
⚔️ISLAMIC🌍CHANEL⚔️
June 19, 2025 at 01:33 PM
بے ہوشی کی دوا نہیں، امداد نہیں، رحم نہیں — غزہ کے تباہ حال طبی نظام میں میری ماں کی حیثیت سے اذیت ناک جدوجہد
تحریر: نور داوود
اشاعت: 18 جون 2025 | ادارہ: قدس نیوز نیٹ ورک
پچھلے ہفتے میرے بیٹے خالد کی انگلی کٹ گئی اور اُسے فوری ٹانکوں کی ضرورت تھی۔ میں نے اُس کے چھوٹے ہاتھ کو ایک صاف کپڑے میں لپیٹا اور اُسے اٹھائے غزہ شہر کی تباہ حال سڑکوں پر اسپتال کی تلاش میں نکل پڑی۔ ہمارا پہلا ٹھکانہ الشفاء اسپتال تھا۔
شفاء اسپتال موت، خون اور چیخ و پکار کا منظر پیش کر رہا تھا۔ ایمرجنسی وارڈ زخمیوں سے بھرا ہوا تھا۔ لاشیں فرش پر پڑی تھیں، کچھ نیم جان، کچھ بالکل بے حس و حرکت۔ اس شور میں میری آواز گم ہو گئی جب میں ایک نرس کو آواز دے کر مدد مانگ رہی تھی۔
کوئی میری فریاد سننے والا نہ تھا۔ میں تقریباً دو گھنٹے وہاں انتظار کرتی رہی کہ شاید کوئی مدد کو آئے، مگر سب بے سود۔ آخرکار ایک نرس نے بے بسی سے کہا:
"یہاں سینکڑوں زخمی پڑے ہیں۔ اسرائیلی بمباری رکی نہیں۔ ہم اُنہیں بچا رہے ہیں جن کی جان یا عضو خطرے میں ہیں۔"
مایوسی کے عالم میں میں خالد کو لے کر الرنتیسی اسپتال پہنچی۔ وہاں ایک تھکے ہارے پیرا میڈک نے کہا:
"ہمارے پاس ٹانکے لگانے کا سامان نہیں۔ بپتِسٹ اسپتال چلی جائیں، شاید وہاں ہو۔"
خالد کی حالت بگڑ رہی تھی، خون میرے اور اُس کے کپڑوں میں رچ چکا تھا۔ بپتِسٹ اسپتال پہنچنے میں مجھے دو گھنٹے لگے — آدھا راستہ پیدل اور باقی گدھا گاڑی پر۔ وہاں بھی حال مختلف نہ تھا۔ اسپتال کا عملہ تھکاوٹ سے چور تھا، نرس نے کہا:
"اینٹی بایوٹک نہیں، بے ہوشی کی دوا نہیں۔ صرف دھاگا ہے زخم سینے کے لیے۔ معذرت بہن۔"
تب تک کپڑا خون میں پوری طرح بھیگ چکا تھا۔ خالد نے میرا کندھا تھاما ہوا تھا، اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ میں نے آسمان کی طرف دیکھا — ایک اور اسرائیلی حملے کے بعد دھوئیں کا ایک بادل اُٹھ رہا تھا۔
میرے آنسو خشک ہو چکے تھے، کیونکہ آس پاس کی مائیں اپنے بیٹوں کی لاشیں تھامے بیٹھی تھیں۔ میں نے اپنے درد کو ضبط کیا جب نرس نے بغیر بے ہوشی کے خالد کی انگلی پر ٹانکے لگائے، اور وہ تکلیف سے چیخ اٹھا۔
---
خاموشی میں ڈوبی غزہ کی اذیت
بپتِسٹ اسپتال کی نرس نوران محمد نے میرے ساتھ وہاں کے حالات کا دردناک نقشہ کھینچا۔ اُن کے مطابق، اسرائیلی حملوں کے ابتدائی مہینوں سے ہی ڈاکٹرز صرف اُن مریضوں کو دیکھ رہے ہیں جن کی حالت نازک ترین ہو۔
"ایسے دن آتے ہیں جب ہمارے پاس دس زخمی ہوتے ہیں، لیکن صرف ایک کے علاج کا سامان ہوتا ہے،" انہوں نے کہا۔
"ہم سب سے زیادہ نازک حالت والے کو چنتے ہیں۔ باقی… خاموشی سے اذیت سہتے رہتے ہیں۔ بعض اوقات ہم آپریشن بھی بے ہوشی کے بغیر کرتے ہیں۔"
غزہ پر اسرائیلی محاصرے، طبی امداد پر پابندی اور بار بار اسپتالوں پر حملوں نے پورے طبی نظام کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ نرس کے مطابق:
"ہمارے پاس نہ ماہر ڈاکٹر ہیں، نہ مشینیں، نہ ادویات۔ مریض انتظار میں جان دے دیتے ہیں — خاموشی سے، درد میں، بغیر کسی کو خبر ہوئے۔"
---
طبی نظام کی تباہی: اسرائیلی حملوں کی ٹائم لائن
اکتوبر 2023 سے اسرائیل نے غزہ کے درجنوں اسپتالوں کو نشانہ بنایا:
17 اکتوبر 2023: الاحلی اسپتال کے پارکنگ ایریا میں حملہ، سیکڑوں فلسطینی شہید۔
3 نومبر 2023: الشفاء اسپتال کے باہر ایمبولینسوں پر حملہ۔
21 نومبر 2023: العودہ اسپتال پر بمباری، ڈاکٹر محمود ابو نجیلہ اور دیگر شہید۔
22 جنوری 2024: خان یونس میں ناصر اسپتال کے قریب پناہ گزینوں پر حملہ۔
20 مارچ 2024: الشفاء اسپتال پر حملے میں 90 افراد جاں بحق۔
31 مارچ 2024: دیر البلح میں الاقصیٰ اسپتال کے باہر حملہ۔
1 اپریل 2024: الشفاء اسپتال کا 14 روزہ محاصرہ، سیکڑوں شہید و گرفتار۔
14 اکتوبر 2024: الاقصیٰ اسپتال پر حملہ، خیمے جل کر خاک۔
28 دسمبر 2024: ڈاکٹر حسام ابو صفیہ گرفتار، 20 فلسطینی شہید۔
نومبر 2023: انڈونیشیا اسپتال پر محاصرہ و تباہی۔
4 جنوری 2025: انڈونیشیا اسپتال مکمل طور پر بند۔
23 مارچ 2025: رفح میں فلسطینی ریڈ کریسنٹ کے 15 رضاکار شہید۔
---
غزہ میں طبی بحران: اعداد و شمار
اقوامِ متحدہ اور عالمی ادارہ صحت کے مطابق:
38 میں سے 22 اسپتال بند ہو چکے ہیں
157 میں سے صرف 61 بنیادی مراکز جزوی طور پر فعال
دل کے آپریشنز کے لیے 100% کمی
آنکھ، ہڈی اور اعصابی سرجری کی شدید قلت
دواؤں میں 47% کمی
طبی سازوسامان میں 65% سے زائد کمی
آپریٹنگ تھیٹرز، وینٹی لیٹرز اور انکیوبیٹرز بند
صیہونی حملوں کے نتیجے میں:
720 طبی مراکز پر حملے
186 ایمبولینسوں کو نشانہ بنایا گیا
1,581 طبی عملہ شہید
360 طبی ٹیموں کو اغوا کیا گیا
917 افراد اسپتالوں کے اندر شہید
70 مریض اسپتالوں سے اغوا کیے گئے
---
اختتامیہ: جب دنیا خاموش ہو جائے
عالمی ادارہ صحت کے نمائندے رچرڈ پیپرکورن نے 18 جون کو اقوام متحدہ کے اجلاس میں خبردار کیا:
"ایران اور اسرائیل کی کشیدگی پر دنیا کی توجہ ہے، لیکن غزہ بدستور خون میں ڈوبا ہے۔"
"طبی نظام آخری سانسیں لے رہا ہے۔ فیول اور سامان ختم ہو رہا ہے، اسپتال بند ہو رہے ہیں، اور ہزاروں افراد کو ایمرجنسی انخلاء کی ضرورت ہے۔"
