
زرمبش اردو | 🎙ZBC
June 18, 2025 at 02:34 PM
ایران کو حقیقت کا ادراک کرنا ہوگا
تحریر: وسیم سفر بلوچ
زرمبش مضمون
https://urdu.zrumbesh.com/19363/
جس طرح امریکہ نے افغانستان پر حملے کے دوران انہوں نے افغان عوام کو تنہا چھوڑ دیا تھا، آج ایران کو بھی اسی طرز کے "دوستانہ دعووں" کا سامنا ہے۔ اس وقت افغانستان کے کچھ ہمسایہ ممالک نے زبانی حمایت ضرور کی، مگر عملاً افغانستان تنہا تھا۔ افغانوں نے اپنی قوتِ بازو سے بقاء کی جنگ لڑی اور سرخرو ہوئے۔ بعد ازاں انہی ہمسایوں نے افغان سفیروں، رہنماؤں اور کارکنوں کو گرفتار کر کے امریکہ کے حوالے کر دیا۔ موجودہ افغان حکومت کے ترجمان ملا برادر، جو کبھی انہی ہمسایہ ممالک میں پناہ گزین تھے، خود اس تلخ حقیقت کے زندہ گواہ ہیں۔
آج ایک بار پھر وہی کردار، وہی رویے، ایران کے ساتھ دہرائے جا رہے ہیں۔ ایران کو سمجھنا ہوگا کہ زبانی دعوے اور نعرے، عملی تعاون کا نعم البدل نہیں ہو سکتے۔
جب اسرائیلی حملے ایران پر شروع ہوئے، تو ان نام نہاد "برادر" ہمسایہ ممالک نے سب سے پہلا قدم یہ اٹھایا کہ اپنی سرحدیں بند کر دیں۔ کیا یہی ساتھ کھڑے ہونے کی علامت ہے؟ کیا مصیبت کے وقت دروازے بند کر دینا اخوت اور اتحاد کی علامت ہے؟
جو ممالک ایران سے سستا تیل، ڈیزل اور ایل پی جی لیتے رہے، وہی آج امریکہ کی ناراضی کے ڈر سے ایران سے تجارت بند کر رہے ہیں۔ کیا واقعی یہی ممالک امریکہ یا اسرائیل کے خلاف ایران کے لیے میدان میں اتریں گے؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ وہی عناصر ہیں جو افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد بےروزگار ہو چکے ہیں، جنگ کے پروردہ ہیں، اور مفادات کے لیے ہر پل نیا رخ اختیار کرتے ہیں۔
اگر ایران-اسرائیل جنگ شدت اختیار کرتی ہے، اور امریکی و اسرائیلی افواج ایرانی سرزمین پر داخل ہوتی ہیں، تو اصل سوال یہ ہے کہ ان حملہ آور قوتوں کی رسد و رسائی کا انتظام کون کرے گا؟ تاریخ بتاتی ہے کہ یہ ہمسایہ ممالک ماضی میں بھی امریکہ کے لیے سپلائی لائنز بنے رہے ہیں۔ افغانستان پر حملے کے دوران، شمالی و جنوبی وزیرستان، باجوڑ، اور خیبر ایجنسی میں آپریشن انہی بیرونی مطالبات پر کیے گئے۔ کیا یہ سب کچھ امریکی مفادات کی خاطر نہیں تھا؟
ایران، افغانستان اور دیگر مسلم ممالک کو یہ جان لینا چاہیے کہ ان کے لیے اسلامی اخوت اور برادرانہ تعلقات محض نعرے ہیں، عملی دنیا میں ان کا کوئی وزن نہیں۔ افغانستان کی تاریخ گواہ ہے کہ جب وقت آیا تو سب نے منہ موڑ لیا۔ صدام حسین کو عید کے دن پھانسی دی گئی، قذافی کو سڑکوں پر گھسیٹا گیا، مگر کسی مسلم ملک کی فوج نے ان کے دفاع کے لیے کوئی اقدام نہ اٹھایا۔ آج اگر ایران یہ سمجھتا ہے کہ اس کے لیے لشکر نکالے جائیں گے، تو یہ ایک خام خیالی ہے۔
فلسطین اور غزہ پر برسوں سے ظلم جاری ہے۔ دنیا کی بڑی اسلامی فوجیں رکھنے والے ممالک نے کبھی اسرائیل کے خلاف سنجیدہ قدم نہیں اٹھایا۔ اگر بیت المقدس کے لیے کچھ نہ کیا گیا، تو کیا ایران کے لیے کچھ کیا جائے گا؟
ایران کو اپنی بقاء کے لیے دوسروں پر نہیں، خود پر بھروسہ کرنا ہوگا۔ مغرب سے ممکنہ جنگ کی صورت میں ایران کو اپنی عسکری، اقتصادی اور سفارتی صلاحیتوں کا درست تجزیہ کر کے فیصلے کرنے ہوں گے۔ جو ممالک صرف زبانی ہمدردی کرتے ہیں، ان پر اعتماد خطرناک ہو سکتا ہے۔ ان کے جرنیل اور فیصلے ساز اکثر بیرونی ایجنڈے کے تابع ہوتے ہیں۔ ان سے صلاح الدین ایوبی بننے کی توقع رکھنا محض خود فریبی ہے۔
آج ایران تنہائی کا شکار ہے، اور یہی وجہ ہے کہ "اسلامی دنیا" بھی محتاط رویہ اپنائے ہوئے ہے۔ اگر امریکی یا اسرائیلی افواج ایران کے خلاف ہمسایہ ممالک سے مدد مانگیں، تو امکان یہی ہے کہ تاریخ خود کو دہرائے گی — جیسے عراق اور افغانستان میں امریکی کارروائیوں کے لیے ان ممالک نے فوجی اڈے فراہم کیے۔
ایران پر حملے جاری ہیں، اور دوسری جانب انہی "دوستوں" کے حکمران مغرب کے درباروں میں شریکِ ضیافت ہیں۔ فیصلہ ایران کو خود کرنا ہوگا کہ وہ کس پر بھروسہ کرے — ان پر جو صرف بیانات دیتے ہیں، یا اپنی حقیقی قوت پر، جو اب تک اسے میدان میں ثابت کرنا آتا ہے۔

👍
❤️
💯
✌
😢
15