الفلاح اسلامک چینل(1)
June 17, 2025 at 01:22 PM
*اسرائیلی حملہ اور ایرانی ناکامیاں!* جمعة المبارک کی صبح، مشرقِ وسطیٰ کی فضائیں گواہ بنیں ایک ایسے واقعے کی، جس نے پورے خطے کی تزویراتی حرکیات کو ہلا کر رکھ دیا۔ اسرائیل نے نہ صرف ایران کے خلاف ایک وسیع فضائی حملہ کیا، بلکہ اس حملے سے قبل موساد کی طرف سے ایران کے اندر خفیہ طور پر مسلح خودکش ڈرونز کی ذخیرہ اندوزی، کمانڈو کارروائیاں اور ہدفی معلومات کے طویل المدتی جمع و ترتیب نے اس جنگی کارروائی کو محض ایک وقتی ردعمل کے بجائے مکمل عسکری منصوبہ بندی کی عکاس بنا دیا۔ یہ حملہ محض عسکری نوعیت کا نہیں تھا، بلکہ اس کے پیچھے چھپی ہوئی سیاسی، نظریاتی اور جغرافیائی جہتیں نہایت خطرناک ہیں۔ *الفلاح واٹس ایپ چینل لینک*👇👇👇👇👇👇 *`https://whatsapp.com/channel/0029VaB6oVjAzNbyq3E8150n`* اسرائیل کی یہ حکمتِ عملی، جس میں اُس نے ایران کی خودمختاری کو اندر سے زک پہنچائی، نہ صرف عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے بلکہ خطے میں ریاستی سلامتی کے روایتی اصولوں کو بھی چیلنج کرتی ہے۔ اسرائیلی اخبار ہآرتس کے مطابق، اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسی "موساد" نے کئی سالوں پر محیط منصوبہ بندی کے ذریعے ایران کے اندر ایسے خودکش ڈرونز ذخیرہ کیے، جو اس حملے میں استعمال ہوئے۔ اس کے علاوہ، ایران کے وسطی علاقوں میں خفیہ کمانڈو کارروائیوں کے ذریعے دفاعی نظام کو پہلے ہی غیر مؤثر بنایا گیا۔ اس عمل نے ایک خطرناک مثال قائم کی ہے: دشمن ملک کے اندر طویل مدتی خفیہ عسکری اڈوں کا قیام، جسے نہ تو عالمی برادری نے محسوس کیا، نہ کسی بین الاقوامی ادارے نے روکا۔ یہ ایک واضح پیغام ہے کہ "پری ایمپٹیو اسٹرائیک" (پیشگی حملہ) کے نام پر طاقتور ریاستیں اب کسی بھی اصول، اخلاقیات یا سرحدوں کی پابند نہیں رہیں۔ اس حملے میں جہاں جنرل حسین سلامی، محمد باقری اور دیگر اعلیٰ فوجی عہدیداران نشانہ بنے، وہیں ایرانی جوہری پروگرام سے وابستہ کم از کم چھ نامور سائنسدان بھی جاں بحق ہوئے۔ یہ کارروائی صرف تنصیبات پر حملہ نہ تھی، بلکہ یہ ایران کی عسکری ریڑھ کی ہڈی کو توڑنے اور اس کے جوہری پروگرام کی پیش رفت کو نابود کرنے کی کھلی کوشش تھی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے: کیا اسرائیل نے اس حملے کے ذریعے ایک غیر اعلان شدہ جنگ کا آغاز کیا ہے؟ اور اگر ہاں، تو عالمی طاقتوں کی خاموشی کس بات کی علامت ہے؟ اس واقعے پر اگرچہ ایران نے باضابطہ ردعمل دیا اور نئی عسکری قیادت کا اعلان کیا، مگر اسلامی دنیا کی مجموعی خاموشی ایک ناقابلِ برداشت حقیقت بن کر ابھری ہے۔ جب بیت المقدس بند ہوتا ہے اور تہران پر بم برستے ہیں، تو عالمی مسلم قیادتوں کی مصلحت آمیز خاموشی ایک اجتماعی بے حسی کی علامت بن جاتی ہے۔ کیا ہم اب اتنے منتشر ہو چکے ہیں کہ کسی مسلم ملک کی خودمختاری پر حملہ بھی ہمیں بیدار نہیں کر سکتا؟ ایران کی طرف سے تاحال مکمل فوجی ردعمل سامنے نہیں آیا، لیکن اس حملے کا منطقی نتیجہ یہ ہو سکتا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ ایک کھلی جنگ کی جانب بڑھنے لگے۔ اسرائیل کی جارحیت اور ایران کا ممکنہ جوابی حملہ، نہ صرف لبنان، شام اور عراق کو لپیٹ میں لے سکتا ہے بلکہ خلیج فارس کی اقتصادی شہ رگ آبنائے ہرمز بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ اگر یہ آگ پھیلتی ہے تو نہ صرف تیل کی عالمی قیمتیں آسمان کو چھوئیں گی بلکہ لاکھوں جانیں اور پورا خطہ، جنگ کے شعلوں میں جھلس سکتا ہے۔ ایران پر اسرائیلی حملہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔ یہ وہ گھڑی ہے جب امت مسلمہ کو محض مظلومیت کے نوحے پڑھنے کے بجائے، ایک فعال حکمتِ عملی ترتیب دینا ہوگی۔ سیاسی، عسکری، اور سفارتی محاذوں پر اسلامی اتحاد کی فوری ضرورت ہے، ورنہ ایک ایک کر کے سب کی باری آئے گی۔ اس وسیع اسرائیلی حملے نے جہاں خطے کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگا دیئے ہیں، وہیں ایران کی اندرونی دفاعی صلاحیت، انٹیلی جنس نظام اور تزویراتی بیداری پر بھی کئی سوالات کھڑے کر دیئے ہیں۔ سب سے پہلی اور نمایاں کمزوری ایرانی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی شدید ناکامی ہے۔ اگر موساد نے ایران کے وسطی علاقوں میں خفیہ ڈرونز ذخیرہ کیے، کمانڈو تعینات کیے اور دفاعی نظام کے قرب میں اسلحہ نصب کیا تو یہ ایران کے انٹیلی جنس نظام کے لیے ایک ناکامی ہے۔ ایک ایسا ملک جو خود کو خطے کی واحد "اینٹی اسرائیل طاقت" کہتا ہے، اگر اس کی سرزمین میں سالوں تک دشمن کے ایجنٹس بغیر گرفتاری کے سرگرم رہے، تو یہ کسی حادثاتی غفلت کا نہیں، بلکہ نظامی خلل اور خود فریبی کا نتیجہ ہے۔ ایرانی دفاعی نظام، خصوصاً میزائل ڈیفنس اور ریڈار ٹریکنگ، نے اسرائیلی فضائی حملے کو روکنے میں کوئی مؤثر کردار ادا نہ کیا۔ جدید ڈرون وارفیئر اور سائبر وار کے خلاف ایران کی تیاری غیر تسلی بخش نظر آئی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ایران نے اکثر اپنے دفاعی میزائل سسٹمز کی تشہیر تو کی، لیکن وقتِ امتحان میں یہ نظام غیر فعال ثابت ہوئے۔ ایران نے حالیہ برسوں میں یمن، شام، عراق اور لبنان میں اثر و نفوذ قائم رکھنے پر توجہ دی، مگر اس نے خلیجی عرب ریاستوں سے تعلقات کی بہتری میں سنجیدگی نہ دکھائی۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جب اسرائیل نے حملہ کیا تو نہ کسی ہمسایہ مسلم ملک سے آواز اٹھی، نہ کسی سفارتی اتحاد نے ایران کے دفاع میں قدم بڑھایا۔ یہ سفارتی تنہائی ایران کی اس "انقلابی خارجہ پالیسی" کا شاخسانہ ہے جو داخلی مفادات سے زیادہ نظریاتی محاذ آرائی پر مرکوز رہی۔ اس کے ساتھ ایران حالیہ مہینوں میں داخلی مظاہروں، معاشی بحران اور نوجوان طبقے میں بے اطمینانی کا سامنا کر رہا ہے۔ ایسی صورت میں قومی یکجہتی کمزور پڑتی ہے، اور ریاست کے دفاعی و انٹیلی جنس ادارے سیاسی بے یقینی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ دشمن نے شاید اسی لمحۂ کمزوری کو پہچانا اور چوٹ کر دی۔ یہ سچ ہے کہ اسرائیل نے ایک منظم، پیچیدہ اور گہرائی میں اتر کر کارروائی کی، مگر یہ بھی سچ ہے کہ ایران خود اس حملے کے لیے کئی پہلوؤں سے تیار نہ تھا۔ داخلی کمزوریاں، انٹیلی جنس فیلئر، سفارتی تنہائی اور تکنیکی غرور، یہ سب اس ہزیمت کے اسباب میں شامل ہیں۔ اگر ایران واقعی ایک "مزاحمتی ماڈل" کی علامت بننا چاہتا ہے تو اسے جذباتی نعروں سے نکل کر جدید تزویراتی اصولوں، علاقائی سفارت کاری اور اندرونی اصلاحات کی راہ اپنانی ہوگی، ورنہ اگلا وار شاید اور بھی کاری ہو۔ شکریہ ضیاء چترالی *الفلاح واٹس ایپ چینل لینک*👇👇👇👇👇👇 *`https://whatsapp.com/channel/0029VaB6oVjAzNbyq3E8150n`*

Comments