ادارہ طیبہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ۔ Tayyabah Educational And Welfare Trust
ادارہ طیبہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ۔ Tayyabah Educational And Welfare Trust
June 15, 2025 at 11:35 AM
چراغ فکر(یومیہ) ﴿سلسلہ نمبر:،١٦﴾ اکرامِ ضیوف کا روشن نمونہ۔۔۔ندوہ میں برونائی وفد کا استقبال ✍️ شاہ امان اللہ ندوی ادارہ طیبہ ہنومان نگر نالا سوپارہ ویسٹ سفر و زیارت کا سلسلہ انسانی تہذیب و تمدن کا حصہ رہا ہے، مختلف قوموں، ملکوں اور تہذیبوں کے مابین تعلقات و روابط استوار کرنے میں ان دوروں کا بڑا عمل دخل ہے،جب ایسے اسفار دینی و علمی مراکز سے مربوط ہوں تو ان کی معنویت اور گہرائی مزید بڑھ جاتی ہے، حالیہ دنوں برونائی کے سرکاری بزنس وفد نے دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کا خصوصی دورہ کیا، اس موقع پر میرے استادِ محترم ،ندوہ کے نائب مہتمم حضرت مولانا عبد العزیز صاحب ندوی مدظلہ نے جو علمی، اخلاقی اور تہذیبی پذیرائی کی، وہ قابلِ تحسین ہی نہیں بلکہ قابلِ تقلید بھی ہے۔ استاد محترم حضرت مولانا عبد العزیز ندوی صاحب کو محض ایک انتظامی شخصیت کہنا ان کی قدرو منزلت کو محدود کرنا ہوگا، وہ ایک صاحبِ علم مدرس، سلیم الطبع مربی، خوش گفتار خطیب اور اعلیٰ اخلاق کے مالک بزرگ ہیں،ان کا تعلق خاندانی اعتبار سے "بھٹکل" کی علمی روایت سے جڑا ہوا ہے، جس کی بنیاد حضرت مولانا محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ جیسے عظیم المرتبت اساتذہ سے وابستگی رکھتی ہے، یہی وجہ ہے کہ مولانا کی شخصیت میں ندوہ کی وسعت فکر، بھٹکل کی دینی رسوخ، اور برصغیر کی روایتی مروّت نمایاں ہے۔ برونائی وفد کا ندوہ آنا محض ایک رسمی ملاقات نہ تھی، بلکہ دو عالموں، دو تہذیبوں، اور دو فکری اداروں کا باہمی احترام تھا، جس گرمجوشی، محبت اور تواضع کے ساتھ مولانا نے وفد کا استقبال کیا، وہ ان کے اسوۂ نبوی ﷺ سے گہرے تعلق کی جھلک تھی۔ نشست میں گفتگو، سوال و جواب، دعوتِ دین، بین الاقوامی تعاون، اور تعلیمِ دین جیسے اہم موضوعات پر سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ میز پر چائے نہیں، اخلاق کا ذائقہ تھا۔ نشستیں نہیں، تربیت کی مجلس تھی، کوئی تصنّع نہیں، بلکہ دل سے دل کی بات تھی۔ استادِ محترم حضرت مولانا عبد العزیز ندوی صاحب کی زندگی کا یہ پہلو ہمیشہ نمایاں رہا ہے کہ وہ آنے والے مہمانوں کو کسی عہدے یا مفاد کی نگاہ سے نہیں دیکھتے، بلکہ انہیں اللہ کی طرف سے امانت سمجھتے ہیں۔ خواہ وہ علماء ہوں یا تاجر، محققین ہوں یا سادہ طلبہ، ہر ایک سے وہ خندہ پیشانی سے ملتے ہیں، ان کے مسائل سنتے ہیں، رہنمائی کرتے ہیں، اور ندوہ کے علمی ذوق سے روشناس کراتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ برونائی وفد کے چہروں پر اعتماد، شکرگزاری اور محبت کی جھلک دیکھی گئی، وفد کے ارکان نے ندوہ کی علمی فضا، کتب خانہ، درسی نشستیں، اور اساتذہ کی گفتگو کو نہایت متاثر کن قرار دیا۔ ندوہ ہمیشہ سے عالمی سطح پر مسلم دنیا کے علمی مراکز میں ممتاز رہا ہے، برونائی جیسے ترقی یافتہ اور دینی ذوق رکھنے والے ملک کے وفد کی آمد اس امر کا بین ثبوت ہے کہ ندوہ کی کشش آج بھی قائم ہے،مولانا عبد العزیز صاحب جیسے اصحابِ بصیرت کی موجودگی میں یہ مرکز مزید نکھر رہا ہے، ترقی کر رہا ہے، اور اپنی روحانی، فکری اور دعوتی خدمات کے دائرے کو وسعت دے رہا ہے۔ یہ محض ایک وفد کا استقبال نہ تھا، بلکہ یہ ایک سبق تھا کہ کس طرح علم، اخلاق، تواضع، خدمت اور حسنِ ظن کے ساتھ دلوں کو جیتا جا سکتا ہے، مولانا عزیز بھٹکلی کی شخصیت گویا سچ مچ اس شعر کا مجسم نمونہ ہے۔ خوشبو کی طرح ملتے ہیں لوگ کچھ مہک جاتے ہیں دل میں برسوں کے لیے اللہ تعالیٰ استاد محترم حضرت مولانا عبد العزیز صاحب کی عمر، علم، خدمت اور اثر کو باقی و جاری رکھے، اور ندوہ کو ایسے ہی رجالِ کار عطا فرماتا رہے، جن کی سادگی میں دینی عظمت پوشیدہ ہو، اور جن کی گفتگو سے دلوں کی دنیا بدل جائے۔ (سرحدی عقاب)
Image from ادارہ طیبہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ۔ Tayyabah Educational And Welfare Trust: چراغ فکر(یومیہ) ﴿سلسلہ نمبر:،١٦﴾ اکرامِ ضیوف کا روشن نمونہ۔۔۔ندوہ میں ...

Comments