
MUFTI ABDUSSUBHAN MISBAHI
June 10, 2025 at 01:59 PM
*حاجی سے بخشش کی دعا کروانا*
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا لَقِيتَ الْحَاجَّ، فَسَلِّمْ عَلَيْهِ وَصَافِحْهُ، وَمُرْهُ أَنْ يَسْتَغْفِرَ لَكَ قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ بَيْتَهُ، فَإِنَّهُ مَغْفُورٌ لَهُ“• (مسند الإمام أحمد بن حنبل، مسند عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، حدیث نمبر:5371)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم کسی حاجی سے ملاقات کرو تو اسے سلام کرو، اس سے مصافحہ کرو، اور اس سے کہو کہ تمہارے لیے مغفرت کی دعا کرے، اس سے پہلے کہ وہ اپنے گھر میں داخل ہو، کیونکہ وہ اس وقت بخشا ہوا ہوتا ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
دنیا کی ہر مسافت کا ایک انجام و اختتام ہے… لیکن ایک سفر ایسا بھی ہے، جو محض جسمانی منزلوں کا نہیں، بلکہ روحانی بلندیوں کا نام ہے۔ وہ سفر جو کعبہ کی دہلیز سے گزرتا ہوا، عرفات کے میدان میں جھکتے سجدوں، لرزتے دلوں، اور آنسوؤں سے دھلی التجاؤں کا شاہد بنتا ہے۔ یہ سفر ”حج بیت اللہ“ ہے۔ جہاں انسان محض احرام نہیں پہنتا، بلکہ دنیاوی آلائشوں کو اتار کر ربّ العالمین کے حضور جھکنے کا لباس زیبِ تن کرتا ہے۔
یہ وہ لمحہ ہوتا ہے، جب انسان اپنی فطرت کی اصل پہ لوٹتا ہے؛ جبلِ رحمت پر کھڑے ہو کر بخشش کی وہ صدا بلند کرتا ہے، جو عرش تک گونجتی ہے، اور رب کی رحمت اسے یوں ڈھانپ لیتی ہے جیسے سورج روشنی کو۔
اسلامی تعلیمات کی روح یہ ہے کہ کوئی بندہ جب خالص نیت اور صدقِ دل سے اللہ کے در پر جھکتا ہے، تو وہ صرف خود نہیں بدلتا، بلکہ اس کی ذات دوسروں کے لیے بھی مغفرت اور خیر کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے حاجی کو صرف بخشش یافتہ بندہ نہیں فرمایا، بلکہ ’’دعاؤں کے خزانے کا امین‘‘ بھی قرار دیا۔
آج سائنس بھی اس حقیقت کو تسلیم کرتی ہے کہ انسانی شعور، خلوصِ نیت، اور اجتماعی دعا کا اثر صرف ذہنی سکون پر نہیں، بلکہ جسمانی صحت اور نفسیاتی توازن پر بھی پڑتا ہے۔ سائنس اس بات کی تصدیق کر چکی ہے کہ خلوص، عجز، اور دعا کی حالت میں انسان کی دماغی لہریں ایسی سطح پر آ جاتی ہیں جہاں وہ مثبت توانائی خارج کرتا ہے، اور دعاؤں کی قبولیت کے لیے ایک موزوں ماحول تشکیل پاتا ہے۔
اب سوچئے! جو شخص عرفات میں کھڑے ہو کر رب کے حضور فریاد کرتا ہے، اس کی دعا، اس کا قلبی اخلاص، اس کی عاجزی یہ سب روحانی توانائی کا ایک طوفان بن کر کائنات میں گردش کرتے ہیں۔ اور جب وہ بخشا بخشایا واپس لوٹتا ہے، تو زمین پر چلنے والا ایک ایسا بندہ بن جاتا ہے جس کی دعائیں، نظر، اور لمس تک رحمت بن جاتی ہے۔
یہی راز ہے اس حدیثِ پاک کا، جس میں فرمایا گیا:
جب حاجی سے ملاقات کرو، اسے سلام کرو، اس سے مصافحہ کرو، اور اس سے کہو کہ تمہارے لیے مغفرت کی دعا کرے، کیونکہ وہ بخشا ہوا ہوتا ہے۔
یہ ہے دینِ اسلام کی جمالیات: جہاں ایک کی عبادت، دوسروں کے لیے بھی رحمت بن جاتی ہے۔
*حکمت و روحانیت:*
🔹 حاجی کا دل بیت اللہ اور عرفات کی تجلیات سے منور ہوتا ہے۔
🔹 اس وقت اس کی دعا خاص طور پر مقبول ہوتی ہے۔
🔹 اس لیے ہمیں چاہیے کہ نہ صرف اس سے ملاقات کریں، بلکہ اُس سے اپنی بخشش کی دعا کروائیں۔
جب حاجی واپس آئے، تو صرف”حج مبارک“ کہہ کر نہ رہ جاؤ، بلکہ اس کے ہاتھ تھام کر خلوص سے کہو: حاجی صاحب! میرے لیے دعا کریں کہ اللہ مجھے بھی بخش دے!
*بخشے گئے بندے سے دعا کرواؤ!*
یہ حدیث ایک نہایت لطیف مگر گہرا پیغام لیے ہوئے ہے۔ اس میں محض حاجی کی عزت افزائی نہیں، بلکہ کئی شرعی، سماجی، روحانی اور نفسیاتی پہلو پوشیدہ ہیں، جنہیں سمجھنا ایک بیدار دل اور علم دوست ذہن کے لیے نہایت ضروری ہے۔
*ذرا الفاظِ حدیث کے حسن پر غور کیجیے:*
فَسَلِّمْ عَلَيْهِ: — یہ محض رسمی سلام نہیں، بلکہ وہ عظیم الشان سلام ہے جو دلوں کو جوڑ دیتا ہے۔
وَصَافِحْهُ: — ہاتھ ملانا، مصافحہ کرنا وہ عمل ہے جس سے سینوں کی کدورتیں دُور ہوتی ہیں۔
وَمُرْهُ أَنْ يَسْتَغْفِرَ لَكَ: — بخشش و مغفرت یافتہ شخص سے بخشش کی درخواست… کیا خوش بختی ہے!
فَإِنَّهُ مَغْفُورٌ لَهُ:— جملہ تأکیدیہ کے ساتھ، گویا رب کی طرف سے مہر ثبت کی جا چکی ہے۔ یہ میرا محبوب بندہ ہے، میں نے اسے معاف کر دیا!
حاجی، خاص طور پر وہ حاجی جس نے حج مبرور ادا کیا ہو، وہ "مغفورلہ" یعنی بخشا ہوا بندہ ہوتا ہے۔ حدیث کا سیاق "فَإِنَّهُ مَغْفُورٌ لَهُ" (یقیناً وہ بخشا گیا ہے) اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ حاجی کی دعا اس وقت خاص طور پر مقبول ہے، لہٰذا:
اس سے مصافحہ کرنا صرف خوشی کا اظہار نہیں، بلکہ برکت کا حصول بھی ہے۔
اس سے دعا کروانا گویا ایک مغفرت کے خزانے تک براہِ راست رسائی ہے۔
بعض اہلِ علم نے اس حدیث سے یہ استدلال بھی کیا ہے کہ جو بندہ بخشا گیا ہو، اس سے دعا کروانا مستحب بلکہ باعثِ فضیلت ہے، جیسا کہ نبی ﷺ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ سے دعا کروانے کی تلقین فرمائی۔
سائنس آج جسے اجتماعی شعور کہتی ہے، قرآن و حدیث نے اسے دعاؤں کے اثرات کے طور پر صدیوں پہلے بیان کیا۔ جدید نفسیات کے مطابق:
دعا، خاص کر وہ جو خلوص، گہرے روحانی تجربے اور توبہ کے بعد ہو، انسان کے دماغ کی مخصوص برقی لہروں (theta waves) کو فعال کرتی ہے، جو دعا کی قبولیت کے لیے نفسیاتی سکون اور ہم آہنگی پیدا کرتی ہیں۔
ایسے افراد کی دعائیں جنہوں نے عرفات میں آنسو بہائے، سعی میں تھکن جھیلی، منیٰ میں خود کو خالص کیا وہ صرف زبانی دعا نہیں ہوتی بلکہ قلبی لہروں کی شکل میں مؤثر توانائی رکھتی ہیں۔گویا حاجی کے دل سے نکلنے والی دعا محض لفظ نہیں، ایک مقناطیسی اثر رکھتی ہے۔
*ایک حاجی، ساری امت کے لیے خیر کا دروازہ*
اس حدیث میں ایک عظیم درس ہے کہ:
ہر حاجی جب واپس آئے، تو اس سے محبت سے ملو، حسد سے نہیں۔
اس کے ذریعے اپنی دنیا و آخرت سنوارنے کی دعا کرواؤ۔
حاجی صرف اپنا مسافر نہیں، امت کی طرف سے نمائندہ ہوتا ہے۔ جب وہ لوٹے، تو اس کے ساتھ رحمتیں بھی لوٹتی ہیں۔
رب کے قرب سے لوٹے بندے سے دعا کروانا، روحانی فہم و فراست کی علامت ہے۔
یہ عمل امت میں محبت، اخوت، اور عاجزی کو فروغ دیتا ہے۔
✅ خلاصہ:
اس حدیث میں حج کے بعد کی سب سے قیمتی ساعت کی طرف رہنمائی ہے:
جب حاجی واپس آ رہا ہو، تو وہ صرف تھکا ہوا مسافر نہیں بلکہ مغفرت کی بارش لیے لوٹنے والا بادل ہے… اس سے جھک کر سلام کرو، دل سے ہاتھ ملو، اور عرض کرو: میرے لیے بھی دعا کرنا، اے بخشے گئے بندے!
*حج کی فضیلت اور اہمیت*
حج اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک اہم رکن ہے، جو ہر صاحب استطاعت مسلمان پر زندگی میں ایک بار فرض ہے۔ یہ عظیم عبادت اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق کو مضبوط کرنے، گناہوں سے پاکیزگی حاصل کرنے اور اخوت و مساوات کا عملی نمونہ پیش کرنے کا ذریعہ ہے۔ یہ عبادت نہ صرف روحانی ترقی کا باعث بنتی ہے بلکہ سماجی، اخلاقی اور معاشرتی فوائد بھی فراہم کرتی ہے۔
قرآن و حدیث میں حج کی فضیلت اور اہمیت کو بارہا بیان کیا گیا ہے۔
*حج کی فضیلت قرآن و حدیث کی روشنی میں*
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:
"وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا" (سورۃ آل عمران، آیت 97)
اور اللہ کے لیے لوگوں پر اس گھر کا حج کرنا فرض ہے جو اس تک پہنچنے کی استطاعت رکھتے ہوں۔
اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ حج ایک فرض عبادت ہے جو صاحب استطاعت مسلمانوں پر عائد ہوتی ہے۔ یہ اللہ کے گھر، کعبہ شریف، کی زیارت اور اس کے گرد طواف کرنے کا عمل ہے جو بندے کو اپنے رب کے قریب لے جاتا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"من حج لله فلم يرفث ولم يفسق رجع كيوم ولدته أمه" (صحیح بخاری، حدیث نمبر: 1521)
جو شخص اللہ کے لیے حج کرے، نہ کوئی فحش بات کرے اور نہ کوئی گناہ کا کام کرے، وہ اس طرح واپس آتا ہے جیسے اس دن تھا جب اسے اس کی ماں نے جنم دیا۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حج مبرور (قبول حج) انسان کے تمام گناہوں کی معافی کا ذریعہ ہے اور وہ پاک صاف ہو کر نئی زندگی کا آغاز کرتا ہے۔
*حج کے روحانی فوائد*
حج ایک ایسی عبادت ہے جو انسان کے دل و روح کو پاک کرتی ہے۔ احرام کی حالت میں سادہ سفید لباس پہن کر، دنیاوی خواہشات سے کنارہ کشی اختیار کر کے، اور اللہ کے حضور مکمل انابت کے ساتھ حاضر ہو کر انسان اپنے رب کے ساتھ گہرا تعلق استوار کرتا ہے۔
*گناہوں کی معافی*: حج مبرور کے نتیجے میں انسان کے تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں، جیسا کہ حدیث میں ذکر ہوا۔
*تقویٰ کا حصول:* حج کے دوران انسان صبر، برداشت، ایثار اور اللہ کے احکام کی پیروی کا عملی درس سیکھتا ہے، جو اس کے اندر تقویٰ پیدا کرتا ہے۔
*ذکر و دعا کا موقع*: میدان عرفات میں وقوف، مزدلفہ میں رات گزارنا، اور منیٰ میں قربانی جیسے اعمال انسان کو اللہ تعالیٰ کے ذکر اور دعا کے قریب لے جاتے ہیں۔
*حج کے سماجی اور معاشرتی فوائد*
حج نہ صرف انفرادی بلکہ اجتماعی فوائد کا بھی حامل ہے۔ یہ عبادت عالمگیر اخوت اور مساوات کا بہترین نمونہ پیش کرتی ہے۔
*اخوت و اتحاد:* دنیا بھر سے مختلف رنگ، نسل، زبان اور ثقافت کے حامل لاکھوں مسلمان ایک جگہ جمع ہوتے ہیں، ایک ہی لباس (احرام) میں ملبوس ہوتے ہیں اور ایک ہی مقصد کے تحت اللہ کی عبادت کرتے ہیں۔ یہ منظر مساوات اور بھائی چارے کی عظیم مثال ہے۔
*صبر و برداشت کا درس*: حج کے دوران پیش آنے والی مشکلات، جیسے گرمی، ہجوم، اور طویل سفر، انسان کو صبر اور برداشت سکھاتے ہیں۔
*معاشی فوائد*: حج کے موسم میں سعودی عرب کی معیشت کو بڑا فروغ ملتا ہے، جبکہ حاجیوں کے اخراجات سے قربانی کے گوشت سے غریبوں کی مدد ہوتی ہے۔
*حج ایک عالمگیر عبادت ہے جو صدیوں سے چلی آ رہی ہے*
حج کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ عبادت حضرت ابراہیم علیہ السلام کے عمل سے جڑی ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کعبہ کی تعمیر کا حکم دیا اور پھر انہیں لوگوں کو حج کی دعوت دینے کا حکم فرمایا:
"وَأَذِّن فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَىٰ كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِن كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ" (سورۃ الحج، آیت 27)
اور لوگوں میں حج کا اعلان کر دو، وہ تمہارے پاس پیدل اور ہر دبلے پتلے اونٹ پر سوار ہو کر ہر گہرے راستے سے آئیں گے۔
یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ حج ایک عالمگیر عبادت ہے جو صدیوں سے چلی آ رہی ہے اور قیامت تک جاری رہے گی۔
*حج کے تقاضے اور تیاری*
حج ایک ایسی عبادت ہے جس کے لیے جسمانی، ذہنی اور مالی تیاری ضروری ہے۔
*مالی استطاعت:* حج کے لیے مالی وسائل کا ہونا ضروری ہے تاکہ انسان بغیر کسی قرض یا دباؤ کے اس فریضے کو ادا کر سکے۔
*جسمانی صحت:* حج کے دوران طویل فاصلے طے کرنا، گرمی برداشت کرنا اور ہجوم میں عبادات کرنا پڑتا ہے، اس لیے جسمانی صحت کا خیال رکھنا ضروری ہے۔
*اخلاقی تربیت* : حج سے قبل انسان کو اپنے اخلاق و کردار کو بہتر کرنا چاہیے، کیونکہ حج مبرور وہی ہے جو فحش کلامی اور گناہوں سے پاک ہو۔
حج اسلام کا ایک عظیم رکن ہے جو روحانی، سماجی اور معاشرتی فوائد کا حامل ہے۔ یہ عبادت انسان کو اللہ کے قریب لاتی ہے، گناہوں سے پاک کرتی ہے اور اخوت و مساوات کا درس دیتی ہے۔ ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اس عظیم عبادت کی اہمیت کو سمجھے اور اگر استطاعت ہو تو زندگی میں ایک بار اس فریضے کو ضرور ادا کرے۔ اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو حج مبرور کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
-------
*हाजी से बख़्शिश की दुआ करवाना*
हज़रत अब्दुल्लाह बिन उमर से रिवायत है कि हुज़ूर नबी-ए-करीम ने फ़रमाया: जब तुम किसी हाजी से मुलाक़ात करो तो उसे सलाम करो, उससे मुसाफ़ह करो, और उससे कहो कि वह तुम्हारे लिए मग़फ़िरत (बख़्शिश) की दुआ करे, इससे पहले कि वह अपने घर में दाख़िल हो, क्योंकि वह उस वक़्त बख़्शा हुआ होता है। (मुस्नद अहमद, हदीस नंः 5371)
------
दुनिया की हर मुसाफ़त का एक अंजाम व इख़्तिताम है… लेकिन एक सफ़र ऐसा भी है, जो महज़ जिस्मानी मंज़िलों का नहीं, बल्कि रूहानी बुलंदियों का नाम है। वो सफ़र जो काबा की दहलीज़ से गुज़रता हुआ, अरफ़ात के मैदान में झुकते सज्दों, लरज़ते दिलों और आँसुओं से धुली इल्तिजाओं का शाहिद बनता है। यह सफ़र "हज बैतुल्लाह" है। जहाँ इंसान महज़ एहराम नहीं पहनता, बल्कि दुनियावी आलाइशों को उतार कर रब्बुल आलमीन के हुज़ूर झुकने का लिबास ज़ेब-ए-तन करता है।
यह वो लम्हा होता है, जब इंसान अपनी फ़ित्रत की असल पे लौटता है; जबल-ए-रहमत पर खड़े होकर बख़्शिश की वो सदा बुलंद करता है, जो अर्श तक गूंजती है, और रब की रहमत उसे यूँ ढाँप लेती है जैसे सूरज रौशनी को।
इस्लामी तालीमात की रूह यह है कि कोई बंदा जब ख़ालिस नियत और सिद्क-ए-दिल से अल्लाह के दर पर झुकता है, तो वह सिर्फ़ ख़ुद नहीं बदलता, बल्कि उसकी ज़ात दूसरों के लिए भी मग़फ़िरत और ख़ैर का ज़रिया बन जाती है। यही वजह है कि नबी करीम ﷺ ने हाजी को सिर्फ़ बख़्शिश याफ़्ता बंदा नहीं फ़रमाया, बल्कि "दुआओं के ख़ज़ाने का अमीन" भी क़रार दिया।
आज साइंस भी इस हक़ीक़त को तस्लीम करती है कि इंसानी शुऊर, ख़ुलूस-ए-नियत, और इज्तिमाई दुआ का असर सिर्फ़ ज़ेहनी सुकून पर नहीं, बल्कि जिस्मानी सेहत और नफ़्सियाती तवाज़ुन पर भी पड़ता है। साइंस इस बात की तस्दीक़ कर चुकी है कि ख़ुलूस, अज़्मत और दुआ की हालत में इंसान की दिमाग़ी लहरें ऐसी सतह पर आ जाती हैं जहाँ वह मुज़बत तवानाई (positive energy) ख़ारिज करता है, और दुआओं की क़ुबूलियत के लिए एक मौज़ूँ माहौल तश्कील पाता है।
अब सोचिए! जो शख़्स अरफ़ात में खड़े होकर रब के हुज़ूर फ़रियाद करता है, उसकी दुआ, उसका क़ल्बी इख़्लास, उसकी आजिज़ी – ये सब रूहानी तवानाई का एक तुफ़ान बनकर कायनात में गर्दिश करते हैं। और जब वह बख़्शा-बख़्शाया वापस लौटता है, तो ज़मीन पर चलने वाला एक ऐसा बंदा बन जाता है जिसकी दुआएं, नज़र और लम्स तक रहमत बन जाती है।
यही राज़ है उस हदीस-ए-पाक का, जिसमें फ़रमाया गया:
"जब हाजी से मुलाक़ात करो, उसे सलाम करो, उससे मुसाफ़ह करो, और उससे कहो कि तुम्हारे लिए मग़फ़िरत की दुआ करे, क्योंकि वह बख़्शा हुआ होता है।"
यह है दीन-ए-इस्लाम की जमालियात: जहाँ एक की इबादत, दूसरों के लिए भी रहमत बन जाती है।
*हिकमत व रुहानियत:*
हाजी का दिल बैतुल्लाह और अरफ़ात की तजल्ली से मुनव्वर होता है।
उस वक़्त उसकी दुआ ख़ास तौर पर मक़बूल होती है।
इसलिए हमें चाहिए कि न सिर्फ़ उससे मुलाक़ात करें, बल्कि उस से अपनी बख़्शिश की दुआ करवाएँ। जब हाजी वापस आए, तो सिर्फ़ "हज मुबारक" कह कर न रह जाओ, बल्कि उसके हाथ थाम कर ख़ुलूस से कहो: हाजी साहब! मेरे लिए दुआ करें कि अल्लाह मुझे भी बख़्श दे!
*बख़्शे गए बंदे से दुआ करावो!*
यह हदीस एक निहायत लतीफ़ मगर गहरा पैग़ाम लिए हुए है। इसमें महज़ हाजी की इज़्ज़त-अफ़ज़ाई नहीं, बल्कि कई शरई, समाजी, रुहानी और नफ़्सियाती पहलू पोशीदा हैं, जिन्हें समझना एक बायदार दिल और इल्म-दोस्त ज़ेहन के लिए निहायत ज़रूरी है।
बाज़ अहल-ए-इल्म ने इस हदीस से ये इस्तिदलाल भी किया है कि जो बंदा बख़्शा गया हो, उस से दुआ करवाना मुस्तहब बल्कि बाइस-ए-फ़ज़ीलत है, जैसा कि नबी ﷺ ने हज़रत उमर को हज़रत ओवैस क़रनी से दुआ करवाने की तलक़ीन फ़रमाई।
साइंस आज जिसे “इज्तिमाई शुऊर” (Collective Consciousness) कहती है, क़ुरआन व हदीस ने उसे “दुआओं के असरात” के तौर पर सदीयों पहले बयान कर दिया था।
जदीद नफ़्सियात (Modern Psychology) के मुताबिक: दुआ, ख़ास कर वो जो ख़ुलूस, गहरे रूहानी तजुर्बे और तौबा के बाद हो, इंसान के दिमाग़ की मख़सूस बर्क़ी लहरों (theta waves) को फ़आल करती है, जो दुआ की क़ुबूलियत के लिए नफ़्सियाती सुकून और हम-आहंगी (coherence) पैदा करती हैं। ऐसे अफ़राद की दुआएं जिन्होंने अरफ़ात में आँसू बहाए, सई में थकन झेली, मिना में अपने आपको ख़ालिस किया वो सिर्फ़ ज़बानी दुआ नहीं होती, बल्कि क़ल्बी लहरों की शक्ल में मोअस्सिर तवानाई (Effective Energy) रखती हैं। गोया हाजी के दिल से निकलने वाली दुआ महज़ लफ़्ज़ नहीं, एक “मक्नातीसी असर” (magnetic influence) रखती है।
*एक हाजी सारी उम्मत के लिए ख़ैर का दरवाज़ा*
इस हदीस में एक अज़ीम दर्स है कि:
हर हाजी जब वापस आए, तो उस से मोहब्बत से मिलो, हसद से नहीं। उसके ज़रिए अपनी दुनिया व आख़िरत सँवारने की दुआ करवाओ। हाजी सिर्फ़ अपना मुसाफ़िर नहीं, उम्मत की तरफ़ से नुमाइंदा होता है। जब वो लौटे, तो उसके साथ रहमतें भी लौटती हैं। रब के क़ुर्ब से लौटे बंदे से दुआ करवाना, रूहानी फ़हम व फ़रासत की अलामत है। यह अमल उम्मत में मोहब्बत, उखुव्वत और आजिज़ी को फ़रोग देता है।
यही है इस्लामी तालीमात की हिकमत और इंसान-दोस्त तबीयत कि जब कोई बंदा रूह की गहराई से झुके, तो उसकी दुआ, नज़र और सदा एक क़ौम की तक़दीर बदल सकती है।
*हज की फ़ज़ीलत और एहमियत*
हज इस्लाम के पाँच बुनियादी अरकान में से एक अहम् रुक्न है, जो हर साहिब-ए-इस्तिताअत (सामर्थ्यवान) मुसलमान पर ज़िंदगी में एक बार फ़र्ज़ है। यह अज़ीम इबादत अल्लाह तआला के साथ तअल्लुक़ को मज़बूत करने, गुनाहों से पाकीज़गी हासिल करने और उखुव्वत व मुसावात (भाईचारा और समानता) का अमली नमूना पेश करने का ज़रिया है। यह इबादत न सिर्फ़ रूहानी तरक़्क़ी का बाइ'स बनती है बल्कि समाजी, अख़्लाक़ी और मुआशरती फ़वायद भी फ़राहम करती है।
क़ुरआन व हदीस में हज की फ़ज़ीलत और एहमियत को बारहा बयान किया गया है।
*हज की फ़ज़ीलत – कुरआन व हदीस की रौशनी में*
अल्लाह तआला ने कुरआन मजीद में फ़रमाया:
और अल्लाह के लिए लोगों पर इस घर का हज करना फ़र्ज़ है, जो इस तक पहुँचने की इस्तिताअत रखता हो। (सूरत आले इमरान, आयत 97)
इस आयत से वाज़ेह होता है कि हज एक फ़र्ज़ इबादत है जो साहिब-ए-इस्तिताअत मुसलमानों पर आयद होती है। यह अल्लाह के घर, काबा शरीफ़ की ज़ियारत और उसके गर्द तवाफ़ करने का अमल है, जो बंदे को अपने रब के क़रीब ले जाता है।
रसूलुल्लाह ﷺ ने फ़रमाया:
जो शख़्स अल्लाह के लिए हज करे, ना कोई फुह्श बात करे और ना कोई गुनाह का काम, तो वह ऐसे लौटता है जैसे उस दिन था जब उसकी माँ ने उसे जना था।(सहीह बुखारी, हदीस नंबर: 1521)
इस हदीस से मालूम होता है कि हज मबरूर (क़बूल हज) इंसान के तमाम गुनाहों की माफ़ी का ज़रिया है और वह पाक-साफ़ होकर एक नई ज़िंदगी का आग़ाज़ करता है।
*हज के रूहानी फ़वाइद*
*गुनाहों की माफ़ी:* हज मबरूर के नतीजे में इंसान के तमाम गुनाह माफ़ हो जाते हैं।
*तक़्वा का हासिल होना:* हज के दौरान इंसान सब्र, बर्दाश्त, इसार और अल्लाह के अहकाम की पैरवी का अमली सबक़ सीखता है, जिससे उसके अंदर तक़्वा पैदा होता है।
*ज़िक्र व दुआ का मौक़ा*: अरफ़ात में वुकूफ़, मुज़दलिफ़ा में रात गुज़ारना, मिना में क़ुर्बानी यह सब इंसान को अल्लाह तआला के क़रीब ले जाते हैं।
*हज के समाजी और मुआशरती फ़वाइद*
*उखुव्वत व इत्तेहाद:* दुनिया भर से मुख़्तलिफ़ रंग, नस्ल, ज़बान और तहज़ीब के लाखों मुसलमान एक ही लिबास (एहराम) में जमा होकर अल्लाह की इबादत करते हैं यह मुसावात और भाईचारे की अज़ीम मिसाल है।
*सब्र व बर्दाश्त का सबक़*: हज के दौरान गर्मी, हुजूम और लंबा सफ़र इंसान को सब्र और बर्दाश्त सिखाता है।
*मआशी फ़वाइद* : हज के मौसम में माली सर्जिश (आर्थिक गतिविधि) में इज़ाफ़ा होता है, क़ुर्बानी के गोश्त से ग़रीबों की मदद होती है।
*हज एक आलमी इबादत जो सदीयों से चली आ रही है*
हज की एहमियत का अंदाज़ा इस बात से लगाया जा सकता है कि यह इबादत हज़रत इब्राहीम के अमल से जुड़ी हुई है। अल्लाह तआला ने उन्हें काबा की तामीर का हुक्म दिया और फिर फरमाया: और लोगों में हज का ऐलान कर दो वह तुम्हारे पास पैदल और दुबले-पतले ऊँटों पर सवार होकर, हर दूर-दराज़ रास्ते से आएंगे।(सूरतुल हज्ज, आयत 27)
यह आयत इस बात की दलील है कि हज एक आलमी इबादत है जो क़ियामत तक जारी रहेगी।
*हज के तक़ाज़े और तैयारी*
*माली इस्तिताअत*: हज के लिए माली वसाइल का होना ज़रूरी है, ताकि बग़ैर क़र्ज़ या दबाव के यह फ़र्ज़ अदा किया जा सके।
*जिस्मानी सेहत:* लंबा सफ़र, गर्मी, हुजूम इसके लिए सेहतमंद होना ज़रूरी है।
*अख़्लाक़ी तैयारी:* हज से पहले इंसान को अपनी आदतों और अख़्लाक़ को बेहतर बनाना चाहिए।
हज इस्लाम का एक अज़ीम रुक्न है जो इंसान को अल्लाह के क़रीब लाता है, गुनाहों से पाक करता है, और उखुव्वत व मुसावात का दर्स देता है। हर मुसलमान का फ़र्ज़ है कि वह इसकी एहमियत को समझे और अगर इस्तिताअत हो, तो ज़िंदगी में एक बार इस फ़र्ज़ को अदा करे।
अल्लाह तआला हर मुसलमान को हज मबरूर की तौफ़ीक़ अता फ़रमाए। आमीन!

🤲
1