Farhat Hashmi
Farhat Hashmi
June 15, 2025 at 09:08 AM
*کب بولنا چاہیے اور کب خاموش رہنا چاہیے؟* رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: *رحم اللّٰہ امرءً تَکلَّمَ فَغَنِمَ، أو سَكَتَ فَسَلِمَ* یعنی "اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم فرمائے جو جب بولے تو نفع حاصل کرے، اور جب خاموش رہے تو سلامتی پائے۔" اس حدیث کے راوی آغاز میں بیان فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے یہ بات تین مرتبہ دہراتے ہوئے ارشاد فرمائی یعنی اللہ تعالیٰ ایسے شخص پر رحم فرمائے جو جب گفتگو کرے تو فائدہ حاصل کرے، اور جب خاموش رہے تو اللہ تعالیٰ اسے سلامتی عطا فرمائے۔ یہ حدیث مبارکہ اپنے اندر بہت وسیع مفہوم رکھتی ہے، معانی کا ایک بحرِ بیکراں ہے۔ آپ ﷺ نے اس حدیث میں ہمیں یہ اصول سکھایا کہ انسان کو کب بولنا چاہیے اور کب خاموش رہنا چاہیے۔ اسلام کی خوبصورتی یہی ہے کہ اس نے معاشرتی و اخلاقی معاملات میں ایسی باریک اور مفصل تعلیمات دی ہیں کہ زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں جہاں اسلام کی ہدایت نہ ہو۔ حتیٰ کہ یہ تک بتایا کہ کب زبان کھولنی ہے اور کب خاموشی بہتر ہے۔ اس حدیث مبارکہ میں ارشاد ہوا کہ جب انسان بات کرے، تو ایسی بات کرے جو اللہ کو پسند ہو۔ ایسی بات جس پر اللہ اسے اجر و ثواب سے مالا مال کر دے، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ لیکن اگر انسان کو محسوس ہو کہ جو بات وہ کہنے جا رہا ہے وہ اللہ کے ہاں پسندیدہ نہیں، تو بہتر ہے کہ خاموش رہے۔ اور اگر وہ خاموش رہا تو اللہ تعالیٰ اسے سلامتی عطا فرمائے گا، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ دنیا میں اسکینڈلز سے، ذلت سے، نقصان سے، اور آخرت میں جہنم سے بچا لے گا۔ یہی مفہوم ایک اور حدیث میں آتا ہے: *مَن صَمَتَ نَجَا* یعنی "جو خاموش رہا، وہ نجات پا گیا"۔ اگرچہ محدثین نے اس حدیث کے ضعف پر کلام کیا ہے، لیکن اس کا مفہوم دیگر صحیح احادیث سے ثابت ہوتا ہے، جیسے: *من کان یؤمن باللہ والیوم الآخر فلیقل خیراً او لیصمت* "جو اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے، اسے چاہیے کہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے۔" گویا اگر زبان سے نیکی کی بات کہنا ممکن نہ ہو تو خاموشی بہتر ہے، کیونکہ گفتگو کے نتیجے میں فساد، فتنہ اور ہلاکت کا اندیشہ ہوتا ہے۔ *اسلام نے یہ آداب ہمیں سکھائے کہ گفتگو کب ضروری ہے؟* 1. جب بولنے کی ضرورت ہو: اگر محسوس ہو کہ خاموشی نقصان دہ ہے یا کسی کی اصلاح، وضاحت یا حق رسانی کے لیے بات کرنا ضروری ہے۔ 2. جب علم ہو: اگر انسان کے پاس شرعی علم ہے، تو مسئلہ پوچھے جانے پر خاموشی اختیار کرنا مناسب نہیں۔ یہاں تک کہ اگر عالم نہ ہو لیکن کسی واقعے کا عینی گواہ ہو، تو عدالت میں گواہی دینا اس پر لازم ہو جاتا ہے۔ اس مقام پر خاموش رہنا جائز نہیں بلکہ جرم ہو سکتا ہے۔ 3. ظالم حکمران کے سامنے حق بات کہنا: نبی کریم ﷺ نے فرمایا: *کلمة حق عند سلطان جائر* یعنی ظالم بادشاہ کے سامنے حق بات کہنا سب سے افضل جہاد ہے۔ *اسی طرح خاموشی بھی تین مواقع پر ضروری ہے:* 1. جب بولنے کی ضرورت نہ ہو: جیسا کہ حدیث میں ہے: *من حسن إسلام المرء ترکُه ما لا یعنیه* یعنی "اچھے مسلمان ہونے کی نشانی ہے کہ وہ غیر متعلق باتوں سے اجتناب کرے۔" خاموشی اس حدیث کا قولی پہلو ہے۔ 2. جب علم نہ ہو: اگر شریعت کا علم نہ ہو تو بلا تحقیق فتوے دینا، مشورے دینا، یا اپنی رائے دینا سخت غلطی ہے۔ 3. جب مصلحت و حکمت کا تقاضا ہو: بعض اوقات انسان کو کوئی سچ معلوم ہوتا ہے، مگر اگر اس کے کہنے سے فساد، جھگڑا یا بگاڑ پیدا ہو تو خاموشی بہتر ہوتی ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ ہر شخص اپنی حدود میں رہے۔ اگر کسی عالم سے سوال کیا جا رہا ہے تو دوسروں کو درمیان میں بولنے یا رائے دینے کا کوئی حق نہیں، خواہ انہیں علم بھی ہو۔ بعض مسائل کا علم ہونا کافی نہیں، بلکہ اس پر فقہ الواقع یعنی حالات کے تناظر میں تطبیق کا علم بھی ضروری ہوتا ہے۔ مثلاً: اگر کوئی شخص پوچھے کہ وضو کے بعد شک ہو گیا کہ ٹوٹا یا نہیں، تو فتویٰ دینے والا پہلے پوچھے گا: شک غالب ہے یا یقین؟ کس سمت ذہن مائل ہے؟ محض مسئلہ جاننا کافی نہیں، اس کے اطلاق کے لیے پورے سیاق و سباق کا علم ضروری ہے۔ اسی طرح بعض اوقات انسان بات کر سکتا ہے، لیکن حکمت کا تقاضا ہوتا ہے کہ خاموش رہے، تاکہ اختلاف نہ بڑھے۔ خلاصہ یہ ہے: *آج ہم ایک ایسے معاشرے میں رہ رہے ہیں جہاں بات کرنا، ہر موضوع پر بولنا، اپنی رائے دینا ایک ہنر یا خوبی سمجھا جاتا ہے۔ بچے سے لے کر بڑے تک، ہر شخص سیاست، طب، معیشت، دین، قانون، ہر موضوع پر تبصرہ کر رہا ہے۔* *ہم نے آرٹ آف اسپیکنگ تو سیکھ لیا، مگر آرٹ آف سائلنس کوئی نہیں سکھاتا۔کوئی ٹریننگ ایسی نہیں جس میں خاموشی کے آداب سکھائے جائیں۔* *بچوں میں بھی ردعمل کی شدت، جنک فوڈ اور سوشل میڈیا کے بے تحاشا استعمال کی وجہ سے ہے۔ زبان میں ٹھہراؤ نہیں رہا۔ ہر موبائل والا مبصر بن چکا ہے، ہر شخص تبصرہ کر رہا ہے، گویا ایک ایسا شور ہے جس میں فکر و تدبر اور خود احتسابی کا موقع نہیں بچا۔* خاموشی میں عافیت ہے، نجات ہے، سلامتی ہے۔ خاموشی فطرت کی زبان ہے جس سے غور و فکر کا دروازہ کھلتا ہے۔ ----- ڈاکٹر عزیزالرحمن
❤️ 👍 🤍 🤲 🫀 ♥️ 🌸 169

Comments