
MUFTI ABDUSSUBHAN MISBAHI
June 6, 2025 at 01:10 PM
*عید کی شب نیند نہیں، نجات کی گھڑی ہے*
ـــــــــــــــــــــــــــــــ
عَنْ أَبِي أُمَامَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: مَنْ قَامَ لَيْلَتَيِ الْعِيدَيْنِ مُحْتَسِبًا لِلَّهِ لَمْ يَمُتْ قَلْبُهُ يَوْمَ تَمُوتُ الْقُلُوبُ۔“ (سنن إبن ماجه، كتاب الصيام، باب في من قام في ليلتي العيدين، حدیث نمبر:1782)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
حضرتِ ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲﷺنے ارشاد فرمایا: جو شخص عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ کی راتوں میں اللہ کی رضا کے لیے (عبادت میں) قیام کرے، اُس کا دل اُس دن مردہ نہ ہوگا جس دن دل مردہ ہو جائیں گے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
انسان کا جسم اگر سانس سے زندہ ہے، تو روح ذکرِ الٰہی سے۔ قلب اگر دھڑکتا ہے، تو وہ صرف جسمانی زندگی کا علامتی اعلان ہے؛ لیکن اگر اس میں خشیت، معرفت اور اخلاص نہ ہو، تو وہ دھڑکنے والا دل درحقیقت مردہ ہے۔
دورِ جدید میں جہاں طبی سائنس دل کی صحت کے لیے ورزش، غذا اور ادویات کی فہرست دیتی ہے، وہیں قرآن و سنت دل کی زندگی کے لیے ذکر، فکر اور شب بیداری کو نسخۂ شفا بتاتے ہیں۔
سائنس کے مطابق شب بیداری اور عبادت کی راتیں دماغ کے نیوروپلاسٹک چینلز میں ایسے ہارمونز پیدا کرتی ہیں جو انسان میں جذبۂ ندامت، احساسِ جواب دہی اور روحانی بیداری کو متحرک کرتے ہیں۔
دنیا کی سب سے ترقی یافتہ میڈیکل سائنس، دل کی دھڑکن کو مشینوں سے ناپتی ہے۔ لیکن وہ کسی بھی دل کی خشیت، رقت، توبہ اور نورانیت کو نہیں ماپ سکتی۔ نیورو سائنس کہتی ہے:
عبادت کے وقت انسان کا دماغ ”گاما ویو“ پیدا کرتا ہے، جو سچائی، توبہ، روحانی سکون، اور ذہنی شفافیت کا اعلیٰ ترین درجہ ہے۔
جب دل اللہ کے حضور جھکتا ہے، تو جسمانی دل ہی نہیں، روح کا مرکز بھی بیدار ہو جاتا ہے۔
یہی وہ بیداری ہے جسے قرآن”قلب سلیم“ کہتا ہے، اور حدیث”دل کا زندہ رہنا“۔
یہ حدیث محض دو راتوں کے ذکر پر مبنی نہیں، بلکہ یہ دل کی زندگی، روح کی بیداری، اور قیامت کے دن کی کامیابی کا ایک جامع فارمولا ہے، جس میں: عبادت کی خلوت ہے، اخلاص کی حرارت ہے، اور رب سے رابطے کی لذت ہے۔ جنہوں نے نفل عبادت، توبہ، دعا، تلاوتِ قرآن اور ذکر سے ان راتوں کو زندہ کیا، وہ ”قلبی موت“ سے محفوظ ہو گئے۔ جب عید کی چمکتی رات میں ہر دل دنیا کی روشنی سمیٹ رہا ہو، تب وہی دل حقیقی طور پر روشن ہوتا ہے، جو رب کی بارگاہ میں جھکا ہوا ہو۔ جیسے زمین میں وہی بیج اگتا ہے جو اندھیرے میں نرم مٹی میں مدفون ہوتا ہے، ویسے ہی دل وہی کھلتا ہے، جو رات کی تنہائی میں رب کے سامنے جھکتا ہے۔
*حدیث کی لغوی و معنوی تشریح:*
◉ *مَنْ قَامَ:*
یعنی” جس نے قیام کیا“، سے مراد رات کو عبادت میں کھڑا ہونا ہے ۔ چاہے وہ نماز ہو، تلاوت، ذکر یا دعا۔
◉ *لَيْلَتَيِ الْعِيدَيْنِ:*
یعنی عید الفطر اور عید الاضحیٰ کی راتیں، جو رمضان کے بعد اور قربانی سے قبل آتی ہیں۔ یہ راتیں عام طور پر لوگوں کی غفلت کی راتیں ہوتی ہیں، مگر اہلِ دل کے لیے رب سے ملاقات کا وقت۔ معلوم ہوا کہ یہ راتیں ایمان والوں کے لیے ایک امتحان اور موقع ہیں۔
جو ان راتوں میں جاگ گیا، وہ ”یادِ خدا“ میں زندہ ہوا۔اور جو سو گیا، وہ روحانی موت کا شکار ہوا۔
◉ *مُحْتَسِبًا لِلَّهِ:*
یعنی صرف اللہ کی رضا کے لیے۔ دکھاوے یا عادتاً نہیں، بلکہ دل سے یہ نیت کہ اے اللہ! یہ قیام تیری رضا کے لیے ہے، قبول فرما!
◉ *لَمْ يَمُتْ قَلْبُهُ:*
اس کا دل نہیں مرے گا یہاں”دل کی موت“ سے مراد روحانی موت ہے، یعنی احساس کا ختم ہو جانا، توبہ کی کیفیت کا مٹ جانا، گناہوں پر ندامت کا نہ رہنا۔جسم کی زندگی کا انحصار دل کی دھڑکن پر ہے، لیکن روح کی زندگی کا انحصار دل کے زندہ ہونے پر ہے۔ یعنی دل میں اللہ کا خوف، نرمی، محبت، توبہ، اور رجوع کی کیفیت کا پیدا ہونا۔
قرآن مجید میں ہے:
یَوْمَ لَا يَنفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ، إِلَّا مَنْ أَتَى اللَّهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ. ( سورۃ الشعراء: 88-89)
کہ اس دن نہ مال کام آئے گا نہ اولاد، سوائے اس کے جو اللہ کے حضور”قلبِ سلیم“ لے کر آئے۔
*قلب کا مردہ ہونا کیا ہے؟*
دنیا میں سب سے بڑا خسارہ یہ نہیں کہ مال چھن جائے، صحت جاتی رہے، یا تعلقات ٹوٹ جائیں؛ بلکہ سب سے بڑی محرومی ہے: دل کا مر جانا۔
یعنی دل سے احساسِ بندگی، خشیتِ الٰہی، روحانیت، نرمی، توبہ، اور آخرت کی فکر ختم ہو جانا۔
نبی ﷺ نے فرمایا کہ جس نے ان دو راتوں کو عبادت میں گزارا، اللہ تعالیٰ اس کے دل کو اس بڑے دن (قیامت یا عمومی معنوں میں دورِ فتن، یا دنیا کی سخت آزمائشوں کے وقت) مردہ نہیں ہونے دے گا۔
رمضان کے بعد کی رات (چاند رات) اور عیدالاضحی سے قبل کی رات کو عام طور پر ہم دنیاوی مصروفیات میں گزار دیتے ہیں۔ کپڑوں، مہندی، پکوان، اور ملاقاتوں میں مگر نبی کریم ﷺ نے ان راتوں کو "زندگی بخش راتیں" قرار دیا ہے۔ چند رات صرف کپڑوں، سیلفیوں اور شاپنگ کی رات نہ ہو، بلکہ کچھ وقت نماز، توبہ، تلاوتِ قرآن، اور ذکر اللہ میں بھی صرف کریں۔
عیدالاضحی سے قبل کی رات صرف قربانی کی تیاری یا گوشت کی تقسیم کی فکروں میں نہ گزرے، بلکہ رب سے قربانیِ دل کا وعدہ بھی ہو۔
یہ راتیں دراصل اللہ کی طرف رجوع کا سنہرا موقع ہیں، جب دل نرم ہوتے ہیں، نعمتوں پر شکر کی کیفیت ہوتی ہے، اور اگلی صبح خوشی کا پیغام لے کر آتی ہے۔ اگر ہم ان راتوں کو عبادت سے زندہ کریں گے، تو اللہ ہمارے دلوں کو زندہ رکھے گا۔
یاد رکھیے زندگی میں دل کا زندہ رہنا، قیامت کے دن کامیابی کی کنجی ہے۔
ان دو راتوں میں تھوڑی سی محنت، دائمی روحانی روشنی کا سبب بن سکتی ہے۔
◉ *يَوْمَ تَمُوتُ الْقُلُوبُ:*
یعنی وہ دن جب لوگوں کے دل خوف، غفلت، یا ہولِ قیامت سے مردہ ہو چکے ہوں گے یا دنیا میں فتنے اور گناہوں کے بوجھ سے دل سخت ہو چکے ہوں گے۔ قیامت وہ دن ہو گا جہاں چہرے سیاہ، زبانیں گونگی، آنکھیں پتھرا چکی ہوں گی۔ مگر وہ دل جو ان راتوں میں اللہ سے جُڑے رہے، ان کی روشنی قیامت کے اندھیروں میں چراغ بن جائے گی۔
واضح رہے کہ عید کی راتوں میں قیام فرض یا واجب نہیں، مگر نفل عبادات اور ذکرِ الٰہی کی بڑی فضیلت احادیث سے ثابت ہے۔
ائمہ کرام نے لکھا ہے: یہ راتیں ان راتوں میں سے ہیں جن میں عبادت کرنے والے کے لیے روحانی انعامات کا وعدہ کیا گیا ہے۔
اللّٰھم اجعل قلوبنا حيةً بذكرك، ولا تجعلنا من الغافلين، الّٰهم اجعل قيامنا في ليالي العيدين سببا لحياة قلوبنا يوم تموت القلوب.
اے اللہ! ہمارے دلوں کو اپنی یاد سے زندہ فرما،
اور ہمیں ان عید کی راتوں میں بیدار رکھ، تاکہ قیامت کے دن ہمارے دل مردہ نہ ہوں۔
آمین یا رب العالمین۔