The world of science
The world of science
June 15, 2025 at 05:37 AM
ایرانی حملہ: آئرن ڈوم کی قلعی کھل گئی؟ (ضیاء چترالی) 13 جون 2025ء کی رات مشرقِ وسطیٰ کی عسکری تاریخ میں ایک نئے باب کا آغاز ہوا۔ ایران نے پہلی مرتبہ کھلے عام اور براہِ راست اسرائیل پر ایک وسیع البنیاد میزائل حملہ کیا۔ تل ابیب، حیفہ، یروشلم اور دیگر شہروں میں خطرے کے سائرن چیخنے لگے۔ زمین تھرتھرا اٹھی، آسمان انگاروں سے دہک اُٹھا اور دنیا سانس روکے یہ منظر دیکھتی رہی کہ کیا واقعی اسرائیل، جسے "ناقابلِ تسخیر قلعہ" سمجھا جاتا تھا، اب کمزور ہو چکا ہے؟ ایرانی اعلان تھا کہ "جوابی کارروائی کا فیصلہ کن آغاز" کر دیا گیا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ فیصلہ کن کس کے لیے؟ ایران کے لیے، اسرائیل کے لیے، یا پورے خطے کے لیے؟ میزائلوں کی بارش، آئرن ڈوم کی آزمائش: ایران نے اس حملے میں سینکڑوں بیلسٹک میزائل اور ڈرونز ایک ساتھ فائر کیے۔ اگرچہ اسرائیل نے دعویٰ کیا کہ اس نے بیشتر کو روک لیا، لیکن زمینی حقائق کچھ اور ہی داستان سناتے ہیں۔ بعض باخبر ذرائع کے مطابق کم از ڈیڑھ میزائل اور ڈرون ٹھکانے پر لگ چکے ہیں۔ تل ابیب کے نواح میں تباہی، تین ہلاکتیں (اصل تعداد اللہ ہی جانے) اور سیکڑوں زخمی، خود گواہ ہیں کہ "آئرن ڈوم" مکمل طور پر ناکام رہا، کم از کم اس بار۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق ایران نے "تاکتیکِ اِغراق" (saturation tactic) اپنائی۔ یعنی اتنی بڑی تعداد میں حملے کیے گئے کہ اسرائیلی دفاعی نظام اُنہیں ایک ساتھ نہیں روک سکا۔ ایک وقت میں اگر 300 سے زائد میزائل اور ڈرونز فضا میں ہوں، تو آئرن ڈوم، ڈاوڈز سلِنگ اور ایرو جیسے نظام بھی گھٹنے ٹیک دیتے ہیں۔ ہر بیٹری کی ایک حد ہوتی ہے اور ایران نے اُس حد کو عبور کر کے دکھایا۔ کیا آئرن ڈوم محض ایک اساطیری ڈھال ہے؟ گزشتہ برسوں میں "آئرن ڈوم" کو تقریباً افسانوی حیثیت دی گئی۔ لیکن ایم آئی ٹی کے پروفیسر تھیوڈور پوسٹل، اور خود اسرائیلی دفاعی ماہرین جیسے موردخائی شیفر اور رئوون بیداتسور، بارہا کہتے آئے ہیں کہ یہ نظام زمینی حقیقت سے زیادہ ایک نفسیاتی ہتھیار ہے۔ ان کے مطابق، آئرن ڈوم کی حقیقی کامیابی کی شرح محض 10 فیصد کے قریب ہے، کیونکہ یہ میزائل اکثر صرف قریب سے دھماکا کرتے ہیں، مکمل تباہی نہیں لاتے۔ 13 جون کی رات شاید اس دعوے پر آخری مہر ثبت کر گئی۔ ایرانی عسکری صلاحیت: نیا توازنِ طاقت: ایران نے نہ صرف بیلسٹک میزائلوں کی دُرستی میں غیر معمولی پیش رفت کی ہے، بلکہ وہ ڈرونز اور کروز میزائلوں کے مشترکہ استعمال پر بھی مہارت حاصل کر چکا ہے۔ "شاہد-136" جیسے ڈرونز راڈار سے بچ کر اندر گھس جاتے ہیں، اور میزائلوں کے لیے راستہ ہموار کرتے ہیں۔ "سومار" اور "ہویزہ" جیسے کروز میزائل اسرائیل کے دفاعی نظام کو چکمہ دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایران نے اب ایک "تین جہتی" فضائی جنگ کی صلاحیت حاصل کر لی ہے: 1. بیلسٹک میزائل: تیز، بلند اور دور مار 2. ڈرونز: خاموش اور گھات لگانے والے 3. کروز میزائل: نیچی پرواز والے اور راڈار کو چکمہ دینے والے اس سب پر مستزاد، ایران کا ہائپرسونک میزائل "فتاح" ہے، جو آواز سے پانچ گنا زیادہ رفتار سے پرواز کرتا ہے۔ یہ میزائل اسرائیل کے لیے "ناقابلِ تلافی خطرہ" بنتا جا رہا ہے، کیونکہ کوئی موجودہ دفاعی نظام اس کی رفتار اور حرکات کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ تل ابیب کے آسمان پر بدلا ہوا رنگ: اسرائیل کے لیے یہ حملہ محض ایک عسکری واقعہ نہیں، بلکہ ایک اسٹرٹیجک صدمہ ہے۔ پہلی بار اسرائیل کو احساس ہوا کہ اُس کے دفاعی نظام ناقابلِ تسخیر نہیں، اور ایران محض لفظی دھمکی نہیں بلکہ عملی خطرہ ہے۔ یہ حملہ دراصل ایک "سیاسی میزائل" بھی تھا، جس کا ہدف صرف عسکری تنصیبات نہیں، بلکہ عالمی توازنِ طاقت کو چیلنج کرنا تھا۔ ایران نے اسرائیل اور اُس کے مغربی اتحادیوں کو پیغام دے دیا کہ اگر "جوہری سائنسدان" ہمارے ہاں مارے جا سکتے ہیں، تو تل ابیب بھی اب محفوظ نہیں۔ نیا مشرقِ وسطیٰ؟ 13 جون کی رات مشرقِ وسطیٰ کے عسکری توازن میں ایک بڑی دراڑ ڈال گئی۔ یہ حملہ ظاہر کرتا ہے کہ خطہ اب صرف پراکسی وارز تک محدود نہیں رہا، بلکہ براہِ راست ریاستی تصادم کے دہانے پر کھڑا ہے۔ اسرائیل کے لیے یہ محض دفاعی ناکامی نہیں، بلکہ عسکری بالادستی کے دعوے پر سوالیہ نشان بھی ہے۔ کیا ہم ایک نئے مشرقِ وسطیٰ میں داخل ہو چکے ہیں؟ ایسا مشرقِ وسطیٰ، جہاں طاقت کا تصور صرف ہتھیاروں کی تعداد سے نہیں، بلکہ حکمتِ عملی اور حوصلے سے متعین ہوتا ہے؟ اگر ہاں، تو ایران نے پہلا وار کر کے نئی تاریخ کا آغاز کر دیا ہے۔ (ضیاء چترالی)
❤️ 4

Comments