ازدواجی زندگی سوشل میڈیا
ازدواجی زندگی سوشل میڈیا
June 15, 2025 at 01:12 AM
🌻🌺🌻🌺🌻🌺🌻🌺🌻🌺 🌹 بسمِﷲِالرَّحْمن الرَّحِيم 🌹          🇵🇰   *آج کا کیلنڈر*  🌤 🔖 18 ذوالحجہ 1446ھ 💎 🔖 15 جون 2025ء 💎 🔖 01 اھاڑ 2081ب 💎 🌄 بروز اتوار Sunday 🌄 🌺🌻🌺🌻🌺🌻🌺🌻🌺🌻 سیرت خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ ﷺ قسط نمبر 28 صحابہ اور صحابیات کی فداکاری حضرت اُمّ عمارہ رضی الله عنہا کا اصل نام نؤسیبہ تھا۔ انہوں نے مسلمانوں کو بھاگتے دیکھا اور مشرکوں کو نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے گرد جمع ہوتے دیکھا تو بے چین ہوگئیں ، جلدی سے آپ صلی الله علیہ وسلم کے قریب پہنچیں اور تلوار کے ذریعے دشمنوں سے لڑنے لگیں ۔تلوار چلاتے چلاتے جب زخمی ہوگئیں ، تو تیر کمان سنبھال لیا اور مشرکوں پر تیر چلانے لگیں ۔ ایسے میں انہوں نے ابن قمیہ مشرک کو آتے دیکھا، وہ یہ کہتا ہوا چلا آرہا تھا: "مجھے بتاؤ... محمد کہاں ہیں ؟ اگر آج وہ بچ گئے تو سمجھو، میں نہیں بچا۔" یہ کہنے سے اس کا مقصد یہ تھا کہ آج یا وہ رہیں گے یا میں رہوں گا۔، جب وہ قریب آیا تو حضرت اُمّ عمارہ رضی الله عنہا اور مصعب بن عمیر رضی الله عنہ نے اس کا راستہ روکا، اسی وقت اس نے حضرت اُمّ عمارہ رضی الله عنہا پر حملہ کیا، ان کے کندھے پر زخم آیا، حضرت ام عمارہ رضی الله عنہا نے بھی اس پر تلوار کے کئی وار کیے، مگر وہ زرہیں پہنے ہوئے تھا۔ان کے وار سے محفوظ رہا۔ان کی کوششوں کو دیکھ کر حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "اللّٰه تمہارے گھرانے میں برکت عطا فرمائے۔" اس پر حضرت ام عمارہ رضی الله عنہا نے عرض کیا: "اللّٰه کے رسول! ہمارے لیے دعا فرمایئے کہ ہم جنت میں آپ کے ساتھ ہوں " آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: "اے الله انہیں جنت میں میرا رفیق اور ساتھی بنا۔" اس وقت حضرت ام عمارہ رضی الله عنہا نے کہا: "اب مجھے اس کی پرواہ نہیں کہ دنیا میں مجھ پر کیا گزرتی ہے۔" نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں : "احد کے دن میں دائیں بائیں جدھر بھی دیکھتا تھا، اُمّ عمارہ کو دیکھتا تھا کہ میرے بچاؤ اور میری حفاظت کے لیے جان کی بازی لگا کر دشمنوں سے لڑ رہی ہیں ۔" غزوہ احد میں حضرت اُمّ عمارہ رضی الله عنہا کو بارہ زخم آئے۔ان میں نیزوں کے زخم بھی تھے اور تلواروں کے بھی۔ اس روز حضرت ابودجانہ رضی الله عنہ نے بھی اپنے جسم کو نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے لیے ڈھال بنالیا تھا۔جو تیر آتا، وہ اس کو اپنی کمر پر روکتے، یعنی انہوں نے اپنا منہ حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی طرف کر رکھا تھا، اس طرح وہ تمام تیر اپنی کمر پر لے رہے تھے۔تاکہ آپ صلی الله علیہ وسلم محفوظ رہیں ۔اس طرح ان کی کمر میں بہت سے تیر پیوست ہوگئے۔ اسی طرح حضرت زیاد بن عمارہ رضی الله عنہ بھی آپ کی حفاظت میں مردانہ وار زخم کھا رہے تھے۔یہاں تک کہ زخموں سے چور ہوکر گر پڑے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "انہیں میرے قریب لاؤ۔" ان کی خوش قسمتی دیکھیئے کہ انہیں آپ صلی الله علیہ وسلم کے قریب لایا گیا، جب انہیں زمین پر لٹایا گیا تو انہوں نے اپنا منہ اور رخسار حضور صلی الله علیہ وسلم کے قدموں پر رکھ دیے اور اسی حالت میں جان دے دی... کس قدر مبارک موت تھی ان کی!! اسی طرح حضرت مصعب بن عمیر رضی الله عنہ حضور صلی الله علیہ وسلم کو بچاتے ہوئے ابن قمیہ کے ہاتھوں شہید ہوئے۔دراصل ابن قمیہ حضرت مصعب بن عمیر رضی الله عنہ کو حضور صلی الله علیہ وسلم سمجھ رہا تھا، اس لیے کہ ان کی شکل حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم سے ملتی جلتی تھی۔چنانچہ جب اس نے شہید کیا تو قریش کے سرداروں کو جاکر اطلاع دی کہ اس نے رسول اللّٰه صلی الله علیہ وسلم کو شہید کردیا ہے، حالانکہ اس نے حضرت مصعب بن عمیر رضی الله عنہ کو شہید کیا تھا۔ اسی دوران ابی بن خلف رسول اللّٰه صلی الله علیہ وسلم کی طرف بڑھا۔اس پر کئی صحابہ اس کے راستے میں آگئے، لیکن حضور صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "اسے میری طرف آنے دو۔" پھر آپ صلی الله علیہ وسلم یہ کہتے ہوئے اس کی طرف بڑھے: "اے جھوٹے! کہاں بھاگتا ہے؟ " پھر حضور صلی الله علیہ وسلم نے اپنے ایک صحابی کے ہاتھ سے ایک نیزہ لیا اور نیزے کی نوک ابی بن خلف کی گردن میں بہت ہی آہستہ سے چبھودی، مطلب یہ کہ نیزہ اس قدر آہستہ چبھویا کہ اس سے خون بھی نہیں نکلا مگر اس ہلکی سی خراش ہی سے وہ بری طرح چیختا ہوا وہاں سے بھاگا... وہ کہہ رہا تھا: "خدا کی قسم! محمد نے مجھے مار ڈالا۔" مشرکوں نے اسے روکنے کی کوشش کی اور کہا: "تو تو بہت چھوٹے دل کا نکلا... تیری عقل جاتی رہی، اپنے پہلو میں تیر لیے پھرتا ہے، تیراندازی کرتا ہے... اور تجھے کوئی زخم بھی نہیں آیا... لیکن چیخ کتنا رہا ہے، ایک معمولی سی خراش ہے ایسی خراش پر تو ہم اف بھی نہیں کرتے۔" اس پر ابی بن خلف نے درد سے کراہتے ہوئے کہا: "لات اور عزیٰ کی قسم! اس وقت مجھے جس قدر شدید تکلیف ہورہی ہے، اگر وہ ذی المجاز کے میلے میں سارے آدمیوں پر بھی تقسیم کردی جائے تو سب کے سب مرجائیں ۔" بات دراصل یہ تھی کہ مکہ میں ابی بن خلف نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے کہا کرتا تھا: "اے محمد! میرے پاس ایک بہترین گھوڑا ہے، میں اسے روزانہ بارہ مرتبہ چارہ کھلا کر موٹا کررہا ہوں ، اس پر سوار ہوکر میں تمہیں قتل کروں گا۔" اس کی بکواس سن کر حضور صلی الله علیہ وسلم پر فرماتے تھے"انشاءاللہ! میں خود تجھے قتل کروں گا۔" اب جب اسے آپ صلی الله علیہ وسلم کے ہاتھوں خراش پہنچی تو اس کی ناقابل برداشت تکلیف نے اسے چیخنے پر مجبور کردیا... وہ بار بار لوٹ پوٹ ہورہا تھا اور کسی ذبیح کیے ہوئے بیل کی طرح ذکرا رہا تھا۔اس کی تکلیف کو دیکھتے ہوئے اس کے کچھ ساتھی اسے ساتھ لے کر مکہ کی طرف روانہ ہوئے، لیکن اس نے راستے میں ہی دم توڑ دیا۔ ایک حدیث میں آتا ہے: "وہ شخص جسے نبی نے قتل کیا ہو یا جسے نبی کے حکم سے قتل کیا گیا ہو، اسے اس کے قتل کے وقت سے قیامت کے دن تک عذاب دیا جاتا رہے گا۔" ایک اور حدیث کے الفاظ یہ ہیں "سب سے زیادہ سخت عذاب اسے ہوتا ہے جسے نبی نے خود قتل کیا ہو۔" احد کی لڑائی شروع ہونے سے پہلے ایک فتنہ باز کافر ابو عامر نے جگہ جگہ گڑھے کھود دیے تھے، تاکہ مسلمان بے خبری میں ان میں گرجائیں اور نقصان اٹھاتے رہیں ، یہ شخص حضرت حنظلہ رضی الله عنہ کا باپ تھا... اور حضرت حنظلہ رضی الله عنہ وہ ہیں جنہیں فرشتوں نے غسل دیا تھا۔ لڑائی جاری تھی کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم ایک گڑھے میں گرگئے، حضرت علی رضی الله عنہ نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو گرتے دیکھا، انہوں نے آگے بڑھ کر فوراً آپ صلی الله علیہ وسلم کو دونوں ہاتھوں پر لے لیا۔حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی الله عنہ نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو اوپر اٹھاکر باہر نکالا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم جب گڑھے میں گرے تو ابن قمیہ نے آپ صلی الله علیہ وسلم پر پتھر برسائے، ان میں سے ایک پتھر آپ صلی الله علیہ وسلم کے پہلو میں لگا، عتبہ بن ابی وقاص نے بھی آپ صلی الله علیہ وسلم کو پتھر مارا۔اس کا پھینکا ہوا پتھر آپ صلی الله علیہ وسلم کے چہرہ انور پر لگا، حضور نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا چہرہ انور لہولہان ہوگیا اور نچلا ہونٹ پھٹ گیا، حضرت حاطب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے جب عتبہ کو حضور صلی الله علیہ وسلم پر پتھر پھینکتے دیکھا تو اس کی طرف لپکا، میں نے اس کا تعاقب کیا اور آخر اسے جالیا، میں نے فوراً ہی اس پر تلوار کا وار کیا، اس وار سے اس کی گردن کٹ کر دور جا گری، میں نے فوراً اس کی تلوار اور گھوڑے پر قبضہ کیا اور حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوگیا، آپ کو عتبہ کے قتل کی خبر سنائی... آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "اللّٰه تم سے راضی ہوگیا، اللّٰه تم سے راضی ہوگیا۔" اس حملے میں حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم خود( لوہے کی ٹوپی ) بھی ٹوٹا، چہرہ مبارک بھی زخمی ہوا، ابن قمیہ کے حملے سے دونوں رخسار بھی زخمی ہوئے تھے خود کی دو کڑیاں آپ صلی الله علیہ وسلم کے رخسار مبارک میں گڑ گئی تھی، آپ صلی الله علیہ وسلم نے ابن قمیہ کو بددعا دی: "اللّٰه تجھے ذلیل کردے اور برباد کردے۔ موت کے نرغہ میں اللہ تعالٰی نے حضور ﷺ کی دعا قبول فرمائی۔ اس جنگ کے بعد جب ابن قمیہ اپنی بکریوں کے گلّے میں پہنچا تو انہیں لے کر پہاڑ پر چڑھا، وہ بکریوں اور مینڈھوں کو گھیر گھیر کر لے جارہا تھا کہ اچانک ایک مینڈھے نے اس پر حملہ کردیا، اس نے اسے اس زور سے سینگ مارا کہ وہ پہاڑ سے نیچے لڑھک گیا اور اس کا جسم ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔ جب نبی اکرم ﷺ کا چہرہ مبارک زخمی ہوا اور خون بہنے لگا تو آپ ﷺ خون پونچھتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے: "وہ قوم کیسے فلاح پائے گی جس نے اپنے نبی کے چہرے کو اس لیے خون سے رنگین کردیا کہ وہ انہیں ان کے پروردگار کی طرف بلاتا ہے۔" حضور اکرم ﷺ کے چہرہ مبارک میں خود کی کڑیاں گھس گئی تھیں ، حضرت ابو عبیدہ بن جراح ؓ نے اپنے دانتوں سے ان کڑیوں کو کھینچ کھینچ کر نکالا، اس کوشش کے دوران ان کا اپنا سامنے کا دانت ٹوٹ گیا۔ بہرحال کڑی نکل گئی، پھر انہوں نے دوسری کڑی کو دانتوں سے پکڑ کر کھینچا تو ایک دانت اور ٹوٹ گیا...تاہم کڑی نکل گئی۔ اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حضرت ابو عبیدہ بن الجراح ؓ کے سامنے کے دو دانت ٹوٹ جانے کے بعد ان کا چہرہ بدنما ہوجاتا۔ لیکن ہوا یہ کہ وہ پہلے سے زیادہ خوب صورت ہوگیا۔ جب یہ خبر مشہور ہوئی کہ آپ ﷺ کو شہید کر دیا گیا ہے تو حضرت ابو عبیدہ بن الجراح ؓ پہلے شخص ہیں جنہوں نے آپ ﷺ کو زندہ سلامت دیکھا اور پکارے: "اے مسلمانو! تمہیں خوش خبری ہو، رسول اللہ ﷺ تو یہ موجود ہیں ۔" جب مسلمانوں نے حضور ﷺ کو زندہ سلامت دیکھا تو پروانوں کی طرح آپ ﷺ کے ارد گرد جمع ہوگئے، آپ ﷺ ان سب کے ساتھ ایک گھاٹی کی طرف روانہ ہوئے، اس وقت آپ ﷺ کے ساتھ حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت علی، حضرت زبیر اور حضرت حارث بن صمہ رضی اللہ عنہم تھے۔ اس روز حضرت زبیر بن عوام ؓ نے بھی زبردست ثابت قدمی دکھائی تھی اور آپ ﷺ کی حفاظت میں موت کی بیعت کی تھی، یعنی یہ عہد کیا تھا کہ آپ کی حفاظت میں جان تو دے دیں گے، لیکن ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔ آپ ﷺ اپنے ان صحابہ کے ساتھ گھاٹی کی طرف بڑھ رہے تھے کہ عثمان بن عبداللہ ایک سیاہ اور سفید گھوڑے پر سوار آپ ﷺ کی طرف بڑھا، وہ لوہے میں پوری طرح غرق تھا، آپ اس کی آواز سن کر رک گئے، اسی وقت عثمان بن عبداللہ کے گھوڑے کو ٹھوکر لگی، وہ ایک گڑھے میں گر گیا، ساتھ ہی حضرت حارث بن صمہ ؓ اس کی طرف لپکے اور اپنی تلوار سے اس پر وار کیا، اس نے تلوار کا وار روکا...تھوڑی دیر دونوں طرف سے تلوار چلتی رہی، پھر اچانک حضرت حارث نے اس کے پیر پر تلوار ماری، وہ زخم کھا کر بیٹھ گیا...حضرت حارث ؓ نے ایک بھرپور وار کرکے اس کا خاتمہ کر دیا، اس پر حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "اللہ کا شکر ہے جس نے اسے ہلاک کردیا۔" اسی وقت عبداللہ بن جابر عامری نے حضرت حارث ؓ پر حملہ کر دیا، اس کی تلوار حضرت حارث ؓ کے کندھے پر لگی، کندھا زخمی ہوگیا...ان لمحات میں حضرت ابو دجانہ ؓ نے عبداللہ بن جابر پر حملہ کر دیا اور اپنی تلوار سے اسے ذبح کر ڈالا۔ مسلمان حضرت حارث ؓ کو اٹھا کر لے گئے تاکہ ان کی مرہم پٹی کی جاسکے۔ پھر حضور نبی کریم ﷺ نے اس چٹان کے اوپر جانے کا ارادہ فرمایا جو گھاٹی کے اندر ابھری ہوئی تھی، لیکن زخموں سے خون نکل جانے اور زرہوں کے بوجھ کی وجہ سے آپ ﷺ چڑھ نہ سکے، یہ دیکھ کر حضرت طلحہ ؓ آپ ﷺ کے سامنے بیٹھ گئے اور آپ ﷺ کو کاندھوں پر بٹھا کر چٹان کے اوپر لے گئے، اس وقت آپ ﷺ نے فرمایا: "طلحہ کے اس نیک عمل کی وجہ سے ان پر جنت واجب ہوگئی۔" ان کی ایک ٹانگ میں لنگڑاہٹ تھی، جب یہ آنحضرت ﷺ کو کندھوں پر اٹھا کر چلے تو چال میں لنگڑاہٹ تھی، اب ان کی کوشش یہ تھی کہ لنگڑاہٹ نہ ہو...تاکہ حضور اکرم ﷺ کو تکلیف نہ پہنچے، آپ ﷺ کو کندھوں پر اٹھا کر چلنے کی برکت سے ان کی لنگراہٹ دور ہوگئی۔ اس وقت تک جنگ کی یہ خبریں مدینہ منورہ میں پہنچ چکی تھیں ، لہٰذا وہاں سے عورتیں میدان احد کی طرف چل پڑیں ، ان میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں ، انہوں نے آپ ﷺ کو زخمی دیکھا تو بے اختیار آپ سے لپٹ گئیں ، پھر انہوں نے آپ ﷺ کے زخموں کو دھویا، حضرت علی ؓ پانی ڈالنے لگے، لیکن زخموں سے خون اور زیادہ بہنے لگا، تب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اپنی چادر کا ایک ٹکڑا پھاڑ کر جلایا، جب وہ جل کر راکھ ہو گیا تو وہ راکھ انہوں نے آپ ﷺ کے زخموں میں بھر دی، اس طرح آپ ﷺ کے زخموں سے خون بہنے کا سلسلہ رکا۔ حضور ﷺ جب اس چٹان پر پہنچے تو دشمن کی ایک جماعت پہاڑ کے اوپر پہنچ گئی، اس جماعت میں خالد بن ولید بھی تھے، حضور اکرم ﷺ نے دشمنوں کو دیکھ کر فرمایا: "اے اللہ! ہماری طاقت اور قوت صرف تیری ہی ذات ہے۔" اس وقت حضرت عمر ؓ نے مہاجرین کی ایک جماعت کے ساتھ ان لوگوں کا مقابلہ کیا اور انہیں پیچھے دھکیل کر پہاڑ سے نیچے اترنے پر مجبور کر دیا۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے ظہر کی نماز ادا کی، کمزوری کی وجہ سے یہ نماز بیٹھ کر ادا فرمائی۔ اس لڑائی میں حضرت طلحہ ؓ کے جسم پر تقریباً 70 زخم آئے، یہ نیزوں ، برچھوں اور تلواروں کے تھے، تلوار کے ایک وار سے ان کی انگلیاں بھی کٹ گئیں ، دوسرے ہاتھ میں ان کو ایک تیر آ کر لگا تھا، اس سے مسلسل خون بہنے لگا، یہاں تک کہ کمزوری کی وجہ سے ان پر بےہوشی طاری ہوگئی، اس پر حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے ان کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے، اس سے انہیں ہوش آیا تو فوراً پوچھا: "رسول اللہ ﷺ کا کیا حال ہے؟" حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے جواب دیا: "خیریت سے ہیں ۔" یہ سن کر حضرت طلحہ ؓ نے کہا: "اللہ کا شکر ہے، ہر مصیبت کے بعد آسانی ہوتی ہے۔" حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ کے منہ پر ضرب لگی۔ اس ضرب سے ان کے دانت ٹوٹ گئے۔ اس کے علاوہ ان کے جسم پر بیس زخم تھے۔ ایک زخم ایک پیر پر بھی آیا تھا۔ اس سے وہ لنگڑے ہوگئے تھے۔ حضرت کعب بن مالک ؓ کے جسم پر بھی بیس کے قریب زخم آئے تھے۔ غرض اکثر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شدید زخمی ہوئے تھے۔ احد کی لڑائی شروع ہونے سے پہلے ایک شخص قزمان نامی بھی مسلمانوں کی طرف سے جنگ میں شریک ہوا تھا۔ اسے دیکھتے ہی حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا کہ یہ شخص جہنمی ہے۔ وہ احد کی لڑائی میں بہت بہادری سے لڑا، لڑائی شروع ہونے پر سب سے پہلا تیر بھی اسی نے چلایا تھا، لڑتے لڑتے وہ مشرکوں کے اونٹ سوار دستے پر ٹوٹ پڑا اور آٹھ دس مشرکوں کو آن کی آن میں قتل کرڈالا۔ بعض صحابہ نے اس کی بہادری کا تذکرہ آپ ﷺ سے کیا...اس تذکرے سے ان کا مقصد یہ تھا کہ آپ نے تو اسے جہنمی فرمایا ہے اور وہ اس قدر دلیری سے لڑ رہا ہے...اس پر آپ ﷺ نے پھر ارشاد فرمایا: "یہ شخص جہنمی ہے۔" صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس پر بہت حیران ہوئے۔ جاری ھے ان شاء اللہ
❤️ 2

Comments