Farhat Hashmi
Farhat Hashmi
June 14, 2025 at 02:53 PM
پیاری استاذہ کل کی فقه القلوب کی کلاس نے میرے دل کو بہت زیادہ متاثر کیا میں سوچ رہی تھی کلاس کے آغاز میں سب سے پہلے، *ارادے کی بات کی گئی۔* جب ہمارا ارادہ پختہ ہوتا ہے تبھی ہم اللہ کی مدد سے کسی نیکی کے کام کو کرنے میں استقامت اختیار کر سکتے ہیں یا کسی گناہ کو چھوڑنے میں۔ میں نے سوچا کہ آپ کے ساتھ اپنی زندگی کا ایک پہلو شیئر کروں۔ مجھے نو دس سال کی عمر میں سمجھ نہیں آتی تھی کہ چہرے کا لوگ پردہ کیوں کرتے ہیں۔ عبایا، اسکارف کیوں لیتے ہیں اور نقاب سے کچھ نفرت سی تھی۔ یہ اللہ تعالی کا خاص کرم تھا کہ اللہ نے مجھے وہ نگاہ دی کہ میں مردوں کی غلط نظروں کو پہچان پائیں۔ 12 سال کے عمر میں کچھ ایسا ہوا کہ مجھے خود ہی دل میں احساس اور محسوس ہوا اب صرف سکارف اور عبایا نہیں بلکہ نقاب بھی کرنا ہے۔ میں اپنی عمر سے کئی سال چھوٹی لگتی تھی یوں 13 سال کی عمر میں جب میں نے چہرے کا پردہ کرنا شروع کیا،میں نے اپنے دل میں پختہ عہد کر لیا تھا کہ اب کچھ بھی ہو جائے گا اس سے نہیں ہٹنا۔ اپنی عمر سے چھوٹی لگنے کی وجہ سے مجھے پردے میں دیکھ کر میری کلاس میں بہت مذاق اڑایا گیا اور میرے کردار پر بھی نہایت غلط باتیں کی گئی۔ میں نے اللہ سے دعا کی کہ اسکول ہی چھوٹ جائے اور الحمدللہ میں گھر بیٹھ گئی۔ سکول تو جانا ہی تھا،کیونکہ پہلے ایک سال والد کی طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے ضائع ہو گیا اور اب یہ دوسرا سال کلاس کے غلط رویے کی وجہ سے ضائع ہو گیا۔ دو سال ضائع ہونے کے بعد اگلے سال جب میں 14 سال کی عمر میں دوسرے سکول میں داخل ہوئیں۔ تب تک اس بات کا علم آگیا تھا کہ کہیں بھی نامحرم مرد ہوں وہاں پر پردہ کرنا ہے چائے کتنے ہی گھنٹے کرنا پڑے۔ اس نئے سکول میں عبایا، سکارف اور ضرورت کے وقت نقاب کی وجہ سے مجھے کلاس سے باہر نکال دیا جاتا۔ مجھے دھوپ میں کھڑا رکھا جاتا لیکن کہا جاتا ہے کہ عبایا اتارنا پڑے گا۔ سکول میں مخالفت اتنی سخت تھی، ٹیچرز مجھے عبایا کی اجازت نہیں دے رہے تھے اور میں نے روز سزا گرمی میں بھگتی لیکن نہ ٹیچرز کی سنتی نہ ہی پرنسپل کی سنتی دو سال ضائع ہونے کی وجہ سے میں کلاس کے طلبہ کی نسبت اپنی پڑھائی میں بہت پیچھے تھی اس کے باوجود میں نے سوچا اپنی مکمل اپنی صلاحیت، قوت لگا کر، دن رات ایک کر کے پڑھوں اور اپنے پردے کا معاملہ سکول کے CEO یا director کے پاس لے کے جاؤں گی اور الحمدللہ جب پہلی ہی ٹرم میری دوسری پوزیشن آئی تو سکول کے director خود ہماری کلاس میں آئے اور ان کو پتہ تھا کہ کلاس 5 سے میں سیدھا کلاس 8 میں داخل ہوئی تھی اور اتنا کچھ پڑھائی چھوٹ جانے کے باوجود دوسری پوزیشن ان کے لیے بہت حیرانی کی بات تھی۔ جب انہوں نے میرے سے بات کی میں نے پہلی بات یہ کی مجھے پردہ کرنا ہے عبایا پہننا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم اپ کو عبائے میں ہی دیکھ رہے ہیں۔ میں نے پرنسپل اور ٹیچرز کی طرف سے ہونے والی مخالفت کا تذکرہ کیا۔ انہوں نے کہا آپ کو میرے نام سے مکمل اجازت ہے کہ آپ جیسے چاہیں سکول میں آئیں۔اس طرح مجھے نقاب سکارف اور عبایا کی اجازت مل گئی پھر نماز پڑھنے کی اتنی مشکل ہوتی تھی اللہ تعالی نے وہ بھی آسان کر دی۔ نہم اور دہم جماعت میں عید کی پارٹی کے دوران کلاس میں زور سے موسیقی اور dance ہوتا اور میں اپنے آپ کو اکیلا ضرور محسوس کرتی لیکن میرے دل میں سکون تھا مرد ٹیچرز اور کلاس میں لڑکیوں کا ان کے ساتھ بات کرنے کا انداز سب دیکھ کر میں دعا کرتی کہ یا اللہ میری جلد شادی ہو جائے تاکہ میں کسی حرام کام میں نہ پڑھوں۔ اور الحمدللہ ٹھیک دہم جماعت کے بعد میری شادی ہو گئی۔ مجھے یاد ہے جب میں سکول چھوڑ رہی تھی میرے علاوہ کچھ خواتین ٹیچرز بھی سکول میں عبایا پہنتی تھی اور کچھ اور لوگ بھی نماز پڑھتے تھے۔ میں سوچ رہی تھی استقامت میانہ رویہ ہے اگر ہمیں صحیح بات پر ثابت قدمی دکھانی ہوگی تو کچھ کر کے بھی دکھانا ہوگا جب میں نے زیادہ پڑھائی کی وہ میرے فائدے کے لیے بھی تھا اور اس سے میری پردہ کرنے کی بات بھی سنی گئی۔ بعض اوقات ہم زندگی میں مسائل کا تب شکار ہوتے ہیں جب ہم بہت زیادہ یا تو دین سے دور چلے جاتے ہیں یا دین کے کسی حکم کو لے کے بہت rigid ہو جاتے ہیں جس سے لوگ ہم سے بھاگنے لگتے ہیں۔ اگر ہمارا واقعی ہی ارادہ ہو کسی عمل پر جمنے کا، استقامت اختیار کرنے کا پھر ہم لوگوں کے ساتھ بھی صبر اور حوصلے کا معاملہ کرتے ہیں۔ ہم ہر فرد کو اہم سمجھ کر اس کے ساتھ چلنا اور جینا سیکھتے ہیں۔ کیونکہ کسی بھی عمل میں استقامت اختیار کرنے کے لیے ہمیں لوگوں کی مدد بہرحال چاہیے ہی ہوتی ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ رب ہمیں حکمت عطا کرے کہ ہم اپنے گھروں میں نیکی کے کام پر کس طرح سے استقامت اختیار کریں اور ہمارا رویہ لوگوں کو دین کی طرف دعوت دینے والا ہو نہ کہ دین سے بھگانے والا۔ اس سے مجھے وہ جملہ یاد آیا۔ *اپنے آپ پر کام کیجئے۔ :)*
❤️ 👍 🤲 🌹 🤍 🥹 🌼 🍀 134

Comments