
Al-Baseerah
June 14, 2025 at 02:08 PM
*ایران کہ اصلیت*
1979 میں ایران میں خمینی کی قیادت میں بادشاہت ختم کر کے رافضی انقلاب لایا گیا۔ اس انقلاب نے پورے مشرقِ وسطیٰ کو ہلا کر رکھ دیا۔ دعویٰ کیا گیا کہ یہ ایک اسلامی بیداری ہے، مگر جلد ہی اس کے اثرات اور عزائم واضح ہونے لگے۔
1982 میں ایران نے لبنان میں حزب اللہ کے ذریعے مداخلت کی۔ اس مداخلت کے نتیجے میں آج تک لبنان کی خودمختاری بری طرح متاثر ہے، حکومت کمزور ہے اور ایک مسلسل سیاسی و معاشی بحران جاری ہے۔
1983 میں ایران نے عراق میں فرقہ وارانہ مداخلت شروع کی، جس سے شیعہ سنی تقسیم مزید گہری ہوئی۔ ایران کی مدد سے قائم ملیشیاؤں نے ہزاروں سنی مسلمانوں کو نشانہ بنایا۔ آج عراق داخلی انتشار، فرقہ واریت اور ایرانی اثر و رسوخ کا گڑھ بنا ہوا ہے۔
2011 میں شام میں خانہ جنگی کے دوران ایران نے بشار الاسد کی حمایت میں مداخلت کی۔ ایرانی ملیشیائیں، پاسدارانِ انقلاب اور حزب اللہ کی شمولیت سے لاکھوں سنی مسلمان شہید یا بے گھر ہوئے۔ آج شام ایک تباہ حال ملک ہے، جہاں ایران کا اثر مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔
2014 میں یمن میں ایران نے حوثی باغیوں کی حمایت کی۔ اس کے نتیجے میں خانہ جنگی شروع ہوئی جو آج تک جاری ہے۔ یمن انسانی بحران کا شکار ہے، ہزاروں بچے بھوک سے مر چکے ہیں۔
2006 سے 2020 کے درمیان بحرین، کویت اور سعودی عرب میں ایران کی خفیہ مداخلت اور بغاوتوں کی کوششیں منظر عام پر آئیں۔ ان میں گرفتار افراد نے ایرانی حمایت کا اعتراف کیا۔ ان ممالک میں ایرانی اثر کو روکنے کے لیے سخت حفاظتی اقدامات اٹھائے گئے۔
2011 میں لیبیا میں معمر قذافی کے خلاف عوامی بغاوت شروع ہوئی۔ اگرچہ ایران براہ راست فریق نہ تھا، مگر کئی خفیہ چینلز اور انقلابی میڈیا کے ذریعے ایرانی حمایت واضح تھی۔ قذافی کی ہلاکت کے بعد بعض اطلاعات کے مطابق ایران نواز حلقوں نے جشن منایا، اور مٹھائیاں تقسیم کی گئیں۔ آج لیبیا خانہ جنگی، بیرونی مداخلت اور بدترین انتشار کا شکار ہے۔
2003 میں صدام حسین کی حکومت کے خاتمے پر بھی ایران نواز عناصر نے جشن منایا تھا۔ عراق کی گلیوں میں مٹھائیاں بانٹی گئیں۔ اس کے بعد ایران نے وہاں اپنے اثر و رسوخ کو اس قدر بڑھا لیا کہ آج عراقی پالیسی تقریباً تہران کے زیرِ اثر ہے۔
1987 میں ایران نے سعودی عرب میں حج کے دوران ہنگامہ آرائی کی، جس میں 400 سے زائد حجاج جاں بحق ہوئے۔ ایران نے اسے مذہبی احتجاج کہا، مگر عالمی سطح پر اسے انتہائی غیرذمہ دارانہ قدم سمجھا گیا۔
پاکستان میں بھی ایران کی مداخلت کے شواہد موجود ہیں۔ فرقہ وارانہ تنظیموں کی پشت پناہی، اسلحے کی اسمگلنگ، اور مذہبی مقاصد کے نام پر پراکسی جنگ جیسے واقعات ماضی میں ریکارڈ پر آ چکے ہیں۔ نتیجتاً پاکستان میں فرقہ وارانہ کشیدگی بڑھی اور ہزاروں جانیں گئیں۔
یہاں سوال یہ اٹھتا ہے — کیا یہ سب محض اتفاق ہے؟ یا یہ حقیقت ہے کہ جہاں ایران جاتا ہے، وہاں تباہی اور فرقہ واریت اپنے ساتھ لاتا ہے؟ کیا ایران واقعی اسلامی دنیا کی قیادت کے لائق ہے، یا وہ صرف اپنے جغرافیائی و فرقہ وارانہ ایجنڈے کے لیے کام کر رہا ہے؟
وہ ایران جس نے بیت اللہ پر بھی سیاسی عزائم کی لپیٹ میں چڑھائی کی، وہ ایران جس نے صدام اور قذافی کی موت پر جشن منایا، کیا وہ واقعی ہمارا خیرخواہ ہو سکتا ہے؟ کیا وہ ہمارے دلوں میں اسلامی ہیرو کا مقام پا سکتا ہے؟
کیا یہ وہی ایران نہیں جس نے شام میں مسلمانوں کا خون بہایا؟ کیا یہ وہی ایران نہیں جس نے یمن کو فرقہ واریت کی آگ میں جھونک دیا؟ کیا یہ وہی ایران نہیں جس کی پشت پناہی سے عراق میں ہزاروں بے گناہ مارے گئے؟ کیا یہی وہ ایران نہیں جس نے لیبیا میں معمر قذافی کی موت پر مٹھائیاں تقسیم کیں؟ کیا یہ وہی ایران نہیں جو حج جیسے مقدس موقع پر بھی فساد برپا کرنے سے باز نہ آیا؟
✍🏽محمد عفان سلیمی
