
Farhat Hashmi
June 13, 2025 at 03:03 AM
*چلو، ایک اور!*
*میری پیاری استاذہ جی، آپ نے کلاس میں اللہ کی صفت "حلم" پر بات کی بردباری، نرمی، تحمل۔ اور پھر سوال کیا:*
*کیا آپ کے ذہن میں کوئی ایسا شخص آتا ہے جسے دیکھ کر حلم کی صفت یاد آتی ہو؟*
تو میرے ذہن میں فوراً ایک چہرہ ابھرا ، ہمارے خاندان کے ایک بزرگ، جنہوں نے اپنی پوری زندگی سادگی، خاموشی اور خدمت خلق میں گزار دی۔
وہ شہر کی سہولتوں سے دور، گاؤں کے ایک پہاڑی علاقے میں رہتے تھے، جہاں نہ ہوٹل تھا، نہ بازار، نہ ہی کوئی ریسٹورنٹ۔ اگر گاؤں کے لوگ مسافروں کو کھانا نہ دیتے، تو وہ بھوکے پیاسے واپس لوٹ جاتے۔ لیکن وہ اپنی بیوی سے کہتے تھے:
*اگر کچھ بھی نہ ہو، تو اپنے باغیچے سے ٹماٹر توڑو، اور مکئی کی روٹی کے ساتھ پیش کرو۔ مگر کوئی شخص ہمارے دروازے سے بھوکا واپس نہ جائے۔*
ان کا گھر ایک گزرگاہ پر تھا۔ مسافر، سیاح، دیہاتی سب آتے، اور ان کا دروازہ سب کے لیے وا رہتا۔ وہ وقت کے مطابق چائے، کھانا یا کم از کم ٹھنڈا میٹھا پانی ضرور پیش کرتے۔
ان کی اس محبت کی وجہ سے پنجاب کے کچھ مسافر اب اپنی فیملیز کے ساتھ ہر سال گاؤں میں ان کے گھر رہنے آتے۔
گرمیوں میں ان کے گھر میں تقریباً بیس سے تیس لوگ ہوتے، جو وہاں کا خوشگوار موسم انجوائے کرتے اور بالکل مفت رہائش پاتے۔ ایسا لگتا کہ ان کا گھر کسی نے "قبضہ" کر لیا ہو۔ وہ دونوں، میاں بیوی، گھر کے ایک کونے میں بیٹھے رہتے، جیسے خود مہمان ہوں، اور باقی لوگ آرام اور خوشی سے اپنی زندگی گزار رہے ہوتے۔
ان کی اہلیہ کا انتقال ہو گیا، اور وہ بہت ضعیف ہو گئے تو میرے سسر نے انہیں اپنے گھر بلا لیا اور وہ ہمارے ساتھ رہنے لگے۔
وہ بہت نرم دل، مہربان اور محبت کرنے والے انسان تھے، جن کی باتیں اور شفقت سب کو یاد رہ گئی۔
چند سال بعد وہ ہم سے رخصت ہو گئے۔ اور تب، ایک خاموش
خیال میرے دل میں اترا:
*اُن کی کوئی اولاد نہیں… اور ہم سب بھی کچھ دن بعد انھیں بھول جائیں گے۔*
ہمیں کچھ تو کرنا چاہیے جو ان کے لیے صدقہ جاریہ بن جائے۔
اُسی وقت میرے بھتیجے کی پوسٹنگ بلوچستان کے ایک پسماندہ علاقے میں تھی۔ اُس نے بتایا:
"یہاں لوگ میلوں دور سے پانی لینے آتے ہیں۔ بعض کے پاس صرف ایک پیالہ ہوتا ہے، اور کئی علاقوں میں پانی بالکل نایاب ہے۔
اور اگر ہے بھی تو ایسا کہ جانور اور انسان ایک ہی جگہ سے پانی پیتے ہیں۔"
علاقے کی زمین سخت اور چٹانی تھی، اور صرف سبمرسبل کنواں ہی واحد حل تھا، جس کی لاگت پانچ لاکھ روپے تھی۔
میں نے سوچا، شاید یہ رقم جمع کرنا ممکن نہ ہو۔ مگر اللہ نے مدد فرمائی، میرے خاندان نے ساتھ دیا، اور یوں پہلا کنواں مکمل ہو گیا۔
پھر جو رقم بچی، اُس پر بھائی نے کہا:
*"چلو، ایک اور کر لیتے ہیں۔"*
یوں ہر بار ایک نیا کنواں بنتا گیا، اور ہم کہتے گئے:
*"چلو، ایک اور!"*
اللہ نے اس کام کو یوں برکت دی کہ جس کنٹریکٹر سے ہم یہ کام کروا رہے تھے، اُس نے بھی ہر کنویں میں اپنی طرف سے 80,000 روپے بطور صدقہ شامل کرنے شروع کر دیے۔
پہلا کنواں رمضان کے پہلے دن مکمل ہوا۔
رمضان کے پہلے دن جب کنویں سے میٹھا پانی نکلا، میرا دل اور آنکھیں دونوں بھیگے۔
پھر ایک کے بعد ایک، سات کنویں بنے اور ہر کنواں کئی گاؤں کی پیاس بجھانے لگا۔
اسی دوران کچھ فوجی افسران کی بیگمات بھی متاثر ہوئیں، اور اُنہوں نے بھی اپنے پیسوں سے کچھ کنویں بک کروائے۔
یہ سلسلہ جاری رہا حتیٰ کہ وہاں کی انتظامیہ نے کہا:
*"اب مزید کنویں لگانا یہاں ممکن نہیں۔"*
وہ *حلیم* شخص جو زندگی بھر دوسروں کی خدمت کرتا رہا، اللہ نے اُسے ایسی جگہ یادگار بنا دیا جہاں ہر قطرہ قیمتی ہے اور اُس کے لیے دُعا بن چکا ہے۔
وہ بے نام تھے، لیکن اللہ نے انہیں اپنے وعدے کے مطابق بہترین مقام دیا:
*وَمَا تُقَدِّمُوا لِأَنفُسِكُم مِّنْ خَيْرٍ تَجِدُوهُ عِندَ اللَّـهِ ۗ*
(البقرہ: 110)
*"جو بھی نیکی تم اپنے لیے آگے بھیجو گے، اللہ کے پاس اسے ضرور پاؤ گے۔"*
اللّٰہ تعالیٰ ان دونوں پر اپنی رحمت کی برکھا برسائے اور اس پانی کو ان کے لیے بہترین صدقہ جاریہ بنائے۔
*التماس ہے آپ بھی ان دونوں کو آج اپنی دعا میں یاد رکھیں۔*
*جزاك اللهُ خيرًا*
*سمیرا حسن*
*تعلیم القرآن۳*
❤️
🤲
👍
🥹
🌳
💖
🙏
🤍
✨
❤
190