
Farhat Hashmi
June 17, 2025 at 01:47 PM
پیاری استاذہ کل کی شفا کی کلاس جہاں بہت زیادہ میرے زخموں پر مرہم تھی وہاں مجھے بہت کچھ اپنے آپ کے بارے میں سوچنے کا موقع ملا۔
میں نے سوچا آپ کے ساتھ اپنا کچھ اظہار خیال کروں۔
ہر انسان کی زندگی میں اللہ نے کچھ لوگ، کوئی نہ کوئی شخص ایسا رکھا ہوتا ہے جس کو آپ کے اندر کوئی خیر نظر نہیں آتی۔
لیکن یہ ایک سوچ کا زاویہ ہے۔ اسی اسی جملے کو اگر تھوڑا سا بدل دیا جائے اور یہ سوچا جائے کہ اچھی بات ہے مجھے میری خامیاں بتائی جا رہی ہیں۔ چن چن کی میری غلطیاں دکھائی جا رہی ہیں تاکہ میں اور بہتر انسان بن جاؤں۔دور جدید میں self grooming کے سیشن لینا ایک مہنگا اور مال طلب عمل ہے۔اچھی بات ہے کہ ہماری زندگی میں کچھ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو ہماری مفت میں اصلاح کر دیتے ہیں۔ہمیں تو خوش ہونا چاہیے۔ :)
کم عمری میں میری شادی ایسی جگہ ہوئی جہاں مجھے یہ محسوس ہوتا تھا کہ یہ لوگ کیا واقعی دوسرے کو انسان سمجھتے ہیں گالیاں طانے تو چھوٹی بات تھی۔ جب انسان کو تشدد کا بھی نشانہ بنا دیا جائے اور بدترین درجے کا سلوک کیا جائے۔
لیکن سارے معاملات کے بعد اللہ نے مجھے توفیق دی کہ ہر ہر موقع پر میں یہ دیکھوں کہ میری کہاں غلطی تھی۔ بہرحال کچھ نہ کچھ ایسا ہوتا ہے جس کو ہمیں ٹھیک کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کہیں ہمارا رویہ، کہیں ہماری سوچ، کہیں ایک گھر میں رہتے ہوئے،اپنے نظریے میں ہجرت کر جانا لوگ کچھ اور سوچتے رہیں آپ کچھ نظریہ رکھیں اور اپنے آپ کو مثبت بنانے کی کوشش کریں۔
مجھے زندگی میں بہت زیادہ پاگل لفظ سننے کو ملا کہ میں پاگل ہوں ذہنی طور پر ٹھیک بات نہیں کرتی یہاں تک کہ میں خود اپنے آپ کو پاگل سمجھنے لگی اور میں کئی بہت معروف ماہر نفسیات کے پاس بھی گئی اور بتایا کہ میں پاگل ہوں میرا جملہ سن کے اکثر حیرت سے سوال کیا جاتا تھا آپ تو ہمیں بالکل ٹھیک نظر آتی ہیں۔ آپ کو کیا مسئلہ ہے۔ میں کہتی تھی لوگ کہتے ہیں میں پاگل ہوں تو سوچا کہ آپ کے پاس آؤں۔ شاید میری پاگل پن کا علاج کر دیا جائے اور میں بہتر ہو جاؤں کیونکہ میں حقیقتاً اپنی اصلاح کی فکر مند تھی اور الحمدللہ بالکل آر محسوس نہیں کرتی تھی کہ اگر میرے اندر واقعی کوئی ذہنی مسئلہ ہے تو مدد لینے میں کوئی حرج نہیں، اچھی بات ہے میں ٹھیک ہو جاؤں گی۔
ماہر نفسیات اور بہت سے تعلیم و تربیت کے شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کے ساتھ تعلق نے مجھے اس بات پر سوچنے میں امادہ کیا کہ بدلنا تو مجھے اپنے آپ کو ہی ہوگا، لوگوں کو میں تبدیل نہیں کر سکتی۔
اس کے لیے میں نے personality types کے کورسز بھی کیے اور باقاعدگی سے اس کا بہت علم حاصل کرنے کی کوشش کی۔ سب سے پہلے تو میں نے یہ جانا کہ میں کس ٹائپ کی ہوں میری پرسنلٹی کون سی ہے۔ پھر زندگی میں جن جن افراد سے مسئلہ تھا جو میری آنکھوں کی چبن بنے ہوئے تھے سسرال سے لے کے ہر انسان کو اپنی طرح انسان سمجھ کر ان کٹ پرسنلٹی کا مطالعہ شروع کیا۔ بہت زیادہ چیزیں ہوتی ہیں جس کے بعد انسان دوسرے کی پرسنلٹی کو جان پاتا ہے جن سے مجھے محبت تھی ان کی بھی پرسنلٹی کا میں نے مطالعہ کیا تاکہ کہیں انجانے میں ان کو تکلیف نہ دوں۔
جب ہم دوسرے کی پرسنلٹی کو سمجھ جاتے ہیں اس کے مزاج کو جانتے ہیں اور پھر یہ دیکھتے کہ ہمارا یہ مزاج ہے اور دوسرے کا یہ مزاج ہے۔ ہمارے لیے کیا چیزیں مشکل ہیں اور دوسرے کے لیے کیا مشکل ہیں،یہ قدرتی اختلاف کی وجہ سے بہت زیادہ مس انڈرسٹینڈنگ پیدا ہوتی ہیں جس کی وجہ سے ہم یہ جان نہیں پاتے کہ کافی مرتبہ آگلے کے بس میں نہیں ہوتا وہ شخص ہوتا ہی ایسے ہے۔ پرسنلٹی ٹائپس کو تفصیل سے مطالعہ کے دوران ایک پرسنلٹی ٹائپ جس میں تھا کہ ان لوگوں کے اندر least empathy ہوتی ہے لیکن پھر یہ بھی دیکھا کہ ان لوگوں کے اندر خیر کیا ہوتی ہے۔میں نے یہ فیصلہ کیا کہ ان کی خیر کے ساتھ کام کیا جائے اور جو انسان اندرونی طور پر محبت سے خالی ہو وہ دوسرے کو کیسی محبت دے سکے گا۔ اس بات کو قبول کر لیا کہ محبت بھی رزق ہوتا ہے۔ اللہ تعالی نے کچھ لوگوں کے اندر ہمارے لیے محبت نہیں رکھی ہوتی اور وہ دوسروں کے ساتھ محبت کر پاتے ہیں کیونکہ ان کا مزاج ہم آہنگ ہوتا ہے۔ اچھی بات ہے اللہ نے لوگوں کو مختلف طور پر پیدا کیا ہے ہم ان کی خیر کے ساتھ کام لیں اور جو کمی پیشی ہے اس کو نظر انداز کر دیں کیونکہ رشتوں کو نبھانے میں بہت زیادہ چیزوں کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے ایسے جسے کچھ ہوا ہی نہیں ہے۔
میں نے اپنے بارے میں سوچنا شروع کیا کہ میرے اندر بے شمار ایسی چیزیں تھی جن کی مجھے اصلاح کرنے کی ضرورت تھی اللہ سے بہت دعائیں کیں ۔ سب سے پہلے تو لوگوں کی باتوں پر غمزدہ نہیں ہونا کیونکہ اس سے میری تمام تر قوتیں متاثر ہوتی تھی میں بہت بیمار رہنے لگ گئی تھی اور دل بوجھل رہتا تھا اور کہیں نہ کہیں غصے کا اظہار ضرور ہوتا تھا۔ اور یوں میں نے ایک ایک اپنی خامی کو سامنے رکھ کر اپنے آپ کا کام کرنا شروع کیا۔ اصلاح کے لیے اپنے اساتذہ سے بھی سوال کرتی کہ وہ میری رہنمائی کریں۔ گھر والوں سے بھی پوچھتی۔میں نے یہ دیکھا کہ میرے بچوں کی کیا پرسنلٹی ٹائپ ہے اور ان کو کیا چیز میرے سے trigger کر دیتی ہے جس کی وجہ سے معاملات ٹھیک نہیں ہو پاتے۔
اس طرح میری زندگی کے بہت سے مسائل ٹھیک ہو گئے کچھ لوگوں کو میں نے قبول کر لیا کہ یہ لوگ ایسے ہی ہیں کچھ لوگوں کے ساتھ تعلقات بہتر ہو گئے اور زندگی پرسکون محسوس ہونے لگی۔
کل کی کلاس کو مدنظر رکھتے ہوئے میرے ذہن میں ایک جملہ بہت آتا رہا کہ سماج کی اصلاح شکایت میں نہیں ہے بلکہ سماج کی اصلاح کا کام سب سے پہلے میری اپنی اصلاح سے شروع ہوگا اور لوگوں کے ساتھ مجھے رفوگر بن کے رہنا ہوگا۔ :) رفوگر کپڑے کو نہایت عمدہ طریقے سے ایک جوڑ دوسرے جوڑ سے لگاتا ہے اور عیب کا پتہ بھی نہیں چل پاتا۔ مجھے کینچی نہیں بننا جو تعلقات اور رشتوں کو کاٹتی ہو۔
اس سے مجھے وہ جملہ یاد آیا،
*اپنے آپ پر کام کیجئے۔*
کبھی کبھی رک کر سوچتی ہوں خودی پر کام کرنا دور جدید میں اس کا بحران بھڑتا جا رہا ہے۔لہذا اصلاح تو اپنی خود کی کرنی ہوگی۔
❤️
👍
🙏
❤
🌹
😢
🤲
🌸
👌
💐
149