ازدواجی زندگی سوشل میڈیا
ازدواجی زندگی سوشل میڈیا
June 18, 2025 at 12:33 AM
🌻🌺🌻🌺🌻🌺🌻🌺🌻🌺 🌹 بسمِﷲِالرَّحْمن الرَّحِيم 🌹          🇵🇰   *آج کا کیلنڈر*  🌤 🔖 21 ذوالحجہ 1446ھ 💎 🔖 18 جون 2025ء 💎 🔖 04 اھاڑ 2081ب 💎 🌄 بروز بدھ Wednesday 🌄 🌺🌻🌺🌻🌺🌻🌺🌻🌺🌻 سیرت خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ ﷺ قسط نمبر 31 غزوۂ بنی نظیر اور غزوۂ بنی مصطلق آخر آنحضرت ﷺ صحابہ کے ساتھ بنونظیر کی طرف روانہ ہوئے - اس موقع پر آپ ﷺ نے مدینہ منورہ میں حضرت عبد اللہ بن ام مکتوم ؓ کو اپنا قائم مقام مقرر فرمایا - جنگی پرچم حضرت علی بن ابی طالب ؓ نے اٹھایا - نبی کریم ﷺ اسلامی لشکر کے ساتھ آگے بڑھے - شام کے وقت مسلمان بنونظیر کی بستی میں پہنچ گئے اور وہاں پڑاؤ ڈال دیا - ادھر یہودی اپنی حویلیوں میں بند ہوگئے اور چھتوں پر سے تیر برسانے لگے، پتھر گرانے لگے - وہ دن اسی طرح گزرا - دوسرے دن حضور اکرم ﷺ لکڑی کے ایک قبے(گنبد نما سائبان) میں قیام پذیر ہوئے، جو حضرت بلال ؓ نے بنایا تھا - یہودیوں میں سے ایک شخص کا نام غزول تھا، وہ زبردست تیرانداز تھا... اس کا پھینکا ہوا تیر دور تک جاتا تھا - اس نے ایک تیر نبی کریم ﷺ کے قبے کی طرف پھینکا - تیر وہاں تک پہنچ گیا - یہ دیکھ کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضور اکرم ﷺ کے حکم سے قبے کو ذرا دور منتقل کردیا - رات کے وقت حضرت علی ؓ غائب ہوگئے - یہ دیکھ کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حیرت ہوئی، انہوں نے آپ سے عرض کیا: "اے اللہ کے رسول! علی نظر نہیں آرہے؟" آپ نے فرمایا: "فکر نہ کرو، وہ ایک کام سے گئے ہیں -" کچھ ہی دیر گزری ہوگی کہ حضرت علی ؓ غزول کا سر اٹھائے ہوئے آگئے - اب ساری صورتحال کا پتا چلا، جب غزول نے آپ ﷺ کے سائبان کی طرف تیر پھینکا تھا، حضرت علی ؓ اسی وقت سے اس کے پیچھے لگ گئے تھے اور آخر اس کا سر کاٹ لائے - اس کے ساتھ دس آدمی اور تھے، وہ غزول کو قتل ہوتے دیکھ کر بھاگ لیے تھے - نبی اکرم ﷺ نے حضرت علی ؓ کے ساتھ دس آدمی اور بھی روانہ فرمائے تھے - ان میں حضرت ابودجانہ ؓ بھی تھے - یہ جماعت ان لوگوں کی تلاش میں نکلی... جو غزول کے مارے جانے پر بھاگ نکلے تھے - آخر اس جماعت نے انہیں جالیا اور سب کو قتل کردیا - بنونظیر کا محاصرہ جاری رہا، یہاں تک کہ چھ راتیں گزر گئیں - اس دوران منافق عبداللہ بن ابی برابر یہودیوں کو پیغامات بھیجتا رہا کہ تم اپنی حویلیوں میں ڈٹے رہو - ہم تمہاری مدد کو آرہے ہیں ، لیکن یہودیوں کو اس سے کوئی مدد نہیں پہنچی - اب تو یہود کا سردار حیی بن اخطب بہت پریشان ہوا... کچھ عقل مند یہودیوں نے اسے عبداللہ بن ابی کے مشورے پر عمل نہ کرنے کے لیے کہا تھا، لیکن حیی بن اخطب نے ان کی بات نہیں مانی تھی - اب انہوں نے طعنے کے طور پر کہا: "عبداللہ بن ابی کی وہ مدد کہاں گئی جس کا اس نے وعدہ کیا تھا... اور جس کی تم آس لگائے بیٹھے تھے؟" وہ کوئی جواب نہ دے سکا، یہودی اب بہت پریشان ہوچکے تھے، ادھر نبی اکرم ﷺ سختی سے ان کا محاصرہ کیے ہوئے تھے، آخر اللہ تعالٰی نے یہودیوں کے دلوں پر مسلمانوں کا رعب طاری کردیا، انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے درخواست کی کہ انھیں یہاں سے نکل جانے دیا جائے... وہ ہتھیار ساتھ نہیں لے جائیں گے، البتہ اپنا گھریلو سامان لے جائیں گے -" نبی اکرم ﷺ نے ان کی یہ درخواست منظور کرلی، چنانچہ یہودیوں نے اپنے اونٹوں پر اپنی عورتوں اور بچوں کو سوار کرلیا اور اپنا سارا سامان بھی اس پر لاد لیا، یہ کل چھ سو اونٹ تھے، ان اونٹوں پر بہت سا سونا چاندی اور قیمتی سامان تھا - اس طرح بنی نظیر کے یہ یہودی جلاوطن ہوکر خیبر میں جابسے، خیبر کے یہودیوں نے انہیں وہاں آباد ہونے میں مدد دی، کچھ لوگ شام کی طرف بھی چلے گئے - غزوہ بنو نظیر کے بعد غزوہ ذات الرقاع، غزوہ بدر ثانی اور غزوہ دومتہ الجندل پیش آئے... یہ چھوٹے چھوٹے غزوات تھے جو یکے بعد دیگرے پیش آئے - پھر غزوہ بنی مصطلق پیش آیا... قبیلہ بنو مصطلق کا سردار حارث بن ابی ضرار تھا، اس نے حضور اکرم ﷺ سے جنگ کے لیے ایک لشکر تیار کیا، اس لشکر میں اس کی قوم کے علاوہ دوسرے عرب بھی شامل تھے - اس اطلاع پر حضور اکرم ﷺ نے بھی جنگ کی تیاری کی، اسلامی لشکر 2شعبان 5ہجری کو روانہ ہوا، ادھر جب حارث بن ابی ضرار اور اس کے ساتھیوں کو مسلمانوں کی آمد کی خبر ملی تو بہت سے لوگ بدحواس ہوکر حارث کا ساتھ چھوڑ گئے اور ادھر ادھر بھاگ نکلے، یہاں تک کہ آپ ﷺ صحابہ کرام کے ساتھ اس قبیلے پر حملہ آور ہوئے، مسلمانوں نے ایک ساتھ مل کے مشرکوں پر حملہ کردیا، یہ حملہ اتنا شدید تھا کہ ان میں سے دس فوراً مارے گئے، باقی گرفتار ہوگئے، ان کی عورتوں اور بچوں کو بھی گرفتار کرلیا گیا - ان قیدیوں میں بنی مصطلق کے سردار حارث بن ابی ضرار کی بیٹی برّہ بنت حارث بھی تھیں ، مالِ غنیمت تقسیم ہوا تو برّہ، ثابت بن قیس ؓ کی تحویل میں آگئیں ، اب ثابت بن قیس ؓ نے برّہ سے طے کیا کہ اگر وہ نو اوقیہ سونا دےدیں تو وہ انہیں آزاد کردیں گے - یہ سن کر برّہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آئیں اور کہنے لگیں : "اے اللہ کے رسول! میں مسلمان ہوچکی ہوں ، میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ تعالٰی کے سوا کوئی معبود نہیں ، ہمارے ساتھ جو ہوا، اس کو آپ جانتے ہیں ، میں قوم کے سردار کی بیٹی ہوں ... ایک سردار کی بیٹی اچانک باندی بنالی گئی... ثابت بن قیس نے آزاد ہونے کے لیے میرے ذمہ جو سونا مقرر کیا ہے وہ میری طاقت سے کہیں زیادہ ہے، میری آپ سے درخواست ہے کہ اس سلسلے میں میری مدد فرمائیں -" اس پر نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: "کیا میں تمہیں اس سے بہتر راستہ نہ بتادوں ؟" برّہ بولیں : "وہ کیا اے اللہ کے رسول -" آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "تمہاری طرف سے سونا میں دے دیتا ہوں اور میں تم سے نکاح کرلوں -" اس پر برّہ بولیں : "اے اللہ کے رسول! میں تیار ہوں -" چنانچہ آپ نے حضرت ثابت بن قیس ؓ کو بلایا، برّہ کو ان سے مانگا، وہ بولے: "اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان! برّہ آپ کی ہوگئی -" آپ ﷺ نے انہیں اتنا سونا ادا کردیا اور برّہ سے شادی کرلی، اس وقت ان کی عمر 20 سال تھی، ان کا نام برّہ سے جویریہ رکھا گیا، اس طرح وہ امّ المومنین حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا ہوگئیں - حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جویریہ رضی اللہ عنہا نہایت خوب صورت خاتون تھیں - بعد میں حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا کا باپ حارث ان کا فدیہ لے کر حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، اس فدیے میں بہت سے اونٹ تھے، حارث ابھی راستے میں تھا کہ اس کی نظر ان میں سے دو خوب صورت اونٹوں پر پڑی، اس نے ان دونوں کو وہیں عقیق کی گھاٹی میں چھپادیا اور باقی فدیہ حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں پیش کرکے کہا: "یہ فدیہ لے لیں اور میری بیٹی کو رہا کردیں -" اس کی بات سن کر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "اور وہ دو اونٹ کیا ہوئے جنھیں تم عقیق کی گھاٹی میں چھپا آئے ہو؟" حارث بن ابی ضرار یہ سنتے ہی پکار اٹھا: "میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں ... اس بات کا علم میرے اور اللہ کے سوا کسی کو نہیں ... اس سے ثابت ہوا، آپ واقعی اللہ کے رسول ہیں -" اس طرح وہ مسلمان ہوگئے، حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا کے بھائی عبداللہ بن حارث بھی مسلمان ہوگئے، اس کے بعد بنی مصطلق کے تمام قیدیوں کو رہا کردیا گیا، کچھ سے فدیہ لیا گیا، کچھ بغیر فدیے کے چھوڑ دیے گئے - حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :"بنی مصطلق پر رسول اللہ ﷺ کی چڑھائی سے تین دن پہلے میں نے خواب دیکھا کہ یثرب(مدینہ منورہ) سے چاند طلوع ہوا اور چلتے چلتے میری گود میں آرہا، پھر جب ہم قیدی بنالیے گئے تو میں نے خواب کے پورا ہونے کی آرزو کی... جب آپ ﷺ نے مجھ سے نکاح فرمالیا تو مجھے اس خواب کی تعبیر معلوم ہوگئی -" اس غزوہ سے فارغ ہوکے جب آپ ﷺ واپس مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوئے تو ایک بہت دردناک واقعہ پیش آگیا۔ منافقین کی سازش سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ کوچ کا اعلان ہوتے ہی میں قضائے حاجت کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی اور لشکر سے دور جنگل کی طرف چلی گئی، جب میں فارغ ہوگئی تو واپس لشکر گاہ کی طرف روانہ ہوئی، میرے گلے میں ایک ہار تھا، وہ ہار کہیں ٹوٹ کر گر گیا، مجھے اس کے گرنے کا پتا نہ چلا، جب اس کا خیال آیا تو ہار کی تلاش میں واپس جنگل کی طرف گئی، اس طرح اس ہار کی تلاش میں مجھے دیر ہوگئی، لشکر میں جو لوگ میرا ہودج اٹھا کر اونٹ پر رکھا کرتے تھے، انہوں نے خیال کیا کہ میں ہودج میں موجود ہوں ، انہوں نے ہودج کو اٹھا کر اونٹ پر رکھ دیا، اور انہیں احساس نہ ہوا کہ میں اس میں نہیں ہوں ، کیونکہ میں دبلی پتلی اور کم وزن کی تھی... میں کھاتی بھی بہت کم تھی، جسم پر موٹاپے کے آثار نہیں تھے، اس طرح لشکر روانہ ہوگیا -(ہودج محمل کو کہتے ہیں ، یہ ایک ڈولی نما چیز ہوتی ہے جو اونٹ پر نشست کے طور پر بلند کی جاتی ہے تاکہ عورت پردے میں رہے -) ادھر کافی تلاش کے بعد میرا ہار مل گیا اور میں لشکر کی طرف روانہ ہوئی، وہاں پہنچی تو لشکر جاچکا تھا، دور دور تک سناٹا تھا، میں جس جگہ ٹھہری ہوئی تھی، وہیں بیٹھ گئی... میں نے سوچا، جب انہیں میری گم شدگی کا پتا چلے گا تو سیدھے یہیں آئیں گے، بیٹھے بیٹھے مجھے نیند نے آلیا - صفوان سلمی ؓ کی ذمہ داری یہ تھی کہ وہ لشکر کے پیچھے رہا کرتے تھے تاکہ کسی کا کوئی سامان رہ جائے یا گر جائے تو اٹھا لیا کریں ، اس روز بھی لشکر سے پیچھے تھے، چنانچہ جب یہ اس جگہ پہنچے جہاں قافلہ تھا... تو انہوں نے مجھے دور سے دیکھا اور خیال کیا کہ کوئی آدمی سویا ہوا ہے، نزدیک آئے تو انہوں نے مجھے پہچان لیا، مجھے دیکھتے ہی انہوں نے "انا لله وانا اليه راجعون" پڑھا، ان کی آواز سن کر میں جاگ گئی، انہیں دیکھتے ہی میں نے اپنی چادر اپنے چہرے پر ڈال لی - حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : "صفوان سلمی حیرت زدہ تھے کہ یہ کیا ہوا، لیکن منہ سے انہوں نے ایک لفظ نہ کہا، نہ میں نے ان سے کوئی بات کی، انہوں نے اپنی اونٹنی کو میرے قریب بٹھادیا، اور صرف اتنا کہا - " ماں ! سوار ہوجایئے! " میں نے اونٹ پر سوار ہوتے وقت کہا: "حَسْبِيَ اللّهُ وَ نِعْمَ الوَكِيْل." (اللہ تعالٰی کی ذات ہی مجھے کافی ہے اور وہی میرا بہترین سہارا ہے) پھر میرے سوار ہونے کے بعد انھوں نے اونٹ کو اٹھایا اور اس کی مہار پکڑ کر آگے روانہ ہوئے، یہاں تک کہ لشکر میں پہنچ گئے، لشکر اس وقت نخلِ ظہیرہ کے مقام پر پڑاؤ ڈالے ہوئے تھا اور وہ دوپہر کا وقت تھا، جب ہم لشکر میں پہنچے تو منافقوں کے سردار عبداللہ بن ابی کو بہتان لگانے کا موقع مل گیا - اس نے کہا: "یہ عورت کون ہے جسے صفوان ساتھ لایا ہے؟" اس کے ساتھی منافق بول اٹھے: "یہ عائشہ ہے... صفوان کے ساتھ آئی ہیں -" اب یہ لوگ لگے باتیں کرنے... پھر جب لشکر مدینہ منورہ پہنچ گیا تو منافق عبداللہ بن اُبی دشمنی کی بنا پر اور اسلام سے اپنی نفرت کی بنیاد پر اس بات کو شہرت دینے لگا - امام بخاری لکھتے ہیں : جب منافق اس واقعہ کا ذکر کرتے تو عبداللہ بن اُبی بڑھ چڑھ کر ان کی تائید کرتا تاکہ اس واقعہ کو زیادہ سے زیادہ شہرت ملے -" سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : "مدینہ منورہ آکر میں بیمار ہوگئی... میں ایک ماہ تک بیمار رہی، دوسری طرف منافق اس بات کو پھیلاتے رہے، بڑھا چڑھا کر بیان کرتے رہے، اس طرح یہ باتیں نبی اکرم ﷺ تک اور میرے ماں باپ تک پہنچیں ، جب کہ مجھے کچھ بھی نہیں معلوم ہوسکا تھا... البتہ میں محسوس کرتی تھی کہ آنحضرت ﷺ مجھ سے پہلے کی طرح محبت سے پیش نہیں آتے تھے جیسا کہ پہلے بیماری کے دنوں میں میرا خیال رکھتے تھے - (دراصل حضور اکرم ﷺ اپنے گھرانے پر منافقین کی الزام تراشی سے سخت غمزدہ تھے اس فکر ورنج کی وجہ سے گھر والوں سے اچھی طرح گھل مل بات کرنے کا موقع بھی نہ ملتا تھا) آپ ﷺ کے اس طرزِ عمل سے میں پریشان رہنے لگی، میری بیماری کم ہوئی تو اُمّ مسطح رضی اللہ عنہا نے مجھے وہ باتیں بتائی جو لوگوں میں پھیل رہی تھیں ، ام مسطح رضی اللہ عنہا نے خود اپنے بیٹے مسطح کو بھی برا بھلا کہا کہ وہ بھی اس بارے میں یہی کچھ کہتا پھرتا ہے... یہ سنتے ہی میرا مرض لوٹ آیا، مجھ پر غشی طاری ہونے لگی، بخار پھر ہوگیا... گھر آئی تو بری طرح بےچین تھی، تمام رات روتے گزری... آنسو رکتے نہیں تھے، نیند آنکھوں سے دور تھی، صبح نبی اکرم ﷺ میرے پاس تشریف لائے، آپ ﷺ نے پوچھا:"کیا حال ہے؟ -"تب میں نے عرض کیا: "کیا آپ مجھے اجازت دیں گے کہ میں اپنے ماں باپ کے گھر ہو آؤں ؟" آپ ﷺ نے مجھے اجازت دے دی... دراصل میں چاہتی تھی، اس خبر کے بارے میں والدین سے پوچھوں - جب میں اپنے ماں باپ کے گھر پہنچی تو میری والدہ (ام رومان رضی اللہ عنہا) مکان کے نچلے حصے میں تھیں ... جب کہ والد اوپر والے حصے میں قرآن کریم کی تلاوت کررہے تھے، والدہ نے مجھے دیکھا تو پوچھا: "تم کیسے آئیں ؟" میں نے ان سے پورا قصہ بیان کردیا... اور اپنی والدہ سے کہا: "اللہ آپ کو معاف فرمائے، لوگ میرے بارے میں کیا کیا کہہ رہے ہیں ، لیکن آپ نے مجھے کچھ بتایا ہی نہیں -" اس پر میری والدہ نے کہا: "بیٹی! تم فکر نہ کرو! اپنے آپ کو سنبھالو، دنیا کا دستور یہی ہے کہ جب کوئی خوب صورت عورت اپنے خاوند کے دل میں گھر کر لیتی ہے تو اس سے جلنے والے اس کی عیب جوئی شروع کردیتے ہیں -" یہ سن کر میں نے کہا:"اللہ کی پناہ! لوگ ایسی باتیں کررہے ہیں ، کیا میرے ابا جان کو بھی ان باتوں کا علم ہے -" انھوں نے جواب دیا:"ہاں ! انھیں بھی معلوم ہے -" اب تو مارے رنج کے میرا برا حال ہوگیا، میں رونے لگی، میرے رونے کی آواز والد کے کانوں تک پہنچی تو وہ فوراً نیچے اتر آئے، انھوں نے میری والدہ سے پوچھا:"اسے کیا ہوا؟".....تو انھوں نے کہا:"اس کے بارے میں لوگ جو افواہیں پھیلا رہے ہیں ، وہ اس کے کانوں تک پہنچ چکی ہیں -" اب تو والدہ بھی رونے لگیں ، والد بھی رونے لگے، اس رات بھی میں روتی رہی، پوری رات سو نہ سکی، میری والدہ بھی رو رہی تھیں ، والد بھی رو رہے تھے... ہمارے ساتھ گھر کے دوسرے لوگ بھی رو رہے تھے، ایسے میں ایک انصاری عورت ملنے کے لیے آگئی... میں نے اسے اندر بلالیا، ہمیں روتے دیکھ کر وہ بھی رونے لگی، یہاں تک کہ ہمارے گھر میں جو بلی تھی... وہ بھی رو رہی تھی...ایسے میں رسول اللہ ﷺ تشریف لے آئے... آپ ﷺ نے سلام کیا اور بیٹھ گئے... جب سے یہ باتیں شروع ہوئی تھی... آپ ﷺ نے میرے پاس بیٹھنا چھوڑ دیا تھا، لیکن اس وقت آپ ﷺ میرے پاس بیٹھ گئے، ان باتوں کو ایک ماہ ہوچکا تھا... اس دوران آپ پر وحی بھی نازل نہیں ہوئی تھی، آپ ﷺ نے بیٹھنے کے بعد کلمہ شہادت پڑھا اور فرمایا: "عائشہ! مجھ تک تمہارے بارے میں ایسی باتیں پہنچی ہیں ، اگر تم ان تہمتوں سے بری ہو اور پاک ہو تو اللہ تعالٰی خود تمہاری براءت فرمادیں گے اور اگرتم اس گناہ میں مبتلا ہوئی ہو تو اللہ تعالٰی سے استغفار کرو اور توبہ کرو، کیونکہ بندہ جب اپنے گناہ کا اقرار کرلیتا ہے اور اللہ سے توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالٰی اس کی توبہ قبول کرتے ہیں -" اس پر میں نے اپنے والد اور والدہ سے عرض کیا: "جو کچھ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے، اس کا جواب دیجیے -" جواب میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے فرمایا: "میں نہیں جانتا، اللہ کے رسول سے کیا کہوں -" تب میں نے عرض کیا: آپ سب نے یہ باتیں سنی ہیں ، اب اگر میں یہ کہتی ہوں کہ میں ان الزامات سے بری ہوں اور میرا اللہ جانتا ہے کہ میں بری ہوں تو کیا اس پر یقین کرلیں گے... لہٰذا میں صبر کروں گی، میں اپنے رنج اور غم کی شکایت اپنے اللہ سے کرتی ہوں -" اس کے بعد میں اٹھی اور بستر پر لیٹ گئی، اس وقت میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ اللہ تعالٰی میرے معاملے میں آیات نازل فرمائے گا، جن کی تلاوت کی جایا کرے گی، جن کو مسجدوں میں پڑھا جایا کرے گا... البتہ میرا خیال تھا کہ اللہ تعالٰی میرے بارے میں رسول اللہ ﷺ کو کوئی خواب دکھادیں گے اور مجھے اس الزام سے بری فرمادیں گے... ابھی ہم لوگ اسی حالت میں تھے کہ اچانک آپ ﷺ پر وحی کے آثار محسوس ہوئے۔ جاری ھےان شاء اللہ
❤️ 1

Comments