
علم و کتاب
June 9, 2025 at 01:53 AM
ایم ایف حسین کی یاد میں
معصوم مرادآبادی
”شہرہ آفاق ہندوستانی پینٹر ایم ایف حسین کا لندن میں انتقال“
9 جون 2011 کو
دہلی سے دبئی کی پرواز کے دوران جہاز کے چھوٹے سے اسکرین پر جب میری نظر بی بی سی کی اس سرخی پر پڑی تو میں اندر سے بے چین ہواٹھا۔ سوچا تھا اس بار سفر کی وجہ سے کالم کی غیر حاضری رہے گی لیکن مقبول فدا حسین کی موت نے یہاں بھی مجھے قلم اٹھانے پر مجبور کیا۔ اگلی صبح دبئی کے انگریزی اور عربی اخبارات حسین کی خبروں اور تصاویر سے بھرے پڑے تھے۔ 2007 میں جلا وطنی اختیار کرنے کے بعد حسین نے اپنا بیشتر وقت دبئی ہی میں گذارا۔ وہ دبئی کو اپنا وطن ثانی کہا کرتے تھے۔ انہوں نے دبئی کے ڈیرہ علاقے میں واقع امارات ٹاور میں اپنا نہایت وسیع اسٹوڈیو بھی بنایا تھا اور یہی ان کی آخری یادگار بھی ہے۔
ایم ایف حسین نے لندن میں آخری سانس لی اور وہ وہیں کی خاک کا پیوند ہوئے۔ یہ ان کے اختیار میں نہیں تھا کہ کس ملک کی مٹی انہیں نصیب ہوگی لیکن حسین کا خمیر ہندوستان کی سوندھی مٹی سے اٹھا تھا اور انہوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ ہندوستانی تہذیب اور اساطیر کی ترجمانی میں گذارا۔ یوں آپ کسی عظیم فن کار کو کسی ملک کی سرحدوں میں قید نہیں کرسکتے۔ حسین نے ہندوستانی آرٹ کو بلندیوں تک پہنچایا۔ وہ ملک کے واحد فن کار تھے جن کے فن پارے عالمی بازار میں سب سے مہنگے داموں پر فروخت ہوئے۔
ایم ایف حسین کا پورا نام مقبول فدا حسین تھا۔ ان کا اپنا نام مقبول تھا لیکن وہ اپنے والد فداحسین کے نام کو اپنے نام سے منسلک رکھتے تھے۔ ان کی موت کے بعد اگر انہیں مقبول کے بجائے ’مقتول‘ لکھا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ انہوں نے اپنی زندگی کے آخری ایام جس ذہنی اذیت میں گذارے، اسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ ذرا تصور کیجئے کہ جس عظیم فن کار نے ہندوستان کا نام پوری دنیا میں روشن کیا اس کے لئے اپنے ہی وطن کی زمین اتنی تنگ کردی گئی کہ اسے مجبوری اورلاچاری میں ایک ایسے ملک کی شہریت اختیار کرنی پڑی جہاں نہ تو اس کی جڑیں تھیں اور نہ ہی تہذیب وتمدن کے نقوش۔ اگر قطر کی حکومت انہیں اپنی شہریت نہ دیتی تو شاید وہ یو نہی غریب الوطنی میں زندگی کے باقی ایام گذاردیتے۔بقول افتخار عارف:
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض چکائے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے
گذشتہ سال فروری میں جب حسین نے دل پر پتھر رکھ کر اپنا ہندوستانی پاسپورٹ واپس کیا تو بعض ہندوستانی دانشوروں نے کہا تھا کہ حسین کو ہندوستان واپس آکر حالات کا مقابلہ کرنا چاہیے تھا جب کہ حسین پہلے ہی یہ کہہ چکے تھے کہ کچھ کم 100سال کی عمر میں میرے اعضاء اس قابل نہیں ہیں کہ میں عدالتوں کے چکر کاٹوں اور قانونی موشگافیوں کامقابلہ کروں۔
افسوس اس بات کا ہے کہ چند دانشوروں اور صحافیوں کو چھوڑ کر بیشتر لوگوں نے ان حالات کے لئے حسین کو ہی ذمہ دار قراردیا اور ان انتہا پسندوں کے خلاف لب کشائی کی جرأت نہیں دکھائی جنہوں نے حسین پر ہندو دیوی دیوتاؤں کی توہین کا الزام عائد کرکے ان پر ہندوستان کی مختلف عدالتوں میں سینکڑوں مقدمات قائم کردیئے تھے۔ حسین کی جن قلمی تصویروں پر 1996میں واویلا مچا وہ انہوں نے 1970میں بنائی تھیں۔ تب ان تصویروں پر کسی نے اعتراض نہیں کیا تھا۔ اچانک 1996میں ایک ہندی میگزین نے ان قلمی تصویروں کی بنیاد پرحسین کو ہندوؤں کے مذہبی جذبات سے کھلواڑ کا ملزم گردانا اور منظم سازش کے تحت ان کے خلاف سینکڑوں مقدمات قائم کردئے گئے تاکہ وہ عدالتوں سے سرٹکراکر دم توڑدیں۔
1998میں ممبئی میں ان کے مکان پر حملہ کرکے اسے تہس نہس کردیا گیا اور کروڑوں روپوں کے قیمتی شہ پارے برباد کردیئے گئے۔ کسی فن کار کے لئے اس سے زیادہ کربناک منظر اور کیا ہوسکتا ہے کہ خون جگر سے بنائی ہوئی اس کی پینٹنگز کو مذہبی جنونی اپنے پیروں تلے روند ڈالیں۔ شاید اسی واقعہ نے حسین کا دل توڑدیا اور انہوں نے ہندوستان کی شہریت چھوڑنے کافیصلہ کیا۔
یہ بات کم لوگوں کو معلوم ہے کہ جن لوگوں نے ہندی میگزین ”وچار ممانسا“ میں ’ایم ایف حسین،ایک پینٹر یا قصائی؟‘ کے عنوان سے انتہائی اشتعال انگیز مضمون شائع کردیا تھا وہ دراصل حسین کی بے پناہ مقبولیت سے خوفزدہ تھے۔ ان لوگوں میں ان ہندوستانی پینٹروں کاایک ایسا مایوس طبقہ پیش پیش تھا جو اپنی تمام ترکوششوں کے باوجود حسین کے فن کی ہم سری کرنے میں ناکام رہا۔ اسی لئے حسین کے ہم عصربعض فن کار انہیں منظر سے ہٹاکر اپنی جگہ بنانا چاہتے تھے۔ حسین پر ہندو دیوی دیوتاؤں کی عریاں تصاویر بنانے کے الزام لگانے والوں نے یہ بھی نہیں سوچا کہ اجنتا اور ایلورا کے غاروں سے لے کھجورا ہوکے مندروں کے درودیوار پر دیوی دیوتاؤں کی عریاں تصاویر ان کے دوغلے پن کا ثبوت فراہم کرتی ہیں۔ حسین نے دراصل انہی مجسموں سے متاثر ہوکر اپنی پینٹنگز بنائی تھیں۔ جس مذہب میں معبودوں کی عریاں تصاویر اور مجسمے بنانا عام ہو وہاں اس قسم کے لایعنی سوال اٹھانا شرانگیزی نہیں تو اورکیا ہے؟
17 ستمبر 1915 کو ہندستان کے ایک چھوٹے سے علاقے میں پیدا ہونے والے مقبول فدا حسین کا گھرانہ مذہبی سلیمانی بوہری تھا جو داؤدی بوہریوں سے جدا ایک چھوٹا سا فرقہ ہے۔مادری زبان گجراتی تھی۔ مصوری کا شوق مدرسے میں پروان چڑھا۔مدرسے میں حسین پڑھتے پڑھاتے نہیں تھے بلکہ خطاطی کرتے تھے اور ممبئی کے آرٹ اسکول میں طالب علمی کے دوران ہی فلموں کی ایسی لت پڑی کہ فلموں کے پوسٹر بنانے شروع کردیئے ۔جس سے ان کی پڑھائی اور رہن سہن کا خرچہ نکل آتا تھا۔حسین کے والد نے بہت چاہا کہ وہ کاروبار کی طرف مائل ہو جائیں لیکن ان کا رجحان پیٹنگ کی طرف تھا۔ وہ دکان پر بیٹھتے تو بھی پنسل سے خاکے بناتے رہتے تھے۔ انہوں نے اپنی پہلی آئل پینٹنگ دکان پر ہی بیٹھ کر بنائی۔
1934 میں اندور کی ایک سڑک کنارے حسین کی پہلی تصویر دس روپے میں فروخت ہوئی تو حسین بے اختیار دادا کی قبر پر دوڑے چلے گئے اور اس کے بعد حسین نے مڑ کر پیچھے نہیں دیکھا۔ایم ایف حسین نے چار آنے سے ایک کروڑ تیئس لاکھ روپے کمانے تک کا سفر آسانی سے طے نہیں کیا بلکہ برسوں کی محنت اور اپنے کام سے لگن کی بدولت وہ اس مقام تک پہنچے۔جس دور میں وہ فلمی پینٹرہوا کرتے تھے اس وقت چھ بائی دس فٹ کے پوسٹر بنانے کے انہیں صرف چار آنے ملتے تھے۔ اس پر بھی تنگ دستی کا حال یہ تھا کہ ایک بار معاشی حالات کی بہتری کیلئے انہیں ایک فیکٹری میں مزدور کی حیثیت سے کام کرنا پڑا۔ اس فیکٹری میں کھلونے تیار ہوتے تھے۔حقیقت تو یہ ہے کہ ایک مصور کی حیثیت سے ان کی پہچان 1940 میں ہوئی تھی جبکہ ان کی بنائی ہوئی تصاویر کی پہلی باقاعدہ نمائش لگی۔ پچاس کی دھائی سے وہ ترقی پسند فنکاروں کی صف میں شامل ہوئے۔ 60 کے عشرے سے انہیں ہندستان کا نہایت تجربہ کار اور منجھا ہوا مصور شمار کیا جانے لگا۔ان کا اپنا مخصوص لائف اسٹائل تھا۔ وہ ننگے پاؤں رہا کرتے تھے۔ اپنی گاڑی کو بھی انہوں نے اپنی پسند کے مختلف رنگوں میں خود پینٹ کیا ہوا تھا۔ انہیں ہندستان کے اعلیٰ ترین اعزازات سے نوازا گیا جس میں ’پدم بھوشن‘بھی شامل ہے۔ انہیں پارلیمنٹ کے لئے بھی نامزد کیا گیا۔ جس قدر ایوارڈز انہیں ملے،ان کا شمار بھی ایک مشکل امر ہے۔ایک وقت ایسا آیا گویا ان کی شہرت کو پر لگ گئے ہوں۔ جب یہ شہرت ہندستان کی سرحدوں سے نکل کر بیرون ملک پہنچی تو انہیں ’ہندوستان کا پکاسو‘کہہ کر پکارا جانے لگا۔ اس دوران راگ مالا سیریز کیلئے بنائی گئی ان کی ایک تصویر لندن کے کرسٹیز نیلام گھر میں لاکھوں ڈالرز میں فروخت ہوئی۔انہوں نے بیرون ملک ہندستان کی ثقافت،کلچراور مذہبی روایات کواپنے انداز میں متعارف کرایا۔ وہ ہندستان کے ان چند عظیم مصوروں میں سے ایک تھے جن کے بنائے ہوئے شاہکار کی بین الاقوامی مارکیٹ میں قیمتیں آسمان چھوتی ہیں۔اپنے انتقال سے صرف چار روز پہلے ہی ان کا ایک شاہکار،جس کا نام انہوں نے ' ہارس اینڈ وومن ' رکھا تھا،لندن میں ایک کروڑ تیئس لاکھ روپے میں فروخت ہوا۔
ان کی 3 پینٹنگس بان ہیم آکشن میں سب سے زیادہ قیمت پر نیلام کی گئی۔ ان کی آئیل پینٹنگ پر 2.32کروڑ روپے قیمت آئی۔ان کے بنائے ہوئے فن پارے اور لاکھوں ڈالرز میں فروخت ہوئے۔ایم ایف حسین کا ایشیا کے ان امیر ترین مصوروں میں شمار ہوتا تھا جن کے فن پارے مہنگے داموں فروخت ہوتے تھے۔
انھیں 1971ء میں عالمی شہرت یافتہ مصور پابلو پکاسو کے ساتھ ساؤپولو میں منعقدہ مصوری میلے میں مدعو کیا گیا تھا جہاں انھیں ’فوربس میگزین‘ نے ”ہندستان کا پکاسو“کے خطاب سے نوازا تھا۔ایم ایف حسین شارٹ فلمیں بنانے میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ 1994 میں جب ان کی نگاہ اداکارہ مادھوری دکشت پر پڑی تو وہ مادھوری دکشت کی خوب صورتی اور حسن کے دلدادہ ہوگئے ۔ انہوں نے مادھوری کے ساتھ 'گج گامنی' کے نام سے ' ٹیل آف تھری' سیریز بنائی جس میں انہوں نے مادھوری کو اس قدر خوب صورتی کے ساتھ پینٹ کیا کہ نئی نسل میں ان کی وجہ شہرت ہی مادھوری کی پینٹنگس بن گئیں۔ انہیں مادھوری کے فن سے دیوانگی کی حد تک لگاؤتھا۔ انہیں مادھوری کی ایک فلم ”ہم آپ کے ہیں کون“اس قدر پسند تھی کہ 70 مرتبہ اسے دیکھا۔
1967ء میں انہوں نے برلن انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں اپنی دستاویزی فلم ’تھرو دی آئیز آف اے پینٹر‘کے لئے ’گولڈن گلوب ایوارڈ‘حاصل کیا۔ اس کے علاوہ بھی انہوں نے کئی شارٹ فلمیں بنائیں۔ وہ اپنی لگن اور زبان دونوں کے بڑے پکے تھے۔ نڈر تھے، کئی زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ ان کی آپ بیتی بھی شائع ہوچکی ہے۔مقبول فدا حسین فلمی دنیا کو اپنی طرف سے دبئی میں ہندی فلموں کا ایک نہایت وسیع میوزیم بطور تحفہ دینا چاہتے تھے جس کے لئے وہ آخری وقت تک کام بھی کرتے رہے۔
ایم ایف حسین کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ اتنی عظمتوں کو حاصل کرنے کے باوجود زمین سے وابستہ رہے۔ وہ ایک منکسر المزاج انسان تھے۔ میں نے بارہا انہیں دہلی میں ننگے پاؤں چلتے ہوئے دیکھا۔ 80کی دہائی میں حضرت نظام الدین اولیاء ؒ کے مزار سے متصل ایک ڈھابے میں جہاں ہم طالب علمی کے زمانے میں صبح کا ناشتہ کرتے تھے، وہاں ایم ایف حسین اکثر چائے پیتے اور اردو اخبار پڑھتے ہوئے نظر آتے تھے۔ حسین اس زمانے میں نظام الدین ویسٹ میں مقیم تھے اور صبح کو ٹہلتے ہوئے ہم جیسے عام لوگوں میں آملتے تھے۔ وہ یاتو ننگے پاؤں ہوتے یا پھر ان کے پیروں میں دو مختلف رنگوں کے جوتے ہوتے۔ وہ اکثر ڈی سی ایم کے مشاعرے میں بطور سامع شریک ہوتے تھے ۔۔ بعد کو جب کامنا پرساد نے جشن بہار کے مشاعرے شروع کئے تو اس کا لوگو حسین نے ہی بنایا تھا ۔
ایم ایف حسین کی زندگی برش اور کینوس سے عبارت تھی۔ وہ اسی کو اپنا سرمایہ حیات تصور کرتے تھے۔ یہی ان کا دین بھی تھا اور دنیا بھی۔ جن لوگوں نے ہندوؤں کے مذہبی جذبات کی توہین کا الزام لگاکر انہیں مطعون کیا، وہ دراصل ہندوستانی تہذیب اور تاریخ پر سیاہ داغ ہیں۔ حسین کے فن پارے فنون لطیفہ کا بیش قیمت سرمایہ ہیں جس پر پوری دنیا کو ناز ہے۔ بہادر شاہ ظفر نے انگریزوں کے ہاتھوں جلا وطنی کے بعد رنگون میں جو شعر کہاتھا وہی ایم ایف حسین کا بھی المیہ ہے ؎
کتنا ہے بدنصیب ظفر دفن کے لئے
دوگز زمیں بھی نہ ملی کوئے یار میں
Https://telegram.me/ilmokitab