Asif Mahmood
June 19, 2025 at 04:40 AM
بھرپور سیاسی قوت ہونے کے باوجود تحریک انصاف ہر جگہ ، ہر معاملہ میں غیر متعلق ہوتی جا رہی ہے۔ سیاسی قیادت کی بے بصیرتی کی اس سے بد ترین صورت شائد ہی کوئی ہو۔ ایک عرصے سے میرے جیسے لوگ لکھ رہے تھے اور گالیاں کھا رہے تھے کہ تحریک انصاف کا رویہ ایک سیاسی جماعت جیسا نہیں رہے گا تو یہ اندھی کھائی میں جا گرے گی۔ تحریک انصاف ایک اچھی سیاسی جماعت تھی مگر یہ ایک پاپولر فاشسٹ گروہ میں بدل گئی ۔ اسے کسی بھی جگہ کسی بھی شکل میں اپنے قائد کے سوا کوئی اور گوارا نہیں۔ اس کا انداز بھی غیر سیاسی تھا۔ سیاست میں مسائل آتے ہیں مگر وہ جیسے ھی ہوں ان کا حل سیاسی ہی ہوتا ہے۔ تحریک انصاف نے مگر پاپولر کلٹ کو ریاست کی کنپٹی پر رکھ کر اسے بلیک میل کرنا چاہے اس کا انجام یہی ہونا تھا جو اب دیکھ رہی ہے۔ ہر روز احتجاج ، روز نیا تماشا ، معیشت اس بے ہودگی کی متحمل نہین ہو سکتی تھی۔ میں نے کم از کم سات کالم لکھے کہ اگر بات تحریک انصاف بمقابلہ حکومت کی بجائے تحریک انصاف بمقابلہ معیشت بن گئی تو اس جماعت کا آملیٹ بن جائے گا کیونکہ ریاست کا کوئی داماد نہیں ہوتا ۔ تحریک انصاف کے سر پر جنون اور وحشت سوار تھی۔ شاید اس کا خیال تھا یہ مقبول بہت ہے، شاید اس کا خیال تھا ہائوس آف گولڈ سمتھ کی چھتری تلے دھوپ کی کیا مجال اسے چھو لے ، جو بھی تھا ، اس کا غرور حد سے بڑھ چکا تھا۔ یہ اپنے سرپرستوں کی اندھی طاقت کے زعم میں ریاست کو مذاق سمجھ رہی تھی۔ ہر روز احتجاج ، ہر اہم موقع پر احتجاج ، چودہ اگست کو احتجاج ، 16 دسمبر کو احتجاج ، ہر چیز کا تمسخر ، سیاست کا تمسخر ، شہدا کا تمسخر ، شہدا کی یاداروں کا تمسخر۔ کبھی سانحٓہ مشرقی پاکستان دہرا دینے کی دھمکیاں ، کبھی پاکستان کے وجود پر سوال۔ سیاسی بصیرت سے محروم سوشل میڈیا کے یہ ان گائیڈڈ میزائل سماجی علوم سے نا آشنا تھے۔ لیڈر کا مبلغ علم بھی کرکٹ تک محدود تھا۔ یہ سماج سے کٹا ہوا ایک ّ ہیروٗ تھا۔ واجبی سے کچھ کم مگر رعونت یہ کہ دنیا کے ہر معاملے کو میں دنیا بھر سے بہتر جانتا ہوں۔ یہ اس بنیادی چیز کو نہ سمجھ سکے کہ بد زبانی اور ہیجان کبھی کبھار تو چل سکتا ہے لیکن ہمیشہ نہیں چل سکتا۔ معاشرہ اس سے بے زار ہو جاتا ہے ۔ ایک وقت آتا ہے پھر جواب آں غزل آتا ہے ۔ وہ بڑا تکلیف دہ ہوتا ہے۔ بد زبانوں کا ایک لشکر تھا جس نے اس جماعت کے بیانیے کو ہائی جیک کر لیا۔ لونڈوں لپاٹوں نے یو ٹیوب پر ڈالر چھاپے اور ان کے کارکنان کو احمق بنایا۔ کالم نگاروں نے ان کی مقبولیت پر کالم فروشی کی۔ بعض دوست مجھے سمجھاتے رہے کہ یہ پاپولر جماعت ہپےا س کے خلاف نہ لکھا کرو ریٹنگ لینی ہے تو اس کے حق مین لکھو۔ آئے روز شہر بند ، آئے روز احتجاج ، آئے روز اسلام آباد میں عذاب۔ چنی صدر آئے احتجاج ، سعودی ولی عہد آئے تو احتجاج ، کوئی اہم کانفرنس ہونے لگے تو احتجاج ۔ آئی ایم ایف کو خطوط ۔ ملک پر معاشی یلغار۔ اوورسیز کو خطوط کہ پاکستان پیسے نہ بھیجو۔ حمااقت اور خباثت کی طویل داستان ہے۔ دہرانے کی ضرورت نہیں۔ ریاست تماشا نہیں ہوتی۔ اور پاکستان تو ایک ایٹمی ریاست تھی ۔ یہ کسی پراکسی کے ہاتھوں یوں جھک جائے گی ایسا کوئی احمق ہی سوچ سکتا ہے۔ ایک وقت آیا ریاست نکو نک ہو گئی۔ سارے سہولت کار اگلوں نے وہاں بھیجے کہ موسموں نے بھی پکار پکار کر کہا : گڈ ٹو سی یو۔ رعونتوں کا یہ عالم تھا کہ دانش ور بھی گرہیں لگاتے تھے آنےوالا دس سال کے لیے آیا ہے۔ تب کہتے تھے کون سا آئین ، اب چلاتے ہیں اوئی اماں جی آئین آئین۔ شروع میں نخرے اٹھائے گئے انہیں بلایا جاتا رہا فلاں اہم تقریب ہے پلیز آ جائیے ۔ فلاں سیشن ہے تشریف لائیے۔ یہ ہاتھ نچا کر ادا سے بل کھا کر کہتے جائو بھاڑ میں جائو میں نہیں آتی۔ اب اس کے بغیر رہنا سیکھ لیا گیا ہے۔ اب بھارت کے حملے کے بعد سیشن میں یہ نہ آئے تو کوئی کمی محسوس نہین ہوتی۔ اب بیرون ملک وفد بھیجے جاتے ہین تو اسے نظر اندازکر دیا جاتا ہے۔ ان کی بد تمیزیاں ان کی گالم گلوچ ان کے یو ٹیوبرز کی بکواس ، ان کا شوروغل اب معمول سمجھ لیا گیا ہے۔ یہ بد زبانی اب پاکستان کا نیو نارمل ہے۔ ان کا اب عمومی تعارف ہی اشتعال انگیز رویہ بن چکا ہے۔ ایک سیاسی جماعت کے لیے اس سے بڑا المیہ کیا ہو سکتا ہے۔ اور تو اور ، قیامت تو یہ گزری کہ جس ٹرمپ پر ان کے مان تھے وہ ٹرمپ بھی اب حافظ جی کی تعریفیں کر رہا ہے۔ تحریک انصاف کہاں ہے؟ کیا اب اپنے آگ میں جلتے کڑھتے رہنا اور بیٹھ کر دوسروں کو گالیاں دینا ہی اس کا مقدر رہ گیا ہے۔ سیاسی بد بصیرتی کا یہی انجام ہوتا ہے۔ مشکل جیسی بھی ہوحل سیاست سے ہی نکلتا ہے۔ کوئی جتھہ کوئی کلٹ کئی گروہ سمجھتا ہے کہ ریاست کو تماشا بنا لے گا تو یہ ممکن نہیں۔ نہ یہ 1971 ہے نہ کوئی پاٹے خان اب شیخ مجیب بن سکتا ہے۔ عقل آ جائے اور بات پلے پڑ جائے تو بڑی بات ہے لیکن کسی کو مزید تسلی کرانی ہو کرالے۔ ۔۔۔۔۔۔ آصف محمود
👍 ❤️ 😂 52

Comments