
MUFTI ABDUSSUBHAN MISBAHI
June 5, 2025 at 10:58 AM
*قصائی کو قربانی سے اجرت دینا ممنوع ہے؟*
عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَقُومَ عَلَى بُدْنِهِ، وَأَنْ أَتَصَدَّقَ بِلَحْمِهَا، وَجُلُودِهَا، وَأَجِلَّتِهَا، وَأَنْ لَا أُعْطِيَ الْجَزَّارَ مِنْهَا، قَالَ: نَحْنُ نُعْطِيهِ مِنْ عِنْدِنَا۔“( الصحيح لمسلم، کتاب الحج، باب في الصدقة بلحوم الهدي وجلودها وجلالها،حدیث نمبر:1317)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ: رسول اللہ ﷺ نے مجھے اپنی قربانی کے جانوروں کی نگرانی کا حکم دیا، اور یہ بھی حکم فرمایا کہ ان کا گوشت، کھالیں، اور جھولیں (غریبوں اور محتاجوں میں) صدقہ کر دوں، اور یہ بھی حکم فرمایا کہ میں ان میں سے کچھ بھی قصائی کو (بطور اُجرت) نہ دوں۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ہم اُس (یعنی قصائی کو) اپنی طرف سے اُجرت دیں گے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
*قربانی روحِ بندگی کا مظہر، عقل و شعور کی معراج*
اسلام ایک ایسا کامل دین ہے جو نہ صرف عبادات کے ظاہری اعمال پر زور دیتا ہے بلکہ ان کے باطنی اسرار، روحانی اثرات، اور اخلاقی مضمرات کو بھی اجاگر کرتا ہے۔ قربانی، جو بظاہر ایک مادی عمل ہے۔ جانور ذبح کرنا، گوشت تقسیم کرنا، کھال نکالنا، درحقیقت روحِ بندگی، اخلاصِ نیت، اور نظمِ عبادت کی ایک حسین ترین تصویر ہے۔
یہی وہ عبادت ہے جسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت کے طور پر زندہ رکھا گیا، اور جو شعائر اللہ میں سے ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر ایک شخص جانور ذبح کرے، اس کا گوشت صدقہ کرے، کھال تقسیم کرے، تو کیا یہی کافی ہے؟ نہیں! دینِ اسلام، ہر عمل کے پس منظر، نیت، طریقۂ ادائیگی، اور حدود و قیود کو واضح کرتا ہے، تاکہ عبادت محض رسم نہ رہ جائے بلکہ رب سے تعلق کی تجدید بن جائے۔
اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ قربانی کے جانوروں پر نگران بنیں، ان کا گوشت، کھالیں اور جھولیں صدقہ کریں، اور تاکید فرمائی کہ:
قصائی کو قربانی کے حصے میں سے کچھ نہ دیا جائے، بلکہ ہم اپنی طرف سے اسے اجرت دیں گے۔
یہ محض جزوی حکم نہیں، بلکہ ایک مکمل اصول ہے کہ عبادت میں اجرت کا داخل ہونا، اس کے روحانی اثر کو مجروح کر سکتا ہے۔ یہاں دین ہمیں سکھاتا ہے کہ خدمت کا بدلہ عبادت کے اجر سے نہیں بلکہ علیحدہ اجرت سے دیا جائے۔
عقل کی رو سے بھی یہ بات نہایت موزوں ہے۔ جب کوئی کام عبادت بن جائے، تو اس میں مادی مفاد داخل کرنے سے نیت میں فتور پیدا ہو سکتا ہے۔ خالص نیت کے ساتھ کی گئی خدمت دماغ پر مثبت اثر ڈالتی ہے، جب کہ مادی نفع کی نیت عبادت کی روح کو کمزور کر دیتی ہے۔
مثال کے طور پر:
ایک ڈاکٹر اگر صرف پیسے کے لیے مریض کا علاج کرے، تو وہ صرف جسم کو دیکھتا ہے، لیکن اگر وہ انسانیت کی خدمت کے جذبے سے علاج کرے، تو دل، دماغ اور روح تینوں کو شفا دیتا ہے۔ بالکل اسی طرح قربانی اگر اخلاص، محبت، اور رب کی رضا کے لیے ہو تو وہ”قرب“ بن جاتی ہے، اور اگر اس میں مادی مفاد کی آمیزش ہو جائے تو وہ محض ذبح رہ جاتی ہے۔
*قصائی کو اجرت قربانی سے دینا کیوں منع ہے؟*
حدیث مذکور سے ثابت ہوا کہ: عبادت کے کسی جز کو معاوضہ بنانا، اس کے اخلاص اور روح کو مجروح کرتا ہے۔
فقہِ اسلامی کا مسلمہ اصول ہے:
”العبادات توقیفیةٌ۔“
یعنی: عبادات کی بنیاد وحی پر ہے، ان میں کسی قسم کی ذاتی رائے یا تاویل کی گنجائش نہیں۔
اس اصول کے تحت، قربانی جیسے عظیم شعار میں اگر کوئی خلافِ سنت عمل داخل کر دیا جائے۔ چاہے وہ جزوی ہی کیوں نہ ہو تو اس کا اثر پوری عبادت پر پڑتا ہے۔
کیوں؟
اس لیے کہ قربانی کا جانور اب ایک مقدس نذر ہے، یہ خالص عبادت ہے، اور اس میں کسی بھی دنیاوی سود و زیاں کا داخل ہونا ناپسندیدہ ہے۔
یہی وجہ ہے کہ فقہائے کرام نے متفقہ طور پر فرمایا کہ:
”قصائی کو قربانی کے گوشت یا اجزاء میں سے اجرت دینا جائز نہیں۔ بلکہ اجرت مالِ علیحدہ سے دی جائے، جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے عملی طور پر کیا۔ یعنی: قصائی کو طے شدہ اجرت دینا واجب ہے، لیکن وہ اجرت علیحدہ دی جائے گی، قربانی کے گوشت یا کھال یا کسی حصہ سے نہیں۔
آج کے دور میں جب قربانی محض تہوار بن کر رہ گئی ہے، اور کھالیں بھی کاروباری سودے کا حصہ بن چکی ہیں، اس حدیثِ علی مرتضیٰ کی روشنی میں ہمیں اپنے طرزِ فکر، تقسیمِ گوشت، کھال کے مصرف، اور نیت کی اصلاح کی شدید ضرورت ہے۔
غریب کو گوشت دینا عبادت ہے۔قصائی کو اجرت دینا واجب ہے، لیکن الگ سے۔کھال بیچ کر رقم اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنا جائز نہیں، بلکہ اسے مدرسے، یتیم، بیوہ وغیرہ مستحقین میں خرچ کیا جائے۔
*قربانی کے چند احکام:*
*قربانی کا وقت:*
قربانی کا وقت دسویں ذی الحجہ کے طلوع صبح صادق سے بارہویں کے غروب آفتاب تک ہے یعنی تین دن، دوراتیں اور ان دنوں کو ایام نحر کہتے ہیں۔
عید کی نماز کے بعد قربانی کی جاتی ہے۔ جن علاقوں میں عید کی نماز نہیں ہوتی، وہاں صبح کے وقت کے بعد قربانی کی جا سکتی ہے۔
*قربانی کا جانور:*
قربانی کے لیے مویشی جانور جیسے اونٹ، بھینس، بکری، بھیڑ یا دنبہ استعمال کیا جا سکتا ہے۔
*جانور کی عمر:*
بکری یا بھیڑ: کم از کم ایک سال
ہاں دنبہ یا بھیڑ کا چھ ماہہ بچہ اگر اتنا بڑا ہو کہ دور سے دیکھنے میں سال بھر کا معلوم ہوتا ہو تو اوس کی قربانی جائز ہے۔
بھینس وغیرہ: کم از کم دو سال
اونٹ: کم از کم پانچ سال
جانور صحت مند، تندرست اور بغیر کسی عیب کے ہونا چاہیے (مثلاً اندھا، لنگڑا، بیمار، یا بہت کمزور نہ ہو)۔
*قربانی کون کر سکتا ہے؟*
قربانی ہر اس بالغ، عاقل اور صاحب استطاعت مسلمان پر واجب ہے جو عید الاضحیٰ کے موقع پر مقیم ہو (مسافر پر واجب نہیں)۔
استطاعت کا مطلب: زکوٰۃ کے نصاب کے برابر مال یا دولت کا ہونا جو ضروریات زندگی سے زائد ہو۔
*قربانی کے حصوں کی تقسیم:*
قربانی کے گوشت کو تین حصوں میں تقسیم کرنا مستحب ہے:
ایک حصہ غریبوں اور مستحقین کے لیے صدقہ۔
ایک حصہ رشتہ داروں، دوستوں اور پڑوسیوں کے لیے۔
ایک حصہ اپنے گھر والوں کے لیے۔
اگرچہ پورا گوشت صدقہ کرنا یا خود استعمال کرنا بھی جائز ہے، لیکن تقسیم کا طریقہ بہتر ہے۔
*قربانی کے جانور کی خریداری اور نیت:*
قربانی کا جانور خریدتے وقت نیت اللہ کی رضا اور سنت ابراہیمی کی پیروی ہونی چاہیے۔
قربانی صرف اللہ کے نام پر کی جاتی ہے۔ جزاکم کرتے وقت” بسم اللہ، اللہ أكبر“ پڑھنا ضروری ہے۔
*قصاب کی اجرت:*
جیسا کہ حدیث میں ذکر ہوا، قصاب کو قربانی کے گوشت یا کھال سے معاوضہ دینا منع ہے۔ اسے الگ سے پیسوں یا دیگر ذرائع سے ادائیگی کی جائے۔
*کھال کا استعمال:*
قربانی کا چمڑا اور اوس کی جھول اور رسّی اور اس کے گلے میں ہار ڈالا ہے تو وہ ہار ان سب چیزوں کوصدقہ کردے۔ قربانی کے جانور کی کھال کو صدقہ کرنا مستحب ہے۔ اسے مساجد، مدرسوں یا دیگر خیراتی اداروں کو دیا جا سکتا ہے۔
کھال کو فروخت کرکے اس کی رقم کو غریبوں میں تقسیم کرنا بھی جائز ہے۔
*ممنوعہ امور:*
قربانی کے جانور کے خون کو ماتھے پر لگانا یا دیگر غیر شرعی رسومات جائز نہیں ہیں۔
ذی الحجہ کے پہلے دس دنوں میں قربانی کرنے والے کے لیے بال اور ناخن کاٹنا منع ہے جب تک قربانی نہ ہو جائے۔
*مشترکہ قربانی:*
بڑے جانور (اونٹ، بھینس) میں سات افراد تک حصہ لے سکتے ہیں، بشرطیکہ سب کی نیت قربانی یا عقیقہ کی ہو۔
چھوٹے جانور (بکری، بھیڑ) میں صرف ایک شخص کی طرف سے قربانی ہوتی ہے۔
*قربانی کا مقصد:*
قربانی اللہ کی رضا، تقویٰ اور سنت ابراہیمی کی یادگار ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
"لَن يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَٰكِن يَنَالُهُ التَّقْوَىٰ مِنكُمْ" (سورۃ الحج: 37)
ترجمہ: نہ تو ان کا گوشت اللہ کو پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون، بلکہ تمہارا تقویٰ اسے پہنچتا ہے۔
*عقیقہ کے ساتھ قربانی:*
اگر کوئی شخص عید الاضحیٰ کے دنوں میں عقیقہ اور قربانی دونوں کرنا چاہے تو الگ الگ جانور ذبح کرنا بہتر ہے، لیکن ایک جانور میں دونوں نیت بھی جائز ہے۔ اور عقیقہ کے ساتھ قربانی ہو سکتی ہے۔
حاصل یہ ہے کہ قربانی محض جانور کاٹنے کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک ”مدرسۂ اطاعت“ ہے، جہاں ہر مسلمان کو سکھایا جاتا ہے کہ:
عبادت اخلاص سے کی جائے۔ نظم و ضوابط کے تابع ہو۔ سنت کی اتباع ہر حال میں مقدم ہو۔
جس دن ہم نے عبادات کو سنت کے سانچے میں ڈھال دیا، اسی دن ہمارے اعمال محض رسومات سے عبادات میں تبدیل ہو جائیں گے، اور ہماری قربانیاں محض خون بہانے سے نکل کر قربِ خداوندی کا ذریعہ بن جائیں گی۔
----------------
*कसाई को उजरत क़ुर्बानी से देना मना है?*
हज़रत अली बयान फ़रमाते हैं कि:हुज़ूर नबी-ए-करीम ने मुझे अपनी क़ुर्बानी के जानवरों की निगरानी का हुक्म दिया, और यह भी हुक्म फ़रमाया कि उनका गोश्त, खालें और झूलें (ग़रीबों और मोहताजों में) सदक़ा कर दूं, और यह भी हुक्म फ़रमाया कि मैं उनमें से कुछ भी क़साई को (बतौर उजरत) न दूं। फिर आपने फ़रमाया: हम उसे (यानि कसाई को) अपनी तरफ़ से उजरत देंगे। (सहीह-मुस्लिम शरीफ़, हदीस नंः 1317)
-----------
*क़ुर्बानी — रूह-ए-बंदगी का मज़हर, अक़्ल व शऊर की मेराज*
इस्लाम एक ऐसा कामिल दीन है जो न सिर्फ़ इबादात के ज़ाहिरी आमाल पर ज़ोर देता है बल्कि उनके बातिनी असरार, रूहानी असरात और अख़्लाक़ी पहलुओं को भी उजागर करता है। क़ुर्बानी, जो ज़ाहिरन एक मादी अमल है, जानवर ज़बह करना, गोश्त तक़सीम करना, खाल निकालना, दरअस्ल रूह-ए-बंदगी, इख़्लास-ए-नीयत और निज़ाम-ए-इबादत की एक हसीन तरीन तस्वीर है।
यही वो इबादत है जिसे हज़रत इब्राहीम की सुन्नत के तौर पर ज़िंदा रखा गया, और जो शआएरुल्लाह में से है।
लेकिन सवाल यह है कि अगर कोई शख़्स जानवर ज़बह करे, उसका गोश्त सदक़ा करे, खाल तक़सीम करे तो क्या बस इतना ही काफ़ी है?
नहीं!
दीन-ए-इस्लाम हर अमल के पस-ए-मंज़र, नीयत, तरीक़ा-ए-अदाईगी और हुदूद व क़यूद को वाज़ेह करता है — ताकि इबादत महज़ रस्म न रह जाए, बल्कि रब से ताअल्लुक़ की ताज़ा कड़ी बन जाए।
इसी लिए रसूलुल्लाह ﷺ ने हज़रत अली रज़ियल्लाहु अन्हु को हुक्म दिया कि क़ुर्बानी के जानवरों पर निगरान बनें, उनका गोश्त, खालें और झोलें सदक़ा करें, और ताकीद फ़रमाई कि:
कसाई को क़ुर्बानी के हिस्से में से कुछ न दिया जाए, बल्के हम अपनी तरफ़ से उसे उजरत देंगे।
यह महज़ एक जुज़वी हुक्म नहीं, बल्कि एक मुकम्मल उसूल है कि इबादत में उजरत का दाख़िल होना, उसके रूहानी असर को मजरूह कर सकता है।
यहां दीन हमें सिखाता है कि ख़िदमत का बदला इबादत के अजर से नहीं, बल्के अलहदा तौर पर दी जाने वाली उजरत से दिया जाए।
अक़्ल की रू से भी यह बात बहुत मुनासिब है।
जब कोई काम इबादत बन जाए, तो उसमें मादी मफ़ाद (दुनियावी फ़ायदा) दाख़िल करने से नीयत में फ़ुतूर पैदा हो सकता है।
ख़ालिस नीयत से की गई ख़िदमत, दिमाग़ पर मुसबत असर डालती है, जब कि मादी नफ़ा की नीयत, इबादत की रूह को कमज़ोर कर देती है।
मिसाल के तौर पर:
एक डॉक्टर अगर सिर्फ़ पैसे के लिए मरीज़ का इलाज करे, तो वह सिर्फ़ जिस्म को देखता है
लेकिन अगर वह इंसानियत की ख़िदमत के जज़्बे से इलाज करे, तो दिल, दिमाग और रूह तीनों को शिफ़ा देता है।
बिल्कुल इसी तरह,
अगर क़ुर्बानी इख़्लास, मुहब्बत और रब की रज़ा के लिए हो, तो वह "क़ुर्ब" बन जाती है।
और अगर उसमें मादी मफ़ाद की आमेज़िश हो जाए, तो वह महज़ ज़बह रह जाती है।
*कसाई को उजरत क़ुर्बानी से देना क्यों मना है?*
हदीस-ए-मज़कूर से साबित होता है कि:
इबादत के किसी भी जुज़ को मुआवज़ा (भुगतान) बनाना, उस के इख़्लास और रूहानी असर को मजरूह करता है।
फ़िक्ह-ए-इस्लामी का मुसल्लम उसूल है: इबादात की बुनियाद वही (क़ुरआन और सुन्नत) पर है, इनमें किसी क़िस्म की ज़ाती राय या तावील की गुंजाइश नहीं।
इसी उसूल के तहत, क़ुर्बानी जैसे अज़ीम शिआर में अगर कोई ख़िलाफ़-ए-सुन्नत अमल दाख़िल कर दिया जाए चाहे वह जुज़वी ही क्यों न हो तो उसका असर पूरी इबादत पर पड़ता है।
क्यों?
इसलिए कि: क़ुर्बानी का जानवर अब एक मुक़द्दस नज़र है, यह ख़ालिस इबादत है, और इसमें किसी भी दुनियावी सूद व ज़ियाँ का दाख़िल होना नापसंदीदगी का सबब है।
यही वजह है कि फुक़हाए किराम ने मुत्तफ़िक़ तौर पर फ़रमाया: “कसाई को क़ुर्बानी के गोश्त या अजज़ा (हिस्सों) में से उजरत देना जाइज़ नहीं।” बल्कि उजरत अलग माल से दी जाए, जैसा कि नबी-ए-करीम ﷺ ने अमली तौर पर किया।
यानि: कसाई को तयशुदा उजरत देना वाजिब है, लेकिन वह उजरत अलग से दी जाएगी, क़ुर्बानी के गोश्त, खाल या किसी हिस्से से नहीं।
*आज के दौर में* जब क़ुर्बानी महज़ एक तिहवार बन कर रह गई है,
और खालें भी कारोबारी सौदे का हिस्सा बन चुकी हैं तो हदीस-ए-हज़रत अली मुरतज़ा की रौशनी में
हमें अपने तर्ज़-ए-फ़िक्र, तक़सीम-ए-गोश्त, खाल के मसरफ़,
और नीयत की इस्लाह की शदीद ज़रूरत है। ग़रीब को गोश्त देना इबादत है। क़साई को उजरत देना वाजिब है, लेकिन अलग से। खाल बेच कर रक़म अपने फायदे के लिए इस्तेमाल करना जाइज़ नहीं।
बल्कि उसे मदरसे, यतीम, बेवा वग़ैरह मुस्तहक़ीन में ख़र्च करना चाहिए।
*क़ुर्बानी के चंद अहकाम:*
★ *क़ुर्बानी का वक़्त:*
क़ुर्बानी का वक़्त 10वीं ज़िलहिज्जा की सुबह सादिक़ से लेकर 12वीं की ग़ुरूब-ए-आफ़ताब तक है, यानि तीन दिन और दो रातें। इन दिनों को "अय्याम-ए-नहर" कहा जाता है।
ईद की नमाज़ के बाद क़ुर्बानी की जाती है। जिन इलाक़ों में ईद की नमाज़ नहीं होती, वहाँ सुबह के वक़्त के बाद क़ुर्बानी की जा सकती है।
★ *क़ुर्बानी का जानवर:*
क़ुर्बानी के लिए मवेशी जानवर जैसे ऊँट, भैंस, बकरी, भेड़ या दुम्बा इस्तेमाल किया जा सकता है।
★ *जानवर की उम्र:*
*बकरी या भेड़*: कम से कम एक साल।
हाँ, अगर भेड़ या दुम्बे का छह महीने का बच्चा इतना बड़ा हो कि दूर से देखने पर साल भर का लगे, तो उसकी क़ुर्बानी जाइज़ है।
*भैंस वग़ैरह:* कम से कम दो साल।
*ऊँट:* कम से कम पाँच साल।
जानवर सेहतमंद, तंदुरुस्त और बिना किसी ऐब के होना चाहिए (जैसे: अंधा, लंगड़ा, बीमार या बहुत कमज़ोर न हो)।
★ *क़ुर्बानी कौन कर सकता है?*
हर बालिग़, आक़िल और साहिब-ए-इस्तेताअत (माली क़ुव्वत रखने वाला) मुसलमान पर ईद-उल-अज़्हा के मौके पर क़ुर्बानी वाजिब है। मुसाफ़िर पर वाजिब नहीं।
*इस्तिताअत का मतलब है*: ज़कात के निसाब के बराबर माल या दौलत जो ज़रूरत-ए-ज़िंदगी से ज़ायद हो।
★ *क़ुर्बानी के हिस्सों की तक़सीम:*
क़ुर्बानी के गोश्त को तीन हिस्सों में तक़सीम करना मुस्तहब (बेहतर) है:
एक हिस्सा ग़रीबों और मोहताजों को सदक़ा करें।
एक हिस्सा रिश्तेदारों, दोस्तों और पड़ोसियों के लिए रखें।
एक हिस्सा अपने घर वालों के लिए रखें। अगर कोई शख़्स पूरा गोश्त खुद रख ले या सारा ही सदक़ा कर दे, तो भी जाइज़ है, लेकिन तक़सीम करना अफ़ज़ल और बेहतर है।
★ *क़ुर्बानी के जानवर की ख़रीदारी और नीयत:*
*जानवर खरीदते वक़्त नीयत होनी चाहिए:*
अल्लाह की रज़ा और सुन्नत-ए-इब्राहीमी की पैरवी की।
क़ुर्बानी सिर्फ़ अल्लाह के नाम पर की जाती है।ज़बह करते वक़्त “बिस्मिल्लाह, अल्लाहु अकबर” पढ़ना ज़रूरी है।
★ *कसाई की उजरत:*
जैसा कि हदीस में ज़िक्र हुआ
क़साई को क़ुर्बानी के गोश्त या खाल से मुआवज़ा देना मना है।
उसे अलग से पैसे या दीगर ज़राए से अदा किया जाए।
★ *खाल का इस्तेमाल:*
क़ुर्बानी का चमड़ा, झोल, रस्सी, और जो हार जानवर के गले में डाला गया हो सभी को सदक़ा करना मुस्तहब है।
इसे मस्जिदों, मदरसों या दीगर ख़ैराती इदारों को दिया जा सकता है।
खाल को बेचकर उसकी रक़म को ग़रीबों में तक़सीम करना भी जाइज़ है।
★ *ममनूआ उमूर (निषेधित बातें):*
क़ुर्बानी के जानवर के ख़ून को माथे पर लगाना या दीगर ग़ैर-शरई रस्मों का अमल करना जाइज़ नहीं है।
ज़िल-हिज्जा के पहले दस दिनों में जो शख़्स क़ुर्बानी करना चाहता है, उसके लिए बाल और नाखून काटना मना है, जब तक कि क़ुर्बानी ना हो जाए।
★ *मुश्तरका क़ुर्बानी (साझा क़ुर्बानी):*
बड़े जानवर (जैसे ऊँट, भैंस) में सात अफ़राद तक हिस्सा ले सकते हैं, बशर्ते कि सभी की नीयत क़ुर्बानी या अकीक़ा हो।
छोटे जानवर (जैसे बकरी, भेड़) में सिर्फ़ एक शख़्स की जानिब से क़ुर्बानी होती है।
★ *क़ुर्बानी का मक़सद:*
क़ुर्बानी अल्लाह की रज़ा, तक़्वा और सुन्नत-ए-इब्राहीमी की यादगार है।
क़ुरआन मजीद में फ़रमाया गया:
ना तो उनका गोश्त अल्लाह तक पहुँचता है और ना उनका ख़ून, बल्कि तुम से जो तक़्वा है वही अल्लाह तक पहुँचता है।
★ *अकीक़ा के साथ क़ुर्बानी:*
अगर कोई शख़्स ईद-उल-अज़्हा के दिनों में अकीक़ा और क़ुर्बानी दोनों करना चाहे, तो अलग-अलग जानवर ज़बह करना बेहतर है। लेकिन एक ही जानवर में दोनों नीयत करना भी जाइज़ है, और अकीक़ा के साथ क़ुर्बानी हो सकती है।
★ *हासिल-ए-कलाम* :
क़ुर्बानी महज़ जानवर ज़बह करने का नाम नहीं, बल्कि यह एक "मदरसा-ए-इता'अत" (आज्ञा पालन की पाठशाला) है, जहाँ हर मुसलमान को सिखाया जाता है कि:
इबादत इख़्लास से की जाए।
नज़्म व ज़ब्त के ताबे हो। सुन्नत की पैरवी हर हाल में मुक़द्दम हो।
जिस दिन हमने अपनी इबादात को सुन्नत के साँचे में ढाल दिया,
उसी दिन हमारे आमाल महज़ रस्मों से निकलकर इबादत बन जाएँगे,
और हमारी क़ुर्बानियाँ महज़ ख़ून बहाने की हद से निकलकर
क़ुर्ब-ए-इलाही का ज़रिया बन जाएँगी।
