میں ہندہ بھی تھی۔ یہ ابوسفیان کی بیوی تھی۔ اس وقت تک یہ اسلام نہ لائی تھیں اور مسلمانوں کی سخت ترین دشمن اور بہت تند مزاج تھیں ۔انہوں نے اپنے ہاتھوں میں دف لےلیا، اور ان کے ساتھ دوسری عورتیں بھی تھیں ... انہوں نے بھی دف لے لیے۔اب سب مل کر دف بجانے لگیں اور گیت گانے لگیں ۔یہ قدم انہوں نے اپنے مردوں کو جوش دلانے کے لئے اٹھایا۔
ادھر آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے ابودجانہ رضی الله عنہ کو جو تلوار عطا فرمائی تھی، انہوں نے اس کا حق ادا کردیا۔حضرت زبیر بن عوام رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ جب آپ صلی الله علیہ وسلم نے اعلان فرمایا تھا کہ اس تلوار کا حق کون ادا کرے گا تو میرے تین مرتبہ تلوار مانگنے کے باوجود آپ نے وہ تلوار مجھے مرحمت نہ فرمائی، حالانکہ میں آپ کا پھوپھی زاد تھا۔پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے تلوار ابودجانہ کو دے دی تو میں نے دل میں کہا، دیکھتا ہوں کہ یہ اس تلوار کا حق کس طرح ادا کرتے ہیں ؟ اس کے بعد میں نے ان کا پیچھا کیا اور سائے کی طرح ان کے ساتھ لگا رہا۔میں نے دیکھا انھوں نے اپنے موزے میں سےایک سرخ رنگ کی پٹی نکالی، اس پٹی پر ایک طرف لکھا تھا، اللّٰه کی مدد اور فتح قریب ہے۔دوسری طرف لکھا تھا، جنگ میں بزدلی شرم کی بات ہے، جو میدان سے بھاگا وہ جہنم کی آگ سے نہیں بچ سکتا۔یہ پٹی نکال کر انھوں نے اپنے سر پر باندھ لی۔انصاری مسلمانوں نے جب یہ دیکھا تو وہ بول اٹھے:
"ابودجانہ نے موت کی پٹی باندھ لی ہے۔"
انصاریوں میں یہ بات مشہور تھی کہ حضرت ابودجانہ رضی الله عنہ جب یہ پٹی سر پر باندھ لیتے تو پھر دشمنوں پر اس طرح ٹوٹتے ہیں کہ کوئی ان کے مقابلے پر ٹک نہیں سکتا۔
چنانچہ اس پٹی کے باندھنے کے بعد انہوں نے انتہائی خوفناک انداز میں جنگ شروع کردی۔وہ دشمن پر موت بن کر گرے، انہیں گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیا۔دشمنوں کو اس حد تک قتل کیا کہ آخر یہ تلوار مڑگئ اور مڑ کر درانتی جیسی ہوگئ۔
اس وقت مسلمان پکار اٹھے:
"ابودجانہ نے واقعی تلوار کا حق ادا کردیا۔"
حضرت زبیر رضی الله عنہ کہتے ہے کہ مشرکوں میں ایک شخص میدان جنگ میں زخمی مسلمانوں کو تلاش کرکر کے شہید کررہا تھا۔ میری نظر اس پر پڑی تو میں نے دعا مانگی:
" یا اللّٰه! اس کا سامنہ ابودجانہ سے ہوجائے۔"
اللّٰه نے میری دعا قبول فرمائی اور اس کا آمنا سامنا ابودجانہ رضی الله عنہ سے ہوگیا۔
اب دونوں میں تلوار کے وار ہونے لگے۔اچانک اس مشرک نے ابودجانہ رضی الله عنہ پر تلوار بلند کی۔
جاری ھےان شاء اللہ
❤️
1