
علم و کتاب
June 12, 2025 at 04:59 AM
سلسلہ نمبر: 253
انتخاب مطالعہ
تحریر: *مرزا ہادی رؔسوا*
*`وجہ رنگینئ حیات گئی`*
افسوس! جن باتوں کو میں اب سمجہی ،اگر پہلے ہی سے سمجھ گئی ہوتی تو بہت اچھا ہوتا؛مگر نہ کوئی سمجھانے والا تھا،نہ خود اتنا تجربہ تھا کہ آپ ہی آپ سمجھ لیتی ۔ مولوی صاحب نے جو دو حرف پڑھا دیئے تھے وہ میرے بہت کام آئے ( خدا ان کے درجات عالی کرے۔) اس زمانے میں مجھے اس کی قدر نہ تھی،تن آسانی اور آرام طلبی کے سوا کوئی کام نہ تھا، علاوہ اس کے قدردان اس قدر تھے کہ کسی وقت فرصت ہی نہیں ملتی تھی،جب وہ دن آئے کہ قدردان ایک ایک کرکے کھسکنے لگے تو ذرا مجھے مہلت ملی،اس زمانے میں کتب بینی کا شوق بڑھا؛ کیونکہ سوائے اس کے اب کوئی اور شغل نہ رہا تھا، میں سچ کہتی ہوں کہ: ”اگر یہ شوق نہ ہوتا تو اب تک میں زندہ نہ رہتی، جوانی کے ماتم اور اگلے( گزرے ہوئے) قدر دانوں کے غم میں کب کا خاتمہ ہوگیا ہوتا“۔ کچھ دنوں تو میں قصے کہانی کی کتابوں سے دل بہلاتی رہی، ایک دن پرانی کتابیں دھوپ دینے کے لیے نکالیں، ان میں وہ ”گلستان“ بھی نکلی جو مولوی صاحب سے پڑھی تھی۔ ادھر ادھر ورق الٹ پلٹ کے پڑھنے لگی۔ پہلے مجھے اس کتاب سے نفرت سی ہوگئی تھی۔ ایک تو اس لیے کہ تعلیم کا ابتدائی زمانہ تھا، عبارت مشکل معلوم ہوتی تھی۔ دوسرے تجربہ نہ تھا اس لیے کچھ سمجھ میں نہ آتی تھی۔ اب جو پڑھا تو وہ دقتیں دور ہو چکی تھیں۔ خوب ہی دل لگاکے میں نے سرے سے آخر تک کئی مرتبہ پڑھا۔ فقرہ فقرہ دل میں اتراجاتا تھا۔ اس کے بعد ایک صاحب سے ”اخلاق ناصری“ کی تعریف سن کے اس کے پڑھنے کا شوق ہوا۔ انہی سے ایک نسخہ منگاکے پڑھا۔ واقعی اس کتاب کے مطلب بھی مشکل ہیں اور عربی لفظیں کثرت سے ہیں۔ اس لیے اس کے سمجھنے میں بہت دقت ہوئی ؛مگر تھوڑا تھوڑا پڑھ کے بہت دنوں میں کتاب کو ختم کیا۔
پھر ”دانش نامہ غیاث منصور“ نول کشور کے مطبع میں چھپا، اسے پڑھا۔ پھر ایک مرتبہ صغرٰی وکبرٰی کو بجائے خود مطالعہ کیا اور جو جو سمجھ میں نہیں آیا اسے پوچھ لیا،کتابوں کے پڑھنے سے مجھے ایسا معلوم ہوا جیسے دنیا کے بھید مجھ پر کھلتے جاتے ہیں۔ ہر بات کی سمجھ آگئی۔ اس کے بعد میں نے بہت سی کتابیں اس قسم کی اردو فارسی کی بجائے خود پڑھیں۔ اس سے طبیعت کو جلا ہوتی گئی۔ ”قصائد انوری“ و ”خاقانی“ جستہ جستہ پڑھے۔ مگر جھوٹی خوشامد کی باتوں میں اب میرا دل نہ لگتا تھا۔ اس لیے ان کو بند کر کے الماری میں رکھ دیا ۔ فی الحال کئی اخبار بھی میرے پاس آتے ہیں۔ انہیں دیکھا کرتی ہوں۔ ان سے دنیا بھر کا حال معلوم ہوتا رہتا ہے۔ کفایت شعاری کی وجہ سے میرے پاس اب بھی اس قدر اندوختہ ہے کہ اپنی زندگی بسر کرلے جاؤںگی ۔ وہاں کا مالک اللہ ہے۔ میں بہت دن ہوئے سچے دل سے تو بہ کر چکی ہوں اور حتی الوسع نماز روزے کی پابند ہوں۔ رہتی رنڈی کی طرح ہوں۔ خدا چاہے مارے، چاہے جلائے، مجھ سے پردے میں گھٹ گھٹ کے تو نہ بیٹھا جائے گا؛مگر پردہ والیوں کے لیے دل سے دعاگو ہوں: خدا ان کا راج سہاگ قائم رکھے اور رہتی دنیا تک ان کا پردہ رہے۔
اس موقع پر میں اپنی ہم پیشہ عورتوں کی طرف مخاطب ہوکے ایک نصیحت کرتی ہوں،وہ اپنے دل پر نقش کرلیں!!
اے بے وقوف رنڈی! کبھی اس بھلاوے میں نہ آنا کہ کوئی تجھ کو سچے دل سے چاہے گا، تیرا آشنا جو ہر وقت تجھ پر جان دیتا ہے، چار دن کے بعد چلتا پھرتا نظر آئے گا، وہ تجھ سے ہرگز نباہ نہیں کرسکتا اور نہ تو اس لائق ہے، کچی چاہت کا مزا اس نیک بخت کا حق ہے جو ایک کا منہ دیکھ کےدوسرے کا منہ کبھی نہیں دیکھتی۔ تجھ جیسی بازاری شفتل کو یہ نعمت خدا نہیں دے سکتا۔
خیر میری تو جیسی گزرنا تھی گزرگئی۔ اب میں اپنی زندگی کے دن پورے کر رہی ہوں۔ جتنے دن دنیا کی ہوا کھانا ہے کھاتی ہوں۔ میں نے اپنے دل کو بہر طور سمجھا لیا ہے اور میری کُل آرزوئیں پوری ہو چکیں۔ اب کسی بات کی تمنا نہیں رہی، اگر چہ یہ آرزو کم بخت وہ بلا ہے کہ مرتے دم تک دل سے نہیں نکلتی ۔
مجھے امید ہے کہ میری سوانح عمری سے کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور ہوگا ۔ اب میں اپنی تقریر کو اس شعر پر ختم کرتی ہوں اور سب سے امیدوارِ دعا ہوں۔
؎ مرنے کے دن قریب ہیں شاید کہ اے حیات!
تجھ سے طبیعت اپنی بہت سیر ہوگئی۔
( اؔمراؤ جان ادا، صفحہ: 223، طبع: خزینۂ علم و ادب،اردو بازار،لاھور)
✍🏻... محمد عدنان وقار صؔدیقی
https://telegram.me/ilmokitab
👍
1