ازدواجی زندگی سوشل میڈیا
June 14, 2025 at 01:04 AM
🌻🌺🌻🌺🌻🌺🌻🌺🌻🌺
🌹 بسمِﷲِالرَّحْمن الرَّحِيم 🌹
🇵🇰 *آج کا کیلنڈر* 🌤
🔖 17 ذوالحجہ 1446ھ 💎
🔖 14 جون 2025ء 💎
🔖 31 جیٹھ 2081ب 💎
🌄 بروز ہفتہ Saturday 🌄
🌺🌻🌺🌻🌺🌻🌺🌻🌺🌻
سیرت خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ ﷺ
قسط نمبر 27
پانسہ پلٹ گیا
مشرک کے اس وار کو ابودجانہ رضی الله عنہ نے اپنی چمڑے کی ڈھال پر روکا۔مشرک کی تلوار ان کی ڈھال میں پھنس گئ۔بس اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ابودجانہ رضی الله عنہ نے فوراً اپنی تلوار سے اس کا کام تمام کردیا۔
حضرت سعد بن وقاص رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ پھر ایک موقع پر میں نے ابودجانہ رضی الله عنہ کو وہی تلوار ہند بنت عتبہ کو قتل کرنےکے لئے بلند کرتے دیکھا، لیکن پھر انہوں نے اس عورت کو قتل نہ کیا۔ اس بارے میں جب ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا:
"میں نے مناسب نہ سمجھا کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی تلوار سے ایک عورت کا قتل کروں ، اس لیے اسے چھوڑ کر ہٹ آیا۔"
حضرت حمزہ رضی الله عنہ بھی ان کی طرح انتہائی سرفروشی سے جنگ کر رہے تھے۔ اس روز حضرت حمزہ رضی الله عنہ بیک وقت دو تلواروں سے لڑ رہے تھے، یعنی ان کے دونوں ہاتھوں میں تلواریں تھیں ... اور لڑتے ہوئے وہ کہتے جارہے تھے:
"میں اللّٰه کا شیر ہوں ۔"ایسے میں سباع بن عبدالعزی ان کے سامنے آ گیا۔انہوں نے اسے للکارا ۔پھر تیزی سے اس کی طرف بڑھے اور اس کے سر پر پہنچ کر تلوار کا وار کیا، سباع فوراً ہی ڈھیر ہوگیا۔
حضرت حمزہ رضی الله عنہ اس روز اس قدر دلیری سے لڑے کہ ان کے ہاتھ سے 31 مشرک مارے گئے۔سباع کو قتل کرنے کے بعد وہ اس کی ذرہ اتارنے کے لیے جھکے۔اس وقت حضرت وحشی کی نظر ان پر پڑی جو اس وقت مشرکین کے لشکر میں شامل تھے۔جھکنے کی وجہ سے حضرت حمزہ رضی الله عنہ کی ذرہ پیٹ پر سے سرک گئ تھی۔ حضرت وحشی یہ واقعہ سناتے ہوئے فرماتے تھے "میں نے فوراً نیزہ تاک کر مارا، وہ ان کے پیٹ میں لگا، میں ان کی طرف بڑھا۔انہوں نے مجھے دیکھا اور شدید زخمی حالت کے باوجود انہوں نے اٹھ کر مجھ پر حملہ کرنے کی کوشش کی۔لیکن پھر کمزوری کی وجہ سے گر گئے۔کچھ دیر تک میں ایک طرف دبکا رہا جب مجھے اطمینان ہوگیا کہ ان کی روح نکل چکی ہے، تب ان کے قریب گیا۔وہ واقعی شہید ہوچکے تھے۔میں وہاں سے ہٹ آیا اور اپنی جگہ پر جاکر بیٹھ گیا۔کیونکہ مجھے صرف ان کے قتل سے دلچسپی تھی۔اور اس جنگ میں کسی کو قتل کرنے کی خواہش نہیں تھی... اور اس کی وجہ یہ تھی کہ مجھ سے وعدہ کیا گیا تھا کہ اگر میں نے حضرت حمزہ رضی الله عنہ کو قتل کردیا تو مجھے آزاد کر دیا جائے گا۔"حضرت وحشی رضی الله عنہ حضرت جبیر بن مطعم رضی الله عنہہ کے غلام تھے اوروہ اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے۔
ادھر مشرکوں کے پرچم برادر جب ایک ایک کرکے ختم ہوگئے اور کوئی پرچم اٹھانے والا نہ رہا تو ان میں بددلی پھیل گئی... وہ پسپا ہونے لگے۔پیٹھ پھیر کر بھاگنے لگے۔ایسے میں وہ چیخ اور چلارہے تھے۔ ان کی عورتیں جو دیر پہلے جوش دلانے کے لیے اشعار پڑھ رہی تھیں ، اپنے دف پھینک کر پہاڑ کی طرف بھاگیں ۔ان پر بدحواسی اس قدر سوار ہوئی کہ اپنے کپڑے نوچنے لگیں ۔
مسلمانوں نے جب دشمن کو بھاگتے دیکھا تو ان کا پیچھا کرنے لگے، ان کے ہتھیاروں اور مال غنیمت پر قبضہ کرنے لگے۔
اب یہاں ... اس موقع پر ایک عجیب واقعہ رونما ہوگیا۔ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے پہاڑی کے درے پر پچاس تیرانداز مقرر فرمائے تھے اور انہیں واضح طور پر ہدایت فرمائی تھی کہ وہ اپنی جگہ نہ چھوڑیں ... ان کے امیر حضرت عبدالله بن جبیر رضی الله عنہ تھے... اس دستے نے جب کافروں کو بھاگتے دیکھا اور مسلمانوں کو مال غنیمت جمع کرتے دیکھا تو یہ بھی اپنی جگہ چھوڑنے لگے۔یہ دیکھ کر حضرت عبدالله بن جبیر رضی الله عنہ بولے:
"کہاں جارہے ہوں ؟ ہمیں یہاں سے ہٹنا نہیں چاہیے ، اللّٰه کے رسول نے ہمیں ہدایت فرمائی تھی کہ اپنی جگہ جمے رہیں ... اور یہاں سے نہ ہٹیں ۔"
اس پر ان کے ساتھی بولے:
"اب مشرکوں کو شکست ہوگئی ہے، اب ہم یہاں ٹھہر کر کیا کریں گے۔"
حضرت عبدالله بن جبیر رضی الله عنہ انہیں روکتے رہ گئے۔ لیکن وہ نہ مانے اور میدان میں چلے گئے۔لیکن حضرت عبدالله بن جبیر رضی الله عنہ اور چند ساتھی البتہ وہی رکے رہے، ان کی تعداد دس سے بھی کم تھی۔انہوں نے نیچے کا رخ کرنے والوں سے کہا:
"ہم رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے حکم کی خلاف ورزی ہرگز نہیں کریں گے۔"
اس طرح وہاں دس سے بھی کم مجاہد رہ گئے... اس وقت حضرت خالد بن ولید کی نظر درے پر پڑی۔یہ کافروں کے ایک دستے کے سالار تھے۔ اور لشکر کے دائیں بازو پر مقرر تھے۔شکست کے بعد یہ اس طرف سے پسپا ہو رہے تھے کہ درے پر نظر پڑی...جنگ کے دوران بھی یہ اس طرف سے بار بار حملہ کرنے کی کوشش کرتے رہے تھے، لیکن پچاس تیرانداوں کے تیروں کی بوچھاڑ نے ان کی پیش قدمی روک دی تھی... اب انہوں نے دیکھا کہ وہاں پچاس کے بجائے چند مسلمان رہ گئے ہیں تو یہ اپنے دستے کے ساتھ ان پر حملہ آور ہوئے۔ان کے دستے کے ساتھ ہی عکرمہ بن ابوجہل بھی اپنے دستے کے ساتھ اس طرف پلٹ پڑے۔
اس طرح پورے دو دستوں نے ان چند مسلمانوں پر حملہ کردیا۔ان کا یہ حملہ اس قدر زبردست تھا کہ پہلے ہی حملے میں حضرت عبداللہ ابن جبیر رضی الله عنہ اور ان کے ساتھی شہید ہوگئے۔
مشرکوں نے حضرت عبداللہ ابن جبیر رضی الله عنہہ کی لاش کا مثلہ کیا۔یعنی ان کے ناک، کان، ہاتھ اور پیر کاٹ ڈالے۔ان کے جسم پر اتنے نیزے لگے تھے کہ پورا جسم چھلنی ہوکر رہ گیا تھا۔لیکن آفرین ہے اس مرد مجاہد پر کہ وہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے حکم پر وہاں سے نہ ہٹے۔
اب ان دونوں دستوں نے اس درے کی طرف سے مسلمانوں کی پشت پر اچانک بہت زور کا حملہ کیا۔مسلمان اس وقت مال غنیمت لوٹنے میں مصروف تھے۔ان میں سے اکثر نے اپنی تلواریں نیام میں ڈال لی تھیں ۔اس تابڑ توڑ حملے نے انہیں بدحواس کردیا۔
کافر اس وقت پورے جوش کی حالت میں "یا ھبل یا عزیٰ "کے نعرے لگارہے تھے، یعنی اپنے بتوں کے نام پکار رہے تھے۔
مسلمان اس حملے سے اس قدر بدحواس ہوئے کہ ادھر ادھر بھاگنے لگے۔اس وقت تک انہوں نے جتنے کافروں کو قیدی بنالیا تھا یا جتنا مال غنیمت لوٹ چکے تھے وہ سب چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے تھے۔
مشرکوں کا پرچم اس وقت زمین پر پڑا تھا... ایک مشرک عورت بنت علقمہ کی نظر اس پر پڑی تو اس نے لپک کر اس کو اٹھا لیا اور بلند کردیا۔اب تک جو مشرک بھاگ رہے تھے، وہ بھی اپنے پرچم کو بلند ہوتے دیکھ کر پلٹ پڑے وہ جان گئے کہ جنگ کا پانسہ پلٹ چکا ہے۔اب سب دوڑ دوڑ کر اپنے پرچم کے گرد جمع ہونے لگے اور بدحواس مسلمانوں پر حملہ آور ہونے لگے۔
ایسے میں ایک مشرک ابن قمہ نے پکار کر کہا:
"محمد قتل کردیئے گئے۔"( معاذ الله )
اس خبر نے مسلمانوں کو اور زیادہ بدحواس کردیا۔
جب پروانے شمع رسالت پر نثار ہوئے
ایسے میں کسی صحابی نے کہا:
"اب جب کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم قتل ہوچکے ہیں تو ہم لڑ کر کیا کریں گے؟ "
اس پر کچھ صحابہ کرام رضی الله عنہم نے کہا:
"اگر اللہ کے رسول صلی الله علیہ وسلم شہید ہوگئے ہیں تو کیا تم اپنے نبی کے دین کے لیے لڑوگے، تاکہ تم شہید کی حیثیت سے اپنے خدا کے سامنے حاضر ہوں ۔"
حضرت ثابت بن وحداح رضی الله عنہ نے پکار کر کہا:
"اے گروہ انصار! اگر محمد صلی الله علیہ وسلم شہید ہوگئے ہیں تو اللّٰه تعالیٰ تو زندہ ہے، اسے تو موت نہیں آسکتی۔اپنے دین کے لیے لڑو، اللہ تعالیٰ فتح اور کامرانی عطا فرمائیں گے۔"
یہ سنتے ہی انصار کے ایک گروہ نے مشرکوں کے اس دستے پر حملہ کردیا۔جس میں خالدبن ولید، عکرمہ بن ابوجہل، عمرو بن عاص اور ضرار بن خطاب موجود تھے اور یہ چاروں زبردست جنگ جو تھے۔انصار کے حملے کے جواب میں خالد بن ولید نے ان پر جوابی حملہ کیا۔اس جوابی حملے میں ابن وحداح رضی الله عنہ اور ان کے ساتھی شہید ہوگئے۔
بدحواسی کے عالم میں کچھ لوگ مدینہ کی طرف پلٹ پڑے تھے، ان کے راستے میں اُمّ ایمن رضی الله عنہ آگئیں ۔ وہ بولیں :
"مسلمانو!! یہ کیا! تم پیٹ پھیر کر جارہے ہو؟ "
اس پر وہ پلٹ پڑے اور مشرکوں پر حملہ آور ہوئے۔دوسری طرف مسلمانوں کے تتر بتر ہوجانے کی وجہ سے مشرکوں کے ایک گروہ نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم پر حملہ کردیا۔آپ صلی الله علیہ وسلم اس سخت وقت میں بھی ثابت قدم رہے اور اپنی جگہ پر جمے رہے، اس عالم میں آپ صلی الله علیہ وسلم اپنے صحابہ رضی الله عنہم سے فرمارہے تھے:
"اے فلاں ! میری طرف آؤ، اے فلاں ! میری طرف آؤ، میں الله کا رسول ہوں ۔"
ہر طرف سے آپ صلی الله علیہ وسلم پر تیروں کی بوچھاڑ ہورہی تھی... اس حالت میں ان تیروں سے الله تعالیٰ نے آپ صلی الله علیہ وسلم کی حفاظت فرمائی ۔اس نازک وقت میں صحابہ کرام رضی الله عنہم کی ایک جماعت آپ صلی الله علیہ وسلم کے گرد جمع رہی... یہ جماعت مشرکوں کے مسلسل حملوں کو روک رہی تھی۔خود کو پروانوں کی طرح نبی کریم صلی الله علیہ وسلم پر قربان کررہی تھی۔ان میں حضرت ابو طلحہ رضی الله عنہ بھی تھے۔ وہ دشمن کے وار اپنی ڈھال پر روک رہے تھے۔وہ بہت اچھے تیرانداز تھے، نشانہ بہت پختہ تھا۔چنانچہ دشمنوں پر مسلسل تیر بھی چلارہے تھے اور کہتے جاتے تھے:
"میری جان آپ پر فدا ہوجائے، میرا چہرہ آپ کے لیے ڈھال بن جائے۔"
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کو کسی مسلمان کے ترکش میں تیر نظر آتے تو اس سے فرماتے:
"اپنا ترکش ابوطلحہ کے سامنے الٹ دو۔"
حضرت ابوطلحہ رضی الله عنہ نے اس روز اس قدر تیراندازی کی کہ ان کے ہاتھ سے تین کمانیں ٹوٹ گئیں ۔
حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کو دشمن کو دیکھنے کے لیے سر اوپر کرتے تو حضرت ابوطلحہ رضی الله عنہہ پکار اٹھتے:
"اے اللّٰه کے رسول! آپ اپنا سر اوپر نہ کریں ... کہیں کوئی تیر آپ کو نہ لگ جائے۔"
پھر خود پنجوں کے بل حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے بالکل سامنے آجاتے تاکہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم محفوظ رہیں ... کوئی تیر لگے تو مجھ کو لگے۔
اس دوران نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے پاس جو کمان تھی، اس کا نام کتوم تھا۔کمان کا ایک سرا ٹوٹ گیا تھا اور دست مبارک میں کمان کی بالشت بھر ڈوری رہ گئی تھی۔حضرت عکاشہ ابن محصن رضی الله عنہہ نے کمان کی ڈوری باندھنے کے لیے وہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم سے لے لی مگر ڈوری تو چھوٹی ہوچکی تھی۔اس پر انہوں نے عرض کیا:
"اللّٰه کے رسول! ڈوری چھوٹی ہوگئی ہے، اس لیے بندھ نہیں سکتی۔"
اس پر حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"اس کو کھینچو! پوری ہوجائے گی۔"
عکاشہ رضی الله عنہہ کہتے ہیں :
"الله کی قسم! میں نے اس ڈوری کو کھینچا تو وہ کھینچ کر اتنی لمبی ہوگئی کہ وہ کمان کی دونوں سروں پر پوری آگئی۔میں نے ایک سرے پر دو تین بل بھی دے دیئے اور پھر اس پر گرہ لگا دی۔"
اس وقت آپ صلی الله علیہ وسلم کے آس پاس جو صحابہ کرام رضی الله عنہم موجود تھے، انہوں نے دشمنوں سے زبردست جنگ کی۔ان میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ بھی تھے۔یہ بھی زبردست تیرانداز تھے۔یہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم تیر اٹھا اٹھا کر مجھے دے رہے تھے اور فرماتے جاتے تھے۔
"اے سعد! تیراندازی کرتے جاؤ، تم پر میرے ماں باپ قربان ہوں ۔"
وہ فرماتے ہیں :"حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے ہاتھ سے مجھے ایک تیر ایسا بھی ملا جس کے سرے پر پھل( تیز دھار نوک والا حصہ)نہیں تھا۔آپ صلی الله علیہ وسلم نے بھی دیکھ لیا کہ تیر کا پھل نہیں ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"یہی تیر چلاؤ ۔"
اس پر حضرت سعد رضی الله عنہہ نے دعا کرتے ہوئے کہا:
"اے اللّٰه! یہ تیرا تیر ہے، تو اس کو دشمن کے سینے میں پیوست کردے۔"
ساتھ ہی آنحضرت صلی الله علیہ وسلم فرما رہے تھے:
"اے اللّٰه! سعد کی دعا قبول فرما۔اے اللّٰه! اس کی تیراندازی کو درست فرما۔"
پھر حضرت سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ کا ترکش خالی ہوگیا، تیر ختم ہوگئے،تب نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اپنا ترکش ان کے سامنے الٹ دیا، حضرت سعد رضی الله عنہہ پھر تیر چلانے لگے... کہا جاتا ہے، حضرت سعد ابن ابی وقاص رضی الله عنہ مستجاب الدعوات تھے، یعنی ان کی دعا قبول ہوتی تھی۔ایک بار حضرت سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ سے کسی نے پوچھا:
"آپ کی دعائیں کیوں فوراً قبول ہوتی ہیں ۔"
انہوں نے جواب دیا:
"میں زندگی بھر کوئی لقمہ یہ جانے بغیر منہ تک نہیں لے گیا کی یہ کہاں سے آیا ہے؟ "
(مطلب یہ کہ ہمیشہ حلال کھایا ہے۔)
اس بارے میں حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے:
"قسم اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، جب بھی کوئی بندہ حرام لقمہ اپنے پیٹ میں ڈالتا ہے تو چالیس دن تک اس کی کوئی دعا قبول نہیں ہوتی۔"
اس سلسلے میں ایک حدیث کے الفاظ یہ ہیں :
"جس کا کمانا حرام ہو، جس کا پینا حرام ہو اور جس کا لباس حرام ہو، اس کی دعائیں کیسے قبول ہوسکتی ہیں ؟ "
اس روز حضرت سعد رضی الله عنہ نے ایک ہزار تیر چلائے ۔ہر تیر پر آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے ان سے فرمایا:
"تیراندازی کرو، تم پر میرے ماں باپ قربان ہوں ۔"
حضرت علی رضی الله عنہ فرماتے ہیں :
"میں نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے یہ جملہ حضرت سعد کے علاوه کسی اور کے لیے کہتے ہوئے نہیں سنا کہ میرے ماں باپ تم پر قربان ہوں ۔"
حضرت سعد رضی الله عنہ رشتہ میں حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے ماموں لگتے تھے، اس لیے ان کے بارے میں حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم یہ بھی فرمایا کرتے تھے:
"یہ سعد میرے ماموں ہیں ، کوئی مجھے ایسا ماموں تو دکھائے۔"
اس روز حضرت سعد رضی الله عنہ کے علاوہ حضرت سہیل بن حنیف رضی الله عنہ نے بھی تیر چلائے جوکہ اس نازک وقت میں حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے قریب رہنے والوں میں شامل تھے۔
حضرت زید بن عاصم رضی الله عنہ کی بیوی حضرت اُمّ عمارہ رضی الله عنہ اس روز مجاہدوں کو پانی پلارہی تھی، جب جنگ کا پانسہ پلٹا مسلمانوں کی فتح شکست میں بدلی تو یہ اس وقت بھی زخمیوں کو پانی پلارہی تھی۔
جاری ھےان شاء اللہ
❤️
1