
Baloch Students organization
June 11, 2025 at 09:46 AM
شہید حمید بلوچ، قربانی اور جہدِ مسلسل
تحریر: صمند بلوچ ( سیکرٹری جنرل بی ایس او )
جب جون کی گیارہ تاریخ آتی ہے، تو بلوچستان کی ہوائیں ایک عجیب سی کہانی سناتی ہیں۔ یہ کہانی ہے شہید حمید بلوچ کی، ایک 22 سالہ جوان کی، جس نے اپنی زندگی بلوچ قوم کے وقار اور عزت کے لیے وقف کر دی۔ 1981ء کی اس رات، جب ماچ جیل کی دیواروں نے ان کی آخری سانسوں کی آہٹ سنی، بلوچ قوم نے اپنا ایک عظیم بیٹا کھو دیا۔ لیکن حمید بلوچ کی قربانی محض ایک موت نہیں تھی؛ یہ ایک ایسی آگ تھی جس نے بلوچستان کے نوجوانوں کے دلوں میں عزتِ نفس اور ہمت کا شعلہ جلا دیا۔ آج، جب میں ان کے بارے میں لکھتا ہوں، تو دل میں ایک عجیب سی بے چینی اور فخر کا احساس جاگتا ہے۔
حمید بلوچ 1959ء میں گوادر کے ایک سیاسی خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کا بچپن گوادر کے ساحلوں کے قریب گزرا، جہاں سمندر کی لہریں ہر روز ایک نئی کہانی سناتی تھیں۔ ان کے گھر میں سیاسی بحثیں کوئی نئی بات نہیں تھیں۔ ان کے والد اور خاندان کے بڑوں کی گفتگوؤں میں بلوچ قوم کے حقوق اور ان کی سرزمین کی عزت کا ذکر ہوتا تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ حمید کے دل میں بچپن سے ہی اپنی قوم کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ جاگ اٹھا۔ انہوں نے اپنی تعلیم گوادر کے گورنمنٹ ماڈل ہائی اسکول سے شروع کی۔ وہ ایک ذہین اور چوکس طالب علم تھے، لیکن ان کی نظریں کتابوں سے زیادہ اپنی قوم کے مسائل پر مرکوز تھیں۔ جب وہ تربت کے گورنمنٹ ڈگری کالج میں داخل ہوئے، تو ان کی زندگی نے ایک نیا رخ اختیار کیا۔ وہ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے رکن بنے، اور اس تنظیم نے ان کے جذبوں کو ایک نئی سمت دی۔
بی ایس او اس وقت بلوچستان کے نوجوانوں کی ایک مضبوط آواز تھی۔ یہ تنظیم بلوچ قوم کے حقوق کے لیے جدوجہد کرتی تھی اور طلبہ کو اپنی سرزمین کے مسائل سے آگاہ کرنے میں اہم کردار ادا کرتی تھی۔ حمید بلوچ نے اس تنظیم کے ساتھ اپنی جدوجہد کا آغاز کیا۔ وہ ایک عام کارکن سے بڑھ کر جلد ہی ایک رہنما بن گئے۔ ان کی تقریریں، ان کا جوش، اور ان کا اپنی قوم سے پیار ہر ایک کو متاثر کرتا تھا۔ ان کے دوست بتاتے ہیں کہ حمید کی شخصیت میں ایک عجیب سی کشش تھی۔ وہ سنجیدہ لمحات میں بھی لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیر دیتے تھے۔ ان کا مزاح، ان کی گرمجوشی، اور ان کا ہر ایک سے خلوص سے ملنا، انہیں سب کا پسندیدہ بناتا تھا۔ لیکن جب بات بلوچ قوم کی عزت کی آتی، تو ان کی آواز میں ایک ایسی شدت ہوتی کہ ہر سننے والا دنگ رہ جاتا۔
1970ء کی دہائی میں بلوچستان ایک مشکل دور سے گزر رہا تھا۔ عمان، جو کبھی گوادر کا مالک رہا تھا، اب بھی بلوچستان کے نوجوانوں پر اپنا اثر رکھنا چاہتا تھا۔ عمان اس وقت اپنے ظفار صوبے میں ایک بغاوت کا سامنا کر رہا تھا۔ اس بغاوت کو دبانے کے لیے عمان کی فوج کو مزید جوانوں کی ضرورت تھی، اور وہ بلوچستان کے غریب دیہاتوں سے نوجوانوں کو بھرتی کرنے کے لیے آتے تھے۔
عمان کا گوادر کے ساتھ تاریخی ربط تھا۔ 18ویں صدی سے 1958ء تک گوادر عمان کے قبضے میں رہا تھا، اور اس دوران عمان نے بلوچوں سے فوجی خدمات لیں۔ جب 1958ء میں گوادر پاکستان کے حوالے ہوا، تو عمان نے اپنی یہ پالیسی جاری رکھی۔ وہ بلوچ نوجوانوں کو پیسوں اور نوکریوں کا لالچ دے کر اپنی فوج میں شامل کرتے تھے۔ لیکن حمید بلوچ اور بی ایس او کے لیے یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ وہ سمجھتے تھے کہ بلوچ قوم کے نوجوان اپنی سرزمین کی عزت کے لیے لڑیں، نہ کہ کسی دوسرے ملک کی جنگوں میں قربان ہوں۔
حمید بلوچ نے عمان کی اس بھرتی کے خلاف ایک زوردار مہم شروع کی۔ وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ دیہاتوں اور شہروں میں گئے۔ انہوں نے لوگوں کو بتایا کہ یہ بھرتی بلوچ قوم کی عزت کے منافی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے وسائل اور اس کی زمین کی حفاظت ہمارے جوانوں کی ذمہ داری ہے، نہ کہ وہ عمان کی فوج کے لیے قربان ہوں۔ ان کی آواز میں ایک ایسی سچائی تھی کہ لوگ ان کی باتوں سے متاثر ہوتے تھے۔ وہ نوجوانوں کو سمجھاتے کہ ان کی طاقت بلوچستان کے لیے استعمال ہونی چاہیے۔ ان کی اس جدوجہد نے عمان کی بھرتی کے عمل کو ایک بڑا چیلنج دیا۔ لیکن یہ جدوجہد آسان نہیں تھی۔ اس وقت کی فوجی حکومت بلوچ قوم کی ہر آواز کو دبانے کے لیے تیار تھی۔ عمان کے ساتھ ان کے تعلقات بھی مضبوط تھے، اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ کوئی ان کی پالیسیوں کے خلاف بولے۔
9 دسمبر 1979ء کو تربت میں ایک واقعہ پیش آیا جو حمید بلوچ کی زندگی کا ایک اہم موڑ ثابت ہوا۔ عمان کا ایک فوجی افسر، کرنل خلفہ ناصر، بلوچ نوجوانوں کی بھرتی کے لیے کیمپ لگائے ہوئے تھا۔ اس دوران ایک گولی چلنے کی آواز سنی گئی، اور الزام لگایا گیا کہ اس سے ایک شخص، غلام رسول، ہلاک ہو گیا۔ حمید بلوچ کو اس واقعے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ لیکن یہ مقدمہ ایک جھوٹا ڈھونگ تھا۔ ان کے وکلاء نے بارہا ثابت کیا کہ غلام رسول نامی شخص زندہ تھا، اور اس الزام کی کوئی ٹھوس شہادت موجود نہیں تھی۔ اس کے باوجود، فوجی عدالت نے حمید کو موت کی سزا سنا دی۔
یہ مقدمہ اس بات کی واضح مثال تھا کہ فوجی عدالتیں سیاسی کارکنوں کو خاموش کرنے کے لیے استعمال ہوتی تھیں۔ بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس میر خدا بخش مری نے اس سزا کے خلاف آواز اٹھائی۔ انہوں نے ماچ جیل کے حکام کو حکم دیا کہ سزا پر عمل درآمد روک دیا جائے۔ لیکن 24 مارچ 1981ء کو پروویژنل کنسٹی ٹیوشنل آرڈر کے نافذ ہونے سے ہائی کورٹس کے اختیارات سلب کر لیے گئے۔ فوجی عدالتوں کے فیصلوں کو چیلنج کرنے کا کوئی راستہ نہیں رہا۔ اور پھر، 11 جون 1981ء کی رات، حمید بلوچ کو ماچ جیل میں پھانسی دے دی گئی۔
جب یہ خبر بلوچستان کے کونے کونے میں پھیلی، تو ایک گہرا صدمہ چھا گیا۔ لیکن یہ صدمہ جلد ہی ایک عظیم تحریک میں بدل گیا۔ حمید بلوچ کی قربانی نے بلوچ قوم کے نوجوانوں میں ایک نئی ہمت پیدا کی۔ انہوں نے اپنی جان دی، لیکن اپنی قوم کی عزت کے لیے اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹے۔ ان کی جدوجہد نے یہ ثابت کیا کہ ظلم کے سامنے جھکنا بلوچ قوم کی فطرت نہیں۔ ان کی شہادت نے بی ایس او کے کارکنوں کو مزید مضبوط کیا، اور ان کے نظریات آج بھی بلوچستان کے نوجوانوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔
حمید بلوچ کی زندگی ہر اس شخص کے لیے ایک سبق ہے جو اپنی قوم کی عزت کے لیے لڑنا چاہتا ہے۔ وہ ہمیں سکھاتے ہیں کہ ظلم کے سامنے خاموش رہنا کوئی حل نہیں۔ ان کا ہر عمل، ہر تقریر، ہر قدم ایک پیغام تھا کہ بلوچ قوم اپنے حقوق کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی۔ آج، جب ہم ان کی برسی مناتے ہیں، ہمارے دلوں میں ایک عہد ہے کہ ہم ان کے نظریات کو زندہ رکھیں گے۔ شہید حمید بلوچ کی قربانی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ اپنی سرزمین کی عزت کے لیے لڑنا کوئی آسان کام نہیں، لیکن یہ ہر بلوچ کی ذمہ داری ہے۔ دعا ہے کہ ان کا درجہ جنت میں بلند ہو، اور ان کی جدوجہد بلوچ قوم کے لیے ہمیشہ ایک مشعلِ راہ رہے۔

❤️
2