Etemad News
Etemad News
June 17, 2025 at 02:18 PM
*وعدہ صادق3۔۔۔ امید، انصاف اور اخلاق کا ایک نیا چراغ* *تحریر: ڈاکٹر نذر حافی* *اعتماد نیوز* https://whatsapp.com/channel/0029VanFZjs2ER6hj6ghlA2S غزہ کی سرزمین کسی مسیحا کی منتظر تھی، فلسطینی عوام بے بسی کا مجسمہ بنے ہوئے تھے اور عالمی برادری خواب غفلت میں مست تھی۔ گذشتہ ستتر سالوں سے زائد عرصہ بیت گیا، لیکن دنیا کی خاموشی اور اسرائیلی فوج کی وحشیانہ کارروائیوں میں کوئی فرق نہیں آیا۔ عالمی سطح پر انسانیت کے علمبردار ادارے بھی خاموش تماشائی بنے رہے۔ پاکستان و افغانستان کے نام نہاد اور انسان کُش جہادیوں نے اسرائیل کی طرف ایک پتھر بھی پھینکنے کے بجائے یہ واویلا مچائے رکھا کہ ایران کیوں فلسطینیوں کیلئے کچھ نہیں کر رہا۔ بعض نے تو کہا تھا کہ جس روز اسرائیل اور ایران نے ایک دوسرے پر حملے کئے، اُس روز ہماری قبر پر آکر پیشاب کر جانا! اب پتہ نہیں اُن کی اولاد کے ہاں وصیّت پر عمل کرنا واجب ہے یا نہیں۔؟ اگر واجب ہے تو پھر تو مذہبی آزادی کا تقاضا ہے کہ انہیں اپنے عقیدے کے مطابق وصیت پر عمل کرنے کی اجازت ہونی چاہیئے۔ بالآخرحالیہ ہفتے میں اسرائیل نے براہِ راست ایران پر حملہ کر دیا اور ایران نے بھی جوابی اقدام کرکے ساری دنیا کو چونکا دیا۔ فلسطینی عوام کی حالتِ زار کو عالمی سطح پر نظرانداز کرنے والوں نے جب یوں سرِعام اسرائیل کی دھجیاں اُڑتے دیکھیں تو انہیں اندازہ ہوا کہ کسی کے صبر کو کمزوری نہیں سمجھنا چاہیئے۔ کئی دہائیوں سے فلسطینی اپنے وطن کی آزادی کے لئے لڑ رہے ہیں، لیکن انہیں نہ تو کبھی عالمی برادری سے مدد ملی اور نہ ہی انصاف کی کوئی امید نظر آئی۔ جب غزہ میں اسرائیل نے 2023ء میں ایک بار پھر اپنی جارحیت کا آغاز کیا اور فلسطینیوں کے قتل عام کا سلسلہ شروع ہوا، تو دنیا کی بیشتر بڑی طاقتیں اور اسلامی قوتیں خاموش تماشائی بن کر رہ گئیں۔ ایسے میں فقط ایران نے مظلوم فلسطینی عوام کی حمایت کو اپنی دینی و اخلاقی ذمہ داری سمجھا۔ ایران کے حالیہ دفاعی حملوں سے اقوامِ متحدہ کو بھی یہ پیغام مل گیا ہے کہ اگر عالمی طاقتیں اپنی قانونی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں ناکام رہیں گی، تو غیور اقوام اپنی حفاظت کے لئے خود اٹھ کھڑی ہونگی۔ انصاف کا اصول یہی ہے کہ جو ہم اپنے لئے پسند کرتے ہیں، وہی دوسروں کے لئے بھی کریں۔ اس لئے دنیا کی تمام اقوام کو فلسطینیوں کیلئے بھی وہی پسند کرنا ہوگا، جو وہ اپنے لئے پسند کرتی ہیں۔ اسرائیل پر ایران کا جوابی حملہ محض ایک فوجی ردعمل نہیں بلکہ ایک اخلاقی قدم اور فرض شناسی کا تقاضا ہے۔ ایران نے ثابت کیا ہے کہ طاقت کا استعمال ہمیشہ عدل و انصاف کی بنیاد پر کیا جانا چاہیئے۔ ایران نے فلسطینیوں کے حقوق کی حفاظت کیلئے اپنے دفاعی حق کو ایک اعلیٰ اخلاقی جواز کے طور پر استعمال کیا ہے۔ اسلامی انقلاب کے بعد ایران جو کچھ کہتا چلا آرہا ہے، اس جنگ میں ایران نے ایک مرتبہ پھر اُسے حرف بحرف درست ثابت کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی ثابت ہوگیا ہے کہ عالمی برادری کی خاموشی اگر ظالموں کی مددگار ہو تو پھر ایک دوسرے کی حفاظت کرنا ہر ایک کی ذمہ داری ہے۔ ایران کی دفاعی کارروائی کو عالمی سطح پر سراہا گیا ہے اور عالمی برادری نے بالاخر تسلیم کیا ہے کہ جب تک انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوں گے، تب تک ظلم کے خلاف اٹھنا ضروری ہے۔ ایران نے اپنے بھرپور صبر کے بعد یہ منوا لیا ہے کہ طاقت کا استعمال ہمیشہ اخلاقی جواز کے تحت کیا جانا چاہیئے۔ دنیا کی عسکری تاریخ میں ایران کا "وعدہ صادق3 آپریشن" ایک اخلاقی فتح کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ دنیا بھر میں صرف ایران نے ہی عالمی برادری سے تسلیم کروایا ہے کہ ظلم کے خلاف اٹھنا ایک دینی، انسانی اور اخلاقی ذمہ داری ہے، نہ کہ محض ایک فوجی ضرورت۔ میدانِ جنگ میں حقیقی فتح کا معیار تباہی پھلانا یا خونریزی نہیں بلکہ یہ ہے کہ آپ انسانی و اخلاقی اقدار کیلئے لڑے ہیں یا کہ اپنے مالی و اقتصادی مفادات کیلئے۔ اسرائیل کے مقابلے میں ایران کی فتوحات کی ایک لمبی فہرست ہے اور یہ فتوحات صرف سیاسی یا عسکری سطح پر نہیں بلکہ انسانی اقدار، اخلاقی اصولوں اور مقبولیت کے نئے ابواب پر مشتمل ہیں۔ ایران اور اسرائیل کے درمیان کشمکش صرف زمین یا طاقت کے لیے نہیں، بلکہ یہ درحقیقت ایک نظریاتی جنگ ہے، جس میں اصول، اقدار اور حق پرستی کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ اسلامی انقلاب کے بعد ایران نے اپنے آپ کو اسرائیل کے سامنے ایک نظریاتی اور اخلاقی چیلنج کے طور پر پیش کیا ہے۔ فلسطینیوں کے حقوق کا دفاع اور اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کے خلاف ایران کا جرات مندانہ آواز بلند کرنا، دراصل ایک گہری اخلاقی جیت اور برتری ہے۔ اسرائیل پر جوابی حملہ کرکے ایران نے جہاں خود کو فلسطینی عوام کا حامی ثابت کیا، وہیں اُس نے عالمی سطح پر اس حقیقت کو عیاں کیا کہ جو قوتیں اپنے آپ کو انصاف، آزادی اور خود مختاری کی علامت سمجھتی ہیں، وہ کبھی نہیں جھک سکتیں، چاہے طاقتور ترین دشمن ہی سامنے کھڑا ہو۔ ایران نے کبھی بھی اپنی فوجی طاقت کا استعمال محض تسلط یا طاقت کے اظہار کے لیے نہیں کیا، بلکہ یہ اس کا ایک ذریعہ تھا، تاکہ وہ اپنے اصولوں کا دفاع کرسکے اور اسرائیل کو یہ باور کرا سکے کہ فوجی طاقت کا استعمال انسانیت کے مفاد میں ہونا چاہیئے، نہ کہ محض زمین یا سیاسی مفادات کے لیے۔ ایران کی میزائل ٹیکنالوجی اور دفاعی حکمت عملی سے یہ واضح ہوگیا ہے کہ ایران کا ردِّعمل محض انتقامی کارروائی نہیں، بلکہ یہ اسرائیل کے جنگی جرائم کو بے نقاب کرنے کیلئے ضروری قدم تھا۔ اسرائیل کے خلاف ایران کی اخلاقی فتح میں ایک اور اہم پہلو اس کی عالمی سطح پر سفارتی برتری ہے۔ جب دنیا کی بڑی طاقتیں اسرائیل کی جارحیت کے خلاف خاموشی اختیار کر رہی تھیں، ایران نے فلسطینیوں کے حقوق کے دفاع میں ایک مستقل سفارتی موقف اختیار کیا۔ ایران کا یہ موقف نہ صرف سیاسی تھا، بلکہ اس میں انسانی اقدار کا تحفظ اور انصاف کا تقاضا چھپا ہوا تھا۔ ایران کی اس سفارتی فتح نے اس کی شناخت کو عالمی سطح پر ایک بے مثال قوت میں تبدیل کر دیا ہے، رائے عامہ تیزی سے ایران کے حق میں تبدیل ہوئی ہے اور دنیا نے ایران کی اخلاقی طاقت کو تسلیم کیا ہے۔ ایران کی اسٹریٹجک فتح میں ایک اہم حقیقت یہ بھی ہے کہ اس نے متعدد محاذوں پر خطے میں اپنے اتحادیوں کے ذریعے اسرائیل کو نہ صرف عسکری، بلکہ سیاسی محاذ پر بھی چیلنج کیا۔ اس نے یمن، لبنان، عراق اور شام میں اپنے اثرات کو مستحکم کیا اور اسرائیل کو ایک گہرے اور پیچیدہ جال میں پھنسائے رکھا۔ ایران کی سفارتی و اخلاقی جیت کو اس لئے بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا، چونکہ ایران نے عالمی طاقتوں کے ساتھ اپنے جوہری مذاکرات میں ہمیشہ پیشرفت اور کامیابی حاصل کی اور اپنے جوہری پروگرام کو "امن پسند پروگرام" کے طور پر پیش کیا۔ اس سفارتی و اخلاقی فتح میں ایران اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ اسرائیل نے امریکہ و ایران کے مابین ہونے والے مذاکرات سے پہلے ایران پر حملہ کرکے سفارتی اخلاق کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے اپنے اخلاقی دیوالیہ پن کا کھلا مظاہرہ کیا، جبکہ ایران نے کمالِ متانت اور صبر و حکمت کے ساتھ اسرائیلی جارحیت کا جواب دے کر نہ صرف اپنی عظمت اور مہارت کو ثابت کیا بلکہ دنیا بھر کے منصف مزاج انسانوں کے دلوں میں امید، انصاف اور اخلاق کا ایک نیا چراغ بھی روشن کر دیا۔
Image from Etemad News: *وعدہ صادق3۔۔۔ امید، انصاف اور اخلاق کا ایک نیا چراغ*  *تحریر: ڈاکٹر ن...
👍 ❤️ 😂 🙏 16

Comments