ازدواجی زندگی سوشل میڈیا
ازدواجی زندگی سوشل میڈیا
June 17, 2025 at 01:02 AM
🌻🌺🌻🌺🌻🌺🌻🌺🌻🌺 🌹 بسمِﷲِالرَّحْمن الرَّحِيم 🌹          🇵🇰   *آج کا کیلنڈر*  🌤 🔖 20 ذوالحجہ 1446ھ 💎 🔖 17 جون 2025ء 💎 🔖 03 اھاڑ 2081ب 💎 🌄 بروز منگل Tuesday 🌄 🌺🌻🌺🌻🌺🌻🌺🌻🌺🌻 سیرت خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ ﷺ قسط نمبر 30 شہداء کا مرتبہ کدال کا لگنا تھا کہ حضرت حمزہ رضی الله عنہ کے پاؤں سے خون جاری ہوگیا۔گویا ان کا جسم اس طرح تروتازہ تھا جیسے کسی زندہ انسان کا ہوتا ہے، یہاں تک کہ خون بھی خشک نہیں ہوا تھا اور خون شریانوں میں اس طرح جاری تھا کہ ذرا سی کدال لگتے ہی پیر سے جاری ہوگیا۔دوسری یہ بات سامنے آئی کہ ان لاشوں سے مشک جیسی مہک آ رہی تھی... یہ واقعہ غزوہ احد کے تقریباﹰ پچاس سال بعد کا ہے، جب کہ مدینہ منوره کی مٹی اس قدر شور( نمکیات والی )ہے کہ پہلی ہی رات لاش میں تبدیلی کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔معلوم ہوا، جس طرح زمین انبیاء کے جسموں میں کوئی تبدیلی نہیں کرسکتی، اسی طرح شہداء کے جسم بھی سلامت رہتے ہیں ۔ اسی طرح حضرت خارجہ بن زید رضی الله عنہ اور حضرت سعد بن ابی ربیع رضی الله عنہ کو ایک قبر میں دفن کیا گیا، یہ ان کے چچازاد بھائی تھے۔بعض لوگ اپنے شہداء کو احد سے مدینہ منوره لے گئے تھے، لیکن حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے حکم فرمایا کہ انہیں واپس لایا جائے اور میدان احد ہی میں دفن کیا جائے۔ پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے غزوہ احد کے شہداء کے بارے میں فرمایا: "میں ان سب کا گواہ ہوں ... جو زخم بھی کسی کو اللّٰه تعالیٰ کے راستے میں لگا ہے، اللّٰه تعالیٰ قیامت کے دن اس زخم کو دوبارہ اسی حالت میں پیدا فرمائیں گے کہ اس کا رنگ خون کے رنگ کا سا ہوگا اور اس کی خوشبو مشک جیسی ہوگی۔" غزوہ احد میں شہید ہونے والے صحابہ میں حضرت جابر رضی الله عنہ کے والد عبداللہ رضی الله عنہ بھی تھے۔حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے حضرت جابر رضی الله عنہ سے فرمایا: "اے جابر! کیا میں تمہیں ایک بات نہ بتادوں ؟... اور وہ یہ کہ جب بھی اللّٰه تعالیٰ کسی شہید سے کلام فرماتا یے تو پردوں میں سے کلام فرماتا ہے لیکن اس ذات حق نے تمہارے باپ سے روبرو کلام فرمایا اور فرمایا، مجھ سے مانگو، میں عطا کروں گا۔انہوں نے کہا: "اے باری تعالیٰ! مجھے پھر دنیا میں لوٹادیا جائے تاکہ وہاں پہنچ کر میں ایک بار پھر تیری راہ میں قتل ہوسکوں ۔" اس پر اللّٰه تعالیٰ نے فرمایا: "یہ میری عادت کے خلاف ہے کہ مردوں کو دوبارہ دنیا میں لوٹاؤں ۔ " انہوں نے عرض کیا؛ "پروردگار! جو لوگ میرے پیچھے دنیا میں باقی ہیں ، ان تک یہ بات پہنچادے کہ یہاں شہداء کو کیسے کیسے انعامات سے نوازا جاتا ہے۔" اس پر اللّٰه تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ترجمہ: "اور اے مخاطب! جو لوگ اللّٰه کی راہ میں قتل کیے گئے، انہیں مردہ مت خیال کرو، بلکہ وہ لوگ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار کے مقرب ہیں ۔انہیں رزق بھی ملتا ہیں ۔" آنحضرت صلی الله علیہ وسلم بنی دینار کی ایک عورت کے پاس پہنچے۔اس عورت کا شوہر، باپ،اور بھائی اس غزوہ میں شہید ہوئے تھے، ایک روایت کے مطابق ان کا بیٹا بھی شہید ہوا تھا... جب لوگوں نے انہیں یہ خبر سنائی تو انہوں نے فوراً پوچھا: "رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا کیا حال ہیں ؟ " لوگوں نے بتایا: "الله کا شکر ہے... آپ بخیر و عافیت ہیں ۔" اس پر عورت نے کہا: "میں آپ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوں ۔" پھر جب انہوں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو آتے دیکھ لیا تو بولیں : "آپ خیریت سے ہیں تو ہر مصیبت ہیچ ہے۔" یعنی اب کسی غم کی کوئی اہمیت نہیں ۔ غزوۂ احد میں حضرت قتادہ بن نعمان رضی الله عنہ کی آنکھ میں زخم آگیا تھا... یہاں تک کہ آنکھ ڈیلے سے باہر نکل کر لٹک گئی تھی۔لوگوں نے اسے کاٹ ڈالنا چاہا، اور اس بارے حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے پوچھا: "آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: "کاٹو نہیں ۔" پھر انہیں اپنے پاس بلایا اور ان کی آنکھ اپنے ہاتھ مبارک میں لے کر ہتھیلی سےاس کی جگہ پر رکھ دی۔پھر یہ دعا پڑھی: "اے اللّٰه! ان کی آنکھ کو ان کے حسن اور خوبصورتی کا ذریعہ بنادے۔" چنانچہ یہ دوسری آنکھ سے بھی زیادہ خوبصورت اور تیز ہوگئی... حضرت قتادہ رضی الله عنہ کو کبھی آنکھ کی تکلیف ہوتی تو دوسری میں ہوتی، اس آنکھ پر اس تکلیف کا کوئی اثر نہ ہوتا۔ ایک اور صحابی کی گردن میں ایک تیر آکر پیوست ہوگیا... وہ فوراً رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان کے زخم پر اپنا لعاب دہن لگادیا۔زخم فوراً ٹھیک ہوگیا۔ غزوہ احد میں اسلامی لشکر کا جھنڈا حضرت مصعب بن عمیر رضی الله عنہ کے ہاتھ میں تھا۔جنگ کے دوران ان کا دایاں ہاتھ کٹ گیا تو انہوں نے جھنڈا بائیں ہاتھ میں پکڑلیا، جب وہ بھی کٹ گیا تو دونوں کٹے ہوئے بازوؤں سے جھنڈے کو تھام لیا، اس وقت وہ یہ آیت تلاوت کررہے تھے۔ ترجمہ: "اور محمد صلی الله علیہ وسلم الله کے رسول ہی تو ہیں ، اس سے پہلے اور بھی بہت رسول گزرچکے۔"( سورۃ آل عمران: آیت 144 ) جب انہوں نے جنگ کے دوران کسی کو یہ کہتے سنا کہ محمد صلی الله علیہ وسلم قتل کردیئے تو خود بخود ان کی زبان سے یہ الفاظ جاری ہوگئے۔ اس کے بعد حضرت مصعب بن عمیر رضی الله عنہ شہید ہوگئے۔ غرض جنگ ختم ہوئی اور شہداء کو دفن کردینے کے بعد حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم مدینے کی طرف روانہ ہوئے۔آپ صلی الله علیہ وسلم اس وقت گھوڑے پر سوار تھے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس وقت شہداء اور ان کے عزیزوں کے لیے یہ دعا فرمائی: "اے اللّٰه! ان کے دلوں سے رنج اور غم کو مٹادے، ان کی مصیبتوں کو دور فرمادے اور شہیدوں کے جانشینوں کو ان کا بہترین جانشین بنادے۔" مدینہ پہنچنے پر نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے حضرت علی رضی الله عنہہ کی تلوار خون آلودہ دیکھ کر فرمایا: "اگر تم نے جنگ میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے تو فلاں فلاں نے بھی خوب جہاد کیا ہے۔" غزوۂ احد میں 70 کے قریب مسلمان شہید ہوئے۔مرنے والے مشرکوں کی تعداد مختلف بتائی جاتی ہے، جب اللّٰه کے رسول مدینہ منوره پہنچے تو مسلمانوں کی شکست پر منافقوں اور یہودیوں کی زبانیں کھل گئیں ۔وہ کھلے عام مسلمانوں کو برا کہنے لگے، خوشی سے بغلیں بجانے لگے۔ان لوگوں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی شان میں گستاخانہ کلمات بھی کہے، مثلا وہ کہتے پھرتے تھے: "محمد صرف حکومت کرنے کے شوقین ہیں ۔آج تک کسی نبی نے اس طرح نقصان نہیں اٹھایا جس طرح انہوں نے اٹھایا ہے، خود بھی زخمی ہوئے اور اپنے اتنے ساتھیوں کو بھی مروایا ہے۔"( معاذاللہ ) کبھی کہتے: "تمہارے جو ساتھی مارے گئے، اگر وہ ہمارے ساتھ رہتے تو اس طرح اپنی جانیں نہ گنواتے۔" حضرت عمر رضی الله عنہہ تک ان کی یہ باتیں پہنچیں تو انہیں بہت غصہ آیا۔انہوں نے حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے عرض کیا؛ "اے الله کے رسول! آپ ہمیں ان لوگوں کو قتل کرنے کی اجازت دیں ۔" یہ سن کر آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "کیا یہ لوگ یعنی منافقین ظاہر میں مسلمان نہیں ہیں ۔کیا یہ کلمہ نہیں پڑتے کہ الله کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ میں اس کا رسول ہوں ۔" حضرت عمر رضی الله عنہہ نے عرض کیا: "بے شک کرتے ہیں ، لیکن یہ لوگ ایسا تلوار کے خوف سے کرتے ہیں ، اب ان کی حقیقت ظاہر ہوچکی ہے، ان دلوں میں جو کینہ اور فساد ہے وہ سامنے آگیا ہے۔" یہ سن کر آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص اسلام کا اعلان کرے، چاہے ظاہری طور پر ہی کرے، مجھے اس کے قتل کی ممانعت کردی گئی ۔" غزوہ احد کے دوسرے ہی روز، صبح سویرے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا قاصد مدینہ منوره میں یہ اعلان کررہا تھا: مسلمانوں قریش کاتعاقب کرنےکےلیئے تیارھوجااو غزوہ حمراءالاسد اور کفّار کی پسپائی یہ اعلان قریش کو ڈرانے کے لیے کیا گیا تھا تاکہ انھیں معلوم ہوجائیں کہ آنحضرت ﷺ ان کے تعاقُّب میں تشریف لارہے ہیں - اور ساتھ میں انھیں یہ بھی معلوم ہوجائے کہ مسلمانوں میں ابھی بھی طاقت موجود ہے - اُحد کی شکست کی وجہ سے وہ کمزور نہیں ہوگئے - اس طرح تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم آنحضرت ﷺ کے ساتھ روانہ ہوئے سب لوگ زخمی تھے لیکن کسی نے بھی اپنے زخموں کی پرواہ نہ کی -...... جبکہ حالت یہ تھی کہ بنو سلمہ کے چالیس آدمی زخمی ہوئے تھے - خود اللّہ کے رسول بھی زخمی تھے - اور اسی حالت میں صحابہ کو لیکر روانہ ہوئے آپ ﷺ کے زخموں کی صورت یہ تھی کہ چہرہ مبارک زرہ کے گڑجانے کی وجہ سے زخمی تھا - چہرہ مبارک پر پتھر کا ایک زخم بھی تھا - نچلا ہونٹ اندر کی طرف سے زخمی تھا - ایک روایت میں اوپر کا ہونٹ زخمی ہونے کا ذکر بھی موجود ہے - ان زخموں کے علاوہ آپ ﷺ کا دایاں کندھا بھی زخمی تھا - اس کندھے پر ابن قیمیہ نے اس وقت وار کیا تھا جب آپ گڑھے میں گرے تھے گڑھے میں گِر جانے کی وجہ سے آپ ﷺ کے دونوں گھٹنے بھی زخمی تھے - ایسی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ و نے حضرت طلحہ بن عبیداللہ ؓ سے فرمایا : طلحہ تمہارے ہتھیار کہاں ہے ؟ انھوں نے فرمایا : " یہیں ہیں اللّٰه کے رسول! " یہ کہ کر وہ گئے اور ہتھیار پہن کر آگئے حالانکہ ان کے سینے پر صرف نو زخم تھے جبکہ پورے جسم پر ستّر زخم تھے..... اللّٰہ اکبر - آپ ﷺ کا لشکر آگے بڑھتا چلا گیا یہاں تک کہ حمراءالاسد کے مقام پر ٹھہرا - یہ جگہ مدینہ منوّرہ سے تقریباً 12 کلومیٹر دور ہے - اس مقام پر مسلمانوں نے تین دِن تک قیام کیا - ہر رات میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اپنے پڑاو میں جگہ جگہ آگ روشن کرتے رہے تاکہ دشمن کو دور سے روشنیاں نظر آتی رہیں - اس تدبیر سے دشمن نے خیال کیا کہ مسلمان بڑی تعداد کے ساتھ آئے ہیں - چنانچہ ان پر رعب پڑ گیا - اس مہم کو غزوۂ حمراءالاسد کہا جاتا ہے - حضرت جابر بن عبداللہ ؓ فرماتے ہیں کہ اس غزوے میں مسلمانوں کے پاس کھانے کے لیے صرف کھجوریں تھیں یا صرف اونٹ ذبح کیے جاتے تھے - کفّار نے جب یہ خبر سنیں کہ مسلمان تو ایک بار پھر تیاری کے ساتھ میدان میں موجود ہیں تو وہ مکّہ کی طرف لوٹ گئے جب حضور ﷺ کو یہ اطلاع ملی تو آپ ﷺ نے بھی مدینہ کوچ فرمایا - حمراءالاسد کے مقام پر مسلمانوں نے ابوعزہ شاعر کو گرفتار کیا - یہ شخص مسلمانوں کے خلاف اشعار کہا کرتا تھا - غزوہ بدر کے موقع پر بھی گِرفتار ہوا تھا - گِرفتار ہوکر حضور اکرم ﷺ کے سامنے لایا گیا تھا تو گِڑ گڑانے لگا تھا - آپ ﷺ نے اس شرط پر چھوڑ دیا تھا کہ آئندہ مسلمانوں کے خلاف اشعار نہیں کہے گا - لیکن یہ اپنے وعدے سے پھر گیا تھا اور مسلمانوں کے خلاف اشعار کہتا رہا تھا - اس موقع پر یہ پھر گِرفتار ہوا- اب پھر اس نے رونا گِڑ گِڑانا شروع کیا... لگا معافی مانگنے.... اس نے کہا "اے محمّد مجھے چھوڑدیجئے! مجھ پر احسان کیجیے! میری بیٹیوں کی خاطر رہا کردیجیے میں آپ کے سامنے عہد کرتا ہوں کہ میں آئندہ کبھی ایسی حرکت نہیں کروں گا - " حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : " نہیں اب تو مسلمانوں کو دکھ نہیں پہنچا سکے گا " اس کے بعد اس کو قتل کردیا گیا - حضور اکرم ﷺ نے اس موقع پر یہ بھی ارشاد فرمایا : " مومن ایک سوراخ سے دوبار نہیں ڈسا جاسکتا -" حضور اکرم ﷺ کے اس فرمان کی وضاحت علماء نے یہ بھی لکھی ہے کہ مومن کو چاہیے کوئی اسے دھوکہ دے تو اس سے ہوشیار رہے اور پھر اس کے دھوکے میں نہ آئے - اسی سال یعنی ٣ہجری میں شراب حرام ہوئی - ۴ہجری میں غزوہ بنو نضیر پیش آیا - اس کی وجہ یہ بنی کہ نبی اکرم ﷺ بنو نضیر کے محلے میں تشریف لے گئے - آپ ﷺ کو ایک ضروری معاملہ میں بنو نضیر سے بات طئے کرنا تھی - یہ یہودیوں کا قبیلہ تھا - آپ ﷺ نے معاہدہ کر رکھا تھا کہ مسلمانوں کو کسی کا خون بہادینا پڑا تو بنو نضیر بھی اس سلسلہ میں مدد کریں گے - حضور اکرم ﷺ جب ان کے محلے میں تشریف لے گئے تو صحابۂ کرام کی ایک مختصر جماعت بھی ساتھ تھی - ان کی تعداد دس سے بھی کم تھی - ان میں حضرت ابوبکر صدیق حضرت عمر اور حضرت علی ؓ بھی تھے - حضور اکرم ﷺ نے وہاں پہنچ کر ان سے بات شروع کی تو وہ بولے : "ہاں ہاں ! کیوں نہیں .... ہم ابھی رقم ادا کردیتے ہیں " آپ پہلے کھانا کھالیں :" اس طرح وہ بظاہر بہت خوش ہوکر ملے " لیکن دراصل وہ آپ ﷺ کے قتل کی سازش پہلے سے تیار کر چکے تھے - آپ ﷺ کو انھوں نے ایک دیوار کے ساتھ بٹھایا - پھر ان میں سے ایک یہودی اس مکان کی چھت پر چڑھ گیا - وہ چھت سے حضور اکرم ﷺ کے اوپر ایک بڑا سا پتھر گرانا چاہتا تھا - ابھی وہ ایسا کرنے ہی والا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کو بھیج دیا - انہوں نے آپ ﷺ کو اس سازش سے باخبر کردیا - آپ ﷺ تیزی سے وہاں سے اٹھے - انداز ایسا تھا جیسے کوئی بات یاد آگئی ہو... آپ ﷺ اپنے ساتھیوں کو وہیں بیٹھا چھوڑ کر مدینہ منورہ لوٹ آئے - جب حضور اکرم صل اللہ علیہ وسلم کی واپسی میں دیر ہوئی صحابہ کرام حیران ہوئے اور حضور اکرم ﷺ کی تلاش میں نکل پڑے - انہیں مدینہ منورہ سے آتا ہوا ایک شخص دکھائی دیا... صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس سے آپ ﷺ کے بارے میں پوچھا - اس نے بتایا کہ وہ آپ ﷺ کو مدینہ منورہ میں دیکھ کر آرہا ہے - اب صحابہ رضی اللہ عنہم فوراً مدینہ منورہ پہنچے - تب حضوراکرم ﷺ نے انہیں سازش کے بارے میں بتایا - آپ ﷺ نے محمد بن مسلمہ ؓ کو بنو نظیر کے پاس بھیجا اور انہیں یہ پیغام دیا: "میرے شہر (یعنی مدینہ) سے نکل جاؤ، تم لوگ اب اس شہر میں نہیں رہ سکتے - اس لیے کہ تم نے جو منصوبہ بنایا تھا، وہ غداری تھی -" تمام یہودیوں کو یہ بھی بتایا گیا کہ آپ ﷺ کے خلاف انہوں نے کیا سازش کی تھی، اس لیے کہ سب کو اس بارے میں معلوم نہیں تھا - سازش کی تفصیل سن کر یہودی خاموش رہ گئے - کوئی منہ سے ایک لفظ بھی نہ نکال سکا - پھر حضرت محمد بن مسلمہ ؓ نے ان سے کہا: "آپ ﷺ کا حکم ہے کہ تم دس دن کے اندر اندر یہاں سے نکل جاؤ، اس مدت کے بعد جو شخص بھی یہاں پایا گیا، اس کی گردن مار دی جائے گی -" حضور نبی کریم ﷺ کا حکم سن کر یہودیوں نے وہاں سے کوچ کی تیاریاں شروع کردیں ... اونٹوں وغیرہ کا انتظام کرنے لگے، لیکن ایسے میں منافقوں کی طرف سے انہیں پیغام ملا کہ اپنا گھربار اور وطن چھوڑ کر ہرگز کہیں نہ جاؤ، ہم لوگ تمہارے ساتھ ہیں ، اگر جنگ کی نوبت آئی تو ہم تمہاری مدد کو آئیں گے اور اگر تم لوگوں کو یہاں سے نکلنا ہی پڑا تو ہم بھی تمہارے ساتھ چلیں گے -" یہودیوں کو روکنے میں سب سے زیادہ کوشش منافقوں کے سردار عبداللہ بن ابی نے کی، اس نے یہودیوں کو پیغام بھیجا: " اپنے گھر والوں کو چھوڑ کر مت جاؤ، اپنی حویلیوں میں جمے رہو... میرے ساتھ دو ہزار جانباز ہیں ، ان میں میری قوم کے لوگ بھی ہیں اور عرب کے دوسرے قبائل بھی ہیں ، وقت آن پڑا تو یہ لوگ تمہاری حویلیوں میں پہنچ جائیں گے اور آخر دم تک لڑیں گے، تم پر آنچ نہیں آنے دیں گے، تم سے پہلے جانیں دیں گے... ہمارے ساتھ قبیلہ بنی قریظہ کے لوگ بھی ہیں اور قبیلہ غطفان کے لوگ بھی... یہ سب تمہاری طرف مدد کا ہاتھ بڑھاتے ہیں -" بنی نظیر کو یہ پیغامات ملے تو انہوں نے جلاوطن ہونے کا خیال ترک کردیا... چنانچہ انہوں نے آنحضرت ﷺ کو پیغام بھیجا: "ہم اپنا وطن چھوڑ کر ہرگز نہیں جائیں گے... آپ کا جو جی چاہے، کرلیں -" یہ پیغام سن کر آپ ﷺ نے کلمہ تکبیر بلند کیا، آپ کے ساتھ مسلمانوں نے بھی اللہ اکبر کہا، پھر آپ نے فرمایا: "یہودی جنگ پر آمادہ ہیں لہٰذا جہاد کی تیاری کرو -" مسلمانوں نے جہاد کی تیاری شروع کردی، اس وقت یہودیوں کو جنگ پر ابھارنے والا شخص حیی بن اخطب تھا، اسی شخص کی بیٹی حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا تھیں جو بعد میں حضور اکرم ﷺ کے نکاح میں آئیں اور ام المومنین کا اعزاز پایا - حیی بن اخطب بنو نضیر کا سردار تھا، بنو نظیر کے ایک دوسرے سردار سلام بن مشکم نے اسے سمجھانے اور جنگ سے باز رکھنے کی بہت کوشش کی، لیکن حیی بن اخطب منافقوں کی شہہ پر باز نہ آیا اور جنگ پر تلا رہا، اس پر سلام بن مشکم نے اس سے کہا: "تم نے میری بات نہیں مانی، اب تم دیکھنا، ہم اپنے وطن سے بے وطن کردیئے جائیں گے، ہماری عزت خاک میں مل جائے گی، ہمارے گھر والے قیدی بنا لیے جائیں گے اور ہمارے نوجوان اس جنگ میں مارے جائیں گے -" حیی بن اخطب پر اس کا بھی اثر نہ ہوا۔ جاری ھے ان شاء اللہ

Comments