
MUFTI ABDUSSUBHAN MISBAHI
June 18, 2025 at 01:40 PM
*بھوکے کو کھانا کھلاؤ*
عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فُكُّوا الْعَانِيَ - يَعْنِي الْأَسِيرَ - وَأَطْعِمُوا الْجَائِعَ، وَعُودُوا الْمَرِيضَ• (وفي روايةٍ له)وَأَجِيبُوا الدَّاعِيَ“•
(صحيح البخاري، كتاب الجهاد والسير، باب فكاك الأسير،حدیث نمبر:3046)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قیدی کو آزاد کرو، بھوکے کو کھانا کھلاؤ، اور مریض کی عیادت کرو۔ (بخاری کی دوسری روایت میں ہے:) اور دعوت دینے والے کی دعوت قبول کرو۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
*انسانیت کا الہامی منشور ایک جامع نبوی فرمان*
جب دنیا کے معاشرے ظلم، بھوک، بیماری، تنہائی اور بے حسی کا شکار ہو جائیں، اور انسانیت اپنے عظیم مقاصد کو فراموش کر دے، تب انبیائے کرام علیہم السلام کی بعثت اُس اندھیرے میں ایک چراغ کی مانند ہوتی ہے، جو صرف روحانی ہدایت ہی نہیں بلکہ عملی ضابطہ حیات بھی عطا کرتی ہے۔
رسول اکرم ﷺ کا ہر فرمان، فقط ایک مذہبی حکم نہیں، بلکہ انسانیت کے لیے ہمہ گیر چارٹر ہے؛ جو عدل، رحم، شفقت، اجتماعیت، اور فلاحِ عامہ جیسے مضبوط اصول کو مجسم کر دیتا ہے۔
زیرِ نظر حدیثِ مبارک ان ہی آفاقی اقدار کا جامع نچوڑ ہے۔ یہ صرف چند افعال کی فہرست نہیں، بلکہ انسانی معاشرے کے چار گہرے زخموں کا الہامی مرہم ہے:
1. قید و بند کی ذلت – "فُكُّوا الْعَانِيَ"
2. بھوک کی شدت – "وَأَطْعِمُوا الْجَائِعَ"
3. بیماری کی تکلیف – "وَعُودُوا الْمَرِيضَ
4. سماجی تنہائی – "وَأَجِيبُوا الدَّاعِيَ"
یہ چار جملے گویا انسانیت کے چار ستونوں کو سہارا دینے کا آسمانی نسخہ ہیں۔
انسان کی فطرت میں معاشرت، ہمدردی، اور باہمی تعاون رچے بسے ہوئے ہیں۔
قید کا صدمہ ایک انسان کے شعور کو مسخ کر دیتا ہے۔
بھوک نہ صرف جسم بلکہ دماغی صحت کو بھی تباہ کرتی ہے۔
بیماری میں تنہائی مریض کی شفایابی کو مؤخر کر دیتی ہے۔
دعوت کا قبول کرنا معاشرتی ربط کو مضبوط کرتا ہے۔
ان تمام انسانی کیفیات کے علاج کے لیے نبیِ رحمت ﷺ کا یہ فرمان محض اخلاقی نصیحت نہیں، بلکہ ایک مکمل "سماجی، انسانی اور روحانی پالیسی ڈائریکشن" ہے۔
اسلام عبادات اور معاملات دونوں کو یکجا کرتا ہے۔ جہاں نماز، روزہ اور حج روحانی تطہیر کا ذریعہ ہیں، وہیں اس قسم کی احادیث معاشرتی تطہیر کا ذریعہ بنتی ہیں۔
قیدی کو چھڑانا، بھوکے کو کھانا کھلانا، مریض کی عیادت کرنا اور دعوت کو قبول کرنا یہ وہ اعمال ہیں جن میں خدمتِ خلق، حق تلفی کا ازالہ، اجتماعی ہمدردی اور سماجی روابط کی حفاظت جیسے اسلامی اصول بروئے کار آتے ہیں۔
ذرا ایک لمحے کو رکیں اور ایک ایک جملے کو غور سے پڑھیں۔ یہ صرف مذہبی الفاظ نہیں، بلکہ ایک مکمل سماجی چارٹر ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے آج کے کسی جدید انسانی حقوق کے ادارے نے لکھا ہو۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ 1400 سال پہلے اُس ہستی نے فرمایا جسے ربِّ کائنات نے "رحمۃٌ للعالمین" بنا کر بھیجا۔
*قیدی کو آزاد کرو*
"العاني" عربی میں اسیر، یعنی قیدی کو کہتے ہیں، خواہ وہ جنگی قیدی ہو یا کسی اور ظلم کا شکار۔ دنیا کی سب سے بڑی آزادی انسان کو غلامی سے نکالنا ہے۔ قید تنہا جسمانی نہیں بلکہ ذہنی غلامی کی بھی صورت ہو سکتی ہے۔ یہ حکم اس وقت آیا جب دنیا قیدیوں کو ذلیل، بے قیمت اور صرف طاقت کی علامت سمجھتی تھی۔ اسلام نے کہا: قیدی کو آزاد کرنا صرف انسانی ہمدردی نہیں، عبادت ہے! قیدی کا فدیہ ادا کرنا، یا رہائی کے اسباب مہیا کرنا بڑی نیکی کے درجے میں آتا ہے۔ آج اگر کوئی نوجوان معاشی قرض میں جکڑا ہو، یا کوئی عورت ظلم کی زنجیروں میں ہو، یا کوئی انسان کسی غلط نظام کا قیدی ہو تو کیا ہم نے اس حدیث پر عمل کیا؟ کیا ہم کسی کو آزاد کر رہے ہیں یا مزید باندھ رہے ہیں؟
*بھوکے کو کھانا کھلاؤ*
"جائع" صرف وہ نہیں جو کھانے سے محروم ہو، بلکہ وہ بھی جو ضرورت سے کم پر جی رہا ہو۔ اسلام نے عبادات کے ساتھ ساتھ سماجی ذمہ داریوں کو فرض قرار دیا۔ روزہ ہمیں بھوک کا مزہ چکھاتا ہے، تاکہ ہم بھوکے کو نہ بھولیں۔ اس حدیث میں نبی کریم ﷺ نے بھوکے کو کھلانے کو انسانی فریضہ قرار دیا۔ ایک وقت کا مناسب کھانا نہ ملنا انسانی جسمانی، ذہنی اور جذباتی صحت پر مضر اثر ڈالتا ہے۔ غذا صرف خوراک نہیں، بقا کی کنجی ہے۔ سوشل میڈیا پر کھانے کی تصویریں اپلوڈ کرنے سے بھوک مٹتی نہیں، کھانا بانٹنے سے مٹتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے بھوک مٹانے کا درس دیا ہے۔ یہی انسانیت ہے۔ یہی اسلام ہے۔ سادہ سی بات ہے کہ کسی کو کھانا کھلانا نہ صرف اس کے جسم کو زندہ رکھتا ہے، بلکہ آپ کے اندر "خوشی، تسکین، اور سکون" کے ہارمونز بھی پیدا کرتا ہے۔
*مریض کی عیادت کرو*
مریض کی عیادت ایک ایسا فعل ہے جو شریعت، نفسیات، اخلاق اور معاشرت کے حسن و جمال سنگم ہے۔ عیادت و تیمارداری کے ذریعے مریض کو احساس ہوتا ہے کہ وہ تنہا نہیں، اور اس کی زندگی کی قدر ہے۔ مریض کی عیادت و دلداری اس کے مدافعتی نظام کو بہتر بناتی ہے، شفا کی رفتار بڑھاتی ہے، اور ڈپریشن کو کم کرتی ہے تو آپ کا جانا کسی کے لیے دوا بھی ہو سکتا ہے اور دعا بھی۔ آج کے دور میں ہم مریض کا حال فون پر پوچھ لیتے ہیں۔ لیکن نبی ﷺ نے فرمایا: جاؤ، اس کے پاس جاؤ۔ حدیث کا مفہوم صرف حال پوچھنا نہیں، بلکہ دعا، تسلی، مالی مدد، اور نفسیاتی سہارا دینا ہے۔ عیادت صرف حال پوچھنا نہیں، بلکہ یہ پیغام دینا ہے: تم اکیلے نہیں ہو۔ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔
*دعوت دینے والے کی دعوت قبول کرو*
اسلامی معاشرت میں ایک دوسرے سے ملنا، محبت بڑھانا، اور دل جوئی کے مواقع پیدا کرنا مطلوب ہیں۔ دعوت قبول کرنا محض کھانے کی بات نہیں، بلکہ باہمی تعلقات کی مضبوطی ہے۔ ولیمہ میں جس شخص کو بلایا جائے اس کو جانا سنت ہے یا واجب۔ علما کے دونوں قول ہیں، بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اِجابت سنت مؤکدہ ہے۔ ولیمہ کے سوا دوسری دعوتوں میں بھی جانا افضل ہے اور یہ شخص اگر روزہ دار نہ ہو تو کھانا افضل ہے کہ اپنے مسلم بھائی کی خوشی میں شرکت اور اس کا دل خوش کرنا ہے اور روزہ دار ہو جب بھی جائے اور صاحب خانہ کے لیے دعا کرے اور ولیمہ کے سوا دیگر دعوتوں میں جانا مستحب ہے، بشرطیکہ کوئی شرعی قباحت نہ ہو۔ دعوت قبول نہ کرنا بعض اوقات دل آزاری، تکبر یا قطع تعلق کا سبب بن سکتا ہے، جس سے امت کا اتحاد کمزور پڑتا ہے۔ یہ تو عام سا جملہ لگتا ہے نا؟ مگر اس میں دلوں کو جوڑنے کی حکمت چھپی ہے۔ کبھی کوئی آپ کو اپنے گھر بلائے، تو یہ صرف کھانے کی دعوت نہیں ہوتی، بلکہ اپنے دل میں جگہ دینے کی کوشش ہوتی ہے۔ اس دعوت کو ٹھکرا دینا، بعض اوقات تعلقات کی دیوار میں دراڑ ڈال دیتا ہے۔ اس لیے نبی ﷺ نے فرمایا: دعوت قبول کرو۔ رشتے نبھاؤ۔ دلوں کو جوڑو۔ یہ حدیث ایک لائف گائیڈ ہے اگر ہم صرف اسی ایک حدیث کو اپنا سماجی منشور بنا لیں، تو: معاشرہ ظلم سے پاک ہو جائے، کوئی بھوکا نہ سوئے، مریض اکیلا نہ رہے، دلوں سے دوریاں ختم ہو جائیں۔ تو آئیے، آج عہد کریں: کسی قیدی کے حق میں آواز بنیں کسی بھوکے کو کھانا کھلائیں کسی مریض کو وقت دیں اور کسی کی دعوت کو دل سے قبول کریں یہی اصل اسلام ہے۔ یہی اصل انسانیت ہے۔ اور یہی نبی رحمت ﷺ کا پیغام ہے۔
----
*भूखे को खाना खिलाओ*
सहाबी-ए-रसूल हज़रत अबू मूसा अशअरी से रिवायत है कि रसूलुल्लाह ने फ़रमाया: क़ैदी को आज़ाद करो, भूखे को खाना खिलाओ, और बीमार की इयादत (हालचाल पूछना) करो।(बुख़ारी की एक और रिवायत में है)और दावत देने वाले की दावत क़बूल करो। (सहीह-बुखा़री शरीफ़, हदीस नंः 3046)
-------
*इंसानियत का इल्हामी मंशूर एक जामे नबवी फ़रमान*
जब दुनिया के समाज ज़ुल्म, भूख, बीमारी, तन्हाई और बे-हिसी का शिकार हो जाएँ, और इंसानियत अपने अज़ीम मक़ासिद को फ़रामोश कर दे, तब अम्बियाए किराम अलैहिमुस्सलाम की बअसत उस अंधेरे में एक चराग़ की मानिंद होती है, जो सिर्फ़ रुहानी हिदायत ही नहीं बल्कि अमली ज़ाबता-ए-हयात भी अता करती है।
रसूल-ए-अकरम ﷺ का हर फ़रमान, सिर्फ़ एक मज़हबी हुक्म नहीं, बल्कि इंसानियत के लिए एक हमागीर चार्टर है; जो अद्ल, रहम, शफ़क़त, इज्तिमाअियत और फलाह-ए-आम्मा जैसे मज़बूत उसूलों को मुझस्सम कर देता है।
ज़ेर-ए-नज़र हदीस-ए-मुबारक इन्हीं आफ़ाक़ी इक़दार का जामे निचोड़ है। ये सिर्फ़ चंद अफ़आल की फेहरिस्त नहीं, बल्कि इंसानी समाज के चार गहरे ज़ख़्मों का इल्हामी मरहम है:
1. क़ैद व बंद की ज़िल्लत
2. भूख की शिद्दत
3. बीमारी की तकलीफ़
4. सामाजी तन्हाई
ये चार जुम्ले गोया इंसानियत के चार सुतूनों को सहारा देने का आसमानी नुस्ख़ा हैं।
इंसान की फ़ितरत में मआशरत, हमदर्दी, और बाहमी तआवुन रचा-बसा होता है।
क़ैद का सदमा इंसान के शऊर को मस्क़ कर देता है।
भूख न सिर्फ़ जिस्म, बल्कि दिमाग़ी सेहत को भी तबाह कर देती है।
बीमारी में तन्हाई, मरीज़ की शिफ़ा-याबी को मुअख्ख़र कर देती है।
और दावत का क़बूल करना, समाजी राबितों को मज़बूत करता है।
इन तमाम इंसानी कैफ़ियात के इलाज के लिए नबी-ए-रहमत ﷺ का ये फ़रमान महज़ अख़्लाक़ी नसीहत नहीं, बल्कि एक मुकम्मल "समाजी, इंसानी और रुहानी पॉलिसी डायरेक्शन" है।
इस्लाम ‘इबादात और मुआमलात दोनों को एकजां करता है। जहाँ नमाज़, रोज़ा और हज रुहानी तजहीर का ज़रिया हैं, वहीं इस क़िस्म की अहादीस मआशरती तजहीर का ज़रिया बनती हैं।
क़ैदी को छुड़ाना, भूखे को खाना खिलाना, मरीज़ की इयादत करना और दावत को क़बूल करना ये वो आमाल हैं जिनमें खिदमत-ए-ख़ल्क़, हक़-तल्फ़ी का अज़ाला, इज्तिमाई हमदर्दी और समाजी राबितों की हिफ़ाज़त जैसे इस्लामी उसूल बरए कार आते हैं।
ज़रा एक लम्हे को रुकिए... और हर एक जुमले को ध्यान से पढ़िए।
ये सिर्फ़ मज़हबी अल्फ़ाज़ नहीं हैं, बल्कि एक मुकम्मल समाजी चार्टर हैं।
ऐसा लगता है जैसे आज के किसी मॉडर्न "मानवाधिकार संगठन" ने लिखा हो...
मगर हकीकत ये है कि ये 1400 साल पहले उस हस्ती ने फरमाया,
जिसे रब्बे-कायनात ने "रहमतुल्लिल-आलमीन" बनाकर भेजा।
*क़ैदी को आज़ाद करो*
"अल-आनी" अरबी में "असीर" यानी क़ैदी को कहते हैं चाहे वो जंग का क़ैदी हो या किसी और ज़ुल्म का शिकार।
दुनिया की सबसे बड़ी आज़ादी इंसान को गुलामी से निकालना है।
क़ैद सिर्फ़ जिस्मानी नहीं होती, बल्कि ज़ेहनी और नफ़्सानी गुलामी भी क़ैद ही होती है।
ये हुक्म उस दौर में आया जब क़ैदियों को ज़लील और बे-क़ीमत समझा जाता था।
*इस्लाम ने कहा:*
क़ैदी को आज़ाद करना सिर्फ़ इंसानी हमदर्दी नहीं, बल्कि इबादत है!
उसका फिद्या अदा करना या रिहाई का इंतज़ाम करना सबसे अज़ीम नेकियों में से है।
आज अगर कोई नौजवान कर्ज़ में डूबा हो,कोई औरत ज़ुल्म में घिरी हो,
कोई इंसान ग़लत सिस्टम का शिकार हो तो क्या हम इस हदीस पर अमल कर रहे हैं? क्या हम किसी को आज़ाद कर रहे हैं या और ज़ंजीरें डाल रहे हैं?
*भूखे को खाना खिलाओ*
सिर्फ़ वो नहीं जो भूखा है, बल्कि वो भी जो ज़रूरत से कम पर जी रहा है।
इस्लाम ने इबादात के साथ-साथ समाजी जिम्मेदारियों को भी फ़र्ज़ क़रार दिया।
रोज़ा हमें भूख का एहसास दिलाता है, ताकि हम भूखों को न भूलें।
इस हदीस में नबी करीम ﷺ ने भूखे को खिलाने को इंसानी फ़र्ज़ क़रार दिया।
एक वक्त का खाना न मिलना जिस्मानी, ज़ेहनी और जज़्बाती सेहत को नुकसान पहुँचाता है।
भूख मिटती है तस्वीरें पोस्ट करने से नहीं, बल्कि खाना बांटने से।
रसूलुल्लाह ﷺ ने फ़रमाया: भूख को मिटाना इंसानियत है। इस्लाम है।
किसी को खाना खिलाना, न सिर्फ़ उसका पेट भरता है,
बल्कि आपके अंदर ख़ुशी, सुकून और सकून के हार्मोन भी पैदा करता है।
*मरीज़ की इयादत करो*
मरीज़ की इयादत एक ऐसा अमल है जिसमें शरीअत, नफ़्सियात, अख़्लाक़ और समाज का हुस्न एक साथ नज़र आता है।
मरीज़ को एहसास होता है: मैं अकेला नहीं हूँ।
इयादत से:
मरीज़ का हौसला बढ़ता है
शिफ़ा तेज़ होती है
डिप्रेशन कम होता है
आज हम कॉल कर लेते हैं, मगर नबी ﷺ ने कहा: "जाओ, उसके पास जाओ! इयादत का मतलब सिर्फ़ हाल पूछना नहीं, बल्कि दुआ देना, तसल्ली देना, मदद करना और साथ खड़े होना है।
पैग़ाम देना है: तुम तन्हा नहीं हो। हम तुम्हारे साथ हैं।"
*दावत देने वाले की दावत क़बूल करो*
इस्लामी मुआशरत (सामाजिक व्यवस्था) में एक-दूसरे से मिलना, मोहब्बत बढ़ाना और दिलजोई (दिल रखने) के मौक़े पैदा करना मक़सूद है।
दावत क़बूल करना महज़ खाने की बात नहीं, बल्कि बाहमी ताल्लुक़ात को मज़बूत करने का ज़रिया है।
वलीमा (निकाह की दावत) में जिसे बुलाया जाए, उसके लिए जाना सुन्नत या वाजिब है उलमा के दोनों क़ौल हैं।
ज़ाहिरी तौर पर मालूम होता है कि इजाबत (क़बूल करना) सुन्नत मुअक्कदा है।
वलीमा के अलावा दूसरी दावतों में भी जाना अफ़ज़ल है। अगर रोज़ेदार न हो तो खाना अफ़ज़ल है, ताकि अपने मुसलमान भाई की ख़ुशी में शरीक होकर उसका दिल ख़ुश किया जाए। और अगर रोज़ेदार हो तो फिर भी जाए, और साहिब-ए-ख़ाना के लिए दुआ करे। वलीमा के सिवा दीगर दावतों में जाना मुस्तहब (पसंदीदा) है, बशर्ते कि कोई शरई ख़राबी न हो।
दावत को ठुकरा देना कभी-कभी दिल आज़ारी, तकब्बुर या क़त्अे-ताल्लुक़ का सबब बन जाता है, जिससे उम्मत का इत्तिहाद (एकता) कमज़ोर पड़ता है।
यह तो एक आम सा जुम्ला लगता है ना?
मगर इसमें दिलों को जोड़ने की हिकमत छुपी है।
जब कोई आपको अपने घर बुलाता है, तो वह सिर्फ़ खाने की दावत नहीं देता,
बल्कि आपको अपने दिल में जगह देने की कोशिश करता है।
उस दावत को ठुकरा देना, कभी-कभी ताल्लुक़ की दीवार में दरार डाल देता है।
इसीलिए नबी ﷺ ने फ़रमाया:
दावत क़बूल करो, रिश्ते निभाओ, दिलों को जोड़ो।
🌟 *यह हदीस एक "लाइफ़ गाइड" है*
अगर हम सिर्फ़ इसी एक हदीस को अपना समाजी मंशूर (सामाजिक घोषणापत्र) बना लें, तो:
मआशरा ज़ुल्म से पाक हो जाए
कोई भूखा न सोए
मरीज़ अकेला न रहे
और दिलों की दूरियाँ मिट जाएँ
तो *आइए, आज अहद करें:*
किसी क़ैदी के हक़ में आवाज़ बनें
किसी भूखे को खाना खिलाएँ
किसी मरीज़ को वक़्त दें
और किसी की दावत को दिल से क़बूल करें
यही अस्ल इस्लाम है।
यही अस्ल इंसानियत है।
और यही नबी-ए-रहमत ﷺ का पेग़ाम है।
