
ازدواجی زندگی سوشل میڈیا
June 15, 2025 at 02:30 AM
.
*معرفت سے ہی محبت پیدا ہوتی ہے: امام ربیعہ الرائے اور ان کے والد کی ملاقات*
جب تک انسان کو اللہ کی پہچان نہ ہو، اس کے دل میں اللہ کی محبت پیدا نہیں ہو سکتی۔
یہ بہت پرانا واقعہ ہے، یعنی بنو امیہ کے دور کا، جب امام مالک رحمہ اللہ ابھی طالب علمی کی زندگی گزار رہے تھے۔ ان کے ایک استاذ تھے جن کا نام ربیعہ الرائے رحمہ اللہ تھا۔ وہ بہت بڑے عالم تھے۔ آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ امام مالک رحمہ اللہ کے استاذ کیسے ہوں گے؟ وہ جلیل القدر فقیہ، محدث اور اللہ والے بزرگ تھے۔ ان کے والد کا نام فروخ تھا۔
جب امام ربیعہ الرائے رحمہ اللہ اپنی والدہ کے شکم میں تھے، تو ان کے والد فروخ، خراسان کی جانب جہاد کی مہم پر امیر المؤمنین کے حکم سے روانہ ہو گئے۔ چونکہ وہ نہیں جانتے تھے کہ واپسی کب ہوگی، اور کیا حالات ہوں گے؟ زندہ آئیں گے یا اللہ کی راہ میں شہید ہو جائیں گے؟ اس لیے ان کے پاس جو تیس ہزار دینار یا درہم تھے، وہ اپنی بیوی کے حوالے کیے اور کہا:
"میں جہاد پر جا رہا ہوں، یہ تیس ہزار دینار تمہارے سپرد کر رہا ہوں۔ ضرورت کے مطابق خرچ کرتی رہنا۔ اگر اللہ تعالیٰ نے زندگی باقی رکھی اور واپسی نصیب ہوئی تو میں آ کر تم سے حساب لے لوں گا۔"
یہ کہہ کر وہ روانہ ہو گئے۔
ایسے حالات پیش آئے کہ تاریخ بغداد کے مطابق تقریباً ستائیس (۲۷) برس بعد انہیں واپس لوٹنے کا موقع ملا۔ لمبے عرصے بعد وہ مدینہ واپس آئے — وہیں ان کا گھر تھا، اور وہیں اپنی بیوی کو چھوڑ کر گئے تھے۔ جب مدینہ پہنچے تو دیکھا کہ پورا شہر بدل چکا ہے؛ نئی نئی سڑکیں بن چکی ہیں، نئی عمارتیں کھڑی ہو گئی ہیں۔ خیر، کافی غور و فکر کے بعد انہوں نے اپنی گلی اور گھر کو پہچانا اور رات کے وقت اپنے گھر کے دروازے پر پہنچے۔
گھوڑا ایک طرف باندھا، نیزے سے دروازہ کھولا اور اندر داخل ہونے لگے، تو ایک نوجوان باہر آ رہا تھا۔ اس نوجوان نے ان کو روکا اور کہا:
"اے اللہ کے دشمن! کسی کے گھر میں بلا اجازت داخل ہونا جائز نہیں۔"
فروخ نے جواب دیا:
"یہ کسی اور کا گھر نہیں، بلکہ میرا ہی گھر ہے۔ میں اپنے ہی گھر میں داخل ہو رہا ہوں، میں کس سے اجازت لوں؟"
اب دونوں میں تو تو، میں میں ہونے لگی۔ نوجوان کہتا ہے کہ یہ میرا گھر ہے، اور فروخ کہتے ہیں کہ یہ میرا۔ اس شور پر پڑوسی لوگ بھی جمع ہو گئے۔ ربیعہ (نوجوان) کہنے لگے:
"میں ان کو سلطان کے پاس لے جا کر فیصلہ کراؤں گا۔"
فروخ نے کہا:
"ہاں! میں بھی تمہیں بادشاہ کے پاس لے جاؤں گا!"
یہ سب ہو رہا تھا کہ ان کی بیوی نے اندر سے شور سنا۔ وہ باہر آئیں اور تماشا دیکھا: باپ اور بیٹا دست و گریبان ہیں۔ انہیں بڑا تعجب ہوا اور کہا:
"یہ سب اس لیے ہو رہا ہے کہ پہچان نہیں ہے۔ نہ باپ نے بیٹے کو پہچانا اور نہ بیٹے نے باپ کو۔"
بیوی نے بیٹے سے کہا:
"بیٹا ربیعہ! یہ تمہارے والد فروخ ہیں۔ ان سے ملو۔"
اور فروخ سے کہا:
"یہ تمہارے بیٹے ربیعہ ہیں۔"
جب ماں نے تعارف کرایا، تو دونوں نے ایک دوسرے سے معافی مانگی، رونے لگے اور گلے مل گئے۔
(ماخذ: تاریخ بغداد: 422/8)
غور کیجیے! جب تک دونوں کو ایک دوسرے کی پہچان نہیں تھی، تو لہجے میں سختی اور رویے میں اجنبیت تھی۔ لیکن جب بیٹے کو معلوم ہوا کہ یہ میرے والد محترم ہیں، اور باپ کو معلوم ہوا کہ یہ میرا بیٹا ہے، تو پھر محبت میں گلے ملنے لگے۔
معلوم ہوتا ہے کہ معرفت (پہچان) بہت بڑی نعمت ہے۔ جب پہچان ہوتی ہے تو دل میں محبت پیدا ہوتی ہے، اور جب پہچان نہ ہو، تو محبت بھی نہیں پنپتی۔
اسی لیے، جب انسان اللہ تعالیٰ کی معرفت اپنے دل میں پیدا کرتا ہے، تو اس کے دل میں اللہ کی محبت ازخود آ جاتی ہے۔
❤️
👍
10