علم و کتاب
June 10, 2025 at 02:53 AM
*بات سے بات: اردو زبان اور مدارس دینیہ*
*تحریر: عبد المتین منیری (بھٹکل)*
آج علی الصبح فیس بک پر یونیورسٹیوں میں فارغین مدارس کے براہ راست بی اے اور یم اے میں داخلے سے متعلق ڈاکٹر ظفر الاسلام خان ناظم دار المصنفین اعظم گڑھ، ار ڈاکٹر اطہر فاروقی جنرل سکریٹری انجمن ترقی اردو ہند کے مابین مراسلات پر کافی لے دے نظر آئی۔ جس سے خیال ہوا کہ شاید یہ کوئی نیا معرکہ ہو، لیکن حیرت ہوئی کہ ان دونوں شخصیات کے درمیان یہ مراسلت جون 2023ء میں ہوئی تھی۔ پتہ نہیں کہ آج دو سال بعد انہیں کیوں زندہ کیا گیا۔
ہمارے خیال میں ڈاکٹر ظفر الاسلام صاحب نے اخلاص کے ساتھ مدارس کا دفاع کیا ہے، لیکن برج کورس کے بارے میں انہوں نے جو بات کہی ہے تو وہ جس برج کورس کی بات کررہے ہیں، اس کا اطلاق ڈاکٹر راشد شاذ صاحب کی نگرانی میں منعقد ہوئے کورسوں پر نہیں ہوتا۔ ان کورسوں کا فائدہ کم نقصان زیادہ ہوا ہے۔
رہی بات ڈاکٹر اطہر فاروقی کے مراسلے کی تو ہم نے ڈاکٹر صاحب کو نہیں دیکھا، نہ انجمن کے عہدے پر آنے سے پہلے کی ان کی کوئی تحریر پڑھی ہے، جب وہ انجمن کے جنرل سکریٹری بن کر آئے تھے تو اس وقت ان کے بارے میں سنا تھا کہ ابھی تک انہوں نے صرف انگریزی میں لکھا ہے، اور ان کا علمی پس منظر اردو کا نہیں ہے۔ شاید اسی کا نتیجہ ہے کہ ان کے یہاں مدارس کے سلسلے میں حقائق پر خیالات نہیں پائے جاتے ہیں ۔
ہماری رائے میں اردو معاشرے کی جس طرح تقسیم در تقسیم ہورہی ہے اور اسے حصوں میں بانٹا جارہا ہے ،وہ بہت خطرناک ہے، پہلے یہ زبان برصغیر کے مسلم ہندو سکھ عیسائی سبھوں کی زبان ہوا کرتی تھی، تقسیم ہند کے بعد اسے صرف مسلمانوں کی زبان کی حیثیت سے پیش کیا گیا، اب اسے مدارس تک محدود کیا جارہا ہے، اگر یہی رویہ جاری رہا تو بہت ممکن ہے یہ سنسکرت کی طرح صرف مذہبی طبقہ کی زبان بن کر رہ جائے، سرکاری مردم شماری کے مطابق اب اردو سات فیصد سے بھی کم ہندوستانی باشندوں کی مادری زبان رہ گئی ہے، اور گجراتی جیسی مقامی زبان نے اسے پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
یہ کہنا کہ مدارس دینیہ اردو زبان کو زندہ رکھے ہوئے ہیں، ایک آفاقی زبان کے لئے کوئی زیادہ قابل فخر بات نہیں ہے، اس کا سیدھا سادھا مطلب یہی ہے کہ یہ اب صرف مولویوں کی زبان ہے۔ اسلام کا پیغام ساری دنیائے انسانیت کے لئے ہے، لہذا ایک عالم دین کا آفاقی زبانوں پر مہارت حاصل کرنا اس کے مقصد تعلیم سے قریب تر ہے۔
ڈاکٹر کلیم عاجز قریبی دور کے کتنے عظیم شاعر گذرے ہیں، ان سے ہر اردو داں واقف ہے، ان کی مذہب پر وارفتگی کوئی پوشیدہ نہیں، وہ اپنے علاقے میں تبلیغی جماعت کے امیر تھے۔ لیکن انہوں نے جگہ جگہ اپنی تصانیف میں لکھا ہے کہ ہم نے اقبال کو اسلامی اور پاکستانی کی سرحد میں بند کرکے، اس کے کلام وافکار کی آفاقی کو محدود کردیا ہے۔انہیں پڑھتے ہوئے غیر مسلم ہم وطن اور اغیار تحفظات کا شکار ہوتے ہیں۔
یہ کہنا درست ہے کہ مختلف علمی وادبی میدانوں میں دینی مدارس کے فارغین کو جانے کی راہیں بند کرنا، اور اغیار کو اس کا مشورہ دینا اردو دشمنی کے مترادف ہے۔
یہ اب روز روشن کی طرح واضح ہوتا جارہا ہے مولوی فارغ ہوکر یونیورسٹیوں میں نہ جائیں، اور انہیں ان لوگوں پر چھوڑ دیں، جو عصری اور سرکاری تعلیمی اداروں سے پڑھ کر یہاں تک ترقی کرتے ہیں، اور مادی مفادات پاتے ہیں، تو یہ اردو زبان کو ایسے لوگوں کے رحم وکرم پر چھوڑنا ہے، جنہیں صرف اسے ذریعہ معاش بنانے سے زیادہ دلچسپی نہیں، ورنہ زیادہ تر ان کے گھروں سےاردو خارج ہوچکی ہے، ان کے بچوں کو اردو نہیں آتی، وہ دیوناگری حروف دیکھ کر اردو الفاظ ادا کرتے ہیں۔
یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ زبان کی علمی وادبی قیمت اس کی تحریر میں پوشیدہ ہے۔ بول چال اور خطابت کسی زبان کو زندگی بخشنے اور اسے علمی وادبی زبان بنانے کے لئے کافی نہیں ہوا کرتی۔ اردو کی بقا کے لئے دینی مدارس کی لاکھ خدمت مسلًم سہی، لیکن انہیں اپنے دامن میں جھانک کر دیکھنا ہوگا کہ ان کے اداروں میں اردو ادب کی ایک دو اصناف سے زیادہ رائج نہیں ہیں ۔ اور تخلیقی ادب ناول کہانی افسانہ ڈرامہ انشائیہ خاکے اور ادبی تنقید میں ان تصنیفی تربیت نہ ہونے کے برابر ہے، شعر وشاعری کا معیار بھی عوامی مشاعروں میں پیش کی جانے والی شاعری سے آگے بڑھ نہیں پاتا۔ اور ہمارے یہاں ادب کے نام پر جو سیمینار اور کانفرنسیں ہوتی ہیں، ان میں بھی زیادہ تر توجہ اپنی ممدوح شخصیات کی مداحی پر مضامین پیش پر مرکوز ہوتی ہے، جن میں سے دوچار مضامین بھی شائع کرنے کے قابل نہیں سمجھے جاتے۔
بچوں میں ذوق مطالعہ مکتب اور پرائمری ہی میں ترویج پاتا ہے، بڑے درجات اور فراغت کے بعد اس کا ذوق پیدا کرنا بہت مشکل ہے۔ اس کے لئے ادب اطفال کی اہمیت ہہت بڑھ جاتی ہے۔ یہ میدان بھی ہمارے دینی تعلیمی اداروں میں خالی نظر آتا ہے۔ اور دور دور تک نیا بچوں کا ادب ڈھونڈھے سے نہیں ملتا۔
اس کا نتیجہ ہے کہ ہماری بزم علم کتاب میں دیوبند کے ایک ناشر کتب نے سروے پیش کیا تھا کہ اردو کتابوں کی اس سب سے بڑی مارکیٹ میں زیادہ تر کتابیں اساتذہ کی درسیات کی شرحوں ،دینی اور درسی کتابوں سے متعلق ہوتی ہیں، اس سے باہر عنوانات پر زیادہ سے زیادہ پانچ فیصد کتابیں چلتی ہیں۔ اس صورت حال میں مدارس دینیہ کے ذریعہ اردو زبان کی خدمت والی بات میں وزن کم ہوجاتا ہے۔
جہاں پر کسی دانشور کے مدارس دینیہ کے فارغین کی ترقی کی راہ میں روڑے اٹکانے، اور ان کی اظہر من الشمس خدمات کے انکار پر ہمیں غصہ آتا ہے، وہیں ہمیں ٹھنڈے دل سے مذکورہ بالا امور پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔
2025-06-09
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
👍
1