علم و کتاب
علم و کتاب
June 1, 2025 at 03:07 PM
*سچی باتیں (11؍جولائی 1935ء)۔۔۔ لباس کا اہتمام* *تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ* ( سچ، صدق اور صدق جدید لکھنو میں ایک صدی قبل چھپی زندہ تحریریں) شاہی دربار میں حاضری کی قیدیں اور پابندیاں، خدا کی پناہ!الگے وقتون کے اور مشرقی دربار نہیں، اسی بیسویں صدی کے اور خاص الخاص فرنگی دربار! ہر ہر گھنٹہ ہرہر موقع کے لئے لبا س جداگانہ۔ صبح کے لئے اور دوپہر کا اور سہ پہر کا اور شام کا اور رات کا اور مجال نہیں کہ رنگ میں، وضع میں، قطع میں، کسی ادنیٰ خبر میں ادنیٰ سی بھی آزادی برتی جاسکے۔ بڑے بڑے امراء، وزراء ، داعیانِ سلطنت، یہاں تک کہ شہزادوں اور شہزادیوں کے لئے بھی ممکن تھیں، کہ کسی قاعدہ کی خلاف ورزی کرسکیں……بادشاہ سلامت کے منجھلے شاہزادہ ڈیوک آف گلوسٹر، ابھی آسٹریلیا سے واپسی میں، ساحل انگلستان پر، ٹرین پرسوار ہوئے تو ایک اور لباس میں چند منٹ بعد…وکٹوریہ اسٹیشن پر جب اترے ہیں، تو لباس دوسرا تھا۔ اس لئے کہ اسٹیشن ہی پر بادشاہ سلامت کا سامنا کرناتھا۔ دونوں موقعوں کی تصویریں چھپی ہیں۔ پہچاننا ممکن نہیں۔ شہنشاہ، ایڈورڈ ہفتم کے زمانہ میں ایک صاحب باریاب ہونے گئے۔ غلطی سے برجس (بریچز) میں گھٹنوں پر بجائے تین کے دو بٹن لگے ہوئے تھے، اتنی سی بات پر، الٹے پاؤں دربار سے واپس کردئیے گئے، ایک ولایتی اخبار نے حال میں لکھاہے ،کہ درباری لباس کے آداب وضوابط سب یکجا کئے جائیں تو کئی ضخیم جلدوں میں جاکر سماپائیں۔ لیکن کوئی چوتھا سال ہے کہ ایک گورا نہیں، کالا، اور بادشاہ سلامت کا ہمسر وہم چشم نہیں، ایک ادنیٰ رعایا، نہ امیر نہ وزیر ایک لنگوٹ بند سادھو خاص الخاص قصر شاہی (بکنگھم پیلس) میں اس وضع سے داخل ہوا ، کہ جسم پر باقاعدہ اورمناسب موقع سوٹ کیامعنی، سرے سے کوئی ثابت لباس، مشرقی قسم کا بھی موجود نہیں! نہ اچکن نہ کرتا نہ پاجامہ نہ پائتا بہ محض ایک بڑا سا لنگوٹ اور ایک ادنیٰ چادر! اسی وضع سے وہ جاکر جہاں پناہ، قیصر ہند وشاہ برطانیہ عظمیٰ سے ملا، ہاتھ ملایا، بات چیت کی اور واپس آیا اور اس کے لئے سارے آہنی قوانین کی گرفت ڈھیلی ہوگئی اور کوئی قہرمانیت اس کی راہ میں حائل نہ ہوسکی!…آپ کو یاد پڑا، یہ شخص کون تھا؟۔ آپ ہی کا ہم وطن، گاندھی۔! اس واقعہ میں ہمارے سوٹ پوش حضرات کے لئے عبرت ونصیحت کا کوئی سبق ہے؟ سوٹ اور ہیٹ اسی کو معیار عزت وذریعۂ وجاہت سمجھنے والے اس واقعہ پر غور فرمائیں گے۔ بہتر سے بہتر انگریزی پوشاک پر، اعلیٰ قسم کے سوٹوں پر، قمیص کے کپڑے پر، تراش خراش پر، کف پر، کالر پر، ٹائی پر، کوٹ پر، ویسٹ کوٹ پر، پائتابہ پر، پتلون پر، ہیٹ پر، بٹن پر، دولت جس بے دردی سے صرف کی جاتی ہے اور اس سے بھی کہیں زیادہ قیمتی وقت کے بیش بہا لمحے اور گھنٹے جس بے جگری سے لٹائے جارہے ہیں، کاش اس کا کوئی حصہ تو اس قوت کے حاصل کرنے میں لگایا جاتا۔ جو گاندھی نے اپنے اندر پیداکرلی ہے! آج قوم وملّت کی حالت ہی کچھ اور ہوتی! عمر فاروقؓ وعلی مرتضیٰ ؓ کے نمونے آج خدانخواستہ آپ کے لئے مردہ ہوچکے ہیں، تو کم ازکم گاندھی کا زندہ نمونہ ہی اپنی آنکھوں، اور دل کی آنکھوں کے سامنے لائیے۔ https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
😢 1

Comments