
ازدواجی زندگی سوشل میڈیا
June 16, 2025 at 12:48 AM
🌻🌺🌻🌺🌻🌺🌻🌺🌻🌺
🌹 بسمِﷲِالرَّحْمن الرَّحِيم 🌹
🇵🇰 *آج کا کیلنڈر* 🌤
🔖 19 ذوالحجہ 1446ھ 💎
🔖 16 جون 2025ء 💎
🔖 02 اھاڑ 2081ب 💎
🌄 بروز پیر Monday 🌄
🌺🌻🌺🌻🌺🌻🌺🌻🌺🌻
سیرت خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ ﷺ
قسط نمبر 29
مشرکین کی واپسی
جب قزمان لڑتے لڑتے بہت زخمی ہوگیا تو اسے اٹھا کر بنی ظفر کے محلے میں پہنچایا گیا۔ یہاں لوگ اس کی تعریف کرنے لگے اس پر وہ بولا:
"مجھے کیسی خوش خبری سنارہے ہو، خدا کی قسم! میں تو صرف اپنی قوم کی عزت اور فخر کے لیے لڑا ہوں ۔ اگر قوم کا یہ معاملہ نہ ہوتا تو میں ہرگز نہ لڑتا۔"
اس کے ان الفاظ کا مطلب یہ تھا کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کا کلمہ بلند کرنے کے لیے نہیں لڑا تھا...پھر زخموں کی تکلیف ناقابل برداشت ہوگئی۔ اس نے اپنی تلوار نکالی۔ اس کی نوک اپنے سینے پر رکھ کر سارا بوجھ اس پر ڈال دیا۔ اس طرح تلوار اس کے سینے کے آر پار ہوگئی...اس طرح وہ حرام موت مرا۔ اسے اس طرح مرتے دیکھ کر ایک شخص دوڑ کر نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور بولا:
"میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں ۔"
آپ نے دریافت فرمایا:
"کیا ہوا؟"
جواب میں اس نے کہا:
"آپ نے جس شخص کے بارے میں فرمایا تھا کہ وہ جہنمی ہے اس نے خودکشی کرلی ہے۔"
اس طرح قزمان کے بارے میں آپ کی پیشین گوئی درست ثابت ہوئی، اس کے بالکل الٹ ایک واقعہ یوں پیش آیا کہ بنی عبد الاشہل کا ایک شخص اصیرم اپنی قوم کو اسلام لانے سے روکتا تھا...جس روز نبی کریم ﷺ غزوہ احد کے لیے مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے، یہ شخص مدینہ آیا اور اپنی قوم کے لوگوں کے بارے میں معلوم کیا کہ وہ کہاں ہیں ؟ بنی عبد الاشہل نبی کریم ﷺ کے ساتھ غزوہ احد کے لیے روانہ ہوچکے تھے۔ جب اسے یہ بات معلوم ہوئی تو اچانک اس نے اسلام کے لیے رغبت محسوس کی، اس نے زرہ پہنی، اپنے ہتھیار ساتھ لیے اور میدان جنگ میں پہنچ گیا، پھر مسلمانوں کی ایک صف میں شامل ہوکر کافروں سے جنگ کرنے لگا۔ یہاں تک کہ لڑتے لڑتے شدید زخمی ہوگیا۔ جنگ کے بعد بنی عبد الاشہل کے لوگ اپنے مقتولوں کو تلاش کر رہے تھے کہ اصیرم پر نظر پڑی۔ انہوں نے اسے پہچان لیا...اسے میدان جنگ میں زخموں سے چور دیکھ کر اس کے قبیلے کے لوگوں کو بہت حیرت ہوئی۔ انہوں نے پوچھا:
"تم یہاں کیسے آگئے...قومی جذبہ لے آیا یا اسلام سے رغبت ہوگئی ہے؟"
اصیرم نے جواب دیا:
"میں اسلام سے رغبت کی بنیاد پر شریک ہوا ہوں ۔ پہلے اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لایا پھر میدان میں آکر جنگ کی...یہاں تک کہ اس حالت میں پہنچ گیا۔"
حضرت ابو ہریرہ ؓ ان کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ مجھے ایسے شخص کا نام بتاؤ جس نے کبھی نماز نہیں پڑھی مگر وہ جنت میں چلا گیا۔ ان کا اشارہ حضرت اصیرم ؓ کی طرف ہوتا تھا۔
اس لڑائی میں حضرت حنظلہ ؓ شہید ہوئے۔ احد کی لڑائی سے ایک دن پہلے ان کی شادی ہوئی تھی۔ دوسری صبح ہی غزوہ احد کا اعلان ہوگیا...یہ غسل کے بغیر لشکر میں شامل ہوگئے اور اسی حالت میں لڑتے لڑتے شہید ہوگئے۔ نبی اکرم ﷺ نے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا:
"تمہارے ساتھی حنظلہ کو فرشتے غسل دے رہے ہیں ۔"
اسی بنیاد پر حضرت حنظلہ ؓ کو "غسیل الملائکہ" کہا گیا، یعنی وہ شخص جنہیں فرشتوں نے غسل دیا۔
غزوہ احد میں جنگ کے دوران ایک مشرک ابن عویف جنگجو اپنی صفوں سے نکل کر آگے آیا اور مقابلے کے لئے للکارا، ایک صحابی آگے بڑھے اور ابن عویف پر تلوار کا وار کیا، ساتھ ہی انہوں نے کہا:
"لے میرا وار سنبھال! میں ایک فارسی غلام ہوں ۔"
ابن عویف کی زرہ کندھے پر سے کٹ گئی، تلوار اس کے کندھے کو کاٹ گئی، نبی اکرم ﷺ نے ان کا جملہ سنا تو فرمایا:
"تم نے یہ کیوں نہ کہا کہ لے میرا وار سنبھال! میں ایک انصاری غلام ہوں ۔"
اب ابن عویف کا بھائی آگے بڑھا، ان صحابی نے اس پر وار کیا اور اس کی گردن اڑادی، اس مرتبہ انہوں نے وار کرتے ہوئے کہا:
"لے میرا وار سنبھال! میں ایک انصاری غلام ہوں ۔"
اس پر رسول اللہ ﷺ مسکرائے اور فرمایا:
"تم نے خوب کہا۔"
اسی غزوہ میں حضرت عمرو بن جموح ؓ بھی شہید ہوئے۔ یہ لنگڑے تھے، ان کے چار بیٹے تھے، جب یہ جنگ کے ارادے سے چلنے لگے تو چاروں بیٹوں نے ان سے کہا تھا:
"ہم جا رہے ہیں ...آپ نہ جائیں ۔"
اس پر عمرو بن جموح ؓ حضور نبیٔ کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بولے:
اللہ کے رسول! میرے بیٹے مجھے جنگ میں جانے سے روک رہے ہیں ...مگر اللہ کی قسم! میری تمنا ہے کہ میں اپنے لنگڑے پن کے ساتھ جنت میں پہنچ جاؤں ۔"
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
"تم معذور ہو، لہٰذا تم پر جہاد فرض نہیں ہے۔"
دوسری طرف آپ ﷺ نے ان کے بیٹوں سے فرمایا:
"تمہیں اپنے باپ کو جہاد سے روکنا نہیں چاہیے، ممکن ہے اللہ انہیں شہادت نصیب فرمادے۔"
یہ سنتے ہی حضرت عمرو بن جموح ؓ نے ہتھیار سنبھالے اور نکل کھڑے ہوئے، انہوں نے اللہ سے دعا کی:
اے اللہ! مجھے شہادت کی نعمت عطا فرما اور گھر والوں کے پاس زندہ آنے کی رسوائی سے بچا۔"
چنانچہ یہ اسی جنگ میں شہید ہوئے، نبی اکرم ﷺ نے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا:
"اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، تم میں ایسے لوگ بھی ہیں کہ اگر وہ کسی بات پر قسم کھالیں تو اللہ تعالٰی ان کی قسم کو پورا کردیتے ہیں ...انہی لوگوں میں سے عمرو بن جموح بھی ہیں ، میں نے انہیں جنت میں ان کے اسی لنگڑے پن کے ساتھ چلتے پھرتے دیکھا ہے۔"
اسی جنگ میں ان کے ایک بیٹے خلاد ؓ بھی شہید ہوئے اور ان کے سالے عبداللہ ؓ بھی شہید ہوئے یہ حضرت جابر ؓ کے والد تھے۔
حضرت عمرو بن جموح ؓ کی بیوی کا نام ہندہ بنت حزام تھا، جنگ کے بعد یہ اپنے شوہر، اپنے بیٹے اور اپنے بھائی کی لاشیں ایک اونٹ پر ڈال کر مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہونے لگیں ، تاکہ انہیں مدینہ منورہ میں دفن کیا جا سکے، لیکن اونٹ نے آگے جانے سے انکار کردیا اور بیٹھ گیا۔ اس کا رخ میدان احد کی طرف کیا جاتا تو چلنے لگتا، مدینہ منورہ کی طرف کرتے تو بیٹھ جاتا، آخر حضرت ہندہ ؓ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور یہ صورت حال بیان کی، یہ سن کر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
"یہ اونٹ مامور ہے (یعنی اللہ تعالٰی کی طرف سے اسے حکم دیا گیا ہے کہ یہ مدینہ نہ جائے) اس لئے ان تینوں کو یہیں دفن کردو۔"
اس سلسلے میں یہ روایت بھی ہے کہ آپ ﷺ نے پوچھا تھا کہ کیا عمرو بن جموح نے چلتے وقت کچھ کہا تھا، تب آپ کو بتایا گیا کہ انہوں نے دعا کی تھی: اے اللہ! مجھے زندہ واپس آنے کی رسوائی سے بچانا۔ یہ سن کر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا کہ یہ اونٹ مدینہ منورہ نہیں جائے گا۔
چنانچہ ان تینوں کو وہیں میدان احد میں دفن کیا گیا، مشرکوں کے ساتھ آنے والی عورتوں نے شہید ہونے والے مسلمانوں کا مثلہ کیا تھا...یعنی ان کے ناک کان اور ہونٹ وغیرہ کاٹ ڈالے تھے، حضور اکرم ﷺ کے چچا حضرت حمزہ ؓ کے ساتھ بھی انہوں نے ایسا ہی کیا، یہاں تک کہ ہندہ (حضرت ابو سفیان کی اہلیہ جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئی تھیں ۔) نے ان کا کلیجہ نکال کے چبایا مگر اس کو نگل نہ سکی۔
لاشوں کو مثلہ کرنے کے بعد مشرک واپس لوٹے...مسلمانوں نے بھی انہیں روکنے کی کوشش نہ کی...کیونکہ سب کی حالت خستہ تھی، البتہ ایسے میں حضور نبی کریم ﷺ نے حضرت علی ؓ سے فرمایا:
"دشمن کے پیچھے پیچھے جاؤ اور دیکھو، وہ کیا کرتے ہیں اور کیا چاہتے ہیں ؟ اگر وہ لوگ اونٹوں پر سوار ہیں اور گھوڑوں کو ہانکتے ہوئے لے جارہے ہیں تو سمجھو وہ مکہ جارہے ہیں ، لیکن اگر گھوڑوں پر سوار ہیں اور اونٹوں کو ہانک رہے ہیں تو سمجھو وہ مدینہ جارہے ہیں ، اور قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے اگر انہوں نے مدینہ کا رخ کیا تو میں ہر قیمت پر مدینہ پہنچ کر ان کا مقابلہ کروں گا۔"
حضرت علی ؓ ان کے پیچھے روانہ ہوئے، آخر معلوم ہوا کہ مشرکوں نے مکہ جانے کا ارادہ کرلیا ہے، اس طرف سے اطمینان ہوجانے کے بعد مسلمانوں کو اپنے مقتولین کی فکر ہوئی، حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"کوئی سعد بن ربیع کا حال معلوم کرکے آئے...میں نے ان کے اوپر تلوار چمکتی دیکھی تھیں ۔"
اس پر کچھ صحابہ کرام ان کا حال معلوم کرنے کے لیے جانے لگے، اس وقت حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
"اگر تم سعد بن ربیع کو زندہ پاؤ تو ان سے میرا سلام کہنا اور ان سے کہنا کہ رسول اللہ تم سے تمہارا حال پوچھتے ہیں ۔"
ایک انصاری مسلمان نے آخر حضرت سعد بن ربیع ؓ کو تلاش کر لیا، وہ زخموں سے چور چور تھے، تاہم ابھی جان باقی تھی۔
شہداء احد کی تدفین
ان صحابی نے فوراً حضرت سعد بن ربیع ؓ سے کہا:
رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم تمہارا حال پوچھتے ہیں
زندوں میں ہو یا مردوں میں ہو
حضرت سعد بن ربیع ؓ نے کہا:
میں اب مردوں میں ہوں ۔ میرے جسم پر نیزوں کے بارہ زخم لگے ہیں ، میں اس وقت تک لڑتا رہا جب تک کہ مجھ میں سکت باقی تھی۔ اب تم رسول اللہ ﷺ سے میرا سلام عرض کرنا اور کہنا کہ ابن ربیع آپ کے لئے عرض کرتا تھا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ہماری طرف سے وہی بہترین جزا عطا فرمائے جو ایک امت کی طرف سے اس کے نبی کو مل سکتی ہے، نیز میری قوم کو بھی میرا سلام پہنچادینا اور ان سے کہنا کہ سعد بن ربیع تم سے کہتا ہے کہ اگر ایسی صورت میں تم نے دشمن کو اللہ کے نبی تک پہنچنے دیا کہ تم میں سے ایک شخص بھی زندہ ہے تو اس جرم کے لئے اللہ کے ہاں تمہارا کوئی عذر قبول نہیں ہوگا۔
یہ کہنے کے چند لمحے بعد ہی ان کی روح نکل گئی۔ وہ انصاری صحابی اس کے بعد رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوئے اور سعد بن ربیع ؓ کے بارے میں بتایا، تب آپ ﷺ نے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا:
اللہ تعالیٰ سعد پر رحمت فرمائے، اس نے صرف اللہ اور رسول کے لئے زندگی میں بھی اور مرتے وقت بھی (دونوں حالتوں میں ) خیر خواہی کی ہے۔
حضرت سعد بن ربیع ؓ کی دو صاحبزادیاں تھیں ، ان کی ایک صاحبزادی حضرت ابوبکر صدیق رضٰ اللہ عنہ کی خلافت کے زمانے میں ایک مرتبہ ان سے ملنے کے لئے آئیں ۔ آپ نے ان کے لئے چادر بچھادی۔ ایسے میں حضرت عمر رضٰی اللہ عنہ تشریف لے آئے۔ انہوں نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے پوچھا: یہ خاتون کون ہیں ؟
حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے فرمایا:
یہ اس شخص کی بیٹی ہے جو مجھ سے اور تم سے بہتر تھا۔
حضرت عمر ؓ نے پوچھا:
اے خلیفہ رسول وہ کون شخص تھا؟
آپ نے فرمایا:
وہ شخص وہ تھا جو سبقت کرکے جنت میں پہنچ گیا، میں اور تم رہ گئے، یہ سعد بن ربیع کی صاحبزادی ہیں ۔
اس کے بعد نبی کریم ﷺ اپنے چچا حضرت حمزہ رضٰی اللہ عنہ کی تلاش میں نکلے۔ اس وقت ایک شخص نے عرض کیا:
میں نے انہیں چٹانوں کے قریب دیکھا ہے، وہ اس وقت کہہ رہے تھے، میں اللہ کا شیر ہوں اور اس کے رسول کا شیر ہوں ۔
اس کے بتانے پر آپ ﷺ ان چٹانوں کی طرف چلے جہاں اس شخص نے حضرت حمزہ ؓ کو دیکھا تھا، آخری وادی کے درمیان میں حضور اکرم ﷺ کو اپنے چچا کی لاش نظر آئی۔ حالت یہ تھی کہ ان کا پیٹ چاک تھا اور ناک کان کاٹ ڈالے گئے تھے۔ آپ ﷺ کے لئے یہ منظر بہت دردناک تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
اس جیسا تکلیف دہ منظر میں نے کبھی نہیں دیکھا۔
پھر حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم خوب روئے۔حضرت عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہہ فرماتے ہیں کہ ہم نے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کو اتنا روتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا تھا جتنا آپ حمزہ رضی الله عنہہ کی لاش پر روئے۔
اس کے بعد نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے حضرت زبیر رضی الله عنہہ سے فرمایا:
"اپنی والدہ کو اس طرف نہ آنے دینا، وہ پیارے چچا کی نعش دیکھنے نہ پائیں ۔"
حضرت زبیر رضی الله عنہہ کی والدہ کا نام حضرت صفیہ رضی الله عنہا تھا، وہ حضرت حمزہ رضی الله عنہہ کی بہن تھیں اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی پھوپھی تھیں ۔حکم سنتے ہی حضرت زبیر رضی الله عنہہ مدینہ منورہ کے راستے پر پہنچ گئے۔اس طرف سے حضرت صفیہ رضی الله عنہا چلی آرہی تھیں ، وہ انہیں دیکھتے ہی بولے:
"ماں ! آپ واپس چلی جائیں ۔"
اس پر حضرت صفیہ رضی الله عنہا نے بیٹے کے سینے پر ہاتھ مارا اور فرمایا:
"کیوں چلی جاؤں ؟... مجھے معلوم ہے کہ میرے بھائی کی لاش کا مثلہ کیا گیا ہے، مگر یہ سب خدا کی راہ میں ہوا ہے، میں انشاءاللہ صبر کا دامن نہیں چھوڑوں گی۔"
ان کا جواب سن کر حضرت زبیر رضی الله عنہہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے پاس آئے اور ان کا جواب آپ کو بتایا، تب آپ نے فرمایا:
"اچھا! انہیں آنے دو۔"
چنانچہ انہوں نے آکر بھائی کی لاش کو دیکھا: "اناللہ واناالیہ وراجعون" پڑھا اور ان کی مغفرت کی دعا کی۔
اس کے بعد آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"حمزہ کے لیے کفن کا انتظام کرو۔"
ایک انصاری صحابی آگے بڑھے۔انہوں نے اپنی چادر ان پر ڈال دی۔پھر ایک صحابی آگے بڑھا، انہوں نے بھی اپنی چادر ان پر ڈال دی۔آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے حضرت جابر رضی الله عنہہ سے فرمایا:
"جابر! ان میں سے ایک چادر تمہارے والد کے لیے اور دوسری چادر میرے چچا کے لیے ہوگی۔"
حضرت مصعب بن عمیر رضی الله عنہ کو بھی کفن کے لیے صرف ایک چادر ملی، وہ چادر اتنی چھوٹی تھی کہ سر ڈھانکا جاتا تو پاؤں کھل جاتے، پاؤں ڈھانکتے تو سر کھل جاتا تھا... آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"سر کو چادر سے ڈھانپ دو اور پیروں پر گھاس ڈال دو۔"
یہ مصعب بن عمیر رضی الله عنہ وہ تھے جو اسلام لانے سے پہلے قیمتی لباس پہنتے تھے، ان کا لباس خوشبوؤں سے مہکا کرتا تھا۔آج ان کی میت کے لیے پورا کفن بھی میسر نہیں تھا۔
باقی شہداء کو اسی طرح کفن دیا گیا،ایک ایک چادر میں دو دو تین تین لاشوں کو لپیٹ کر ایک ہی قبر میں دفن کیا گیا۔
پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے شہداء پر نماز جنازہ ادا فرمائی ۔
غزوہ احد کے شہداء میں حضرت عبداللہ بن حجش رضی الله عنہ بھی تھے۔انہوں نے ایک دن پہلے دعا کی تھی:
"اے اللّٰه! کل کسی بہت طاقتور آدمی سے میرا مقابلہ ہو جو مجھے قتل کرے، پھر میری لاش کا مثلہ کرے... پھر میں قیامت میں تیرے سامنے حاضر ہوں تو تو مجھ سے پوچھے: اے عبداللہ! تیری ناک اور کان کس وجہ سے کاٹے گئے؟ تو میں کہوں گا کہ تیری اور تیرے رسول کی اطاعت وجہ سے اور اس وقت الله تعالیٰ فرمائیں ، تو نے سچ کہا۔"
چنانچہ یہ اس لڑائی میں شہید ہوئے اور ان کی لاش کا مثلہ کیا گیا، لڑائی کے دوران ان کی تلوار ٹوٹ گئی تھی۔تب حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے انہیں کھجور کی ایک شاخ عطا فرمائی۔وہ ان کے ہاتھ میں جاتے ہی تلوار بن گئی اور یہ اسی سے لڑے۔
اس جنگ میں حضرت جابر کے والد عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہ بھی شہید ہوئے تھے۔ان کے چہرے پر زخم آیا تھا۔اس زخم کی وجہ سے جب ان کا آخری وقت آیا تو ان کا ہاتھ اس زخم پر تھا۔جب ان کی لاش اٹھائی گئی اور ہاتھ کو زخم پر سے اٹھایا گیا تو زخم سے خون جاری ہوگیا۔اس پر ان کے ہاتھ کو پھر زخم پر رکھ دیا گیا۔جونہی ہاتھ رکھا گیا، خون بند ہوگیا۔
حضرت عبداللہ بن عمرو اور حضرت عمرو بن جموح رضی الله عنہما کو ایک ہی قبر میں دفن کیا گیا تھا۔کافی مدت بعد احد کے میدان میں سیلاب آگیا، اس سے وہ قبر کھل گئی....لوگوں نے دیکھا کہ ان دونوں لاشوں میں ذرا بھی فرق نہیں آیا تھا.... بالکل تروتازہ تھیں ... یوں لگتا تھا جیسے ابھی کل ہی دفن کی گئی ہوں ، حضرت عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہ کا ہاتھ اسی طرح اس زخم پر تھا... کسی نے ان کا ہاتھ ہٹادیا... ہاتھ ہٹاتے ہی خون جاری ہوگیا، چنانچہ پھر زخم پر رکھ دیا گیا۔
حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہہ نے اپنے دور میں میدان احد سے ایک نہر کھدوائ، یہ نہر شہداء کی قبروں کے درمیان سے نکالی گئی، اس لیے انہوں نے لوگوں کو حکم دیا کہ اپنے اپنے مردوں کو ان قبروں سے نکال کر دوسری جگہ دفن کردیں ... لوگ روتے ہوئے وہاں پہنچے، انہوں نے قبروں میں سے لاشوں کو نکالا تو تمام شہداء کی لاشیں بالکل تروتازہ تھیں ، نرم، ملائم تھیں ۔ان کے تمام جوڑ نرم تھے۔اور یہ واقعہ غزوہ احد کے چالیس سال بعد کا ہے، حضرت حمزہ رضی الله عنہ کی لاش نکالنے کے لیے ان کی قبر کھودی جارہی تھی تو ان کے پاؤں میں کدال لگ گئی۔
جاری ھےان شاء اللہ
❤️
2