
BoltaKarachi
June 19, 2025 at 11:58 AM
*بسم اللہ الرحمٰن الرحیم*
سلسلہ: کیا ایران میں کوئی ملک نظام بدل سکتا ہے ؟۔
پہلے ایک خاص بات سمجھ لیں ۔
*ولايت فقیہ* کیا ہے ؟
تحریر :Dr Umer Zubair *AwanXada*
"ولایتِ فقیہ: ایران کا انقلابی نظریہ اور جانشینی کا ممکنہ مستقبل"
---
تعارف
ولایتِ فقیہ، شیعہ اسلام کا ایک منفرد نظریہ ہے جو دینی قیادت کو سیاسی اختیار دیتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران اسی نظریے پر قائم ہے۔ اس مضمون میں ہم ولایتِ فقیہ کی تفصیل، تاریخی پس منظر، موجودہ اطلاق اور مستقبل میں ممکنہ جانشینی کے عمل کو واضح انداز میں بیان کریں گے۔
---
ولایتِ فقیہ کا مفہوم
"ولایتِ فقیہ" کا مطلب ہے کہ ایک عادل، پرہیزگار اور مجتہد فقیہ کو اس وقت مسلمانوں کی سیاسی اور دینی قیادت حاصل ہو جب امام مہدیؑ غیبت میں ہوں۔ یہ قیادت صرف فتویٰ دینے یا مذہبی امور تک محدود نہیں بلکہ ریاستی سطح پر مکمل اختیار رکھتی ہے۔
---
نظریاتی بنیاد
شیعہ عقیدہ کے مطابق امامت، اہل بیتؑ کا حق ہے۔ چونکہ بارہویں امام، امام مہدیؑ غیبت میں ہیں، اس لیے ان کی نیابت میں ایک جامع الشرائط فقیہ کو قیادت دی جاتی ہے۔ یہ فقیہ امام کی نمائندگی کرتا ہے اور اس کا فرض ہے کہ معاشرے کو دینی و سیاسی رہنمائی دے۔
---
امام خمینی اور ولایتِ فقیہ کا نفاذ
آیت اللہ روح اللہ خمینی نے اس نظریے کو سب سے زیادہ منظم انداز میں پیش کیا۔ انہوں نے فرمایا کہ فقیہ کو صرف مذہبی نہیں، بلکہ ریاستی اختیارات بھی حاصل ہونے چاہئیں۔ 1979ء میں ایران میں انقلاب آیا اور شاہی نظام کے خاتمے کے بعد اسلامی جمہوریہ ایران کی بنیاد رکھی گئی۔ تب سے ولایتِ فقیہ ایرانی نظام کا مرکز ہے۔
---
عملی اطلاق: ولی فقیہ کی حیثیت
ایران میں ولی فقیہ سب سے بالا ریاستی منصب ہے۔ وہ مسلح افواج کا سربراہ، عدلیہ، میڈیا، نگہبان کونسل، سرکاری تقرریوں، پالیسی سازی اور دیگر کلیدی شعبوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ موجودہ ولی فقیہ آیت اللہ سید علی خامنہ ای ہیں، جو 1989ء سے اس عہدے پر فائز ہیں۔
---
تنقید و حمایت
کچھ علما اور عوام اس نظام کو خالص اسلامی مانتے ہیں کیونکہ اس میں دین اور سیاست ایک ساتھ چلتے ہیں۔ تاہم کچھ دیگر شیعہ علما اور سیاسی تجزیہ نگار اسے "اقتدار کا ارتکاز" سمجھتے ہیں، اور ان کے خیال میں فقیہ کی حکمرانی صرف شرعی معاملات تک محدود ہونی چاہیے، ریاستی معاملات عوام کی منتخب قیادت کے سپرد ہونے چاہئیں۔
---
اگر آیت اللہ خامنہ ای کو شہید کر دیا جائے تو؟
اگر آیت اللہ علی خامنہ ای کو خدانخواستہ اسرائیل یا کسی اور دشمن کے ہاتھوں شہید کر دیا جاتا ہے تو آئینی طور پر ان کی جانشینی کا ایک منظم طریقہ موجود ہے۔
---
جانشینی کا طریقہ کار
ایران کا آئین (قانونِ اساسی) واضح کرتا ہے کہ ولی فقیہ کے انتقال یا معزولی کی صورت میں "مجلسِ خبرگانِ رہبری" (Assembly of Experts) نیا ولی فقیہ منتخب کرے گی۔
یہ مجلس 88 مجتہدین پر مشتمل ہوتی ہے جنہیں عوام براہِ راست انتخاب کے ذریعے منتخب کرتے ہیں۔
یہ علما ولی فقیہ کی اہلیت، تقویٰ، فقہی مہارت، سیاسی فہم اور عوامی مقبولیت کی بنیاد پر فیصلہ کرتے ہیں۔
یہ عمل خفیہ ہوتا ہے لیکن حتمی فیصلہ مجلسِ خبرگان کے اکثریتی ووٹ سے ہوتا ہے۔
---
ممکنہ جانشین کون ہو سکتا ہے؟
اگرچہ حتمی فیصلہ مجلسِ خبرگان کرے گی، لیکن کچھ اہم شخصیات جنہیں ممکنہ جانشین کے طور پر دیکھا جاتا ہے:
1. آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی
ایران کے موجودہ صدر اور عدلیہ کے سابق سربراہ، جنہیں "انقلابی فقیہ" سمجھا جاتا ہے۔
2. آیت اللہ صادق آملی لاریجانی
مجلسِ نگہبان کے سابق سربراہ، فلسفہ اور فقہ میں مہارت رکھتے ہیں۔
3. آیت اللہ کاظم صدیقی
تہران کے امام جمعہ، دینی حلقوں میں اثرورسوخ رکھتے ہیں۔
4. آیت اللہ محمد تقی مصباح یزدی (مرحوم) کے شاگردوں میں سے کوئی
انقلابی مکتب فکر کے سخت گیر نظریہ دانوں کے نمائندہ فقیہ۔
5. ایک "رہبری کونسل" (Leadership Council)
اگر کوئی واحد فقیہ کافی نہ سمجھا جائے تو آئینی طور پر تین یا زیادہ فقہا پر مشتمل ایک "نگران کونسل" بھی بنائی جا سکتی ہے جو عبوری طور پر ولی فقیہ کا کردار ادا کرے۔
---
ممکنہ اثرات
آیت اللہ خامنہ ای کی شہادت کی صورت میں:
ایران میں وقتی سیاسی خلاء پیدا ہو سکتا ہے۔
دشمنوں کو حوصلہ مل سکتا ہے، لیکن نظامِ ولایتِ فقیہ اس قدر مضبوط ہے کہ فوری متبادل لایا جا سکتا ہے۔
نئی قیادت کے مزاج پر منحصر ہے کہ ایران کی داخلہ و خارجہ پالیسی میں سختی آئے گی یا نرمی۔
---
نتیجہ
ولایتِ فقیہ ایران کے شیعہ نظام کا مرکز ہے، جو امام مہدیؑ کی غیر موجودگی میں دینی و سیاسی قیادت فراہم کرتا ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای کے بعد بھی یہ نظام باقی رہے گا، کیونکہ اس کی بنیاد فقہی، آئینی اور عوامی حمایت پر ہے۔ اس نظریے نے ایران کو مذہبی شناخت، خود مختاری اور علاقائی اثرورسوخ فراہم کیا ہے۔
۔اگلے مضمون میں یہ بات کریں گے کے کیا ایران میں پاکستان کی طرح امریکا یا کوئی اور ملک اب رجیم چینج کر سکتا ہے جیسا کے 1977 میں بھٹو کے بارے میں پاکستان سے امریکا کے سفیر نے لکھا تھا کے
Party is over۔
جس کا بہرحال بھٹو نے بھرپور جواب دیا پارلیمنٹ میں بھی اور پنڈی بازار میں بھی کہ پارٹی از ناٹ اوور۔