
MUFTI ABDUSSUBHAN MISBAHI
June 18, 2025 at 06:40 PM
ملکِ عزیز میں بجلی کے بلوں نے جس طرح عوام الناس کی نیندیں اُڑا دی ہیں، اس کا اندازہ کسی شماریاتی سروے سے نہیں، بلکہ گھروں میں بڑھتے ہوئے جھگڑوں، اضطراب اور فرسٹریشن سے کیا جا سکتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ بلوں کی زیادتی نے اب طلاق جیسے سنگین شرعی معاملات کو بھی اپنی لپیٹ میں لینا شروع کر دیا ہے۔
آج ہی ایک سائل نے ایک لرزہ خیز واقعہ بیان کیا۔ کہنے لگا: ہمارے محلے میں ایک گھرانہ ہے، جس کا بجلی کا بل 9200 روپے آیا۔ جب بیوی نے شوہر کو بل تھمایا تو وہ غصے، بے بسی اور معاشی دباؤ کے ملے جلے جذبات میں اپنے حواس پر قابو نہ رکھ سکا، اور اپنی بیوی سے یوں کہہ بیٹھا ہے کہ:
"اگر اگلے چار مہینوں میں بجلی کا بل 8000 روپے سے زیادہ آیا تو میری طرف سے تینوں طلاقیں اکٹھی ہیں اور مجھ سے پوچھنا بھی نا اور چلی جانا!" الامان والحفیظ!!
اب وہی شوہر، جو چند لمحے پہلے "فیصلہ کن" الفاظ بول رہا تھا، ابھی پریشان ہے، نادم ہے، اور شرعی حل کا طالب ہے۔ بجلی کا بل اُس کی عقل پر یوں چھا گیا کہ اس نے زبان سے وہ الفاظ نکال دئیے جو زندگی کا رُخ ہی موڑ سکتے ہیں۔
ایسے مسائل کا شرعی حل تو یقیناً علمائے کرام و مفتیانِ عظام ہی بیان کریں گے، مگر اس مسئلے سے ایک اجتماعی المیہ ضرور جنم لیتا ہے۔ اربابِ اقتدار کو اس حوالے سے سوچنا چاہئے، سب نے رب تعالی کے حضور جواب دہ ہونا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت توانائی کے شعبے میں اصلاحات کرے، عوام کو سبسڈی دی جائے، سولر یا دیگر متبادل ذرائع کو قابلِ رسائی بنایا جائے اور سب سے بڑھ کر، عوام کو معاشی ریلیف فراہم کیا جائے۔
کیونکہ جب انسان کی روزی، امن اور عزت خطرے میں ہو، تو وہ صرف بِل نہیں پھاڑتا، رشتے بھی توڑ بیٹھتا ہے۔
