
نیوز انسائیٹ اردو( NIU)
June 17, 2025 at 07:59 AM
*جانباز اور جانبازیاں*
اسرائیل و ایران میں جنگ کیا شروع ہوئی کہ فنکاروں کو اپنی فنکاریاں دکھانے کے موقعے مل گئے۔
آج ہی کسی میڈیا پلیٹ فارم پر ایک ویڈیو شیئر کی گئی ہے جس میں اسرائیل کے دفاعی نظام کے پھلجھڑیوں کی طرح اڑتے میزائلوں کو جنگی جہاز چکمہ دیتے اور کھیلتے نظر آئے۔ نیچے کسی نے کیپشن لکھ دیا کہ "یہ جانباز کس ملک کے ہیں جو اسرائیل کی فضاؤں میں گھس کر اسے چھٹی کا دودھ یاد دلا رہے ہیں۔"
واقعی یہ تو سوچنے کی بات ہے کہ یہ جانباز کس ملک کے ہیں؟
قطر کے، کویت کے یا پھر سعودی عرب کی بنائی ہوئی مسلمان ممالک کی مشرکہ افواج کے؟
کیونکہ ایران کے پاس تو جنگی جہاز ہیں ہی نہیں اور چالیس برس سے ایران معاشی اور دفاعی سامان کی خریداری کی پابندیاں بھی بھگت رہا ہے۔۔
کمپوٹر ٹکنالوجی کا استعمال کر کے بنائی ہوئی ایسی مبالغے پر مبنی پروپیگنڈا فلمیں دیکھانے سے کیا کسی قوم کے حوصلے بلند ہو جائیں گے؟ کیا یہی کام حقیقت دکھا کر اور سچ بول کر نہیں کیا جا سکتا؟
کیا خالدٌ بن ولید، عبیدہٌ ابن جراح، طارق بن زیاد، محمد بن قاسم، موسیٰ بن نصیر اور محمود غزنوی نے جھوٹ بول کر اور دشمن کی طاقت کا مذاق اڑا کر اپنی افواج کے حوصلے بڑھائے تھے؟
او کون لوگ ہو تُسی۔۔۔
65ءکی جنگ میں سرحدی دیہاتوں کے لوگوں کے پست ہوتے حوصلوں کو بلند کرنے کیلئے عسکری تعلقات عامہ کے ادارے نے سبز لباس اور سفید عماموں والے بزرگان کے قصے گھڑے تھے، جو بھارتی فضائیہ کے پھینکے ہوئے بموں کو ہاتھوں سے پکڑ کر نہر میں ڈبو دیا کرتے تھے۔
ہر ہفتے منبروں سے کرامتوں والی کہانیاں سن سن کر جوان ہونے والے سادہ لوح لوگ سبز لباس والے بابوں کو بھی حقیقت تسلیم کر گئے۔ یہ تاثر اتنا تواتر سے پھیلایا گیا کہ بعض لوگوں کو شام کے مجلگے میں کھیتوں میں ہوا کے دوش پر جھومتی فصلیں بھی سبز لباس والے بزرگان ہی لگے۔
*رہی سہی کسر حکایت ڈائجسٹ کے مدیر عنایت اللہ التمش نے پوری کر دی۔* عنایت اللہ بہت پائے کے مصنف اور بہترین داستان گو تھے۔ ان کے فنکار قلم نے سبز لباس اور سفید عمامہ والی کہانیوں کو اگلے کئی برس تک اپنے ڈائجسٹ کی زینت بنائے رکھا اور *اس میں حقیقت کے ایسے رنگ بھرے کہ حقیقت بھی اس کے سامنے ماند پڑ گئی۔*
آج بھی عوام کی بہت بڑی تعداد ان کہانیوں کو سچ ہی تسلیم کرتی ہے۔
اس بےمثال کامیابی پر جتنا عسکری تعلقات عامہ کا ادارہ داد کا مستحق ہے، اس سے کہیں زیادہ داد ان منبروں پر بیٹھے ہوئے داستان گو مُلاؤں کو مِلنی چائیے، جنھوں نے قوم کو ذہنی طور پر یوں تیار کیا کہ وہ ایسی کہانیوں پر صدقِ دل سے یقین کریں اور ان کی حقیقت پر کوئی سوال نہ کریں کیونکہ "بڑوں کے سامنے سوال اٹھانا بے ادبی ہوتی ہے۔" اگر کوئی سَر مَست انجانے میں بھی سوال پوچھنے کی جسارت کر بیٹھتا تو اس کے گھر کے بڑوں کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ *اپنی اولاد کو بےادب اور گستاخ ہونے سے روکیں۔*
65ء سے 71ء تک چھ برس کا ہی تو فرق ہے۔ ان چھ برسوں میں سوال اٹھانے کا رجحان بتدریج ختم ہوتا چلا گیا۔ حتیٰ کہ چھ برس بعد یہ سوال بھی کسی نے نہ پوچھا کہ؛
"جو ذلت پاکستان نے "پلٹن میدان" میں ہتھیار ڈال کر اٹھائی, اس وقت سبز لباس اور سفید عماموں والے کہاں تھے؟"
یہ سوال کبھی نہیں اٹھایا گیا، کیونکہ تربیت یہی دی گئی تھی کہ *"بڑوں کے سامنے سوال اٹھانا بے ادبی ہے"۔* اس کے باوجود بھی اگر کسی نے سوال اٹھایا تو اسے گھر کے بڑوں کے حوالے کر دیا گیا کہ *"گستاخ ہوتا جا رہا رہے، اسے سمجھاؤ"*
پچاس برس تک ذہن میں امڈنے والے سوالوں کو اسی طرح ڈنڈے کے زور سے روکا جاتا رہا، یہاں تک کہ پچاس برسوں میں دماغ میں سوچنے اور سوال اٹھانے والے سوتے ہی خشک ہو گئے۔
چار پانچ عشرے سکون سے گذر گئے اور حکومت، حکمت کی بجائے میوزیکل چیئرز کا کھیل بن کر رہ گئی۔ سبھی طبقے اس نئے انداز سے راضی تھے، کوئی سوال نہ اٹھاتا تھا۔
پھر ایک دن مائیک ہاتھ میں تھامے کسی شخص نے بھرے ہوئے مجمع کے سامنے سوال اٹھا دیا۔ ساکن پانی میں گویا ایک ارتعاش سا آ گیا۔ عالیشان محلوں کے بند کمروں میں بیٹھے بست و کشاد کا کھیل کھیلنے والوں کے مضبوط گھروں میں ایک بھونچال آ گیا۔
سب فیصلہ ساز طبیب، سر جوڑ کر بیٹھ گئے اور علاج یہی سوچا گیا کہ گھر کے بڑوں کو کہیں کہ *"اپنی اولاد کو بے ادب ہونے سے روکیں"*
کچھ بڑوں نے جب اپنی نوجوان نسل کو سوال اٹھاتے دیکھا تو انھیں وہ پرانا منظر یاد آ گیا کہ جب انھوں نے بھی کبھی ایسا ہی سوال اٹھایا تھا اور ان کے بڑوں نے ان *سوالوں کا جواب دینے کی بجائے فاسد خیالات کی افزائش کو روکنے کیلئے ان کے سر پر لوہے کی ٹوپی چڑھا دی تھی* جو وہاں کئی برس تک رہی۔
اس سارے عمل کی اذیت پچھلی نسل کے کچھ بڑوں کے ذہنوں میں ابھی تک تازہ تھی۔ انھوں نے ٹوپی چڑھانے والا علاج کرنے کی بجائے، سوال اٹھانے کے عمل میں اپنے بچوں کی حوالہ افزائی کرنے کا فیصلہ کیا۔ کچھ ہی عرصہ میں حال یہ ہو گیا کہ اب شہر میں ہر طرف سوال ہیں اور سوال اٹھانے والے ہیں مگر جواب ندارد۔ اب کے طبیبوں نے مختلف علاج سوچا ہے۔
تو صاحبو! عرض یہ ہے کہ سوال اٹھائیے اور سوال اٹھانے والوں کی حوصلہ افزائی کیجئے، کیونکہ یہی لوگ طالبانِ صدق و صفا ہیں۔ سچائی کے راستوں کو کھولنے میں ان کی مدد کیجئے۔ مبالغہ اور پروپگنڈا پر مبنی مواد کی اشاعت میں معاون بن کر تحریفِ صداقت کرنے کی بجائے ان کے ساتھ مل کر تلاش حق کیجئے۔ خدا آپ کا حامی و مددگار ہو۔