
JUI Media Pakistan
June 16, 2025 at 07:19 AM
*قائد ملت اسلامیہ حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب کا دفاع وطن و اسرائیل مردہ باد ملین مارچ حیدر آباد سے خطاب*
15 جون 2025
*سُبْحَانَ ٱلَّذِىٓ أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِۦ لَيْلًۭا مِّنَ ٱلْمَسْجِدِ ٱلْحَرَامِ إِلَى ٱلْمَسْجِدِ ٱلْأَقْصَى ٱلَّذِى بَـٰرَكْنَا حَوْلَهُۥ لِنُرِيَهُۥ مِنْ ءَايَـٰتِنَآ ۚ إِنَّهُۥ هُوَ ٱلسَّمِيعُ ٱلْبَصِيرُ*
*وَٱلْـحَمْدُ لِلَّهِ ٱلَّذِي هَدَانَا لِهَذَا، وَمَا كُنَّا لِنَهْتَدِيَ لَوْلَا أَنْ هَدَانَا ٱللَّهُ، وَٱلصَّلَاةُ وَٱلسَّلَامُ عَلَىٰ سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ رَسُولِ ٱللَّهِ، وَعَلَىٰ آلِهِ وَصَحْبِهِ وَمَنْ وَالَاهُ، أَمَّا بَعْدُ…*
جنابِ صدرِ محترم، اکابر علماءِ کرام، زعماءِ قوم، بزرگانِ ملت میرے دوستوں، میرے بھائیوں، سندھ دھرتی کے جوانوں آج کے حیدر آباد کے اس فقید المثال اجتماع کے انعقاد پر میں آپ تمام دوستوں کو، شرکاءِ اجتماع کو اور سندھ کی جمعیتِ علماء کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
میرے محترم دوستو! جمعیت علماءِ اسلام کے ان اجتماعات کا سلسلہ پورے ملک میں جاری ہے، ہم نے کراچی میں جلسہ کیا اور تاریخ کا سب سے بڑا اجتماع تھا، ہم نے لاہور میں تاریخی اجتماع منعقد کیا، پشاور میں جلسہ کیا، کوئٹہ میں ملین مارچ کیا اور آج حیدر آباد میں تا حد نظر انسانوں کا یہ کہکشاں نظر آرہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک پیغام ہے، دنیا کو پیغام ہے، انسانیت کو پیغام ہے کہ جہاں آج پوری دنیا میں بدامنی ہے ہر طرف جنگ کے شعلے بھڑک رہے ہیں، آسمان سے بارود برس رہا ہے، میرے مسلمان بھائی اس میں جھلس رہے ہیں اس دوران جمعیت علماء اسلام امن کے ساتھ کھڑی ہے، جمعیت علماء اسلام حق کے ساتھ کھڑی ہے، جمعیت علماء اسلام، اسلام کے لیے، دین اسلام کے لیے اور اس وطن عزیز کو ایک حقیقی معنوں میں فلاحی ریاست بنانے کے لیے میدان عمل میں ہے اور ہمارا پلڑا واضح ہے کہ ہم جنگ کے حامی نہیں ہیں ہم امن کے داعی ہیں۔
میرے محترم دوستو! یقیناً ہمارے سندھ کو، سندھ کے عوام اور یقیناً بدامنی سب سے بڑا مسئلہ ہے، اگر امن نہیں ہے تو معیشت نہیں ہے، اگر امن نہیں ہے تو کاروبار نہیں ہے، اگر امن نہیں ہے تو تعلیم نہیں ہے اور سب کچھ ہے تو اس امن میں ہے اور قیام امن کے لیے جمعیت کا ایک ایک کارکن آج میدان عمل میں ہے۔
میرے محترم دوستو! ہم نے سندھ میں بھی امن قائم کرنا ہے، سندھ کے با اثر شخصیات کو بلا کر ان سے رہنمائی لینی ہے، ہم نے عوام کی رائے پہلے بھی دکھائی آج بھی ہم عوام کی رائے دکھا رہے ہیں اور ان شاءاللہ 17 جولائی کو بھی کراچی میں عوام کی رائے حکمرانوں کے سامنے ہوگی کہ ہم اس ملک میں امن چاہتے ہیں۔
میرے محترم دوستو! جو لوگ اپنے آپ کو حکمران سمجھتے یہ حکمران نہیں ہے، دھاندلیوں سے کوئی حکمران نہیں بنتا، ورنہ میں کراچی کے حکمرانوں سے لے کر اسلام آباد کے حکمرانوں تک چیلنج کرتا ہوں پاکستان کے کسی شہر میں عوام کا اتنا بڑا اجتماع منعقد کرسکے جو جمعیت علماء اسلام منعقد کرتی ہیں۔ یہ علماء کی جماعت عوام کی تائید کے ساتھ چلتی ہے، مولوی بظاہر تو مسلف اور اکیلا نظر آتا ہے لیکن ایک بہت بڑی جماعت اس کے پیچھے اللہ کی عبادت میں مصروف ہوتی ہے، یہ علماء کی جماعت اس ملک کے اندر اللہ کے دین کے لیے امامت کا کردار ادا کر رہی ہے اور پاکستان کے عوام اس امامت کو طاقت بخش رہے ہیں اور ان شاءاللہ یہ طاقت عوام کی غالب آئی۔
میرے محترم دوستو! ابھی چند دن پہلے ہندوستان نے پاکستان کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کیا، جمعیت علماء اسلام سب سے پہلے میدان میں آئی، ہم جانتے ہیں پبلک جانتی ہے دنیا جانتی ہے کہ اسٹبلشمنٹ کے خلاف جمعیت علماء اسلام کی آواز کوئی چھپی ہوئی بات نہیں رہی ہے، ہم نے اسٹبلشمنٹ کے دھاندلیوں کے عمل کو مسترد کیا ہے، ہم نے سیاست میں اسٹبلشمنٹ کے کردار کو مسترد کیا ہے اور یہ ہمارا سیاسی مؤقف ہے، سیاسی جماعت مؤقف سے نہیں ہٹا کرتی، اسٹبلشمنٹ ایک قوت ضرور ہے لیکن وہ بالا دست قوت نہیں ہوتی وہ ماتحت قوت ہوا کرتی ہے۔ اگر پاکستان میں حق حکمرانی عوام کے ہاتھ میں ہے تو پھر عوام کے فیصلوں کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا اور جو عوام کے فیصلے کو تبدیل کرتا ہے وہ پاکستان کا سب سے بڑا مجرم ہے اس جرم کے ساتھ ہمارا مقابلہ ہے۔
میرے محترم دوستو! ہندوستان نے جارحیت کا ارتکاب کیا تو جمعیت علماء اسلام نے پہل کی اور ہم نے کہا کہ ہندوستان کے مقابلے میں پاکستانی قوم ایک صف ہے، ہم نے وہ اختلاف معطل کر دیئے، وطن کی بقا کا سوال پیدا ہوا، وطن کی دفاع کا سوال پیدا ہوا اور ہم نے اس کی دفاع کا حق ادا کیا، ہم نے اپنی فوج کو حوصلہ دیا ہے اور ہماری فوج کو اگر اس جنگ میں کامیابی ملی تو یہی تو ہمارا مطلوب ہے، یہی تو ہمارا مقصود ہے کہ تم دفاع میں کارنامے دکھاؤ، سیاست میں کارنامے نہ دکھایا کرو، دفاع کے لئے کردار ادا کروگے ہم تاج کی طرح سر پہ رکھیں گے تمہیں، لیکن زبردستی سر پہ بیٹھنے کی کوشش کروگے تو ہم ٹکنے بھی نہیں دیں گے اور اللہ تعالی نے پاکستان کو عزت بخشی، ہماری دفاعی قیادت کو اللہ نے عزت بخشی اور اس پر ان کو اللہ کا شکر گزار ہونا چاہیے کسی فخر اور تکبر کی طرف نہیں دیکھنا چاہیے۔ یہ اللہ کے نصرت سے ہوا ہے، آج اسرائیل جو صرف عرب دنیا میں نہیں بلکہ اسلامی دنیا کے اندر ایک ناسور کی حیثیت رکھتا ہے اور برطانوی سامراج نے اسرائیل کا خنجر جو عربوں کی پیٹھ میں گھونپا آج بھی اس سے خون رس رہا ہے لیکن ان شاءاللہ اسرائیل کو اپنا خون چاٹنا پڑے گا اور وہ اسلامی دنیا پر دسترس حاصل نہیں کر سکے گا۔
میرے محترم دوستو! جب سے اسرائیل قائم ہوا 1948 میں، اس وقت سے اس کی پالیسیاں جارحانہ ہے۔ جب اسرائیل بنا تو اسرائیل کے پہلے صدر نے اپنی خارجہ پالیسی کے اصولوں کا اعلان کرتے ہوئے پاکستان کی طرف اشارہ کیا کہ ہماری خارجہ پالیسی کے اصول میں سب سے اولین بات یہی ہوگی کہ دنیا کے نقشہ پر ایک نوزائدہ ملک کا خاتمہ کریں گے۔ یہ پاکستان کے خاتمے کی بات کر رہا تھا اور پاکستان نے پہلے روز اسرائیل کے بارے میں جو مؤقف اختیار کیا، قائد اعظم محمد علی جناح نے کہا یہ برطانیہ کا ناجائز بچہ ہے۔ اس نے سن 1967 میں عرب دنیا پر حملہ کیا غزہ کی پٹی، اردن کے مغربی کنارے صحرائے سینہ، گولان کی پہاڑیاں ان پر قبضہ کیا لیکن امریکہ اور یورپ کے پشت پناہی میں کیا تھا، اس نے 1982 میں لبنان پر حملہ کیا بیس ہزار سے زیادہ لوگوں کو شہید کیا تھا، لاکھوں لوگ بے گھر ہو گئے تھے، مسلسل اس نے فلسطین پر حملے کیے ہر سال دو سال کے بعد غزہ پر اس کا حملہ ہوتا تھا اور آج ڈیڑھ سال سے مسلسل وہ فلسطینیوں پر بمباری کر رہا ہے ساٹھ ہزار سے زیادہ فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جس میں اکثریت چھوٹے بچوں کی ہے، خواتین کی ہے، بوڑھوں کی ہے، عام شہریوں کی ہے۔ ہم اقوام متحدہ کو جھنجوڑنا چاہتے ہیں اور اقوام متحدہ کے مستقل ارکان کو جھنجھوڑنا چاہتے ہیں کہ اقوام متحدہ کی کونسی قرارداد ہے جو اس طرح انسانیت کو قتل کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ اقوام متحدہ ایک بے معنی قسم کا ادارہ بن گیا ہے، اقوام متحدہ آج امریکہ کی لونڈی ہے اور جیسے امریکہ اس کو ہانکے اسی طرح کے فیصلے کرتی ہے اور حق پر مبنی اس کے قراردادوں پر مبنی اگر فیصلے، قراردادیں آتی ہیں تو امریکہ ہی اس کو ویٹو کرتا ہے۔
یہ ساری چیزیں تاریخ کا حصہ ہے ناقابل تردید حقائق ہیں عام انسانیت کو قتل کرنا ایک قوم کی نسل کشی کرنا کیا یہ انسانی جرم نہیں ہے، کیا یہ جنگی جرم نہیں ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ نیتن یاہو اس وقت ایک جنگی مجرم ہے اور عالمی عدالت انصاف نے اس کو مجرم قرار دیا ہے اس کو گرفتار کرنے کا حکم دیا ہے کسی بھی ملک سے اگر وہ پرواز کرے گا اس ملک پر لازم ہوگا کہ وہ اس کے جہاز کو اتارے اور اس کو گرفتار کرے لیکن اس کے باوجود وہ امریکہ بھی جاتا ہے یورپ میں بھی جاتا ہے اور کوئی ملک عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر عمل درآمد کیلئے تیار نہیں ہے۔
اقوام متحدہ نے سن 1967 کے اسرائیلی قبضے کو ناجائز کہا ہے اور ان علاقوں کو متنازعہ قرار دیا ہے لیکن آج بھی اس پر کوئی عمل درآمد نہیں ہو رہا، اگر کویت پر صدام حسین قبضہ کرتا ہے تو امریکہ اور یورپ لاؤ لشکر کے ساتھ عراق پر اتر جاتے ہیں صدام حسین کو گرفتار کرتے ہیں اور انسانی جرم کے بنیاد پر ان کو پھانسی پر لٹکاتے ہیں، اس کی پارٹی کو پھانسی پر لٹکاتے ہیں وہ تو اس کے آشیر بھی نہ تھا جو آج ہو رہا ہے، کب تک انسانیت سوتی رہے گی اور جمعیت علماء اسلام آج یہ فرض نبھا رہا ہے کہ وہ دنیا کو جھنجوڑ رہی ہے، امت مسلمہ اور ان کے حکمرانوں کو بتا رہی ہے کہ آج اگر فلسطین کی باری ہے اس کے بعد پھر اگر لبنان کی باری ہے اور آج اگر ایران کی باری ہے تو کل کس کی باری ہو سکتی ہے یا سعودی عرب کی باری ہو سکتی ہے اور یا پاکستان کی باری ہو سکتی ہے۔
میں اعلان کرتا ہوں کہ جس طرح آج ہم مسجد اقصی کی آزادی کے لیے فلسطینیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں، عرب دنیا کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں، اگر حرمین شریفین کی طرف انہوں نے پیشرفت کی تو دنیا کا ہر مسلمان حرمین کی حفاظت کے لیے میدان میں اترے گا، قربانیاں دے گا، اپنا خون بہائے گا لیکن سرزمین عرب اور حرمین شریفین پر اس ناپاک قدم کو آنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔
میرے محترم دوستو! دنیا بدل رہی ہے، اسلامی دنیا پچیس سال سے نشانے پہ ہے اور آج بھی اسلامی دنیا کو عقل نہیں آ رہی ہے، آج بھی اسلامی دنیا یہ نہیں سوچ رہی کہ اس امت کے مستقبل کے لیے ہم نے کیا کرنا ہے، ہر ایک اپنے الگ سی کوئی ہانڈی پکا رہا ہے اور اس امید میں کہ میں اس ہانڈی کا گوشت کھاؤں گا لیکن جب گوشت کھانے کا مرحلہ آئے گا تو نہ آپ ہوں گے نہ آپ کے ہانڈی ہوگی، کچھ احساس کرو، کچھ سوچو ذرا، ایران اسلامی برادری کا حصہ ہے اور ایران پر اسرائیل کے جارحانہ حملے کی ہم صرف مذمت نہیں کر رہے ہم ایران کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہونے کا اعلان کر رہے ہیں۔
میرے محترم دوستو! آج اس ملک میں عوام کی حکومت نہیں ہے، حکمران بزامِ خیش خود کو حکمران سمجھ رہے ہیں لیکن خدا ان حکمرانوں کی حالت کسی گھر کے نوکر کی طرح بھی نہ کرے، ان حکمرانوں سے کسی خیر کی توقع نہیں ہے، اگر امن برپا کرنا ہے تو اس ملک پر جمعیت علماء کی حکمرانی کی ضرورت ہوگی، اگر ملکی معیشت کو بہتر کرنا ہے تو جمعیت علماء کی حکمرانی کی ضرورت ہوگی، اگر کرپشن کا خاتمہ کرنا ہے تو جمعیت علماء کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ سندھ کی حکومت یا بیچی گئی ہے یا خریدی گئی ہے، بلوچستان کی حکومت یا بیچی گئی ہے یا خریدی گئی ہے، خیبر پختون خواہ کی حکومت یا بیچی گئی ہے یا خریدی گئی ہے اور پنجاب کا تو اللہ ہی مالک ہے۔ میں فوج سے بھی کہنا چاہتا ہوں، اپنی عسکری قیادت سے کہنا چاہتا ہوں اور ان کی خیر خواہی میں کہنا چاہتا ہوں کہ آج پاکستان کی کوئی با اثر سیاسی شخصیت ان کے پشت پر نہیں نظر آ رہی ہے اور اگر پاکستان کی با اثر سیاسی شخصیات کسی فوج کی پشت پر نہ ہو وہ فوج جنگ بھی نہیں لڑ سکتا، اگر ہماری فوج نے جنگ لڑنی ہے تو جس طرح جمعیت علماء نے کہا آؤ آج ہم ایک صف ہیں اور اس ایک صف نے کسی ایک طرف سے بھی فوج کی خلاف آواز بلند نہیں ہونے دی، اس نے یک جہتی کا مظاہرہ کیا، قومی یک جہتی کا مظاہرہ کیا لیکن آج اگر خیبرپختونخواہ کی طرف جائیں تو وہاں امن و امان نام کی کوئی چیز نہیں، اور امن و امان تو دور کی بات کوئی حکومت ہی نظر نہیں آ رہی ہے۔ مسلح لوگ عام شاہراہوں پر گرجتے برستے نظر آ رہے ہیں اور بلوچستان میں بھی حکومت کی کوئی رٹ نہیں ہے۔
ان حالات سے ملک کو کیسے نکالنا ہے جب تک لوگ حکمران پر اعتماد نہیں کریں گے، جب تک ایک قابل اعتماد حکومت ملک میں نہیں ہوگی تو کبھی آپ اعتماد کی فضاء نہیں پیدا کرسکتے، کبھی آپ ایک پُرامن ماحول نہیں پیدا کرسکتے اور پھر کبھی آپ صحیح بجٹ بھی نہیں دے سکتے۔ ہم نے بھی ایک بار پھر بجٹ پاس کر لیا اور کس کا بجٹ ہے وہ ایک لطیفہ کسی نے سنایا اُس دن، لطیفہ سنایا کہ زرداری صاحب ناراض ہو گئے اور شہباز شریف صاحب سے کہا کہ میں ناراض ہوں آپ نے بجٹ تیار کیا ہمیں پوچھا تک نہیں، بیٹھے آپس میں، بھائی جان آپ کیوں ناراض ہیں جی آپ عجیب لوگ ہیں ہم آپ کے ساتھ حکومت میں شامل ہیں اور آپ بجٹ بنا رہے ہیں اور ہمیں پوچھتے تک نہیں ہو، تو شہباز شریف صاحب نے کہا کہ مجھے کس نے پوچھا ہے، کسی کو کچھ پتہ نہیں بجٹ کس نے بنایا، کس نے پیش کیا ہے، آئی ایم ایف کے کہنے پر ہم بجٹ بنا رہے ہیں، بناتے بناتے آج پاکستان کی پچاس فیصد آبادی وہ خط غربت سے نیچے چلی گئی ہے۔ ہم نے پچھلے سال کہا تھا اس سال کے لیے کہ چار فیصد سے زیادہ سالانہ ترقی کے شرح ہوگی لیکن دو فیصد اور کچھ ترقی ہو سکی اس سے زیادہ نہیں آج بھی جو الفاظ کا گورکھ دھندہ قوم کو دھوکہ دینے کے لیے پیش کیا گیا ہے میں اس بجٹ میں عوام کے لیے کچھ نہیں دیکھ رہا ہوں، آؤ ملکی معیشت کو ٹھیک کریں، اپنے عیاشیوں کو ختم کریں۔ عام آدمی کی غربت اور افلاس کو سامنے رکھیں، اور جہاں بدامنی ہو وہاں غریب آدمی محنت مزدوری کے لیے بھی باہر نہیں جا سکتا، وہاں غریب آدمی اپنے بچے کو سکول میں بھی نہیں لے جا سکتا، ہمارے لوگ وہ تو نماز پڑھنے کیلئے بھی مسجد میں نہیں جا سکتے، کوئی حکومتی رٹ موجود نہیں ہے، عوام کی کوئی حاکمیت نہیں ہے پاکستان میں، اگر کہیں کوئی رٹ ہے وہ مسلح لوگوں کی ہے، مسلح گروہوں کی ہے، پاکستان میں ہماری مسلح قوتیں کیا کر رہی ہے اگر ان سے بات کی جائے ہم قربانیاں دے رہے ہیں آپ ہماری قربانیوں کو نہیں مانتے، بابا جب آپ قربانی دیں گے اور واقعی قربانی دیں گے تو ہم ایسے تسلیم کریں گے جیسے انڈیا کے مقابلے میں آپ نے چار گھنٹے قربانی دی اور ہم نے اس کو تسلیم کر لیا۔
اب میں کیسے کہوں کہ ایک طرف چار گھنٹے میں آپ نے اتنے بڑے ہندوستان کے دفاعی سسٹم کو تباہ کر دیا، اس کے ڈیجٹل سسٹم کو تباہ و برباد کر دیا اور چالیس سال سے مسلح چند گروہوں کو آپ کنٹرول نہیں کر سکتے تو اس کا معنی یہ ہے کہ دال میں کچھ کالا کالا ہے۔ ہمارے ساتھی کہہ رہے ہیں ساری دال کالی ہے۔
تو میرے محترم دوستو! یہ وہ مسائل ہیں جو آپ کے سامنے ہیں اور جس کے لیے آپ تا حد نظر پوری ملک میں جمع ہوتے ہیں جمعیت علماء کی آواز پر، صرف اجتماع مقصود نہیں ہے آنے والا پروگرام طے کرنا ہے، اور ہم آج بھی کہنا چاہتے ہیں کہ ہمیں دوبارہ اسلام آباد جانے پہ مجبور مت کرو۔ اگر تم عوام کے ووٹ میں چوری کرتے ہو، اگر تم عوام کے فیصلوں کو تبدیل کرتے ہو، اقلیت کو اکثریت میں تبدیل کرتے ہو، اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرتے ہو اور عوام کو اس بات کا ادراک ہے کہ یہ الیکشن ہماری رائے کی مطابق نہیں، تو اگر فوج کو مارشل لاء لگا کر اقتدار پر قبضہ کرنے کا حق حاصل ہے تو عوام کو بھی اسلام آباد پر قبضہ کرنے کا حق حاصل ہے۔
میرے محترم دوستو! اپنے اندر بیداری پیدا کرنی ہے، صرف جلسے نہیں کرنے، صرف اجتماع کی نمائش نہیں کرنی، ہم عملی میدان کے لوگ ہیں اور ہم نے عملی میدان میں اترنا ہے اور دنیا کو بتانا ہے کہ ایک صاف شفاف اور عوام کی حکمرانی کس کو کہتے ہیں۔ اللہ کے دیئے ہوئے نظام کے مطابق عوام کی حقوق کا تحفظ یہ جمعیت و علماء کی بنیادی مقاصد میں سے ہے۔ اسلام دین رحمت ہے، صرف قرآن کریم کی تلاوت کا نام نہیں، صرف مسجد میں دو سجدے لگانے کا نام نہیں، صرف رمضان کے روزے رکھنے کا نام نہیں، اسلام عدل و انصاف کا نظام ہے، اسلام حقوق کا نظام ہے، اسلام انسانی حقوق کی تحفظ کا نام ہے اور ان شاءاللہ اس نظام کو برپا کرنے کیلئے پھر عوام نکلے گا، میں عوام کا لفظ استعمال کررہا ہوں، جمعیت علماء کے جلسے ملک میں ہورہے ہیں یہ سب بتارہے ہیں کہ پاکستان کا عوام کیا چاہتا ہے۔
میرے محترم دوستو! دوسرے جماعتوں کی حمایتیں ختم ہو چکی ہے اور اگر امید ہے تو جمعیت علماء سے لوگوں کی امیدیں قائم ہے، اور ان شاءاللہ ہم عوام کی امید پر پورا اتریں گے۔ قانون اور آئین کی حکمرانی ہوگی تو وہ جمعیت علماء کے ہاتھ سے ہوگی۔ اقتصادی بہتری ہوگی تو وہ جمعیت علماء کی طرف سے ہوگی جو دیندار بھی ہے اور کرپشن بھی نہیں کیا کرتی۔
ان شاءاللہ العزیز اب وہ دور دُور نہیں ہے ہم نے آگے بڑھنا ہے راہِ عامہ کو ہموار کرنا ہے، ملک کے نظام کو بہتر کرنا ہے اور اداروں کو بتلانا ہے کہ آپ کو عوام کے خواہشات کے مطابق چلنا ہوگا، آپ کو اللہ کے احکامات کو سامنے رکھتے ہوئے چلنا ہوگا اور امن کی قیام کے لیے ہمیں بڑھنا ہوگا اور امن تبھی آئے گا جب ملک میں انصاف کی حکمرانی ہوگی۔
اللہ تعالیٰ ہمیں کامیابی نصیب فرمائے اور اللہ ہمارا ہر میدان میں حامی و ناصر ہو۔
وَأٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔
*Hayat Aziz*
*JUi MEDiA Pakistan*
https://whatsapp.com/channel/0029VaXptss4yltK3tJrDu3c

❤️
❤
🇮🇷
👍
5