Mufti Ziya Ur Rahman Qureshi.
Mufti Ziya Ur Rahman Qureshi.
June 18, 2025 at 05:54 AM
*✦ نکاحِ ثانی کی ضرورت و اہمیت – ایک فکری، دینی اور معاشرتی جائزہ* *تمہید* آج کا مسلمان معاشرہ ایک نازک دور سے گزر رہا ہے۔ خاندانی نظام بکھرتا جا رہا ہے، معاشرتی بے راہ روی بڑھ رہی ہے، طلاق، بیوگی، خلع اور تنہائی عام ہو چکی ہے، لیکن ان مسائل کے اسلامی حل کو یا تو فراموش کر دیا گیا ہے یا سماجی دباؤ اور غیر اسلامی نظریات نے ان پر پردہ ڈال دیا ہے۔ انہی میں سے ایک نکاحِ ثانی ہے، جو شریعتِ مطہرہ کا نہایت سنجیدہ، مہذب اور بابرکت حل ہے، مگر بدقسمتی سے آج اسے مجرمانہ نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ *قرآن و سنت کی روشنی میں* اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا: *> "فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ ۖ"* ترجمہ: "تمہیں جو عورتیں پسند آئیں ان سے نکاح کرو، دو دو، تین تین، چار چار۔" (سورۃ النساء: 3) یہ آیت صراحت کے ساتھ تعددِ ازدواج (ایک سے زائد نکاح) کو جائز اور مشروع قرار دیتی ہے۔ نبی کریم ﷺ کے متعدد نکاح اس بات کا عملی نمونہ ہیں کہ نکاحِ ثانی نہ صرف جائز ہے، بلکہ سماجی مصلحتوں کے لیے مفید بھی ہے۔ *نکاحِ ثانی کی اہم معاشرتی ضرورتیں* *1. بیوہ و مطلقہ خواتین کے لیے سہارا* ہزاروں خواتین ایسی ہیں جو طلاق یا بیوگی کا شکار ہو کر تنہا زندگی گزار رہی ہیں۔ ان کے لیے نکاحِ ثانی ایک محفوظ، باوقار اور شرعی حل ہے۔ ورنہ وہ یا تو ظلم سہنے پر مجبور ہوتی ہیں یا معاشرتی برائیوں کا شکار۔ *2. جنسی بے راہ روی کا سدِ باب* آج معاشرے میں فحاشی، زنا، خفیہ تعلقات اور آن لائن گناہوں کی بھرمار ہے۔ ایک شخص اگر فطری تقاضوں کے تحت دوسرا نکاح کرتا ہے تو یہ اس کے اور کئی دوسروں کے لیے عفت، پاکیزگی اور تقویٰ کا راستہ فراہم کرتا ہے۔ *3. مرد کی قوت و ذمہ داری کا اعتراف* ہر مرد کی فطرت، صحت، جذبات اور حالات یکساں نہیں ہوتے۔ اگر کسی مرد میں جسمانی و مالی استطاعت ہو تو نکاحِ ثانی نہ صرف اس کی فطری ضرورت کا حل ہے بلکہ بعض اوقات ایک دینی فریضہ بھی بن جاتا ہے۔ *4. خاندانوں کا تحفظ* نکاحِ ثانی کے ذریعے بعض اوقات ایسے خاندان جو بکھرنے کے قریب ہوتے ہیں، دوبارہ جڑ جاتے ہیں۔ یتیم بچے نیا سہارا پاتے ہیں، عورت کو عزت و کفالت ملتی ہے، اور مرد بھی اپنی فطری و شرعی ذمہ داری پوری کرتا ہے۔ *نکاحِ ثانی پر اعتراضات اور ان کا جواب* *❖ اعتراض:* یہ پہلی بیوی پر ظلم ہے *جواب:* شریعت نے ہر بیوی کے ساتھ عدل کا حکم دیا ہے، اور اگر مرد عدل پر قادر ہے تو نکاحِ ثانی ظلم نہیں بلکہ ایک شرعی حق ہے۔ ظلم تب ہے جب پہلی بیوی کو ناحق چھوڑا جائے یا نان و نفقہ میں فرق کیا جائے۔ *❖ اعتراض:* معاشرہ کیا کہے گا؟ *جواب: معاشرہ اگر سنت اور شریعت پر انگلی اٹھائے تو مسئلہ معاشرے کا ہے شریعت کا نہیں۔ مسلمان کا معیار اللہ اور رسول ﷺ کی رضا ہونا چاہیے، نہ کہ معاشرتی دباؤ۔* *❖ اعتراض:* عورتیں تو برداشت نہیں کرتیں *جواب:* عورت کو برداشت نہ ہونا فطری ہے، لیکن شریعت نے صرف احساسات پر نہیں، عدل، تقویٰ اور مصلحت پر فیصلے رکھے ہیں۔ بہت سی عورتیں نکاحِ ثانی کو سمجھ کر نباہ کرتی ہیں اور ان کا عمل قابلِ تحسین ہوتا ہے۔ *کیا نکاحِ ثانی فرض یا لازم ہے؟* نہیں، نکاحِ ثانی کوئی فرض یا لازم نہیں، مگر بعض حالات میں یہ افضل، مفید اور باعثِ اجروثواب بن جاتا ہے، خاص طور پر اگر مقصد بیوہ یا مطلقہ کی مدد ہو، یا فتنہ و فساد سے بچاؤ۔ اسلام نے نکاح کو آسان، فطری اور پاکیزہ راستہ بنایا ہے۔ جہاں نکاحِ اول معاشرتی بنیاد ہے، وہیں نکاحِ ثانی ایک ایسا دروازہ ہے جو سماجی بگاڑ، جنسی بے راہ روی، بیواؤں کی بے کسی اور خاندانی تنہائی جیسے مسائل کا حل فراہم کرتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان معاشرہ اس شرعی حل کو قبول کرے، سنجیدہ بنائے اور عملی سطح پر نافذ کرے۔ نکاحِ ثانی کوئی عیب نہیں بلکہ عدل، ذمہ داری اور فہمِ دین کی علامت ہے۔ *"جو کام رسول اللہ ﷺ نے کیا ہو، اور شریعت نے جسے جائز رکھا ہو، وہ نہ گناہ ہے، نہ جرم — بلکہ عزت، اجر اور بصیرت کا نشان ہے۔"* ✍️... ابو عبید شکیل احمد مظاہری
👍 2

Comments