
MUFTI ABDUSSUBHAN MISBAHI
June 15, 2025 at 02:08 PM
*مظلوموں کا وکیل، ظالموں کا دشمن*
ـــــــــــــــــــــــــــــــ
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: قَالَ اللَّهُ تَعَالَى : ثَلَاثَةٌ أَنَا خَصْمُهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ؛ رَجُلٌ أَعْطَى بِي ثُمَّ غَدَرَ، وَرَجُلٌ بَاعَ حُرًّا فَأَكَلَ ثَمَنَهُ، وَرَجُلٌ اسْتَأْجَرَ أَجِيرًا فَاسْتَوْفَى مِنْهُ وَلَمْ يُعْطِهِ أَجْرَهُ“• (صحيح البخاري، کتاب الإجارة، باب إثم من منع أجر الأجير، حدیث نمبر:2270)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:تین قسم کے لوگ ایسے ہیں جن کا میں خود قیامت کے دن مخالف (مدعی و دشمن) بنوں گا: ایک وہ شخص جس نے میرے نام پر وعدہ کیا پھر وعدہ خلافی کی، دوسرا وہ شخص جس نے کسی آزاد انسان کو بیچ کر اس کی قیمت کھا لی، اور تیسرا وہ شخص جس نے کسی مزدور سے کام تو پورا لیا، مگر اس کی مزدوری نہ دی۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
*ربِّ کائنات کا خود مدعی بن جانا — عدلِ الٰہی کی انتہا*
جب کسی معاشرے میں طاقتور افراد کمزوروں کا استحصال کریں۔ وعدے بےمعنی ہو جائیں۔ انسانی عزت و آبرو کو مالِ تجارت بنا دیا جائے۔ اور محنت کشوں کا حق غصب کر لیا جائے، تو وہ معاشرہ صرف ظلم کا شکار ہی نہیں ہوتا، بلکہ اپنے زوال کی بنیاد رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں متعدد مقامات پر عدل، وفائے عہد، اور انسانی حقوق کی پاسداری کو نہ صرف فرض قرار دیا بلکہ ان کی خلاف ورزی کو فتنہ، فساد اور تباہی کا پیش خیمہ بتایا ہے۔
انسان اگر رب کے نام پر وعدہ کرے، اور پھر اُسے توڑ دے، تو وہ ایسے ہے جیسے کوئی شخص چراغِ ربانی کو بجھا دے۔ وہ آزاد روح کو قید کر کے بیچ دے، تو وہ گویا آسمان کی پرواز کرتی بلبل کو پنجرے میں ڈال کر اس کی آواز بیچنے لگے۔ اور جو مزدور کا پسینہ چوس کر اُسے تنخواہ نہ دے، وہ دراصل زمین سے رزق لے کر زمین کے ہی بیٹے کو بھوکا لوٹاتا ہے۔
یہ حدیثِ قدسی، ربِّ جلیل کی طرف سے ایک ایسا اعلانِ عدل ہے جس میں وہ خود مظلوموں کے حق میں فریق بنتا ہے، اور تین ایسے ظالموں کو نشانہ بناتا ہے جو سماجی، اخلاقی اور انسانی دائرے کو روند کر اپنے وقتی فائدے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک وعدہ خلافی، انسانی آزادی کی پامالی، اور مزدور کا حق دبانا اتنے بڑے گناہ ہیں کہ خود رب تعالیٰ ان مظلوموں کا حساب لینے کے لیے قیامت کے دن مدعی بن جائے گا۔
اس حدیث میں مظلوم کے حق کا دفاع صرف ایک اخلاقی مطالبہ نہیں، بلکہ شرعی فریضہ قرار دیا گیا ہے۔ یہاں حق العبد کو اتنی اہمیت دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میں خود اُن کا دشمن بنوں گا! یہ اعلان شریعتِ اسلامیہ کے اس اصول کی تفسیر ہے کہ:
حقوق العباد کی ادائیگی کے بغیر عبادات بھی نجات کی ضامن نہیں۔
اگر کوئی انسان کسی کے ساتھ وعدہ کرے اور پھر اسے توڑ دے تو وہ نہ صرف اعتماد کو توڑتا ہے بلکہ اجتماعی نظم کو بھی برباد کرتا ہے۔ جدید سماجی نفسیات کے مطابق بھی وعدہ خلافی ذہنی دباؤ، باہمی اعتماد کے فقدان، اور معاشرتی بے یقینی کا سبب بنتی ہے۔
اسی طرح کسی آزاد انسان کو بیچ دینا صرف ایک ظلم نہیں بلکہ انسانیت کے وجود پر حملہ ہے، جو فطرتِ انسانی کے سراسر خلاف ہے۔
اور مزدور کا حق نہ دینا، ایک ایسا جرم ہے جو انسانی جسم و روح کو تھکا کر ناامیدی میں دھکیل دیتا ہے۔ محنت کرنے والا جب اپنی مزدوری سے محروم ہوتا ہے تو صرف اُس کا جسم نہیں، اس کی روح بھی زخمی ہوتی ہے۔ اسی لیے تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
مزدور کو اُس کی مزدوری پسینہ خشک ہونے سے پہلے دے دو۔ (ابن ماجہ)
تحقیقات سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے معاشروں میں جہاں محنت کشوں کے حقوق محفوظ ہوتے ہیں، وہاں ذہنی صحت، اقتصادی استحکام، اور سماجی ہم آہنگی کا تناسب بہت بلند ہوتا ہے۔ دوسری طرف جہاں استحصال رائج ہو، وہاں ذہنی دباؤ، خودکشی، اور جرم کی شرح بڑھ جاتی ہے۔
لہٰذا شریعتِ اسلامیہ کا یہ عدل پر مبنی نظام نہ صرف روحانیت کی فضا قائم کرتا ہے بلکہ سائنسی اعتبار سے بھی انسانی ترقی کی ضمانت دیتا ہے۔ یہ ایک ایسا خدائی اعلانِ انتقام ہے جو مظلوموں کو سکون دیتا ہے اور ظالموں کو خبردار کرتا ہے کہ:
ظلم کی رات جتنی بھی طویل ہو، رب کا انصاف ضرور طلوع ہوتا ہے!
*حدیث کی شرح*
حدیث کا پس منظر اور اس کی نوعیت
یہ حدیث قدسی ہے، یعنی اس کا مضمون اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، لیکن الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہیں۔ حدیث قدسی کی حیثیت عام احادیث سے بلند ہوتی ہے کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کا براہ راست کلام نقل ہوتا ہے۔ اس حدیث میں اللہ تعالیٰ نے خود اپنی ذات کو تین ظالموں کے مقابل مدعی قرار دیا، جو اس بات کی عظمت کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ جرائم کتنے سنگین ہیں۔ اللہ تعالیٰ جو رب العالمین ہے، اپنی عدالت قیامت میں ان ظالموں سے خود حساب لے گا۔
*تینوں جرائم کا تجزیہ*
رجل أعطى بي ثم غدر
وہ شخص جس نے اللہ کا نام لے کر عہد کیا اور پھر خیانت کی۔
تشریح:
اس سے مراد وہ شخص ہے جو اللہ کے نام پر قسم کھاتا ہے یا اللہ کو گواہ بنا کر وعدہ کرتا ہے، لیکن اس وعدے کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ یہ خیانت کی بدترین شکل ہے کیونکہ اس میں اللہ کی ذات کو دھوکہ دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔
فرض کریں ایک شخص کسی سے قرض مانگتا ہے اور کہتا ہے: واللہ! میں یہ قرض ضرور واپس کروں گا۔ لیکن وہ جان بوجھ کر قرض ادا نہیں کرتا۔ یہ نہ صرف دوسرے شخص کے ساتھ ظلم ہے بلکہ اللہ کے نام کی توہین بھی ہے۔
ماہرین نفسیات کے مطابق، اعتماد معاشرے کی بنیادی ضرورت ہے۔ جب کوئی شخص بار بار عہد توڑتا ہے، تو معاشرے میں عدم اعتماد پیدا ہوتا ہے، جو سماجی ہم آہنگی کو نقصان پہنچاتا ہے۔ اعتماد کی خلاف ورزی سے معاشرتی رابطوں میں کمی اور تناؤ میں اضافہ ہوتا ہے۔
*اسلامی اصول:*
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا (سورۃ الإسراء: 34)
ترجمہ: اور عہد کو پورا کرو، کیونکہ عہد کے بارے میں بازپرس ہوگی۔
اس کے علاوہ، حدیث میں ہے:
من غشنا فليس منا" (صحیح مسلم)
یعنی جو دھوکہ دیتا ہے وہ ہم میں سے نہیں۔
اللہ کے نام پر قسم کھانا "یمین غموس" کہلاتی ہے اگر وہ جھوٹ پر مبنی ہو۔ ایسی قسم گناہ کبیرہ ہے اور اس کا کفارہ ادا کرنا پڑتا ہے۔
لفظ "غدر" میں شدید خیانت اور دھوکے کا مفہوم ہے، جو دل کو چھونے والا ہے۔ اللہ کا خود "خصم" ہونا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ مظلوم کی فریاد سنتا ہے اور ظالم کو نہیں بخشتا۔
رجلٌ بَاعَ حُرًا فَأَكَلَ ثَمَنَهُ
وہ شخص جس نے کسی آزاد انسان کو غلام بنا کر بیچا اور اس کی قیمت کھائی۔
تشریح:
یہ جرم انسانی آزادی اور عزت کے خلاف ہے۔ اسلام سے پہلے عرب میں غلامی کا رواج تھا، لیکن اسلام نے اسے ختم کرنے کے لیے اقدامات کیے، جیسے غلاموں کی آزادی کو صدقہ جاریہ قرار دیا۔ کسی آزاد شخص کو زبردستی غلام بنا کر بیچنا نہ صرف ظلم ہے بلکہ اللہ کے عطا کردہ انسانی حقوق کی پامالی ہے۔
آج کے دور میں انسانی سمگلنگ اسی جرم کی ایک شکل ہے۔ کوئی شخص اگر کسی کو اغوا کر کے اسے بیچتا ہے یا اس سے جبری مشقت لیتا ہے، وہ اسی گناہ کا مرتکب ہوتا ہے۔
آج دنیا بھر میں لاکھوں افراد انسانی سمگلنگ کا شکار ہیں۔ ایسی سرگرمیں نفسیاتی، جسمانی اور سماجی نقصانات کا باعث بنتی ہیں۔ آزادی انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔
*اسلامی اصول:*
کسی آزاد انسان کو غلام بنانا حرام ہے، اور اگر کوئی یہ جرم کرے تو اسے اسے آزاد کرنا اور اسے نقصان کا ازالہ دینا واجب ہے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
"وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ" (سورورة الإسراء: 70)
ترجمہ: اور ہم نے بنی آدم کو عزت دی۔
اس کے علاوہ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: من أعتق رقبة مؤمنة أعتق الله بكل عضو منها عضوا من النار" (صحیح بخاری)
یعنی جو شخص کسی مومن غلام کو آزاد کرے، اللہ تعالیٰ اس کے ہر عضو کے بدلے اسے جہنم سے آزاد کرے گا۔
لفظ "حرًا" آزاد انسان کی عزت اور وقار کو اجاگر کرتا ہے، جبکہ "أَكَلَ ثَمَنَهُ" اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ظالم نے نہ صرف جرم کیا بلکہ اس سے ناجائز طور پر فائدہ اٹھایا، جو اس کی اخلاقی پستی کو ظاہر کرتا ہے۔
رجلٌ استأجر أجيرًا فاستوفى منه ولم يعطه أجره
وہ شخص جس نے کسی مزدور سے کام لیا، اس سے پورا کام وصول کیا، لیکن اس کی مزدوری ادا نہ کی۔
تشریح:
یہ جرم معاشی ظلم کی ایک بدترین شکل ہے۔ مزدور اپنی محنت سے رزق کماتا ہے، اور اس کی مزدوری روکنا اس کے خاندان کے لیے معاشی مشکلات پیدا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے اتنا سنگین جرم قرار دیا کہ وہ خود اس کا مدعی ہوگا۔
فرض کریں ایک فیکٹری کا مالک اپنے ملازمین سے پورا کام لیتا ہے لیکن تنخواہ وقت پر نہیں دیتا یا روک لیتا ہے۔ یہ نہ صرف معاشی ظلم ہے بلکہ معاشرے میں غربت اور جرائم کو بھی ہوا دیتا ہے۔ مزدوری کی عدم ادائیگی سے ملازمین کی ذہنی صحت خراب ہوتی ہے، اور یہ معاشی عدم استحکام کا باعث بنتا ہے۔ مزدوروں کی محنت کا صلہ دینا نہ صرف ان کی زندگی کو بہتر بناتا ہے بلکہ معیشت کو بھی استحکام بخشتا ہے۔
اسلامی اصول:
مزدور کی اجرت طے شدہ وقت پر ادا کرنا واجب ہے۔ اگر کوئی اسے روکتا ہے تو وہ ظالم ہے اور اسے نقصان کا ازالہ کرنا ہوگا۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
"فَآتِ ذَالْقُرْبَىٰ حَقَهُ وَالْمسكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ" (سورة الإسراء: 26)
ترجمہ: اپنے قریب والوں کو ان کا حق دو، مسکین کو اور مسافر کو۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "أعطوا الأجير أجره قبل أن يجف عرقه" (ابن ماجہ)
یعنی: مزدور کو اس کی مزدوری اس کے پسینہ خشک ہونے سے پہلے دے دو۔
لفظ "اسْتَوْفَى" اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ظالم
نے پورا فائدہ اٹھایا، جبکہ "لَمْ يُعْطِهِ أَجْرَهُ" اس کی بخیلی اور ظلم کو عیاں کرتا ہے۔
*حدیث کے عظیم الشان اسباق*
*اللہ کی عدالت:*
اللہ تعالیٰ مظلوموں کا حامی ہے۔ جب کوئی انسان ظلم کرتا ہے، تو اللہ خود اس کا مدعی بنتا ہے۔ یہ انسان کو ڈر اور امید دونوں دیتا ہے۔
*معاشرتی ہم آہنگی:*
عہد کی پاسداری، انسانی آزادی کا احترام، اور مزدور کے حقوق کی ادائیگی معاشرتی ہم آہنگی کے بنیادی اصول ہیں۔
*اخلاقی اقدار:*
یہ حدیث ایمانداری، انصاف، اور دوسروں کے حقوق کی ادائیگی کی تعلیم دیتی ہے۔
*اقتصادی انصاف:*
مزدور کی اجرت روکنا یا ناجائز طور پر فائدہ اٹھانا معاشی ظلم ہے، جو معاشرے کی ترقی کے لیے نقصان دہ ہے۔
حدیث کا عملی اطلاق
*انفرادی سطح پر:*
ہر شخص کو اپنے وعدوں کی پاسداری کرنی چاہیے، دوسروں کے حقوق کا احترام کرنا چاہیے، اور محنت کی قدر کرنی چاہیے۔
*معاشرتی سطح پر:*
معاشرے کو انسانی سمگلنگ، معاشی ظلم، اور دھوکہ دہی کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے۔
*حکومتی سطح پر:*
حکومتیں مزدوروں کے حقوق کے تحفظ، انسانی سمگلنگ کی روک تھام، اور معاشی انصاف کے لیے قوانین نافذ کریں۔
یہ حدیث مبارکہ انسانیت کے لیے ایک عظیم الشان پیغام ہے۔ یہ ہمیں عہد کی پاسداری، انسانی عزت و آزادی کے احترام، اور محنت کشوں کے حقوق کی ادائیگی کی تعلیم دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا خود مدعی ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ جرائم کتنے سنگین ہیں۔ آج کے دور میں جہاں معاشی ظلم، دھوکہ دہی، اور انسانی استحصال عام ہے، یہ حدیث ایک روشن مینار کی حیثیت رکھتی ہے۔ ہم سب پر لازم ہے کہ اس کے اسباق کو اپنی زندگیوں میں نافذ کریں تاکہ ہم اللہ کی عدالت میں سرخرو ہوں۔
دعا:
اے اللہ! ہمیں اپنے وعدوں کی پاسداری کرنے والا، انسانوں کے حقوق کی حفاظت کرنے والا، اورا، محنت کشوں کے ساتھ انصاف کرنے والا بنا۔ آمین۔
*मजलूमों का वकील ज़ालिमों का दुश्मन*
सहाबी-ए-रसूल हज़रत अबू हुरैरा बयान करते हैं कि हुज़ूर नबी करीम ने फ़रमाया: अल्लाह तआला फ़रमाता है:तीन क़िस्म के लोग ऐसे हैं जिनका मैं ख़ुद क़ियामत के दिन मुख़ालिफ़ (मुद्दई और दुश्मन) बनूँगा:एक वह शख़्स जिसने मेरे नाम पर वादा किया फिर वादा-ख़िलाफ़ी की,दूसरा वह जिसने किसी आज़ाद इंसान को बेचकर उसकी क़ीमत खा ली,और तीसरा वह जिसने किसी मज़दूर से काम तो पूरा लिया, लेकिन उसकी मज़दूरी नहीं दी। (सहीह-बुखा़री शरीफ़, 2270)
------
रब-ए-कायनात का ख़ुद मुदअई बन जाना — अद्ल-ए-इलाही की इंतेहा
जब किसी समाज में ताक़तवर लोग कमज़ोरों का शोषण करें, वादे बेमानी हो जाएं, इंसानी इज़्ज़त और आबरू को कारोबार बना दिया जाए, और मेहनत करने वालों का हक़ छीन लिया जाए, तो वह समाज सिर्फ़ ज़ुल्म का शिकार नहीं होता, बल्कि अपने ज़वाल की बुनियाद रख देता है।
अल्लाह तआला ने क़ुरआन करीम में कई जगहों पर अद्ल, वफ़ा-ए-अहद और इंसानी हुक़ूक़ की पासदारी को न सिर्फ़ फ़र्ज़ क़रार दिया, बल्कि इनकी खिलाफ़वर्जी को फ़ितना, फ़साद और तबाही की वजह बताया है।
अगर इंसान रब के नाम पर वादा करे और फिर उसे तोड़ दे, तो ये ऐसा है जैसे कोई शख़्स रौशन चिराग़-ए-रब्बानी को बुझा दे। वह अगर आज़ाद रूह को क़ैद कर के बेच दे, तो ये ऐसा है जैसे आसमान में उड़ती बुलबुल को पिंजरे में डाल कर उसकी आवाज़ को बिकाऊ बना दे। और जो मज़दूर का पसीना निचोड़ कर उसे मेहनत की मज़दूरी न दे, वह दरअसल ज़मीन से रिज़्क़ लेकर उसी ज़मीन के बेटे को भूखा लोटाता है।
ये हदीस-ए-क़ुदसी, रब-ए-जलील की तरफ़ से एक ऐसा एलान-ए-अद्ल है जिसमें वह ख़ुद मज़लूमों के हक़ में फ़रीक़ बनता है, और तीन ऐसे ज़ालिमों को निशाना बनाता है जो समाजी, अख़लाक़ी और इंसानी हुदूद को रौंदते हैं और अपने वक़्ती फ़ायदे को तरजीह देते हैं।
अल्लाह तआला के नज़दीक वादा ख़िलाफ़ी, इंसानी आज़ादी की पामाली और मज़दूर का हक़ दबाना इतने बड़े गुनाह हैं कि ख़ुद रब तआला क़यामत के दिन उन मज़लूमों का मुक़द्दमा लड़ेगा।
इस हदीस में मज़लूम के हक़ का दिफ़ा महज़ एक अख़लाक़ी तलब नहीं, बल्कि एक शरी‘ई फ़र्ज़ है। यहाँ हक़-उल-‘इबाद को इतनी अहमियत दी गई है कि अल्लाह फ़रमाता है:
"मैं ख़ुद उनका दुश्मन बन जाऊँगा!"
ये एलान शरियत-ए-इस्लामिया के उस उसूल की तफ़्सीर है कि: हक़-उल-‘इबाद की अदायगी के बिना इबादतें भी नजात की ज़मानत नहीं।
अगर कोई शख़्स किसी से वादा करे और फिर तोड़ दे, तो वो न सिर्फ़ एतिमाद को तोड़ता है बल्कि समाजी निज़ाम को भी बरबाद करता है। जदीद समाजी नफ़सियात के मुताबिक़ भी वादा ख़िलाफ़ी ज़ेहनी दबाव, बाहमी एतिमाद की कमी, और समाजी बेयक़ीनी का बाइ‘स बनती है।
इसी तरह किसी आज़ाद इंसान को बेचना सिर्फ़ एक ज़ुल्म नहीं, बल्कि इंसानियत के वजूद पर हमला है, जो फ़ितरत-ए-इंसानी के सख़्त ख़िलाफ़ है।
और मज़दूर का हक़ न देना एक ऐसा जुर्म है जो इंसानी जिस्म व रूह दोनों को थका कर मायूसी में धकेल देता है। मेहनत करने वाला जब अपनी मज़दूरी से महरूम होता है, तो सिर्फ़ उसका जिस्म नहीं, उसकी रूह भी ज़ख़्मी हो जाती है।
इसी लिए तो हज़रत नबी करीम ﷺ ने फ़रमाया: मज़दूर को उसकी मज़दूरी उसका पसीना सूखने से पहले अदा कर दो।" (इब्ने -माजह)
तहक़ीक़ात से मालूम होता है कि जिन मुआशरों में मेहनतकशों के हुक़ूक़ महफ़ूज़ होते हैं, वहाँ ज़ेहनी सेहत, मआशी इस्तिहकाम और समाजी हम-आहंगी का अनुपात बहुत ऊँचा होता है। और जहाँ शोषण राईज हो, वहाँ डिप्रेशन, खुदकुशी और जुर्म की शरह बढ़ जाती है।
लिहाज़ा, शरियत-ए-इस्लामिया का ये अद्ल पर मबनी निज़ाम न सिर्फ़ रूहानियत की फ़ज़ा क़ायम करता है, बल्कि साइंसी लिहाज़ से भी इंसानी तरक़्क़ी की ज़मानत देता है।
ये हदीस महज़ एक तन्बीह नहीं, बल्कि एक आईना है जो हर उस शख़्स को दिखाता है जो किसी से वादा करता है, किसी पर इख़्तियार रखता है, या किसी से ख़िदमत लेता है।
ये एक ऐसा ख़ुदाई एलान-ए-इंतक़ाम है जो मज़लूमों को सुकून देता है और ज़ालिमों को खबरदार करता है कि:
ज़ुल्म की रात जितनी भी तवील हो, रब का इंसाफ़ ज़रूर तूलूअ होता है!
यह हदीस हदीस-ए-क़ुदसी है, यानी इसका मज़मून अल्लाह तआला की तरफ़ से है, लेकिन अल्फ़ाज़ रसूलुल्लाह ﷺ के हैं। हदीस-ए-क़ुदसी को आम हदीसों से कुछ ऊँचा दर्जा हासिल है क्योंकि इसमें अल्लाह तआला का सीधा बयान होता है।इस हदीस में अल्लाह तआला ने तीन ज़ालिमों के ख़िलाफ़ ख़ुद को मुद्दई (फरियादी) बताया है। यह इस बात की तरफ़ इशारा करता है कि यह गुनाह कितने संगीन और खतरनाक हैं।
*तीनों गुनाहों का विश्लेषण:*
1. वह शख्स जिसने अल्लाह का नाम लेकर वादा किया फिर ख्यानत की।
तशरीह:
इससे मुराद वह शख्स है जो अल्लाह को गवाह बनाकर वादा करता है लेकिन जानबूझकर उसे तोड़ देता है। यह गुनाह इस लिए ज़्यादा संगीन है क्योंकि इसमें अल्लाह के नाम का दुरुपयोग होता है।
उदाहरण:
अगर कोई किसी से कर्ज़ ले और कहे: "वल्लाह! मैं जरूर लौटाऊंगा" लेकिन जान-बूझकर वापस ना करे, तो वह अल्लाह के नाम का भी अपमान करता है और इंसान पर भी ज़ुल्म करता है।
समाज में भरोसे का तानाबाना बहुत नाज़ुक होता है। बार-बार वादा तोड़ने से समाज में अविश्वास और तनाव बढ़ता है।
*इस्लामी उसूल:*
कुरआन में है:
और वादे को पूरा करो, बेशक वादे की पूछ-ताछ होगी।
हदीस में है: जो धोखा देता है, वह हम में से नहीं।
अगर कोई झूठी क़सम खाए, तो उसे "यमीन-ए-ग़मूस" कहा जाता है यह कबीरह (बड़ा) गुनाह है।
2. वह शख्स जिसने किसी आज़ाद इंसान को ग़ुलाम बनाकर बेच डाला और उसकी क़ीमत खाई।
तशरीह:
यह इंसानी इज़्ज़त और आज़ादी के खिलाफ़ जुर्म है। इस्लाम ने गुलामी को खत्म करने के लिए बहुत से कदम उठाए और आज़ादी को इंसानी हक़ करार दिया।
आज के सन्दर्भ में:
मानव तस्करी (ह्यूमन ट्रैफिकिंग) इसी गुनाह की आधुनिक शक्ल है, जिसमें लोग अगवा करके जबरन काम कराते हैं या बेचते हैं।
यह गुनाह पीड़ित की मानसिक, शारीरिक और सामाजिक हालत को तबाह कर देता है।
इस्लामी उसूल:
कुरआन कहता है:
"हमनें इंसान को इज़्ज़त बख़्शी।"
रसूलुल्लाह ﷺ ने फ़रमाया:
"जो किसी मोमिन ग़ुलाम को आज़ाद करे, अल्लाह उसके हर अंग के बदले उसे जहन्नम से बचाएगा।"
3. वह शख्स जिसने किसी मज़दूर से पूरा काम लिया लेकिन उसकी मज़दूरी नहीं दी
तशरीह:
यह आर्थिक ज़ुल्म की सबसे बदतर शक्ल है। मज़दूर अपनी मेहनत से पेट पालता है और उसका हक़ मारना बहुत बड़ा गुनाह है।
उदाहरण:
कोई फैक्ट्री मालिक वक़्त पर तन्ख्वाह ना दे या जानबूझकर रोक ले यह न सिर्फ़ ज़ुल्म है बल्कि समाज में गरीबी और तनाव भी फैलाता है।
इस्लामी उसूल:
कुरआन कहता है:
"रिश्तेदार, मिस्कीन और मुसाफ़िर को उनका हक़ दो।"
रसूलुल्लाह ﷺ ने फ़रमाया:
"मज़दूर को उसकी मज़दूरी उसका पसीना सूखने से पहले दो।"
*हदीस के महत्वपूर्ण सबक़:*
1. अल्लाह की अदालत:
अल्लाह तआला ज़ालिमों के खिलाफ़ खुद फरियादी बनता है। यह इंसान के लिए डर और तौबा दोनों की वजह है।
2. समाजिक हम-आहंगी:
वादा निभाना, इंसानी आज़ादी की क़द्र करना, और मज़दूर के हक़ अदा करना ये समाज को मज़बूत करते हैं।
3. नैतिक मूल्य:
यह हदीस ईमानदारी, इंसाफ़ और हक़ अदा करने की तालीम देती है।
4. आर्थिक न्याय:
मज़दूरी न देना आर्थिक अन्याय है जो समाज के विकास में रुकावट बनता है।
हदीस का आधुनिक अमली इस्तेमाल:
*व्यक्तिगत स्तर पर:*
हर इंसान को अपने वादों का पाबंद रहना चाहिए, दूसरों के हक़ अदा करने चाहिए और मेहनत की क़द्र करनी चाहिए।
*सामाजिक स्तर पर:*
समाज को धोखाधड़ी, मानव तस्करी और आर्थिक ज़ुल्म के खिलाफ आवाज़ उठानी चाहिए।
*सरकारी स्तर पर:*
हुकूमतों को मज़दूरों के हुकूक, मानव तस्करी और आर्थिक इंसाफ़ के लिए क़ानून लागू करने चाहिए।
दुआ:
ऐ अल्लाह! हमें अपने वादों का पाबंद बना, इंसानों के हक़ अदा करने वाला बना, और मेहनतकशों के साथ इंसाफ़ करने वाला बना। आमीन।

🙏
🤲
2